احسان قاسمی کی افسانہ نگاری

احسان قاسمی کی افسانہ نگاری

(یوم پیدائش پر ایک سرسری تحریر بہ طور خراج تحسین)

طیب فرقانی
رابطہ : ali1taiyab@gmail.com

احسان قاسمی افسانہ و افسانچہ نگار ہیں، شاعر ہیں، مضامین و تبصرہ و تعارف نگار ہیں، ایک ڈراما بھی میری نظر سے گزرا ہے. تخلیق کار ہونے کے ساتھ وہ اچھے انسان ہیں. کسی کا قول ہے کہ آدمی ایک مادی وجود ہے اور انسان ایک اخلاقی وجود. احسان قاسمی خدا کے وجود پر یقین رکھنے والے با اخلاق انسان ہیں.
یہی وجہ ہے کہ انھیں چاول، بھابیاں، پھول، ہنسی، بچے، بیگن کا بھرتا، سادگی، سادہ قمیض، ابن صفی، محمد رفیع اور جگجیت سنگھ پسند ہیں. اور ادبی گروہ بندی، ٹی وی اشتہارات، سیاست، فرقہ پسندی اور بقراطی نا پسند ہیں. اپنی اس پسند و ناپسند کا ذکر انھوں نے اپنے افسانوی مجموعے "پیپر ویٹ" (شایع شدہ 2017) میں کیا ہے. میں انھیں پچھلے تین چار سالوں سے جانتا ہوں اور میں نے محسوس کیا کہ انھوں نے اپنی پسند ناپسند میں جن باتوں کا ذکر کیا اس میں جھوٹ کچھ بھی نہیں. میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ حیوان ظریف بھی ہیں. حیرت ہے کہ ان کی کوئی ظریفانہ تحریر میری نظر سے نہیں گزری. لیکن ان کی تحریروں میں شگفتگی کا عنصر نمایاں ہوتا رہتا ہے. ان سے پہلی ملاقات کا ذکر میں نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں کیا تھا جسے یہاں نقل کرتا ہوں:
"سیما نچل کے تین بوڑھے اور تین نوجوان
آج (٢٠ فروری ٢٠٢٠) بہادر گنج کالج(ضلع کشن گنج علاقہ سیمانچل) میں سہیل عظیم آبادی کی عظمت کے ترانے گائے گئے. "ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب سنا کیے”
یہاں تین بوڑھے ملے، ایک پرانی جان پہچان کے تھے حازم حسان، دو بوڑھوں سے پہلی ملاقات تھی. یہ ادبی بوڑھے ہیں. ادب اور سیاست میں بڑھاپا نشیب کی نہیں فراز کی کہانی سناتا ہے.
ادب کا بوڑھا کبھی سبک دوش نہیں ہوتا بلکہ اس کی ادبی جوانی مزید نکھرتی جاتی ہے. دس کتابوں کے مصنف احمد حسن دانش اپنی دانش مندی اور رقیق القلبی سے آپ کو اتنا متاثر کرتے ہیں کہ آپ انھیں کبھی بھول نہیں سکتے. احسان قاسمی سیمانچل کا ادبی مورخ، شاعر اور مرد سادہ. سیمانچل میں اگر آپ ان سے نہیں ملے تو کیا خاک سیمانچلی ہیں. بہار اردو اکاڈمی ایوارڈ یافتہ کسان شاعر حازم حسان اتنا سادہ کہ لنگی پہنے سیمینار اور مشاعرے میں شرکت کرتے ہیں چاہے آپ انھیں کہیں بھی بلالو ان کی لنگی ان کے ساتھ جاتی ہے. لیکن نثر میں گھن گرج اور آواز میں نوکیلا پن.
دانش و قاسمی صاحبان اور ڈاکٹر کہکشاں کی کتابوں کا اجرا بھی تھا. یہ کیسے عجیب لوگ ہیں جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ اردو کی کتابیں کوئی نہیں خریدتا کتابوں پہ کتابیں لکھے جارہے ہیں؟ اس سوال کا جواب دانش صاحب دیتے ہیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کی روایات کا تحفظ نہیں کیا لیکن اگر ہم بھی اپنی فکر کو یوں ہی ضائع ہونے دیں تو سراسر زیادتی ہوگی.
ان بوڑھوں سے ملاقات کا سہرا دو نوجوانوں کے سر سجتا ہے. خالد و نایاب : یہ سیمانچلی ہر سال مجھے سردیوں میں پیٹھا اور بگیا کی دعوت دیتے ہیں. خالد یعنی ڈاکٹر خالد مبشر اور نایاب یعنی جہانگیر نایاب میرے عزیز اور کرما فرما. اس بار نایاب نے مجھے سہیل عظیم آبادی پر مقالہ پیش کرنے کی دعوت دی. یہ میٹھی دعوت تھی. کشن گنج سے نکلا تو مہانندا ندی پر گنگا اشنان کا تہوار چل رہا ہے. لوگ تو نئے کپڑوں میں تھے لیکن وضع دیکھو تو سہیل کے افسانوں کے زندہ کردار نظر آتے ہیں. آٹھ دس کلو میٹر آگے بڑھو تو اینٹ بھٹہ کی چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں میں سہیل عظیم آبادی اور ان کے ساتھ کئی ایک ترقی پسند ادیبوں کے چہرے نظر آتے ہیں. میں سوچتا ہوں کہ ان ادیبوں نے مزدوروں کی جو کہانیاں لکھی ہیں کیا ان کہانیوں نے ان کی زندگی بدلی. لیکن جب تک سوچتا ہوں میری بائک زناٹے سے آگے بڑھ جاتی ہے. مجھے سردیوں کے وہ دن یاد آتے ہیں جب بیگنا (خالد مبشر کے گاؤں) جاتے ہوئے پریم چند کی کہانی "پوس کی رات” کو یاد کر رہا تھا. وہ چچری کا پل یاد آتا ہے جس پہ بائک کو ہاتھ سے کھسیٹ کر لے جانا پڑا تھا. اب یہ پل مرحوم اسرار الحق قاسمی کے ایم پی فنڈ سے بن کر تیار ہے اور شان دار طریقے سے دعوت ڈرائیو دیتا ہے. میں ناسٹلجیا کا شکار کیوں ہورہا ہوں؟ احمد حسن دانش بھی آج سیمینار میں ناسٹلجائی ہورہے تھے. ایسی چنگاری بھی یارب ہمارے خاکستر میں تھی کی کہانیاں سنارہے تھے. میرا جذباتی خیال یہ ہے کہ ان بوڑھوں کو اگر آپ نے توجہ سے نہیں سنا تو…………….. پتہ نہیں.. مجھے نیند آرہی.
بک رہاہوں "نیند" میں کیا کیا کچھ
"کچھ تو" سمجھے خدا کرے کوئی"
اس ملاقات کے بعد سیمانچل میں سب سے گہری وابستگی ان سے ہی قائم ہوئی. جب اشتراک ڈاٹ کام کے آغاز کی تقریب ہوئی تو احسان قاسمی اس کے مہمان خصوصی تھے. ان کے توسط سے اور بھی کئی شعرا و ادبا سے واقفیت ہوئی لیکن کہتے ہیں کہ وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی. احسان قاسمی ایک ایسے پھل دار درخت ہیں جس کی شاخوں میں "قلم" لگائے جاتے ہیں. یہ برگد کے درخت کی مانند نہیں ہے جو بے سود و بے سواد پھل دیتا ہے اور سارا منافع اپنے پاس رکھتا ہے. بلکہ لذید اور منافع بخش پھل کے ساتھ اپنے خونِ قلم سے ” قلمیں" اگاتا ہے.
اشتراک ڈاٹ کام کے آغاز کے بعد انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ اس کا پیٹ کس طرح بھریں گے؟ میں نے کہا کچھ تخلیقات ٹائپ کرکے ڈالنا شروع کرتے ہیں. انھوں نے کہا کہ ٹائپ کرنے کی زحمت کیوں اٹھائیں، میرے پاس بہت سی تحریریں ٹائپ شدہ ہیں انھیں پوسٹ کریں، پھر انھوں نے نہ صرف تخلیقات و نگارشات سے مدد کی بلکہ اپنے حلقے کے لوگوں سے فون کرکے اور مسیج کرکے اشتراک کی طرف متوجہ ہونے کو کہا، فیس بک پوسٹ بھی لکھی. آج اشتراک ڈاٹ کام کو دنیا بھر کی نگارشات و تخلیقات موصول ہوتی ہیں، لیکن اشتراک کو پہلی شناخت احسان قاسمی کے ذریعے ہی ملی. یوں کہہ لیں کہ وہ اس کے بنیاد گزاروں میں ہیں. اشتراک ڈاٹ کام کا طریقہ کار پہ ہے کہ اس پہ شایع ہونے والی نمایاں نگارشات و تخلیقات پر ایک نوٹ لکھ کر سوشل میڈیا پر مشترک کیا جاتا ہے تاکہ قارئین لنک پر کلک کرنے سے قبل اپنی پسند و ناپسند اور تحریر کی گہرائی و گیرائی کا اندازہ کر سکیں.
اشتراک ڈاٹ کام پر شایع ہونے والی احسان قاسمی کی نگارشات پر جو تبصرے لکھے گئے ان میں سے یہاں ان تبصروں کو تھوڑی سی قطع و برید کے ساتھ جمع کیا جاتا ہے جو ان کے افسانوں پر لکھے گئے :
افسانہ : مہاجر
کچھ نہیں بدلا دوانے تھے دوانے ہی رہے
ہم نئے شہروں میں رہ کر بھی پُرانے ہی رہے

اے پرندو ہجرتیں کرنے سے کیا حاصل ہوا
چونچ میں تھے چار دانے چار دانے ہی رہے

تقسیم ہند کے موضوع پر اردو تخلیق کاروں نے بہت کچھ لکھا اور بہت لکھا. بعد میں اس موضوع پر لکھنے والوں کی راہ زیادہ مشکل رہی، کیوں کہ ان کے سامنے اس سمندر کی تہہ سے کچھ نیا اچھالنا تھا.
احسان قاسمی کا زیر نظر افسانہ ‘مہاجر’ 1992′ میں لکھا گیا. یہ ہندستان کے جمہوری نظام کی تاریخ کا سیاہ برس ہے. انہدام بابری مسجد نے تقسیم ہند کے زخم پر نمک چھڑکنے کا کام کیا. اس سے قبل بنگلہ دیش کے قیام نے یہ ثابت کیا تھا کہ تقدس کے نام پر رکھی گئی مملکت کی بنیاد ایک جذباتی فیصلے سے زیادہ کچھ نہیں تھی.
احسان قاسمی نے اپنے افسانے کا عنوان ‘مہاجر’ کے معنی کو نئے طرح سے خلق کیا ہے. افسانے میں ایک باپ کے تین بیٹوں کا کردار ہے. ان میں سے ایک تقسیم ہند کے نتیجے میں سرحد کے اس پار چلا گیا ہے. یہ مہاجر چونچ میں چار دانے لے کر گیا چار دانے ہی لے کر واپس آگیا.
ایسا کہنے پر پاکستان میں لوگ ناراض ہوجاتے ہیں اور حب الوطنی دکھانے لگتے ہیں. لیکن دونوں طرف کے ادیب و قلم کار تقسیمِ ہند کے فیصلے سے کبھی خوش نظر نہیں آئے. اس کی وجہ وہی ہے جو فیض نے کہی. یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر…..
اصل افسانہ ان دو بھائیوں کے کردار پر مبنی ہے جو ہندستان میں رہ گئے. ایک بھائی اب بھی گنگا کنارے وضو کرنے پر مصر ہے اور ایک بھائی گنگا کو میلی بتاکر کسی مقدس نہر کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے. یہ تینوں ہی اپنے اپنے اعتبار سے مہاجر ہیں. یہیں سے افسانے کا نیا معنی کھلتا ہے. افسانہ نگار تقسیمِ ہند سے شروع ہوئی ہجرت کو جسمانی، ذہنی، سماجی، تہذیبی ہجرت تک وسیع کردیتا ہے.
اس نئے معنی کی تلاش کے لیے افسانے کو ذرا ٹھہر کر پڑھیں. یا پڑھ لینے کے بعد ذرا ٹھہریں.
(یہاں عامر خان کی اداکاری میں بنی فلم ‘سرفروش’ کا حوالہ بھی دینا چاہتا ہوں…)
افسانہ : پے اسکیل
ہم اپنے لیے جو پسند کریں وہی دوسروں کے لیے پسند کریں تو یہ اعلا اخلاقی اور انسانی عمل ہے. اسلام یہی سکھاتا ہے. پیغمبر اسلام کی یہی تعلیم ہے. اخلاقیات کے تمام ماہرین بھی اس پہ بات متفق ہوں گے.
احسان قاسمی کا زیر نظر افسانہ پے اسکیل اس رویے پہ تنقید کرتا ہے جس میں ہم اپنے لیے کچھ بہتر اور دوسروں کے لیے کم تر پسند کرتے ہیں. ہم مزدور کو پسند کرتے ہیں مگر مزدوری دینا کم پسند کرتے ہیں. ہم اپنی محنت کو محنت کہتے ہیں اور دوسروں کی محنت کو کام کہتے ہیں. افسانہ مسلم سماج کے ایک خاص طبقے کے درد کو ظاہر کرتا ہے. اس میں مسجد، امام، موذن، مسجد کمیٹی، تعمیر وضوخانہ، عطیہ جیسے الفاظ ایک خاص فضا خلق کرتے ہیں. ایک ایسی فضا جسے عام طور سے ادب میں کم کم ہی مس کیا جاتا ہے.
افسانہ: آئس برگ
یہ اس آئس برگ کی کہانی ہے جو گلیشیر سے ٹوٹ کر نہیں بنی بلکہ صارفی تہذیب کی مصروف زندگی نے انسان کے وجود کے اندر دھیرے دھیرے بنائی ہے. اور برف کے اس تودے میں پگھلن کے کوئی آثار نظر نہیں آتے. یوں تو افسانے کی فضا انتہائی رومان پرور ہے، دارجلنگ کی خوب صورت وادی، برف سے ڈھکے پہاڑ اور جھیل کے لفظی تصاویر اور ان تصاویر کو پینٹ کرنے میں احسان قاسمی کے حقیقت پسندانہ رنگ افسانے کو ایڈونچر اور رومان سے قریب کرنے ہی والے ہوتے ہیں کہ افسانہ بھیڑ بھاڑ والی مصروف گلی میں مڑ جاتا ہے. اس گلی کے آخری سرے پر آئس برگ موجود ہے، جو المیے کے احساس سے دوچار کراتا ہے.
میٹھے پانی کا تودہ کھارے پانی میں اس طرح تیرتا ہے کہ اس کا زیادہ حصہ پانی میں ڈوبا رہتا ہے. مصروف زندگی کے کھارے پانی نے ہمارے وجود کو ایسے ڈھانپ لیا ہے کہ محبت آمیز میٹھے لمحے اس میں نہ ڈوب رہے ہیں نہ کنارے لگ رہے ہیں. کیا ٹائیٹینک کا وہ ہیرو دوبارہ جنم نہیں لے گا جس کا جہاز آئس برگ سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگیا تھا. اور اسے اپنی میٹھی محبت کے لیے خود کو کھارے پانی کے حوالے کرنا پڑا تھا. آئس برگ کا عمومی تصور مغربی ہے. گلوبلائزیشن کے زیر اثر اٹلانٹک کے اس پار سے آیا تصور مشرق میں بھی اپنے رنگ دکھا رہا ہے.
افسانہ: پیپر ویٹ
دکھ سکھ ہماری زندگی کا حصہ ہے. جب ہمیں خوشیاں میسر ہوتی ہیں، ہمارے ارد گر گلاب کھل رہے ہوتے ہیں اور زندگی پر بہار ہوتی ہے تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خدا بھی بے کار شے کا نام ہے. اور ہمارے لیے قیمتی اشیا بھی معمولی ہوجاتی ہیں. لیکن دکھ میں ہمیں خدا یاد رہتا ہے اور معمولی اشیا بھی ہمارے لیے غیر معمولی ہوتی ہیں. پھر کیا خدا کو ہم اپنی زندگی سے نکال سکتے ہیں؟ خدا نہ ہو تو اس کاغذی پیرہن کا نقش کس طرح باقی رہے گا؟ اس کاغذی پیرہن کے وجود کو سنبھالنے کا کام خدا کی غیر مرئی طاقت کا وزن ہی تو کر رہا ہے.
احسان قاسمی کے زیر نظر افسانے میں علامت اور وضاحت کے امتزاج سے بنی انسانی زندگی کے اسی محسوس و غیر محسوس رویے کی ایسی کہانی ہے جو آپ کو دیر تک اپنی گرفت میں رکھتی ہے. اور اس کے سحر سے آزاد ہونا آپ کے لیے مشکل ہوتا ہے.
یہاں افسانے کے ساتھ خود افسانہ نگار کے تخلیقی عمل کی وہ کہانی بھی منسلک ہے جس میں قاری کو کم ہی شریک کیا جاتا ہے. یہ افسانہ ٤٠ برس سے زیادہ پرانا ہے لیکن آج بھی اس میں وہی تازگی ہے. اسے مابعد جدید افسانوں میں نمایندہ افسانہ قرار دیا گیا ہے. یہی ان کے افسانوی مجموعے کا عنوان بھی ہے.
افسانہ: ایک کہانی
افسانے کا عنوان ہے "ایک کہانی”. اس میں ” ایک” اپنی محذوفات کی بنا پر بطور تنکیر بھی مستعمل ہوسکتا ہے اور بطور تخصیص بھی. مثلا: کوئی ایک کہانی یا ایک خاص کہانی. یہ تو قاری طے کرے گا. لیکن ایک خاص بات یہ ہے کہ اس افسانے کا راوی دوسرے افسانوں سے منفرد ہے. راوی بالکل سامنے ہوتا ہے لیکن راوی کو جاننے کا تجسس بھی افسانے کے اختتام سے قبل تک باقی رہتا ہے. اس اعتبار سے افسانہ نگار نے بڑی فنی مہارت پیش کی ہے. اس بوڑھے کا کیا ہوا جو ہر روز ایک ننھے بچے کے ساتھ پارک کے ایک حصے میں بیٹھا کرتا تھا.؟ خود ہی پڑھ لیں.
افسانہ: نمک حرام ڈیوڑھی
نواب سراج الدولہ کو جس جگہ پھانسی دی گئی بعد ازاں اس جگہ کو نمک حرام ڈیوڑھی کا نام دیا گیا تھا۔یہ ڈیوڑھی میر جعفر کی رہائش گاہ تھی جسے اب یونسیکو نے تاریخی عمارات میں شامل کررکھا ہے اور اس کا نام Traitor’s Gate رکھا ہے.
احسان قاسمی کا زیر نظر افسانہ اسی ڈیوڑھی کی زبان میں کہی ہوئی کہانی ہے. یہ افسانہ تاریخی پس منظر لیے ہوئے ہے. تاریخ کو افسانوی رنگ دینا کوئی آسان کام نہیں ہوتا. اس کے لیے قلم کار کو تاریخ سے اچھی واقفیت ہونی ضروری ہے. سراج الدولہ اور میر جعفر کے معاملات، شہر پورنیہ، مرشد آباد اور پٹنہ ہوتے ہوئے نمک حرام ڈیوڑھی تک پہنچنا احسان قاسمی کےلیے اس لئے آسان ہوا ہے کہ وہ یہاں کی تاریخ سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں.
تاریخ کے اپنے سروکار ہیں. میر جعفر کے تعلق سے مرشد آباد سے حال ہی میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ میر جعفر غدار نہیں تھا. لیکن یہ افسانہ ہے اور افسانہ تاریخ نہیں ہوتا بلکہ اس میں تاریخ کی جھلکیاں ہوتی ہیں. دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو اس افسانے کو تاریخ سے الگ کرتے ہیں. اشتراک ڈاٹ کام کو ناقدین کی رائے کا انتظار رہے گا. یہ افسانہ ندائے گل لاہور کے سالنامہ (٢٠١٨) میں شائع ہو چکا ہے.
افسانہ: موترالیم
پٹرولیم آپ جانتے ہیں. موترالیم کیا ہوتا ہے؟ پٹرولیم سے موترالیم کا کیا تعلق ہے؟ احسان قاسمی کا زیر نظر افسانہ اپنے عنوان اور موضوع کے اعتبار سے انوکھا ہے. مبنی بر تخیل ہوتے ہوئے مبنی بر حقیقت لگنے والا یہ افسانہ اتنا دل چسپ ہے کہ بار بار پڑھنے کو جی کرتا ہے. ملک ہندستان میں پھیلائی جارہی موجودہ توہم پرستی پہ طنز بھی کرتا ہے. اور بے جا جذباتیت سے اپنا دامن بچاتے ہوئے فن کے معیار کی تکمیل بھی. اگر اب تک آپ نے یہ افسانہ نہیں پڑھا ہے تو……
احسان قاسمی کی زبان اور ان کا اسلوب سادہ اور دل نشیں ہے.
افسانہ: ایک خط ہزار داستان
خط کے فارم میں لکھا گیا یہ افسانہ ایک دلت لڑکے کے قتل کی کہانی کہتا ہے. اسے اونچی ذات کے بگڑیل لڑکے نے ماردیا. کیا اسے انصاف ملا؟ انصاف ملنے کا کوئی حقیقی ذریعہ بھی کمزوروں کے پاس ہے؟ کس طرح اس دلت لڑکے کا باپ انصاف نہ ملنے پر بھی مطمئن ہے.
کہانی کار احسان قاسمی نے ایک الگ لکیر کھینچی ہے. صدیوں سے دلتوں پر ہوئے مظالم کی داستان بھی اس ایک خط میں شامل ہے. اسی لیے ایک خط ہزار داستان اس کا عنوان ہے. افسانہ پڑھتے ہوئے آپ محسوس کریں گے کہ تخلیق کار ہمیشہ سچ کا حمایتی ہوتا ہے. وہ اپنی تاریخ بھی تنقید کے ساتھ ہی لکھتا ہے. ایسا کیوں ہے کہ مسلمان بادشاہوں نے بھی اونچی ذاتیوں کی عورتوں سے شادیاں کیں؟
احسان قاسمی کے افسانوں کی زبان سادہ ہے اور اسلوب بھی. لیکن جذبہ و فکر میں گہرائی و گیرائی ہے. فن پر ایسی گرفت کہ مختصر افسانے میں صدیوں کی تاریخ بیان کردیں اور آپ کی دل چسپی ایک لمحے کو بھی کم نہ ہو……
پڑھیں…..
افسانہ: شلپی
درگا پوجا ہندستانی ریاست مغربی بنگال کا اہم ترین ہندو تہوار ہے. ہر تہوار کی اپنی مذہبی یا تہذیبی روایت ہوتی ہے. درگا پوجا ہندو دیوی درگا کی اس فتح کے موقع پر جشن کے طور پر منایا جاتا ہے جس میں دیوی درگا مہیشاسر کو ختم کرکے بدی پر نیکی کی فتح دلانے میں کامیاب ہوتی ہے. ان کہانیوں میں بہت سی کہانیاں ہیں. ہر پوجا پر نہ جانے ایسی کتنی کہانیاں جنم لیتی ہیں. افسانہ نگار نے ایسی ہی ایک شاندار کہانی بنی ہے جسے پڑھ کر آپ نہ صرف چونک جائیں گے بلکہ اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنے کی کوشش کریں گے کہ مہیشاسر کہاں کہاں اور کن کن شکلوں میں موجود ہیں….
اردو میں لکھے گئے اس افسانے کا بنگلہ زبان میں ترجمہ ہوا ہے اور میتھلی میں زیر ترتیب ہے
افسانہ : لال کبوتر
(نوٹ : "راتے ندی کنارے ملیو… بہت جروری بات ہے… سمجھی؟ ” یہ اور اس طرح کے دوسرے الفاظ و تراکیب نے مجھے اس افسانے کی اشتراک پہ تدوین کے دوران رینو کی یاد دلائی. پھنیشور ناتھ رینو. پدم شری پھنیشور ناتھ رینو. میلا آنچل ناول کا خالق دوسرا پریم چند. جو آنچلک (علاقائی) ادیب بھی کہلاتا ہے. جس کے افسانے "مارے گئے گل فام” پر تیسری قسم فلم بنی، راج کپور اور وحیدہ رحمن نے اس فلم میں اپنا کردار نبھایا ہے. ہندی آتی ہو اور موقع ملے تو ضرور پڑھیے. میں نے کل ہی پڑھا. گوگل پہ موجود ہے.
لیکن مجھے رینو کی یاد پنچ لیٹ افسانے کی وجہ سے آئی… آج سے تقریباً پندرہ سترہ برس قبل غالباً انٹر میڈیٹ میں رینو کا یہ افسانہ پڑھا تھا. اور رینو کا نام سنا تھا. ہمارے گاؤں (جین خورد، مظفرپور) میں پنچ لیٹ ہوا کرتا تھا. شاید اس لیے بھی کہانی میرے ذہن پر ہمیشہ سوار رہی. تب مجھے ادب کا اتنا شعور بھی نہ تھا جو کچھ اب ہے.
رینو کی یاد آئی تو میں نے گوگل کیا. رینو پہ ایک مضمون اردو میں موجود ہے. پھر فاروق ارگلی کے مضمون کا خیال آیا جو حال ہی میں اشتراک نے بھی شایع کیا ہے. یہ مضمون حقانی القاسمی کی شخصیت و کارنامے پر ہے. اس میں ان کی کتاب ‘رینو کے شہر میں` کا ذکر ہے. میں نے پھر گوگل کیا. ریختہ پر اس کا دیدار نصیب ہوا. اوراق پلٹے گئے. حقانی القاسمی کی پر شکوہ زبان، در و بست میں جذبہ، درد، کسک اور نئے روشن مستبل کی تلاش، قدیم تاریخ کے جھروکے سے جھانکتے کھنڈرات اور ملبے ملے. اس میں ایک اقتباس ہے : ” ادب تو در اصل گاؤں کے گرد و غبار میں ہے. وہاں کی ندیوں میں ہے، وہاں کے بنوں میں ہے، وہاں کے رمناؤں میں ہے. ان آنکھوں میں ہے جو شہر کی کثافت سے آلودہ نہیں ہوئی ہیں. ان ہونٹوں کی سلسبیل میں ہے جو کسی لمس سے آشنا نہیں ہیں. پان کی گمٹی میں بیٹھا ہوا گھنگھریالے بالوں والا آدمی مجھے م. ع سے زیادہ بڑا افسانہ نگار لگتا ہے. اور چائے خانے کی ٹوٹی ہوئی گندی تپائی پر بیٹھا ہوا خیالوں میں گم ایک شخص مجھے عین. صاد سے بڑا تخلیق کار نظر آتا ہے. پیپل کی چھاؤں کے نیچے بیٹھا ہوا ایک گنجا آدمی ز. ر کو اپنی جنبش سے زیر و زبر کرسکتا ہے. مگر سوال شناخت کے بحران کا ہے. در اصل یہ وہ رائٹرز ہیں جن کی کوئی شناخت نہیں ہے. صرف اس لیے کہ انھیں وہ وسایل میسر ہیں اور نہ ہی وہ مدیران مہیا ہیں جو کسی کو بھی تحت الثری سے فلک الافلاک پر بٹھا سکتے ہیں. ” (ص: ٢٣)
شناخت کا بحران ہی وہ موضوع ہے جو مجھے اس افسانے کی تدوین کے وقت شدت سے محسوس ہوا. یہ افسانہ اپنے موضوع، ٹریٹمنٹ، زبان و بیان کے حسن کی وجہ سے اپنے زمانے کے چند بہترین افسانے میں شامل ہے. لیکن کیا یہ ہے؟ کیا احسان قاسمی کے سامنے بھی شناخت کا بحران نہیں ہے؟ میرے خیال میں شناخت کے اسی بحران کی وجہ سے خود حقانی القاسمی کی اس کتاب میں احسان قاسمی کے فکر و فن پر کوئی تحریر مجھے نہیں ملی.
افسانہ لال کبوتر میں کردار کی زبان سے جب لال کبوتر بولا جاتا ہے تو اسے ت پہ تشدید کے ساتھ پڑھیں. اس میں باز کے ذریعے کبوتر کو چھاپ لینے کا واقعہ کس ہنر مندی سے تخلیق ہوا ہے اس پہ غور کریں. گاؤں کی ایک بھولی بھالی منیا اور کبوتر میں کیا قدر مشترک ہے؟ کبوتر امن اور سادگی کی علامت ہے. پھر وہ لال کیوں ہے؟ لال تو خون کا رنگ ہوتا ہے، دلہن کے دوپٹے کا رنگ ہوتا ہے. باز اور افسانے کے کردار بہاری میں کیا قدر مشترک ہے؟ بہاری کے بازوؤں کی مچھلیاں اتنی نمایاں کیوں ہیں؟ باز اور بازوں میں کیا مناسبت ہے؟ گاؤں کے لوگ ایک بڑی مشین کو کیوں دھکا دے رہے ہیں؟ وہ کھیتی بھی تو کرسکتے تھے؟ جب ہم ان جیسے سوالوں پہ غور کرتے ہیں تو افسانے کا اصل حسن قاری پہ ظاہر ہوتا ہے. رینو کی کہانیوں میں بیل گاڑی کا ذکر ہے. احسان قاسمی کا عہد گاؤں اور مشین کے درمیان بدلتے سماجی، سیاسی، معاشی رشتوں کو نیا روپ دے رہا تھا. اس افسانے کے تفصیلی تجزیہ سے نہ صرف افسانے کا حسن سامنے آئے گا بلکہ احسان قاسمی کی ہنر مندی بھی ظاہر ہوگی. طیب فرقانی….)
اگر آپ یہاں تک پہنچ گئے ہیں تو بتادوں کہ احسان قاسمی کا جنم دن ٢٢ فروری ہے. اور مجھے یہ تحریر ترتیب دینے میں تین دن لگ گئے کیوں کہ ہمارے یہاں بورڈ کے امتحانات چل رہے ہیں اور مصروفیت بڑھی ہوئی ہے.
***
طیب فرقانی کی گذشتہ نگارش :کتاب: اردو کی تیرہ نئی مقبول کہانیاں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے