کتاب: مظفر کے نام (کچھ ادبی خطوط)

کتاب: مظفر کے نام (کچھ ادبی خطوط)

مظفر کے نام(کچھ ادبی خطوط)دو حصے
مرتب: انجینئر فیروز مظفر، صفحات:1184،
قیمت: 1000
سنہ اشاعت: 2022ء
ناشر: مظفرحنفی میموریل سوسائٹی، مظفرحنفی لین، بٹلہ ہاؤس، نئی دہلی۔110025
مبصر: شاہ عمران حسن
پلاٹ نمبر22، اے بلاک، خسرہ نمبر824، مکی مسجد کالونی،نالہ روڈ، سریتا وِہار، نئی دہلی۔ 110076
رابطہ: 9810862382
E-mail:sihasan83@gmail.com

ہندستان کے معروف نقاد، محقق، ادیب اور شاعر پروفیسر مظفرحنفی کی رحلت کو دو برس ہوگئے۔پروفیسر مظفر حنفی صرف ایک شاعر وادیب ہی نہیں تھے بلکہ ایک منظم شخصیت کے مالک تھے، جنھوں نے زندگی کا ہر لمحہ بہت ہی منظم طریقے، سلیقے اور نپے تلے انداز میں گزارا۔ جو بھی کام انھوں نے کیا، اس کا حق ادا کردیا۔ نثر میں گئے تو ایسی نثر تخلیق کی کہ لوگ عش عش کرنے لگے، تحقیق میں گئے اس میں بھی اپنی منفرد مثال قائم کی حتیٰ کہ جب سفرنامہ ’چل چنبیلی باغ میں‘ لکھا تو قاری ان کی تحریر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر صنف میں نہ انھوں نے کام کیا، اور کامیاب رہے۔
انھوں نے بیسویں صدی کے نصف اوّل کے ایک عظیم شاعر شاد عارفی سے شرف تلمذ حاصل کیا، شاد عارفی پر جو کام انھوں نے سر انجام دیا ہے، اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ کام وہی کرسکتے تھے، جب بھی شاد عارفی پر گفتگوکی جائے گی، پروفیسر مظفرحنفی کے [حوالے کے] بغیر ادھوری رہے گی۔
پروفیسر مظفرحنفی کا اصل نام ڈاکٹر محمد ابوالمظفر تھا، تاہم وہ ’پروفیسر مظفرحنفی‘ کے نام سے ادبی دنیا میں معروف ہوئے۔ ان کی پیدائش یکم اپریل 1936ء کو ہوئی اور 84 برس کی عمر میں 10 اکتوبر2020ء کو نئی دہلی میں وہ انتقال کرگئے۔
یوں تو پروفیسر مظفرحنفی کی زندگی میں ہی ان کے فن اور شخصیت پر بہت سے کام ہوچکے ہیں۔ تاہم انتقال کے بعد اس میں مزید پیش رفت ہوئی۔ ان پر باضابطہ کئی کتابیں شائع ہوئیں اور رسائل و اخبارات نے ان کی حیات و جہات پر نمبرات شائع کیے۔
حال ہی میں پروفیسر مظفرحنفی کے حوالے سے ایک اہم کتاب ’مظفر حنفی کے نام‘ شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو ان کے صاحب زادے اور ادیب انجینئر فیروز مظفر نے مرتب کیا ہے۔
یہ کتاب دراصل ان خطوط کا مجموعہ ہے جو وقفے وقفے سے مختلف شاعر و ادیب اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے انھیں لکھے تھے۔ اس کتاب میں کل 1184صفحات ہیں، جو مظفر حنفی میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے۔
زیر نظر کتاب کے ساتھ انجینئر فیروز مظفر نے ایک مبسوط مقدمہ بھی تحریر کیا ہے، جو خاصے کی چیز ہے. انھوں نے نہ صرف مرتب کردہ خطوط کے حوالے سے گفتگو کی ہے بلکہ والد صاحب کی زندگی پر بھی تھوڑی بہت روشنی ڈالی ہے۔
کتاب کی پہلی جلد میں موجود ادیب و شعرا میں پروفیسر آل احمد سرور، احمد ندیم قاسمی، اسلوب احمد انصاری، احمد سعید ملیح آبادی، ابوالکلام قاسمی، اویس احمد دوراں، اقبال مرزا، اظہر عنایتی، اندر سروپ سری واستو، ابراہیم اشک، انیس امام، افتخار امام صدیقی، بشیر بدر، بلراج کومل، بسمل عارفی، پروین کمار اشک، پریت پال سنگھ، تسکین زیدی، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، جوگندر پال، جسٹس کے ایم یوسف، جمال اویسی، حکیم عبدالحمید (ہمدرد)، حامد انصاری، حفیظ بنارسی، پروفیسر خلیق انجم، خلیق الزماں نصرت، دلیپ سنگھ، دلشاد لاری، ڈاکٹر علی احمد جلیلی، ڈاکٹر انور مینائی، ذکاءالدین شاداں، رضا نقوی واہی، رام لعل، زبیر رضوی، رشید حسن خان، رفعت سروش، زبیر احمد فاروقی، ستیہ پال آنند، سیفی سرونجی، شمس الرحمٰن فاروقی، شجاع خاور، شین کاف نظام، شہریار، شان بھارتی، شاہد علی خان، شمیم فاروقی، ششی ٹنڈن، صغری مہدی، ضمیر کاظمی، طیب انصاری، ظفر گورکھ پوری، عزیز قریشی(گورنر)، ظ.انصاری اور عبدالصمد وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
جب کہ دوسری جلد میں عشرت قادری، پروفیسر عبدالباقی، پروفیسر عزیز اندوری، پروفیسر عتیق احمد صدیقی، پروفیسر عنوان چشتی، عمیق حنفی، پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر علیم اللہ حالی، عبدالطیف اعظمی، عابد سہیل، علقمہ شبلی، غلام مرتضیٰ راہی، غلام سرور، فضا ابن فیضی، فاروق نازکی، قتیل شیفائی، پروفیسر قمر رئیس، قیصرتمکین، کنہیا لال کپور، کوثر صدیقی، کرشن کمار طور، محبوب راہی، گلزار دہلوی، مشفق خواجہ، مخمور سعیدی، منوررانا، وزیر آغا، معصوم شرفی، نشتر خانقاہی، ناوک حمزہ پوری اور مفتی عتیق الرحمٰن قاسمی وغیرہ کے خطوط شامل اشاعت ہیں۔
ان خطوط کے مطالعہ سے ہماری عصری ادبی تاریخ کی بہت سی ان کہی داستان منظر عام پر آگئی ہے، جو یقیناً ادب کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ ان خطوط سے پتا چلتا ہے کہ کوئی پروفیسر مظفرحنفی سے مشورے طلب کر رہا ہے تو کوئی ان سے مضمون لکھنے کی درخواست کر رہا ہے، کوئی اپنی کتاب پر مقدمہ لکھوانا چاہتا ہے تو کوئی اپنی تحریری اصلاح کے لیے خط لکھ رہا ہے تو کوئی کسی اور چیز کے لیے ان کے در پردستک دے رہا ہے اور وہ ہر ایک کی دادرسی کر رہے ہیں، کاش ان خطوط کے ساتھ پروفیسر مظفر حنفی کے جوابات بھی شامل اشاعت ہوجاتے تو یقینی تھا کہ ادبی دنیا پر ایک اوربڑا احسان ہوتا۔ مگر یہ صرف خام خیالی ہے کیوں کہ یہ ممکن نہیں۔
خیال رہے کہ ڈاکٹر محبوب راہی سے پروفیسر مظفر حنفی کی ایک مدت تک طویل خط و کتابت ہوتی رہی۔ اس کے بعد ڈاکٹر محبوب راہی نے ایک کتاب ”مکتوبات بنام محبوب راہی" مرتب کی جو کہ قابل مطالعہ ہے۔
پروفیسر مظفرحنفی کو وقفے وقفے سے ہندستان کے مختلف مقامات پر رہنے کے مواقع ملے، وہ جہاں بھی رہے لوگوں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور ان سے خط و کتابت جاری رکھی۔ نقل مکانی کرتے ہوئے وہ اپنی زندگی کے آخر میں دہلی میں آباد ہوگئے۔ ان کی ساری چیزیں بھی دہلی آگئیں۔ ان میں بے شمار خطوط بھی تھے۔
انجینئر فیروز مظفر نے ان خطوط کا مطالعہ کیا تو ان کی افادیت کو محسوس کیا۔ پھر اس کے بعد بذات خود انھوں نے اس کو ترتیب دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ خود بتاتے ہیں اس کی جمع و تدوین میں پسینے چھوٹ گئے، مسلسل چھے ماہ تک کام کرنا پڑا۔ ظاہر سی بات ہے ایک خط کو پڑھنا، دیکھنا، ترتیب لگانا، اس کی کمپوزنگ کرنا اور پھر اس کو حروف تہجی (alphabetical order) کے اعتبار سے ترتیب دینا کوئی آسان کام نہ تھا۔ تاہم انھوں نے اس مشکل ترین معرکہ کو سر کرلیا اور ان خطوط بلکہ ادبی شہہ پاروں کو منظر عام پر لاکر ادبی دنیا پر احسانِ عظیم کیا ہے۔
اس اہم ترین کام کو سرانجام دینے کے لیے یقینی طور پر انجینئر فیروز مظفر مبارک باد کے مستحق ہیں، اگر وہ ان خطوط کومنظر عام پر نہ لاتے تو شاید ان اہم ادبی شہہ پاروں سے استفادہ کرنا ممکن نہ تھا۔
زیر نظر کتاب میں انجینئر فیروز مظفر نے اپنے والد محترم پروفیسر مظفر حنفی کے کچھ ذاتی خطوط بھی نقل کیے ہیں، جو کہ انھوں نے اپنے اہل خانہ کو لکھے تھے۔ ان خطوط کو پڑھنے سے جہاں ایک ذمے دار شوہر کی جھلک دکھائی دیتی ہے وہیں ایک مشفق باپ کی محبت عیاں ہوتی ہے، ایک خط اس میں ان کے والد محترم عبدالقدوس کا بھی ہے، اس خط سے اندازہ ہوتا ہے ہے کہ وہ اپنے والدین کی فرماں بردار اولاد تھے۔
انجینئر فیروز مظفر ادبی تحقیق اور ترتیب میں نہ صرف دل چسپی رکھتے ہیں بلکہ اس صنف میں باضابطہ وہ کام بھی کرتے ہیں، ان کی اب تک ایک درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کتابوں پر انھیں مختلف انعامات سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ فی الوقت وہ عالمی تحریک اردو اور مظفر حنفی میموریل سوسائٹی کے سربراہ ہیں۔ میں ایک بار پھر اس اہم ترین کام سرانجام دینے کے لیے انھیں مبارک باد دیتا ہوں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!
***
صاحب تبصرہ سے متعلق یہ بھی بھی پڑھ سکتے ہیں :شاہ عمران حسن کی پانچویں سوانحی کتاب منظر عام پر

شیئر کیجیے

One thought on “کتاب: مظفر کے نام (کچھ ادبی خطوط)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے