الیاس احمد گدی بحیثیت سفرنامہ نگار

الیاس احمد گدی بحیثیت سفرنامہ نگار

عبد القیوم انصاری 

خدا جب کسی کواعلیٰ مقام عطا کرتا ہے تو اس کے اندر کچھ ایسی صلاحیتیں بھی پیدا کرتا ہے کہ وہ دوسروں سے منفرد سوچتا ہے۔ چناں چہ ایسا ہی ایک شخص ہماری ادبی دنیا میں تھا جسے دنیائے ادب الیاس احمد گدی کے نام سے جانتی ہے۔ عام طور پر کسی بھی ادیب میں تخلیقی صلاحیت خداداد ہوتی ہے۔ لیکن یہ تخلیقی صلاحیت تب ہی ابھر کر سامنے آتی ہے جب کسی کو ادبی ماحول میسر ہوتا ہے۔ الیاس احمد گدی کے متعلق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے اندر جو بھی صلاحتیں تھیں وہ خدا کا ایک تحفہ ہی تھا اور کچھ ماحول کا بھی اثر تھا ورنہ الیاس احمد گدی کی جو ابتدائی زندگی رہی ہے وہ کسی قہر سے کم نہ تھی۔ انھوں نے پہلا افسانوی مجموعہ ”آدمی“کے بعد دوسرا مجموعہ ”تھکا ہوا دن“ ١٩٨٩ء ہے۔ اس کے علاوہ ان کے تین ناول ”زخم“ ١٩٥٣ء ”مرہم“١٩٥٤ء اور ان کا مشہور ناول ”فائرایریا“ ١٩٩٤ء منظر عام پر آچکے ہیں۔ ایک ادھورا ناول ”بغیر آسمان کی زمین“ ہے. اس ناول کا موضوع چھوٹا ناگپور کی زبوں حالی پر منحصر ہے اور یہ کئی قسطوں میں ذہن جدید دہلی سے شائع ہو چکا ہے۔ ایک کتاب ”مگد ھ پوری کاداستان گو“ اور ترجمہ شدہ کتاب ”بھنیشور ناتھ کی منتخب کہانیا ں“١٩٩٩ء ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے ایک سفرنامہ ”لکشمن ریکھا کے پار“بھی لکھا ہے جس کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔لکشمن ریکھا کے پار کا تنقیدی جائزہ لینے سے پہلے سفرنامہ کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔
سفرنامہ در اصل ایک بیانیہ صنف ہے۔ سفرنامہ میں چشم دید واقعات کو پیش کیا جاتا ہے۔ زندگی ایک سفر ہے جو اپنی ماں کے پیٹ سے شروع ہوتا ہے اورمرنے کے بعد ہی دم لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد بھی ہار نہیں مانتا بل کہ اس کے بعد بھی اس کی روح سفر کرنے لگتی ہے۔ انسان کی زندگی مسلسل تغیر و تبدل سے عبارت ہے۔ سفرنامہ نگار اپنے مقاصد اورمشاہدات کی تکمیل کے لیے بہت سی جگہوں کا سفر کرتا ہے۔ کبھی اس کا سفر معاشی جد وجہد کی تلاش میں ہوتا ہے تو کبھی وہ سیاسی نقطۂ نظر کو فروغ دینے میں سفر کرتا ہے۔ یا کبھی خدا کی بنائی ہوئی حسین وادیوں کی سیرو تفریح کے لیے مختلف ممالک کا سفر کرتا ہے۔ ان ہی چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ادیب کا سفر اکثر و بیش تر ادب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ادب کو پھیلانے اور ادبی افکار و نظریات کو ادب کے متلاشیوں تک پہنچانے کے لیے سفرنامہ رابطے کا کام کرتا ہے۔ سفر کرتے وقت انسان کو بہت سی پریشانیوں، مصیبتوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سفر کے ہی ذریعے انسان کی عقل و شعور میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ چناں چہ سیاح اپنے سفر میں اس ملک کی تاریخ وجغرافیہ اور وہاں کے لوگوں کے حالات دیکھتا ہے. یعنی سفر میں مختلف نشیب وفراز، اچھائیوں اور برائیوں کو دیکھنے پرکھنے کے بعد ضبط تحریر میں لاتا ہے۔ بنگلہ دیش کے سفر کرنے والوں میں الیاس احمد گدی کا نام بھی اہم ہے۔ ”لکشمن ریکھا کے پار“ الیاس احمد گدی کا سفرنامہ ہے جو ١٩٦٨ء کا سفرِ پاکستان ہے۔ یہ سفرنامہ کتابی صورت میں ١٩٩٨ء میں شائع ہوا۔
یہ بات بر حق ہے کہ سفرنامہ ایک بیانیہ صنف ہے جو کسی مخصوص تکنیک یا خاص اصول کی پابند نہیں ہوتی ہے۔ بل کہ اس تخلیقی عمل کا پورا انحصار مصنف کے ذوقِ جمال نیز میلانِ طبع اور ذہنی پس منظر پر ہوتا ہے۔ اگر مصنف بجائے خود ایک فن کار ہو تو اس کی تحریر میں اسلوبیاتی سطح پر فنی بالیدگی کا احساس ضرور ابھرتا ہے اور شاید تخلیقیت کا جو عنصر ایک فن کار کے یہاں زیادہ متاثر کن اور جاذب نظر آتا ہے، غیر فنکار کے یہاں اس کی غیر موجودگی تحریر کو محض واقعہ نگاری تک محدود رکھتی ہے۔ ادبی سفر اور غیر ادبی سفر میں یہی واضح فرق ہو سکتا ہے۔ ”لکشمن ریکھا کے پار“ ایک ایسا ادبی سفرنامہ ہے جس میں نو آبادیاتی دور کی بد حالیوں، ایسٹ انڈیا کمپنی کی قزاقی اور مرواڑیوں اور راجواڑیوں کی بد ترین سرمایہ داری کے نشانات کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ اس خطہ (بنگلہ دیش)کے تاریخی جبر کا خاکہ ہے۔ اس کے علاوہ تقسیم ہند کے بعد کی صورت حال، مشترکہ تہذیبی اقدار کی شکست وریخت، غیر بنگالیوں کا اس خط پر سماجی تسلط کا نقشہ ادبی پیرائے میں کھینچاگیا ہے:
”ڈھاکہ؟
کون سا ڈھاکہ۔۔؟
پال بادشاہوں کا پر شکوہ ڈھاکہ؟
یاسین راجاؤں کا امیر ترین ڈھاکہ؟
یا ان جولاہوں کا ڈھاکہ جنھوں نے پارچہ بافی کی صنعت کو فن کے درجے تک پہنچا دیا تھا کہ ململ کا پورا تھان ایک چھلے سے گزر جاتا تھا۔
یا ایسٹ انڈیا کمپنی کا ڈھاکہ جہاں تمام اشیا پر کنٹرول کرکے ایک طرف تو علاقائی صنعت کا گلا گھونٹا گیا اور دوسری طرف کھیپ کا کھیپ خام مال یورپ کی منڈیوں میں پہنچایا گیا۔ یا ان مارواڑیوں اور راجواڑوں کا ڈھاکہ کہ جنھوں نے سارے علاقے کو سرمایہ داری کے لہو میں ڈال کر نچوڑ لیا۔
یا اب ایوب خان کا ڈھاکہ جو۔۔۔۔“ ۱؎
اس خود کلامیہ میں خارج سے باطن کی طرف جومراجعت نظر آتی ہے وہ دل دہلا دینے والی ہے۔ مصنف چوں کہ ناولسٹ ہیں اور نچلے طبقے کے عوام پر کسی بھی طرح کے استحصال کے خلاف ہیں۔ لہٰذا بنگلہ دیش کی موجودہ صورت حال کو بیان کرتے وقت ان کے لہجہ میں احتجاجی اور مزاحمتی رمق نظر آتی ہے۔ مصنف جہاں ایک طرف اس خطہ کے پر وقار ماضی پر ناز کرتے ہیں، وہیں دوسری جانب فرنگی استبداد اور کمپنی کے ظلم و جبر کی داستانیں بھی یاد کرتے ہیں۔ اس پشیمانی اور اضطرابی کیفیت میں پاکستانی حکمرانوں کے آمرانہ رویوں سے مزید اضافہ ہوتا ہے۔ پیش نظر سفرنامہ الیاس احمد گدی کا تحریر کر دہ ہے جن کا شمار اردو اد ب کے ممتاز فکشن نگاروں میں کیا جاتا ہے۔ ان کی بیش تر تخلیقات سے ان کے مشاہدے اور مطالعے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سفرنامہ میں بالخصوص مذکورہ اقتباس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کس قدر اس خطہ کی تاریخ سے آشنا تھے۔ یہ سب انھوں نے محض تاریخی کتب پڑھ کر حاصل نہ کیا تھا بل کہ مختلف ادبی تصنیفات سے انھیں یہ فیض حاصل ہوا تھا۔ جیسا کہ سفر کرنے کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں:
”میں در اصل افکار کے ایڈٹیر صہبالکھنوی کے ”میرے خوابوں کے سر زمین“ کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ میں قرۃ العین حیدر کے اس ابوالمنصور سے ملنا چاہتا تھا۔۔۔اور میں دیکھنا چاہتا تھا یہ ستیہ پیر کے بھکتی گیتوں میں رچا بسا مرشد نغموں میں نہایا بنگال۔‘‘ ۲؎
چوں کہ آزادی اور تقسیم ہند کا زمانہ زیادہ دور نہ گزرا تھا اور یہ خطہ اب تک اس شورش زدگی اور پر انتشار ماحول سے آزاد ہونے کی جستجو میں تھا۔ اس لیے مصنف صورت حال کو دیکھ کر برطانوی استعماریت کو اس خطہ کی بدحالی کا سبب بتاتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ انگریز ی حکومت نے راجاؤں کو مکمل اختیار دیا تھا کہ وہ جس صورت چاہیں اس خطہ سے ذرائع کی پیدوار اکٹھا کریں جس میں انگریز کا بڑا فائدہ ہو۔ راجاؤں کے لیے کوئی آسان کام نہ تھا لہذا انھوں نے مارواڑیوں کی مدد لی جو متشددرویوں کے لیے بدنام تھے۔ بنگال نے بد ترین سرمایہ دارانہ نظام میں کیا کچھ کھویا اس کا مصنف کو ازحد افسوس ہے۔ لیکن تقسیم ہندکے بعد بنگال نے جس قدر سنبھلنے کی کوشش کی اس کی سراہنا بھی کرتے ہیں۔ اس دوران مختلف ادبی مراسم کو بھی دہراتے ہیں اور مشرقی و مٖغربی دونوں خطوں کی چپقلش کو مٹانے کا احساس پیدا کرتے ہیں:
”ٹرین کی کھڑکی سے باہر ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نیا ملک پھیلا ہوا تھا۔ مشرقی پاکستان، وہی خوب صورت زندہ، پر سکون بنگال جس کے بیچ میں ایک سیکڑوں میل لکشمن ریکھا کھینچ دی گئی تھی۔تم مشرق ہو،ہم مغرب ہیں۔ مگر تہذیب جو کسی جغرافیائی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتی اس لکیر کو بھی نہیں مانتی۔ سینکڑوں لوگ ادھر سے ادھر ہوتے ہیں۔ کتابوں کے حروف ہواؤں کے دوش پر کہاں سے کہاں پہنچتے ہیں۔کوئی نذر الاسلام بڑے پیار سے انھیں بتا رہا ہوتا ہے۔
اٹی تیتول تو لے غار بار بار قوبور۔۔۔۔“ ۳؎
سفرنامہ وہی کام یاب اور دل چسپ ہوتا ہے جس کا مصنف کسی مشاہداتی یا مطالعاتی تجربے سے گزرا ہو۔ ضروری نہیں کہ وہ جس خطے کا سفر کر رہا ہو اس سے متعلق وہ بھرپور تحقیق کرے بل کہ اس خطہ کی بنیادی اور اہم جغرافیائی معلومات ہی اس کی تصنیف کو تحریری سطح پر آراستہ کرنے کے لیے کافی اورمعاون ہیں۔ پیش مطالعہ سفرنامہ میں یہی خوبی قاری کو متاثر کرتی ہے۔ مصنف کامشاہدہ اور مطالعہ اکثر جگہوں پر پس منظر کی ایسی تفصیل بیان کرتا ہے جس سے صورت حال کی ترسیل و ابلاغ ممکن ہوتی ہے۔ سفرنامہ چوں کہ ایک واقعاتی بیانیہ ہوتا ہے لیکن دورانیہ میں فن کار کا ذہنی پس منظر اور جمالیاتی ذوق بھی بہت کام کرتا ہے۔ پھر فن کار اگر الیاس احمد گدی جیسا ہو تو ظاہر ہے فضا بندی اور منظر کشی جیسی مرصع کاری سے تحریر کا دمکنا لازمی ہے:
”وہ مناظر جو ٹرین پر سے دکھلائی دیتے تھے۔۔۔۔کھیتوں کی دھوپ میں جلے ہوئے چہروں پر جا بجا فکر، پریشانی اور افلاس کی تحریریں رقم تھیں. ستیہ جیت رے نے شاید اس سے بھی نزدیک ہو کر بنگال کو دیکھا تھا۔“ ۴؎

الیاس احمد گدی کے ذہنی پس منظر کی بات کی جائے تو کون نہیں جانتا کہ متوسط طبقے خصوصاً مزدور طبقے سے متعلق وہ کتنے حساس اور متفکر ہیں۔ اس کے علاوہ ان جگہوں پر ترقی کے فقدان اور حکومت کی عدم توجہی کے نتائج انھیں باربار اس کا تذکرہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مذکورہ اقتباس سے مصنف کے اسی ذہنی پس منظر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں ہر واقعہ اور منظر کی نوعیت واضح ہو جاتی ہے. اس کے علاوہ یہ منظر نگاری مصنف کی تخلیقیت پر دال ہے۔ کئی جگہوں کی مرقع نگاری کرتے ہوئے مصنف کا تخلیقی اور جمالیاتی ذوق جو لانیاں بھرتا نظر آتا ہے:
”ہم دیر تک بیت المکرم میں گھومتے رہے۔ نہایت جدید وضع کا مارکیٹ، نہایت جدید وضع کی دکانیں، جدید ترین سمانوں سے سجی دلہنوں کی طرح سنوری ہوئی تھیں. بیش تر سامان مغربی پاکستان کا تھایا غیر ملکی۔امریکی سامانوں کے علاوہ چینی سامانوں کی بھی بھرمار تھی۔ پہلی بار چین کے بنے ہوئے کاروں اور ٹرکوں کے ٹائیر دیکھنے، پہلی بار ہی چین کی دوائیں بھی دیکھنے کو ملیں (واللہ ہم تو سمجھتے تھے کہ وہاں بس دندان ساز ہی رہتے ہیں) جاپانی کپڑوں کی خصوصا جاپانی سلک کی بہتات تھی. کپڑے کی دکانوں میں ٹنگے ہوئے سلک کے رنگ برنگ کے دو پٹے بے حد جاذب نظر معلوم ہوتے۔“ ۵؎
الیاس احمد گدی کی منظر نگاری کا یہ جدا گانہ وصف ہے کہ وہ کسی شئے کی منظر نگاری مابعد الطبیعاتی یا تصوراتی سطح پر پیش نہیں کرتے بل کہ اسکی جدلیاتی وضع کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ مذکورہ بالا اقتباس سے ضرور اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ جہاں ایک طرف مسجد اور اس کے گرد و نواح کا عکس کھنیچا گیا ہے۔وہیں دوسری جانب انگریزی حکومت کے ہاتھوں اس بے مثل تہذیبی و تمدنی ورثے کی لوٹ کا نوحہ ماضی کے کرب کو تازہ کرتا ہے۔ زبان کسی بھی قوم کا تشخص ہوتی ہے۔ اس کی جڑیں اس قوم کے کلچر اور تہذیب سے استوار ہوتی ہیں۔ اب جس قوم سے اس کا تشخص ”زبان“ چھینا جائے یا اسے ثانوی درجہ دے کر کسی پرائی زبان کو جبرًا مسلط کردیا جائے اور وہ قوم اگر سراپا احتجاج نہ ہو تو لازم ہے کہ تہذیبی انحطاط سے دو چار ہوگی۔ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) بھی ایسے ہی تہذیبی بحران کا شکار ہوا ہوتا جب پاکستان کی آمرانہ قوتوں نے جبراً اردو کو اس خطہ کی سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ سنایا تھا۔ لیکن بنگال والے وقت پر بیدار ہوئے اور اس شرپسندی کے خلاف اس شدومد سے احتجاج کیے کہ کئی جانی قربانیوں کے بعد بالآخر پاکستانی جبر کی زنجیریں ٹوٹ گئیں۔ بنگالیوں کو ان کی اصل شناخت واپس مل گئی۔ الیاس احمد گدی نے اس تاریخ ساز واقعہ کا نقشہ یوں کھینچاہے:
”یہ شہید مینار ہے۔
شہید مینار؟کون شہید ہوا تھا یہاں؟
ایوب ہی کے دور حکومت میں بنگالیوں پر اردو زبر دستی تھوپے جانے کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں سے چار طالب علم یہاں پولس کی گولیوں سے شہید ہوئے تھے۔
اچھا پھر؟ میں نے تعجب سے پوچھا۔
پھر کیا؟ کون کہیں رائیگاں جاتا ہے۔ حکومت کو اردو ہٹا لینا پڑا۔ اس جگہ بنگالیوں نے یہ عظیم الشان مینار تعمیر کرایا۔ اور اب ہر سال بنگالی شہیدڈے مناتے ہیں۔ بہت بڑا جلوس نکالتے ہیں۔ اس روز ان کا غم وغصہ اور جوش و خروش دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ اس دن یہاں کہیں اردو کی تحریر نظر آتی ہے اس پر سیاہی پوت دی جاتی ہے۔بل کہ دکانوں کے سائن بورڈ بھی جو اردو رسم الخط میں مل جائیں تو اس کو بھی سیاہ کر دیا جاتاہے۔اس دن تمام بہاری اپنے علاقوں تک محدود رہتے ہیں۔ اور شہر کا بیش تر کاروبار معطل ہوجاتا ہے۔
میں نے کہا۔بھئی۔یعنی زبان کا مسئلہ……..“ ۶؎
بحیثیت مجموعی(لکشمن ریکھا کے پار)سفرنامہ نیم افسانوی بل کہ ناولیاتی بیانیہ میں مرقوم ایک بہترین معروضی ادبی سفرنامہ ہے۔ اس سفرنامہ کی ایک خوبی جہاں اس کا نیم افسانوی اسلوب ہے وہیں دوسری اور اہم خوبی اس کی وہ معروضیت ہے جو شاذ ہی مشرقی پاکستان پر لکھے گئے کسی دوسرے سفرنامے میں نظر آئے گی۔ اس کی ایک وجہ الیاس احمد گدی کا وہ ذہنی پس منظر ہے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لکشمن ریکھا کے پار فنی لوازمات سے پُر ہے اور اس سفرنامہ کو جتنی داد و تحسین ملنی چاہئے تھی اتنی نہیں مل سکی ہے۔ اس لیے اس سفرنامہ پر تنقیدو تحقیق کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

حواشی:۔ ۱۔ لکشمن ریکھا کے پار،الیاس احمد گدی، ایرانین آرٹ پرنٹرس،دہلی ١٩٩٨ء ص ٥٦
۲۔ ایضا ً۔۔۔۔، ص ۳۱۔۲۱
۳ ایضا ً۔۔۔۔، ص ٥٠
۴۔ ایضا ً۔۔۔۔ ص ١٨
۵۔ ایضا ً۔۔۔۔ ص ٦٧
۶۔ ایضاً۔۔۔۔ ص ٨٩

ABDUL QAYUM ANSARI
M.PHIL(URDU)RESEARCH SCHOLAR
UNIVERSITY OF HYDERABAD
9971620663
aqayum169@gamil.com

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے