غزل کا خوش فکر اور خوش آواز شاعر: جمیل اختر شفیق

غزل کا خوش فکر اور خوش آواز شاعر: جمیل اختر شفیق

محمد اشرف یاسین
(ریسرچ اسکالر، دہلی یونی ورسٹی)

جمیل اختر شفیق (1987ء) ایک خوش فکر اور خوش الحان شاعر ہیں۔ اِن کی شاعری کی عمر 19 سال ہے۔ اِن کے اشعار مشاعروں اور اخبارات و رسائل جیسے مختلف ذرائع سے ہم لوگوں تک مسلسل پہنچتے رہے ہیں۔ اب تک ان کے دو شعری مجموعے منصۂ شہود پر آچکے ہیں۔ ان کے پہلے مجموعے کا نام "دھوپ کا مسافر” ہے۔ یہ 2018ء میں شائع ہوا تھا، جس میں کل 122 غزلیں ہیں، جب کہ دوسرا شعری مجموعہ "رقصِ سفر” ہے اور اس میں تقریباً 170 غزلیں ہیں۔
جمیل اختر شفیق تقریر و تحریر، شعر و سخن، صحافت و خطابت جیسی کئی متنوع صلاحیت کے حامل اور رنگا رنگ طبیعت کے مالک ہیں۔ ان کے شعری مجموعے "رقصِ سفر" میں شاعری کی بہت ساری خوبیاں نہ سہی، لیکن پھر بھی ان میں ندرت اور کلام میں پختگی کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ انھوں نے طویل بحروں میں اشعار کہے ہیں اور مختصر بحروں میں بھی، ان کی بعض غزلیں، غزلِ مسلسل کے زمرے میں شامل کی جاسکتی ہیں۔ طبیعت میں موزونیت کی وجہ سے ان کے کلام میں فطری پن اور آمد کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ مترنم اور خوش گلو آواز سے مالا مال ہونے کی بنا پر ان کے اشعار میں موسیقیت پیدا ہوگئی ہے۔ ان کی شاعری میں کئی خصوصیات اور متعدد موضوعات پائے جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے بعض اشعار کے مضامین براہِ راست قرآن مجید سے حاصل کیے ہیں۔ جیسے :
∆ سورۃ الحُجُرات آیت نمبر 12 کے پیغام کو انھوں نے اپنے اس شعر میں پیش کیا ہے۔
بھائی کا مردہ گوشت بھلا کون کھائے گا
بچتے ہیں جان بوجھ کر وہم و گمان سے
∆ سورۃ الضُحیٰ آیت نمبر 10 کو اس شعر میں پیش کیا ہے۔
شان سے تم جیو خوب پھولو پھلو، اک نصیحت مگر یاد رکھنا شفیق
ہاتھ پھیلا دے گر سامنے کوئی تو، اپنا چہرہ برا سا بنانا نہیں
∆ شفیق نے متقدمین شعرا سے بہت استفادہ کیا ہے، ان کے اشعار بھی اگر ہمارے سامنے ہوں تو دونوں میں موازنہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ جیسے:
ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکرِ پریشاں کہاں کہاں میری
میر تقی میر
ترا خیال مجھے رات بھر اکیلے میں
طرح طرح سے پریشان کرتا رہتا ہے
جمیل اختر شفیق
دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجیے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے
ندا فاضلی
دل کا ملنا تو تھوڑا مشکل ہے
ہاں مگر ہاتھ ہم ملالیں گے
جمیل اختر شفیق
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
اسرا الحق مجاز
سلجھا سکوگے کیسے زمانے کے پیچ و خم
جب زلف ان کی تم سے سنواری نہ جاسکی
جمیل اختر شفیق
کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا، ٹوٹ کے برسا پانی
آرزو لکھنوی
بادل سے کیسے بھیک مَیں بارش کی مانگتا
زلفیں جو اس نے کھول دیں، برسات ہوگئی
جمیل اختر شفیق
رخصتِ جاناں ایک قیامت، اس پہ قیامت مجھ سے اجازت
آنکھ میں آنسو، لب پہ دعائیں، اُف رے محبت، ہائے جوانی
خمار بارہ بنکوی
وقتِ رخصت وہ رو رہے تھے مگر
اشک آنکھوں سے بھی گِرا ہے کیا
جمیل اختر شفیق
مجھ کو تو ہوش نہیں، تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتےہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا
جوش ملیح آبادی
پوچھتا ہے جو کوئی میری تباہی کا سبب
خود بہ خود نام تیرا منہ سے نکل جاتا ہے
جمیل اختر شفیق
∆ جمیل اختر شفیق کی شاعری میں جابجا طنزیہ لب و لہجہ نظر آتا ہے۔ جیسے:
گلے تپاک سے ملنے سے تم بچو ورنہ
اسے بھی ملک کے مفتی حرام کردیں گے
وہ امامت کرے گا کیا میری
وہ تو قبلہ بدلتا رہتا ہے
زباں تسبیح میں ڈوبی، نشانی سر پہ سجدوں کی
مگر کیا بات ہے، ذہنوں سے عریانی نہیں جاتی
∆ جمیل اختر شفیق کا محبوب ترین استعارہ "سفر" معلوم پڑتا ہے، کیونکہ ان کے دونوں مجموعوں میں یہ لفظ شامل ہے۔ "دھوپ کا مسافر" اور "رقصِ سفر"، اسی کی مناسبت سے چند اشعار بھی ملاحظہ ہوں۔
وہ سادہ دل ہے مگر آج اک مسافر سے
لڑی نظر تو لڑائی سمجھ میں آئی ہے
کسی بھی حال میں ذوقِ ہنر نہیں چھوڑا
تھکن کے خوف سے میں نے سفر نہیں چھوڑا
میں کسی اور ہی دنیا کا مسافر ہوں شفیق
مت سنایا کرو رہ رہ کے شرابی باتیں
∆ جمیل اختر شفیق نے بالکل نئے موضوعات پر بہت اچھے اشعار کہے ہیں۔
کتنے حسین دور میں جیتے ہیں ہم شفیق
اُن کے ملے بغیر ہی ہر بات ہوگئی
دل دھڑکنے کا کوئی وقت معین ہے کہاں
نصف شب میں بھی تجھے کال لگا سکتا ہوں
دیکھ کر آن لائن ہی مجھ کو
اس نے لفظوں کے تیر مارے تھے
جی میں آیا تو یونہی کال کیا ہے میں نے
یاد کرنے کا بھی کیا کوئی سبب ہوتا ہے
∆ جمیل اختر شفیق کی تخلیقی کائنات کو سمجھنے میں معاون میرے چند پسندیدہ اشعار یہ ہیں۔
جانے کس عہد میں بھیجا ہے، خدا نے مجھ کو
لوگ جینے کے تصور سے ہی مر جاتے ہیں
شفیق اس عہد کی گندی سیاست سے الگ رہنا
یہاں ہر موڑ پر ابلیس کے سردار بیٹھے ہیں
پاکیزہ روایت کی ادا تک نہیں آتی
اس عہد کی پریوں کو حیا تک نہیں آتی
بچوں کی فیس، ماں کی دواؤں کے واسطے
کس درجہ بدحواس ہے دفتر کا آدمی
جلانا پڑتا ہے خون سارا، تو جاکے ملتی ہے تھوڑی عزت
نہیں ہے آسان میرے بھائی، شفیق رہ کر جمیل ہونا
مجھے ہے تجھ سے محبت اسے غنیمت جان
یہ دل دھڑکتا نہیں یار ہر کسی کے لیے
∆ جمیل اختر شفیق کے دونوں شعری مجموعوں کے بالاستیعاب مطالعے سے مجھے جن چند کلیدی الفاظ کا علم ہوا وہ یہ ہیں۔ دل، دوست، دشمن، یار، نئی تہذیب، چراغ، رقص، رات، موت، جنازہ، یاد، محبت، حسن، عشق، حسین، وفا، پیار، زلف، شاید، خیال، سورج، جنوں، خواب، سمندر، سینہ، درد، آنکھ، روٹی، زندگی، خود، خود دار، بچھڑنا، روٹھنا، ہجر، موسم، اشک، دنیا، آئینہ، اجنبی، بچہ، ماں، انا، خمار، سفر، مسافر اور عروج وغیرہ، ان میں بعض الفاظ تو بالکل نئے ہیں جو انھیں دوسرے شعرا سے ممتاز کرتے ہیں۔
∆ اس مجموعے میں مجھے کئی جگہ پروف ریڈنگ کی خامیاں نظر آئیں، جیسے:
صفحہ نمبر 34 کے پانچویں شعر کے دوسرے مصرعے میں لفظ "کے" چھوٹ گیا ہے۔
کچھ اتنے سخت طبیعت تھے دیکھنے والے
چراغ بجھتا رہا اور ہوا کے ساتھ رہے
صفحہ نمبر 90 کے چوتھے شعر میں "کتابی" کی جگہ "کتابیں" ہوگیا ہے۔
پھر وہی ذکر محبت کا، وہی پیار کا راگ
چھوڑو رہنے دو یہ ساری ہیں کتابی باتیں
صفحہ نمبر 130 پر موجود پہلے شعر میں "ہوں" کے بجائے سہواً "ہے" ہوگیا ہے۔
میں رونے لگتا ہوں جس وقت آدھی راتوں میں
ہزاروں خواب مجھے چپ کرانے لگتے ہیں
صفحہ نمبر 182 پر درج پانچویں شعر کے دوسرے مصرعے میں درست لفظ "بھیگی" ہونا چاہیے، جب کہ یہاں "بھگی" ہوگیا ہے۔
اشکوں کے کلیجے میں کہیں ٹیس نہ ابھرے
بھیگی ہوئی آنکھوں کو مسلنا ہے، غلط بات
صفحہ نمبر 186 پر تحریر دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں درست لفظ "جھنجھلائے" ہے، جو کہ جھنجلائے ہوگیا ہے۔
غصے میں جھنجھلائے ہوئے واٹس ایپ سے
لکھ لکھ کے میرا نام اڑانے کا شکریہ
صفحہ نمبر 206 پر لکھے چوتھے شعر کے پہلے مصرعے میں "بہت جلد کا خفا ہوں" کے بجائے "بہت خفا ہوتا ہوں" ہونا چاہیے.
دل کا بچہ ہوں، بہت جلد خفا ہوتا ہوں
روٹھ بھی جاؤں کبھی گر تو مناتے رہنا
صفحہ نمبر 225 پر درج دوسرے شعر کے دوسرے مصرعے میں درست لفظ "کوئی" ہے، لیکن یہاں "کوئ” ہوگیا ہے۔
آخری سانس تک مرے جیسا
کوئی مل جائے تو خبر کرنا
صفحہ نمبر 234 پر درج دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں درست لفظ "کوئی" ہے، لیکن یہاں بھی "کوئ” ہوگیا ہے۔
فاتح کی حیثیت سے کوئی تیسرا اٹھا
دو لوگ اپنی اپنی اَنا پر اَڑے رہے
∆ جمیل اختر شفیق کے اشعار میں فارسی اصطلاحات اور فارسی تراکیب ناپید ہیں۔ مجھے سخت تعجب ہے کہ روایتی اصطلاحات، الفاظ اور محاورات کے استعمال کے بغیر آپ نے آسان زبان میں اچھی اور معیاری شاعری کیسے کر ڈالی؟ آپ نے ہندی کے مروجہ الفاظ سے غزل کو سنوارا ہے، کئی نئے الفاظ یعنی غیر غزلیہ الفاظ کو بھی آپ نے اپنے اشعار میں برتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ان کی شاعری میں مستعمل الفاظ سے قاری کو غرابت کا احساس بالکل نہیں ہوتا۔
زندگی شانتی سے گزرے گی
مسئلے جو ہوں در گزر کرنا
میں کہ بہتا رہا محبت میں
ایسے کچھ چاہتوں کے دھارے تھے
تھوڑی مہلت اگر دے سنبھل جانے کی، غم کے بندھن سے آزاد ہو کر شفیق
تیرے خوابوں کی تاریک راتوں میں بھی، جگنوؤں کی طرح جگمگاتا رہوں
جمیل اختر شفیق کی شاعری میں شعری لوازمات کی کمی کھٹکتی ہے۔ علم بیان یعنی تشبیہ، استعارہ، مجازِ مرسل اور کنایہ، علم بدیع یعنی صنائع لفظی اور صنائع معنوی وغیرہ کے اشعار پورے مجموعے میں تلاشِ بسیار کے باوجود بھی کم کم ہی ملتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ سب شعری لوازمات ہیں، ان صنعتوں کی بہتات اور کثرت شاعری کو مجروح کر دیتی ہے۔ لیکن ان لوازمات کی عدم موجودگی بھی شاعری کی شعریت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ عناصر اگر ان کی شاعری میں مزید موجود ہوتے تو بلاشبہ اِن میں مزید معنویت اور تہہ داری کی توقع کی جاسکتی تھی اور ان کی شاعری کلاسیکی روایت کے قریب قریب تک پہنچ سکتی تھی۔
"رقصِ سفر" پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی جاننا چائیے کہ جمیل اختر شفیق اپنی شاعری سے کیا کام لینا چاہتے ہیں۔ یہ اپنے پہلے مجموعے میں لکھتے ہیں۔
"میں چاہتا ہوں کہ میری شاعری پڑھ کر کسی نافرمان اولاد میں اگر ماں باپ کو پلکوں پہ بٹھانے کا جذبہ جاگ جائے، نئی نسل میں اعلیٰ قدروں کی پاسبانی کا جنون پیدا ہوجائے، ظالمِ وقت کی آنکھوں میں مظلوم کی بے بسی پہ اشک تیرنے لگے، بچے بزرگوں کو عزت دینے لگیں، بوڑھے بچوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھیرنے لگیں، اجڑتا گھر آباد ہوجائے، آخری سانس لیتے سماج میں حیاتِ نو کی لہر پیدا ہو جائے، دبے کچلے لوگ بھی سسٹم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنے لگیں اور دم توڑتی کراہتی انسانیت کو آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع مل جائے، تب مجھے لفظوں کی بسائی گئی یہ دنیا بہت حسین معلوم ہوگی۔
تم کو دیکھوں تو یہ لگے مجھ کو
زندگی سچ میں خوب صورت ہے"
میری دعا ہے کہ خداوند قدوس جلد از جلد ان کی یہ خواہش پوری کرے۔ بہ قولِ اقبال
ہر لحظہ نیا طُور، نئی برقِ تجلّی
اللّٰه کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:تحریک آزادی سے وابستہ علما کی اردو خدمات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے