انہونی

انہونی

غضنفر
سبھی حیران ہیں آنکھیں
کہ سورج شب میں اُگ آیا
اندھیرا روشنی لایا
ہوا اس گھر میں آ پہنچی
جسے بھرنے کی خواہش تھی تعفّن سے
جہاں سانسوں میں بھرنا تھا گھٹن اس کو
یہ انہونی
جو ہونی دِکھ رہی ہے سامنے سب کے
کہ جس میں حیرتوں کے رنگ بکھرے ہیں
کہ جس میں منظرِ کمیاب ابھرے ہیں
تنی ہے سات رنگوں کی دھنک جس میں
کہ جس میں رنگ کے ہمراہ
کرنوں کے نظارے ہیں
کئی روشن اشارے ہیں
کہ جن کرنوں کا مقصد ہے
سیاہی دور ہو جائے
بصیرت سے نظر معمور ہو جائے 
جو پتھر ہے نگاہوں میں وہ چکنا چور ہو جائے
سکوں تن من کو مِل جائے
دلوں کا زخم سِل جائے
رگ و پے سے ہر اک کانٹا نکل جائے
کدورت کی جمی جو برف ہے
ساری پگھل جائے
دماغوں سے سبھی کی گانٹھ کھل جائے
دلوں سے میل دُھل جائے
نہ کوئی زہر جسم و جان میں بوئے
نہ کوئی زندگی اپنی کہیں کھو ئے
نہ سینے میں سناں اترے
نہ ہونٹوں پر فغاں ابھرے
سبھی آرام سے سوئیں
سنہرے خواب اپنی آنکھ میں بوئیں
یہ انہونی بہت ہی خوب صورت ہے
ہمارے شہر کو اس کی ضرورت ہے
کہ ہر جانب قیامت ہے
نحوست ہے، مصیبت ہے، اذیت ہے
کہ ہر گوشے میں ظلمت ہے،
ہر اک کوچے
میں نفرت ہے، کدورت ہے، عداوت ہے
بھیانک قہر برپا ہے
تباہی کا کوئی سیلاب ہے
لہروں کا ریلا ہے
یہ انہونی کہ جس میں نور ہے
خوشبو ہے، رنگینی ہے، رونق ہے
مگر حیرت دماغوں میں
کئی باتیں بھی لاتی ہے
کئی پُرفکر اندیشے اٹھاتی ہے
یقیں آتا نہیں کیوں کر اجالا
تیرگی کے پاس آیا ہے
کسی پتھر میں کیسے موم کا دریا سمایا ہے
کہیں یہ پیش خیمہ تو نہیں سیلاب کا کوئی
بہت ممکن ہے ان اقدام میں اخلاص پنہاں ہو
کوئی سچّا ہی جذبہ ہو
مگر دل نے جو بھوگا ہے
یقیں کرنے نہیں دیتا
***
غضنفر کی گذشتہ تخلیق :چِپ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے