شور سناٹے کا ہے آوازِ پا کوئی نہیں

شور سناٹے کا ہے آوازِ پا کوئی نہیں

سید عارف معین بَلے

شور سناٹے کا ہے آوازِ پا کوئی نہیں
کان آہٹ پر رہے آیا گیا کوئی نہیں

قدر ہو جذبوں کی، ایسا سلسلہ کوئی نہیں
ہے محبت کی ستائش، پر صلہ کوئی نہیں

مان لو کہ اس سے بڑھ کر حادثہ کوئی نہیں
لوگ کچھ لمحوں کو ٹھہرے، پَر رُکا کوئی نہیں

بزم ِ رنگ و بو میں کیا میرے سِوا کوئی نہیں
گلستاں بے رنگ ہے، یہ دیکھتا کوئی نہیں

لوگ کہتے ہیں بہاریں رنگ لے کر آئی ہیں
کیسے مانوں؟ پھول گلشن میں کِھلا کوئی نہیں

اس محبت نے ہمیں برباد کرکے رکھ دیا
جانتے ہیں لوگ سارے مانتا کوئی نہیں

آج پھر مانوس سی آہٹ نے چونکایا مجھے
دِل نے پوچھا کون ہے؟ میں نے کہا، کوئی نہیں

دیکھئے گھر گھر پہ آویزاں ہے تختی نام کی
شہر میں اِک دوسرے کو جانتا کوئی نہیں

اب تو خود سے بھی مِرا ملنا نہیں ہوتا کبھی
خود سے میں کیسے مِلوں؟ میرا پتا کوئی نہیں

چند گلدانوں میں پھولوں کی نمائش کے لیے
باغ کو کس نے اجاڑا ؟ پوچھتا کوئی نہیں

آگیا ہے اِک نیا اب موڑ جیون میں مِرے
دُوریاں حائل ہیں لیکن فاصلہ کوئی نہیں

جو بھی خط اُس نے لکھے تھے، سارے واپس لے لیے
اس اندھیرے میں جلانے کو دِیا کوئی نہیں

دیکھ تو سکتا ہوں تجھ کو پانہیں سکتا تجھے
سامنے منزل ہے لیکن راستہ کوئی نہیں

ہیں بڑی یادیں جنہوں نے جوڑ رکھا ہے ہمیں
تیرے میرے بیچ چاہے رابطہ کوئی نہیں
***
سیدعارف معین بَلے کی گذشتہ نگارش :امجد اسلام امجد: ایک زندہ شخصیت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے