محمد علی حسین خاکی کی شاعری پر ایک نظر

محمد علی حسین خاکی کی شاعری پر ایک نظر

احسن امام احسن*

یہ ضروری نہیں کہ آپ ہر آدمی کو جانتے ہوں، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر آدمی آپ کو جانتا ہو، اسلم آزاد شمسی کے توسط سے آصف عزیز سے فون پر بات ہوئی، موصوف نے اپنے والد محترم پر مضمون لکھنے کی خواہش ظاہر کی، میں نے بھی حامی بھر دی. میرے لیے آصف عزیز بھی نئے ہیں اور ان کے والد سے بھی شناسائی نہیں رہی ہے. حالانکہ ہمارے ہی ضلع کے رہنے والے ہیں مگر شہر سے کافی دور اور دور دراز میں کون کیا کر رہا ہے کسے پتا، زیادہ تر لوگ تو دھیان نہیں دیتے.
محمد علی حسین نام اور تخلص خاکی ہے. 4 جولائی 1950 کو بادم میں مولوی عبدالعزیز صاحب کے گھر پیدا ہوئے. 1975 کے آس پاس شاعری شروع کی اور ناوک حمزہ پوری کی شرن میں چلے گئے. خاکی صاحب نے 1966 میں میٹرک پاس کرنے کے بعد ٹیچر ٹریننگ کی، اس کے بعد 1973 میں ملازمت کرلی، دوران ملازمت سنت کولمبس کالج جیسے نامی گرامی کالج سے انٹر میڈیٹ کیا، 2010 میں ملازمت سے سبک دوش ہوئے اور 2011 میں سفر حج پر نکل پڑے، یہ نیک کام کرنے کے بعد 26 جولائی 2020 کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے، آمین.
یہ مختصر سی جان کاری علی حسین خاکی کی ہے، آئیے ان کی شاعری پر نظر دوڑاتے ہیں.
محمد علی حسین خاکی کا ذہن مذہبی تھا اور نعتیہ شاعری کی طرف دھیان زیادہ تھا، میرے خیال سے جس وقت وہ شاعری کر رہے تھے اور اس وقت جس طرح کی نعتیہ شاعری لوگ کر رہے تھے خاکی صاحب بھی اسی رنگ میں شاعری کرتے رہے، آج جدید دور میں لوگ نعتیہ شاعری الگ انداز سے کر رہے ہیں. چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

گھر جلا جس کا وہی جیل میں بند ہوتا ہے
صاف بچ جاتے ہیں اب آگ لگانے والے

حسد نفرت کی بات ہے اب بھی
وطن میں ذات پات ہے اب بھی

کون کہتا ہے کہ ارماں نہ نکالو بابا
حد سے نہ آگے بڑھو خود کو سنبھالو بابا
عیب اوروں کے عیاں کرنے سے پہلے سوچو
پاک تو تم بھی نہیں داغ مٹا لو بابا

گھر جلا کر لوگ کہتے ہیں
غیر ملکی یہ ہاتھ ہے بھائی

پھول سے محبت کو تتلیاں سمجھتی ہیں
ماں کے دل میں کیا غم ہے بیٹیاں سمجھتی ہیں

علی حسین خاکی کے یہاں لفظوں کی بازی گری نہیں ہے، وہ سماج کے مسائل کو اپنی شاعری میں سمیٹنے کی کوشش کرتے تھے اور اس میں کچھ حد تک کامیاب نظر آتے ہیں. ہزاروں شعرا کی بھیڑ میں رہنا الگ بات ہے اور ایسے علاقے میں رہ کر تنہا اردو کی خدمت کرنا جہاں کوئی ادبی آبادی نہ ہو بہت بڑی بات ہے. ان کا مطالعہ و مشاہدہ بتاتا ہے کہ وہ جدوجہد کرتے رہے اور اپنی تخلیقی صلاحیت کو نکھارتے رہے. مگر کہیں کہیں شعر بے وزن ہو گئے ہیں. قاری ان کے جذبوں کی دھنک سن کر اور پڑھ کر محسوس کرسکتا ہے کہ خاکی کے یہاں کس طرح کی شاعری ہو رہی ہے، ان کے یہاں عصری معنویت کی خوش بو ہے تو وہیں روایت کی مہک سے اشعار معطر نظر آتے ہیں، چند اشعار اور دیکھتے ہیں:

کچھ ہے عیاں کچھ راز ہے
کیا حسن کا انداز ہے
سنئے مرے محبوب کی
کیا دل نشیں آواز ہے
خاکی تری غزلوں میں کیوں
کچھ سوز ہے کچھ ساز ہے

رکھ لے نہ آپ کو کہیں ٹھوکر میں زمانہ
گم ہو نہ جائیں قیمتی لمحات بدلئے
چھپر مکان کا کہیں گر جائے نہ خاکی
آنے لگا ہے موسم برسات بدلئے

آج رشتوں کی بھیڑ میں آکر
ہوگیا ہوں میں کس قدر تنہا
درد و غم اور ذلتیں خاکی
آپ سہتے تو ہیں مگر تنہا

چاند تاروں کو خبر ہونے دو
رات بھر آپ کا چرچہ ہوگا

محمد علی حسین خاکی نے اپنی غزلوں میں تازگی، تازہ کاری، رنگا رنگی، اور گہرائی و گیرائی پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ہیں. موصوف کے کلام میں جذبات کی رنگا رنگی، خیالات کی ہمہ جہتی اور ندرت بیاں، جذبہ و احساس میں خوب صورتی بھر دیتی ہے، ان کی شاعری کے متعلق دل کھول کر ڈاکٹر زین رامش نے اپنی رائے دی ہے:
” بلاشبہ علم ادب سے متعلق بعض شخصیتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ کیے بغیر صرف اور صرف نگار خانۂ تخلیق
میں رنگ بھرنے کے صالح اور دیانت دارانہ عمل کو ہی اپنی زندگی کی اصل سمجھتی ہیں اور ایک سیمابی اور مجنونانہ کیفیت کے تحت اپنے آپ کو پرورش لوح و قلم کے لیے وقف کردیتں ہیں. میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ ”محمد علی حسین خاکی“ کا شمار ایسے ہی جاں نثاران ادب و تخلیق میں کیا جانا چاہئے.“
محمد علی حسین خاکی نے بادم جیسے سنگ لاخ علاقے میں رہ کر شعر و ادب کی آبیاری کی ہے یہ بہت بڑی بات ہے، خاکی صاحب مذہبی خیال کے آدمی تھے اور یہ اچھی بات ہے، سب کو مذہبی ہونا چاہئے، یہ الگ بات ہے کہ ہم لوگ مذہبی کم اور دنیا دار زیادہ ہیں. ان کی نعتیہ شاعری عشق رسول میں ڈوب کر لکھی جانے والی بہترین نعتیہ شاعری ہے، آئیے ان کے نعتیہ اشعار پڑھ کر عشق نبی میں ڈوب جائیں:

کلمہ نبی کا شمس و قمر بولنے لگے
انسان تو انسان شجر بولنے لگے

یثرب کو مصطفیٰ نے مدینہ بنا دیا
عزت حرم شریف کی عزت رسول کی

روز محشر تو یہی سب کی زبان پر ہوگا
لاج رکھ لی مرے سرکار نے رسو ا نہ کیا

نبی کو کہتا ہے اپنی طرح بشر جو بھی
کہاں ہے اس کا ٹھکانہ حضور جانتے ہیں

یہ کائنات بِنائے رسول ہے کہ نہیں
قدم قدم پہ عطائے رسول ہے کہ نہیں

خاکی صاحب کے نعتیہ اشعار حضور سے والہانہ محبت کی غمازی کر رہے ہیں، نعت گوئی میں اپنے مخصوص انداز میں نبی کی تعریف میں اشعار کے پھول نچھاور کر رہے تھے، ان کی نعتیہ شاعری کے متعلق ڈاکٹر غالب نشتر رقم طراز ہیں:
”خاکی صاحب کے نعتیہ کلام کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو یہ ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ وہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے شیدائی تھے. وہ اپنے دامن قلب عشق و عقیدت تعظیم و توقیر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بسائے ہوئے تھے، انھوں نے نبی پاک تاج دار کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں جا بہ جا اشعار کہے ہیں.“
محمد علی حسین خاکی زمانے کے نشیب و فراز کے ساتھ مذہبی حالات کا جائزہ بھی اپنے اشعار میں لیتے رہتے ہیں، ان کی ذہنی تربیت اور نشوونما میں مطالعے نے اہم رول ادا کیا ہے، موصوف سادہ مزاج شخص تھے، ان کے متعلق ان کے فرزند محمد آصف عزیز فرماتے ہیں:
”میرے ابا جان الحاج ماسٹر محمد علی حسین خاکی یقیناً چند ایسے خوش نصیب لوگوں میں تھے جن کو اللہ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا، طبیعت نہایت سادہ مزاج، عاجزی، ہمدردی اور نہایت ہی خلیق،
ملنسار اور ایمان دار انسان تھے.“
محمد علی حسین خاکی شاعری کے میدان میں غزل کے پودے لگا کر گلشن ادب کو ہرا بھرا کرکے اس دنیا سے رخصت ہوئے. اب ان کے فرزند آصف عزیر اس پودے کی دیکھ بھال کرکے قاری کے لیے پھل کی شکل میں”نغمات خاکی“ ادبی دنیا کو سوغات دے رہے ہیں. جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ خاکی صاحب سے میرے تعلقات نہیں تھے، ان کی غزلیں، نعت وغیرہ کی روشنی میں ہی کچھ باتیں کی جاسکتی ہیں. میں ذاتی طور پر تو انھیں نہیں جانتا مگر ہاں لوگوں کی تحریروں اور ان کے کلام کی روشنی میں باتیں کی ہیں. آگے دیکھیں تو ان کی شاعری سے متعلق ڈاکٹر زین رامش پھر لکھتے ہیں:
”مجھے جب پہلی مرتبہ ان کے لائق و فائق فرزند جمیل” جناب محمد آصف عزیز“ کے توسط سے ان کے نعتیہ کلام کے مطالعے کا شرف حاصل ہوا تو اندرون قلب و جگر ایک عجیب سی توانائی اور بڑی بے چین کر دینے والی کیفیت کے دو متضاد احساسات سے نبردآزما ہوا اور احساس ہوا کہ منہاز شاعری کی مانگ میں افشاں بھرنے کا ایک مخصوص ہنر ”جناب خاکی“ کے پاس موجود ہے جو انھیں انفراد بھی عطا کرتا ہے اور اعتبار بھی. اب جب کہ مجھے ان کے کلام
کے بامعنی مطالعے کا موقع میسر آیا ہے تو میں
بڑے ہی کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کرنا
چاہتا ہوں کہ ”جناب خاکی“ کی شاعری کا کلیدی
استعارہ ”درد و داغ و جستجو و آرزو “ ہے جو ہر
کس و ناکس کو میسر نہیں آتا.“
محمد علی حسین خاکی کے یہاں زندگی کے تجربات و مشاہدات کے بے شمار رنگ ملیں گے اور ان ہی رنگوں کو ان کے فرزند سمیٹنے میں لگے ہیں. محمد انوار فیضی صاحب خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”جہاں ادب میں بہت ایسے شعرا ہیں جن کے قول و عمل میں تضاد پایا جاتا ہے، ان کے اشعار دینی و مذہبی اعتبار سے قابل عمل تو ہوتے ہیں مگر وہ خود اس کے عامل نہیں ہوپاتے لیکن خاکی صاحب کی
شخصیت ایسی تھی جو لکھنے کے ساتھ ساتھ عمل پہ بھی یقین رکھتے تھے. یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں جو جذبات و خیالات ہیں ان کی شب و روز کی زندگی میں بھی وہ اثرات بہ خوبی پائے جاتے ہیں.“
محمد علی حسین خاکی عام فہم زبان کا استعمال اچھی طرح کرتے تھے، اپنے کلام میں نیا پن لانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے اور کہیں کہیں پر انھوں نے چونکایا بھی ہے، حالات حاضرہ پر بھی نظر بنائے رکھتے تھے. ان کے کلام پڑھ کر قاری لطف محسوس کرتا ہے.
علی حسین خاکی کو زمانے کے نشیب و فراز کا بہ خوبی اندازہ تھا اس لیے انھوں نے مشاہدہ کیا اور اپنے تجربات کی روشنی میں اپنے جذبات کو قرطاس پر رقم کردیا، جس سے بہت سے پہلو وا ہوتے ہیں، خصوصاً نعتیہ شاعری میں انھوں نے اپنا کمال دکھا یا ہے. محمد ذکی اللہ مصباحی رقم طراز ہیں:
”نعتیہ شاعری اردو ادب کے ان اصناف میں ہے جس پر طبع آزمائی کافی مشکل امر ہے. مگر الحاج ماسٹر محمد علی حسین خاکی کی محبت رسول میں کہی گئی مدح و ثنا نعت گوئی کا ایسا مزاج لیے ہوئے ہے کہ الفت نبی کو الفاظ کے پیرایے میں ایسا سمودیا
ہے کہ اردو زبان و ادب کے سرمایہ کو وسعت اور ارتقا کی منزل تک پہنچانے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی ہے.“
محمد علی حسین خاکی نے اردو شاعری میں اپنے تجربوں کو جس انداز میں پیش کیا ہے قابل رشک ہے اور امید ہے کہ آپ بھی ان کی شاعری کا مطالعہ کریں گے تو رشک کریں گے.
( مورخہ 26/03/2023 ) * Cmpdi, Ri-7
5th Floor, Samantpuri
Near Gandhi park
Po:- R R L
Bhubaneswar – 751013
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:کتاب: اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے