میں موت سے زیادہ زندگی پر یقین رکھتا ہوں: شفیق الحسن

میں موت سے زیادہ زندگی پر یقین رکھتا ہوں: شفیق الحسن

خبروں کے بےنظیر محقق شفیق الحسن صاحب سے ایک ملاقات

انٹرویو نگار: علیزے نجف 
 سرائے میر اعظم گڑھ

دنیا کا کم و بیش ہر شعبہ ٹیکنالوجی کے بغیر ادھورا ہے۔ ٹیکنالوجی ایک ایسی تخلیق ہے جو انسان کی صدیوں کی ریاضت کا ثمر ہے۔ انسان جو کہ ہمیشہ ہر دور میں کسی نہ کسی تلاش و جستجو کے ساتھ جیتا رہا ہے اس نے کبھی قناعت کرنا نہیں سیکھا. کیوں کہ یہ اس کی فطرت میں نہیں۔ بہتر سے بہتر طرز زندگی کی تلاش اس کی سرشت میں ہے۔ اس فطرت کے تحت اس نے موجودہ دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اور اس کی وجہ سے ذاتی، معاشرتی اور ملکی زندگی کا نقشہ ہی بدل کے رہ گیا ہے. یہ ہمہ جہت تبدیلی، یہ انقلاب انسانوں کے لیے نعمت عظمی سے کم نہیں۔ قدرت نے ہمارے اندر جو پوٹنشیل رکھا ہے سب کچھ اسی کے تحت وجود پذیر ہوا ہے۔
ٹیکنالوجی نے ہر شعبے کو اسمارٹ شعبے میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس نے ذرائع  ابلاغ کے شعبے میں بھی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے. معلومات اب پرنٹنگ کے صفحات سے ہوتے ہوئے الکٹرانک اور سوشل میڈیا کی اسکرینوں تک پھیل چکی ہیں۔ انسان یقینا اب سے پہلے کبھی اتنا ہمہ وقت باخبر اور آگاہ نہیں رہا ہوگا۔ زندگی میں آسانیوں کے آجانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ اب مسائل ناپید ہو جائیں گے۔ یہ دنیا جو مسائل و وسائل کی آماجگاہ ہے ہمیشہ ان دونوں کے ساتھ اس کا نظام چلتا رہے گا. مسائل کی نوعیت تو بدل سکتی ہے لیکن اس کا کلی سدباب ناممکن ہے۔
ایسے میں جب کہ ہر طرف معلومات کا طوفان بپا ہے لوگ بنا دقت اور پریشانی کے پہلے سے زیادہ حالات حاضرہ اور اس کے سوا دوسرے حقائق کے ساتھ آگاہ رہتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں. وہیں اس سہولت نے جھوٹ اور سچ کو اس طرح خلط ملط کر دیا ہے کہ سچ کو مشکوک سمجھا جانے لگا ہے اور جھوٹ کی پذیرائی ہونے لگی ہے. وہ آسانی جو لوگوں کے لیے رحمت تھی کہیں نہ کہیں زحمت بھی بنتی نظر آ رہی ہے۔ یہ ایک چیلنج ہے جس سے نمٹنا از حد ضروری ہے. اس کے لیے تعلیم کے ساتھ اصول و ضوابط کو بھی سیکھنا ضروری ہے۔ انسان جو کہ مختلف قسم کی نفسیات کا مرکب ہے کبھی وہ مشکل حالات کو سر کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھتا اور کبھی آسانیوں کا اس قدر شیدا ہو جاتا ہے کہ بنیادی اصولوں کی پابندی کو بھی بار گراں خیال کرنے لگتا ہے. ایسا ہی کچھ اس ٹیکنالوجی سے ملنے والی آسانیوں کے نتیجے میں بھی پیدا ہوا. لوگ اب بنا کسی تصدیق اور سوچ وچار کے ہر طرح کی خبروں کو بلاتامل فارورڈ کر دیتے ہیں. اس طرح ہم نے جھوٹ کی پرورش خود کر کے اپنے لیے جہالت زدہ ماحول کا انتخاب کر لیا ہے جو کہ کسی المیے سے کم نہیں۔
کہتے ہیں حالات خواہ کیسے بھی ہوں امید کی کوئی کرن کہیں نہ کہیں سے نظر آ ہی جاتی ہے، جو اندھیروں میں شگاف ڈال دیتی ہے. ایسی ہی روشنی کی ایک کرن شفیق الحسن صاحب ہیں، جنھوں نے معاشرے میں پنپنے والے جھوٹ کے اس ناسور کا قلع قمع کرنے کا عزم مصمم کیا ہوا ہے۔ وہ لوگوں کے عدم تعاون اور ان کی جہالتوں کا شکوہ کیے بغیر اکیلے ہی اس منزل کو سر کرنے نکل کھڑے ہوئے ہیں. پچھلے پانچ سالوں سے وہ بلاتکان اس فرض منصبی کو انجام دے رہے ہیں. انھوں نے وقت کی کمی کی شکایت نہیں کی. جھوٹ کی طاقت کا واویلا نہیں کیا. بس اپنے فرض کی ادائیگی میں کوشاں ہیں. وہ خبروں کی تصدیق کر کے وقت کی پابندی کے ساتھ اسے نشر کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے اس سفر کا آغاز 24 جون 2017 انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کی اسکیننگ کرتے ہوئے کیا جو 15 سالہ حافظ جنید کی ہجومی تشدد کے افسوسناک اور دردناک واقعے پہ مبنی تھا۔ معاشرے میں بیشتر خبریں صرف تعصب کی غرض سے پھیلائی جاتی ہیں. شفیق صاحب نے وسائل اور تعاون کی پرواہ کیے بغیر ان خبروں کی تفتیش و تحقیق کا کام شروع کیا. انھوں نے فیک نیوز آرمی کے مقابلے میں اپنے حوصلے کو بلند سے بلند تر کر لیا. ان کے حوصلوں کی ہی کرامت ہے کہ آج ان کی اس کوشش اور ان کی شخصیت کو ہر جگہ عزت و تکریم سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پچھلے 36 سالوں سے مارکیٹنگ، ایڈورٹائزنگ اینڈ پبلشنگ کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں. 
1987 میں انھوں نے اسکائی اڈورٹائزنگ اینڈ مارکیٹنگ قائم کی جب اردو دنیا میں شاید ہی کوئی پروفیشنل ایڈ ایجنسی تھی۔ بعد میں یہ ایجنسی اردو دنیا سے ملک کی پہلی انڈین نیوز پیپرز سوسائٹی (INS) کی تسلیم شدہ اشتہار ایجنسی بن گئی. اتنی خوبیوں کے مالک شفیق الحسن صاحب کے سامنے میں آج بطور انٹرویو نگار کے موجود ہوں۔ وہ سارے سوالات جو ان کی شخصیت کو دیکھ کر ذہن میں ابھرتے ہیں میں ان سوالات کی طرف بڑھتی ہوں اور کوشش کرتی ہوں کہ اس انٹرویو میں ان کی پوری شخصیت کا احاطہ کر سکوں اور آپ قارئین کو ان کی شخصیت کے کم و بیش تمام گوشوں سے متعارف کروا سکوں۔

علیزے نجف: سب سے پہلے آپ ہمیں خود سے متعارف کروائیں اور یہ بتائیں کہ آپ کا تعلق ہندستان کے کس خطے سے ہے اور اس خطے یا ماحول کی کس خصوصیت نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا اور کیسے؟
شفیق الحسن: میرا تعلق یوپی کے ایک چھوٹے سے شہر گنج دندواڑہ سے ہے۔ کاس گنج ضلع کا یہ تاریخی قصبہ ہندستان کے اسی خطہ میں واقع ہے جہاں امیرخسرو پیدا ہوئے۔ پٹیالی (خسروکی جائے پیدائش) یہاں سے صرف سات کلو میٹر ہے۔ تلسی داس کی جائے پیدائش سوروں بھی اسی ضلع میں ہے۔ خطے کے لوگ سیدھے سادے اور محنتی ہیں، محدود وسائل کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا انحصار ذراعت پر تھا۔ یہ چھوٹا ساقصبہ کپڑے کی صنعت (ہینڈلوم اور پاورلومز) کے لیے مشہور ہے۔ اب بہت سے لوگوں کی زندگی میں خوش حالی نظر آنے لگی ہے۔ لوگ پہلے سے بہتر کام کررہے ہیں، زرعی پیداوار سے آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے، جائیداد کی قیمت بڑھی ہے اور نوجوان بڑے شہروں میں جاکر اچھا کام کر رہے ہیں اور پیسے گھر بھیج رہے ہیں۔
اپنے بچپن اور نوخیزی میں میں نے یہاں بہت سی چیزیں سیکھیں جو بعد میں دہلی میں میری جدوجہد کے دوران واقعی میرے کام آئیں۔ بچپن کی کنڈیشننگ (جبلت) کی وجہ سے میں کبھی بھی گلیمر اور میٹروپولیٹن زندگی کی چمک دمک سے متاثر نہیں ہوا جو ان اقدار سے میل نہیں کھاتی جو والدین سے میرے اندر منتقل ہوئی ہیں۔ میری والدہ مرحومہ( زاہدہ بیگم) صبر و شکر کی علامت تھیں اور والد محترم (جناب ظہور حسین) ایک بےلوث سماجی کارکن تھے۔ وہ ہر قیمت پر دوسروں کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتے، تعلیم کی اہمیت پر زور دیا کرتے اور کہتے کہ صرف پیسے کے پیچھے مت بھاگو، محنت کرو، سیکھتے رہو اور دوسروں سے بہتر کچھ کرو، پیسہ، شہرت، عزت، ہر چیز خود بہ خود تمھارے پیچھے آئے گی۔ 88 برس کی عمر میں وہ آج بھی لوگوں کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
علیزے نجف : آپ کے بچپن میں آپ کے اردگرد کا ماحول کیسا تھا؟ آپ کی تعلیم و تربیت میں بنیادی کردار کس نے ادا کیا؟ ان کے انداز تربیت کی سب سے اچھی بات کیا تھی اور کس چیز نے آپ کو آپ کے بچپن میں سب سے زیادہ تنگ کیا؟
شفیق الحسن: جیسا کہ میں نے عرض کیا گھرکا ماحول سادگی اور شرافت کانمونہ تھا، قصبہ کے لوگ سیدھے سادے اور محنتی تھے، زندگی کی رفتار آج کی طرح تیز نہیں تھی، سماج میں وہ زہر ابھی نہیں پھیلا تھا جو 80 کے عشرے کے اواخر میں پھیلنا شروع ہوا، بزرگوں اور نوجوانوں میں علم و ادب کا ذوق تھا، شرح خواندگی گرچہ بہت کم تھی لیکن تعلیم کی قدر تھی اور قصبے میں اس وقت کے نسبتاً اچھے اسکول کالج بھی تھے۔ گنج ڈونڈوارہ کا احمد رشید شیروانی اسکول جہاں دسویں جماعت تک میری تعلیم ہوئی، قصبہ کا تاریخی مدرسہ اوراس میں جنتا اسکول (اب امیر خسرو اسکول) اور دوسرے اسکول کالج میں باوقار و باصلاحیت اساتذہ موجود تھے جو قوم و ملت کے مستقبل کےتعلق سے سنجیدہ اور فکرمند تھے۔ ابھی تعلیم کمرشیلائز نہیں ہوئی تھی لیکن میرے والد کے لیے ہماری اسکول کی فیس ادا کرنا آسان نہیں تھا، ہماری فیملی پر بہت زیادہ مالی بوجھ تھا۔ یہ 1986 کا سال تھا جب مجھے تعلیم چھوڑنی پڑی، اسکول اور آبائی شہر چھوڑ کر بہتر مواقع کی تلاش میں گھر سے نکلنا پڑا تاکہ میں خاندان کی کفالت میں والدین کی مدد کر سکوں اور اپنی تعلیم بھی جاری رکھ سکوں۔ یہ آسان نہیں تھا، میرے والد پر بینک کے قرضوں کی بھاری رقم اور سود ادا کرنے میں ان کی ناکامی وہ چیز تھی جس نے مجھے لڑکپن میں سب سے زیادہ اذیت دی تھی لیکن یہی چیز میری طاقت بھی بن گئی۔ اسی سے مجھے عملی زندگی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور خاندان کے لیے کچھ کرنے کی ترغیب ملی۔
علیزے نجف : آپ نے تعلیم کہاں تک حاصل کی اور اسکولی تعلیم نے آپ کی شخصیت میں سب سے بڑی کیا تبدیلی پیدا کی اور بعد کی عملی زندگی نے آپ کی ذہن سازی میں کیا کردار ادا کیا اور کیسے؟
شفیق الحسن: میں نے 1996 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے سیاسیات میں ایم اے کیا اور 1998 میں بھارتیہ ودیا بھون سے ’مارکیٹنگ اینڈ ایڈورٹائزنگ‘ میں پی جی ڈپلوما کیا۔
میرے آبائی وطن میں میری اسکولی تعلیم نے مجھے ایک مخصوص نظام اخلاق و اقدار میں ڈھالا اور ایک شخص کے طور پر مجھے نیچر( فطرت) سے، لوگوں سے اور حالات سے صبروتحمل کے ساتھ سیکھنے کاذہن دیا۔ مثال کے طور پر’’نیچر (فطرت) کبھی بھی جلدی میں نہیں ہوتی، پھر بھی سب کچھ بالکل ٹھیک ہوتا رہتا ہے‘‘۔ ’’میں آپ کے لیے ابھی ناقابل توجہ ہوں تو ایسا اس لیے ہے آپ کے لیے ابھی میری افادیت کم ہے‘‘ اور ’’صرف رواداری، صبروتحمل اور حکمت ہی آپ کو ایسی صورت حال سے نکالے گی جو آپ کے لیے ناموافق ہے‘‘۔
میں نے اپنی غلطیوں سے بھی سیکھا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ غلطی کو دہرایا نہ جائے۔ میں نے ہمیشہ دوستوں کی اچھی صحبت کو ترجیح دی اور تمباکو، سگریٹ، شراب وغیرہ جیسی بری عادتوں سےخود کو دور رکھا۔ اس جبلت (کنڈیشننگ) نے مجھے بعد میں دہلی میں ایک بہتر انسان کے طور پر تیار کرنے میں بہت مدد کی جو کسی بھی حالت میں یا دہلی جیسے بڑے شہر کی چمک دمک کے اثر میں ان عادات و اطوار کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں تھا۔
علیزے نجف:  بےشک تعلیم انسانی شخصیت کو سنوارنے میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن اب جب کہ تعلیم ایک تجارت بن کے رہ گئی ہے ایسے میں اس کے فوائد بھی مفقود ہوتے جا رہے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ آپ موجودہ تعلیمی نظام میں دو کون سی بڑی تبدیلی لانے کے خواہش مند ہیں جو تعلیمی نظام کو بہتر بنا سکتی ہے؟
شفیق الحسن: تعلیم کی تجارت اور اس شعبے میں نجی سرمایہ کاری کے مثبت و منفی دونوں پہلو ہیں۔ اس کے منفی رجحانات پر قدغن لگانے کی ضرورت ہے لیکن اس شعبے میں نجی اور عوامی دونوں قسم کی سرمایہ کاری میں خاطرخواہ اضافہ وقت کا تقاضا ہے۔ اگر یہ اب بھی نہیں کیا گیا تو ہم دنیا کے مقابلے بہت پچھڑ جائیں گے۔اس وقت یہی دو تبدیلیاں ہمارے نظام تعلیم میں مطلوب ہیں۔ ہرسطح پر پورے ملک کی سرکاری اور غیر سرکاری درس گاہوں میں یکساں معیار تعلیم کا بندوبست اور تعلیم کے بجٹ میں فی الفور کم ازکم سو فیصد اضافہ۔
میں دہلی آیا تو مجھے پہلی بات یہ محسوس ہوئی کہ تعلیم کے بغیر زندگی میں کوئی بھی کامیابی ادھوری اور معمولی ہے۔ تعلیم وہ روشنی ہے جو آپ کو کامیابی اور روشن مستقبل کی راہ دکھاتی ہے۔ تعلیم وہ کلید ہے جو تقریباً ہر امکان کو کھولنے کی طاقت رکھتی ہے۔ صحیح قسم کی تعلیم سے آپ اپنی شخصیت میں 360 ڈگری تبدیلی لاسکتے ہیں، اپنی فیملی کی تقدیر بدل سکتے ہیں، معاشرے اور ملک کے لیے بہت زیادہ حصہ ڈال سکتے ہیں۔ تعلیم کے بغیر آپ صرف ایک صارف اور زمین پر ایک بوجھ ہیں، تعلیم حاصل کرکے آپ اس سر زمین کے لیے ایک اثاثہ اور عظیم شراکت دار بن جاتے ہیں جس سے آپ تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن تعلیم میں کمرشیل ازم ملک اور معاشرے کے لیے خطرناک ہے۔ تعلیم ایک عظیم پیشہ ہے اور اسے تجارتی تحفظات سے بالاتر ہونا چاہیے کیونکہ یہ تحفظات صلاحیتوں اور ذہانتوں کے فروغ اور ملک و معاشرے کی ترقی میں معقول کردار ادا کرنے کے لیے آپ کےصحیح مقام تک پہنچنے میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔
علیزے نجف: آپ نے حصول تعلیم کے دوران فارمل تعلیم کے ساتھ ان فارمل تعلیم کا کس قدر اہتمام کیا یا آپ کو کالج اور یونی ورسٹی کی تعلیم سے فراغت کے بعد ان فارمل تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہوا ؟
شفیق الحسن: میں دسویں جماعت کرنے کے بعد اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکا اور اپنی فیملی کے لیے کچھ کرنے کے مقصد یا مشن کے ساتھ دہلی میں کیریئر کے مواقع کی تلاش میں اپنا اسکول اور آبائی شہر چھوڑ آیا۔ دہلی پہنچنے کے بعد اور اپنے کیریئر کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے، میں نے اپنی تعلیم کا آغاز کیا اور یوپی بورڈ سے 12 ویں، اندرا گاندھی اوپن یونی ورسٹی(IGNOU) سے گریجویشن، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ماسٹرز اور بھارتی ودیا بھون سے پی جی ڈپلوما کیا۔ مجھے رسمی یا غیر رسمی تعلیم میں فرق کا کوئی علم نہیں تھا۔ میں صرف اتنا سمجھتا ہوں کہ میں نے تعلیم کی اہمیت کو محسوس کیا اور اپنے کیریئر کے ساتھ ساتھ اسے جاری رکھا۔
علیزے نجف: آپ پچھلے 36 سالوں سے مارکیٹنگ، ایڈورٹائزنگ اور پبلشنگ کے شعبے میں کام کر رہے ہیں. اس شعبے میں کام کرتے ہوئے آپ کا تجربہ کیسا رہا اور اس شعبے میں کیا نوجوان نسل تشفی بخش خدمات انجام دے رہی ہے اور اس شعبے میں کام کرتے ہوئے آپ نے کیا سیکھا اور کیا پایا؟
شفیق الحسن: دہلی میں چند مہینوں کی ابتدائی جدوجہد کے بعد 1986 میں میں اخبار نو سے جڑگیا اور وہاں ایک سال تک بطور رپورٹر اور آفس اسسٹنٹ کام کیا لیکن جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ میری رپورٹوں یا انٹرویوز کے ساتھ صرف میرے نام اور میری تصویر کی اشاعت میرے گھر کے سنگین مالی مسائل کا حل نہیں ہے۔ اس لیے میں نے ایڈورٹائزنگ، مارکیٹنگ اور پبلشنگ کے کاروبار میں جانے کا فیصلہ کیا تاکہ میں کچھ پیسے کما کر اپنے والدین کو بھیج سکوں اور اخبارات کی دنیا سے دور بھی نہ جاؤں۔ 1987 میں میں نے اسکائی ایڈورٹائزنگ اینڈ مارکیٹنگ قائم کی جب اردو دنیا میں شاید ہی کوئی پروفیشنل ایڈ ایجنسی تھی۔ بعد میں یہ ایجنسی اردو دنیا سے ملک کی پہلی انڈین نیوز پیپرز سوسائٹی (INS) کی تسلیم شدہ اشتہار ایجنسی بن گئی۔ ہم نے کئی قومی سطح کی اشتہاری مہم چلائیں۔ 1999 میں بلساراہائجن( Balsara Hygine) کے پروڈکٹ ’مسواک‘ ( ‘Meswak Toothpaste’) کی تشہیر اردو میڈیا میں ہماری پہلی قومی مہم تھی۔ ہم نے جے کے ٹورزم (جموں و کشمیر کے محکمہ سیاحت) کے ساتھ کام کیا اور خاص طور پرPilgrimage Tourism (متبرک سیاحت) پر پورے ملک میں اشتہاری مہم چلائی۔
ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ کے علاوہ ہم نے یونیسکو، یونیسیف، امریکن ایمبیسی، برٹش ہائی کمیشن، اور بہت سے سرکاری اور کارپوریٹ کلائنٹس کے ساتھ طباعت و اشاعت کے شعبے میں عالمی معیار کے پروجیکٹس پرکام کیا۔
ہمارا سنہرا دور پرنٹ میڈیا کا دور تھا لیکن آج کا دور ڈیجیٹل میڈیا کا ہے اور بہت سے نوجوان پروفیشنلز اس نئے دور کی ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ میں بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔
علیزے نجف: آپ اگر چہ باقاعدہ صحافی نہیں لیکن کسی نہ کسی زاویے سے آپ صحافت سے بھی جڑے ہوئے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ موجودہ وقت میں صحافت کے شعبے کا انتخاب کرنا کیسا ہے؟ صحافیوں کے ساتھ ہو رہے ناروا سلوک سے نئی نسل کیا پیغام حاصل کر رہی ہے؟ کیا اسی لیے وہ صحافی بننے سے گریز کررہی ہے؟
شفیق الحسن: میں 1986 سے بالواسطہ یا بلاواسطہ صحافت سے وابستہ ہوں، ان دنوں لوگ رپورٹنگ سے شروعات کرتے تھے اور بعد میں کئی اخبارات کے مدیر یا مالک بن جاتے تھے۔ حکومت میڈیا کو سپورٹ کرتی تھی اور ایڈیٹر یا رپورٹرز کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آج اردو روزنامہ شروع کرنے کے بارے میں سوچنا بھی بہت مشکل ہے. جب تک کہ آپ کے پاس کسی آمدنی کی توقع کیے بغیر اس میں لگانے کے لیے کافی رقم نہ ہو۔آج کل کے نوجوان و پرعزم صحافی اس الجھن کا شکار ہیں کہ کیا اس نوبل پروفیشن ( باوقار پیشے) کا انتخاب کریں یا نہیں؟ یہاں تک کہ ماس کمیونیکیشن کے طلبہ بھی Ad&PR (رابطہ کاری اور تشہیر ) کا انتخاب کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ صحافت میں پیسے اور سچ کہنے کی آزادی کے معاملے میں بہت سے چیلنجز ہیں۔
علیزے نجف: آپ سیاست کی بھی گہری سمجھ رکھتے ہیں. اس کی بساط پہ ہو رہی شب و روز کی اتھل پتھل سے بھی واقف ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ موجودہ وقت کی سیاست میں اپوزیشن اپنا وقار اور حیثیت کھوتی جا رہی ہے. ایسے میں پیدا ہونے والی تاناشاہی سے ملک کی جمہوریت کو متاثر ہونے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں عوام اور اپوزیشن جماعتوں کو کس طرح کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے؟
شفیق الحسن: ایک حقیقی اور صحت مند جمہوریت میں حکومت کو شفاف طریقے سے چلانے کے لیے ایک آزاد و غیر جانب دار پریس اور ایک مضبوط اپوزیشن کی اشد ضرورت ہے۔ ایک کم زور اپوزیشن ہمیشہ آمرانہ قیادت کو راہ دیتی ہے جو ایک ناقابل تسخیر آمریت میں بدل سکتی ہے۔
ہماری جمہوریت کو بچانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو زمین پر کام کرنا ہوگا، عام آدمی سے جڑنا ہوگا، ان کے مسائل جیسے انصاف، مساوات، مہنگائی، بے روزگاری، طبی وسائل، بدعنوانی وغیرہ کو سمجھنا ہوگا اور حکومت پر ان مسائل کے حل کے لیے دباؤ ڈالنا ہوگا۔ ایک ایمان دار پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کی تعمیر اور فروغ پر کام کریں جو حقیقی مسائل پر بات کر سکے، حکومت کی کوتاہیوں کو اجاگر کر سکے، جعلی خبروں اور سوشل میڈیا پروپیگنڈے سے پردہ اٹھا سکے اور ان کا مقابلہ کر سکے۔ اپوزیشن کو عوامی اپیل کے ساتھ متحرک قیادت پیدا کرنی ہوگی۔ قومی قد کاٹھ کا قابل قبول لیڈر لانا ہوگا جو سڑکوں پر نکل کر عام آدمی کی قیادت کر سکے۔
اپوزیشن کی صفوں میں ابھرتے ہوئے لیڈروں پر بھروسہ کرکے اور ان کے ساتھ کھڑے ہوکر، آن لائن/آف لائن مہم چلا کر، ملک کی عوام کو جمہوریت کی اہمیت اور جمہوریت کی بقا میں اپوزیشن کے رول کے بارے میں قائل کرکے عام لوگ بھی جمہوریت کو بچانے میں اتنا ہی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
علیزے نجف: تبدیلی اس کائنات کا لازمی جزو ہے. خواہ سیاست ہو یا معیشت و زراعت سب اسی ذیل میں آتے ہیں لیکن میں اس وقت بات سیاست کی ہی کروں گی. آپ آج کی سیاست میں کیا دو تبدیلیاں لانا چاہیں گے اور کیوں؟
شفیق الحسن: کسی بھی جمہوری ریاست میں ملک اور معاشرےکی خوش حالی اس کی سیاست میں باکردار و بلند خیال قیادت کی بالادستی پر منحصر ہے۔ اس کے لیے میری نگاہ میں سب سے پہلے یہ دو تبدیلیاں ضروری ہیں۔ ایک تو سیاست دانوں کو پڑھا لکھا ہونا چاہیے۔دوسرے ان کی دیانت شک و شبہ سے بالاتر ہونی چاہیے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا کسی تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ یہ ایک دوطرفہ معاملہ ہے، سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کو بھی خود کو بدلنا ہوگا اور عام لوگوں کو بھی اپنی سوچ تبدیل کرنی ہوگی۔
علیزے نجف: آپ پچھلے پانچ سالوں سے فیک نیوز کی تردید اور سچائی کو سامنے لانے کے مشن میں لگے ہوئے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ آپ کا رجحان اس جانب کیسے ہوا اور کب محسوس ہوا کہ مجھے باقاعدہ اس پہ کام کرنے کی ضرورت ہے؟
شفیق الحسن: 24 جون 2017 کو انڈین ایکسپریس  کی ایک رپورٹ کے ساتھ میں نے اخباروں کی اسکیننگ اور معتبر خبروں کے تراشے کی ترسیل شروع کی تھی جو 15 سالہ حافظ جنید پر ہجومی تشدد کے افسوسناک اور دردناک واقعے پر مبنی تھی کیونکہ مجھے احساس ہوا کہ ہمارے معاشرے میں اس طرح کے واقعات تعصب پھیلانے اور فرضی خبروں کو بڑے پیمانے پر شیئر کرکے واٹس ایپ یونی ورسٹی کے ذریعے نفرت کی کھیتی کرنے کی وجہ سے ہورہے ہیں۔ پہلے دن سے یہ بات بالکل واضح تھی کہ میں اکیلا بہت کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ فیک نیوز آرمی اتنی بڑی تھی اور میرے پاس ایک چھوٹی ٹیم بھی نہیں تھی. پھر بھی مجھے وسائل کی پرواہ کیے بغیر پہل کرنی پڑی۔ میرے وسائل صرف یہ تھے- میرا پختہ عزم، میرا موبائل اور میرے صبح کے اخبارات جن کو میں پہلے ہی سبسکرائب کر رہا تھا، اور ایک بار جب میں نے شروع کیا تو میں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور نہ ہی شکایت کی کہ میں یہ کام اکیلا کر رہا ہوں۔ شروع شروع میں تو لوگوں نے میرے کام کو ہلکے میں لیا لیکن جلد ہی انھیں احساس ہوا کہ کوئی اہم کام کیا جا رہا ہے، پھر سب نے اس بنا پر میری تعریف کرنا شروع کر دی۔ میری کلپنگ سروس کا واحد مقصد سماج میں بیداری لانا تھا کہ لوگ بےسوچے سمجھے ہرچیز شیئر کرنے کی روش کو ترک کریں اور وہ معتبر ذرائع کی خبریں اور رپورٹیں پڑھیں۔ میرا یہ شوق کب جنون میں تبدیل ہوگیا مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ 25 مارچ 2020 کو جب کورونا کے ڈر سے لوگوں نے اخباروں کو ہاتھ لگاناچھوڑ دیا تھا، میں نے دو دو ماسک لگا کر اپنا کام کیا اور بلاناغہ ایک ہزار دن مکمل کیے اور حال ہی میں اس سروس کے 5 سال مکمل کیے۔
علیزے نجف:  آپ نے اب تک بےشمار فیک نیوز کی بے ثباتی کو ثابت کیا ہے. جب آپ کسی نیوز کی بے ثباتی کا دعویٰ کرتے ہیں تو اس کے لیے کن کن ذرائع کو دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اپنی ان clippings کو کن کن ذرائع سے عوام تک پہنچاتے ہیں اور اب تک آپ کو عوام کی طرف سے کیسا ردعمل ملا اور آپ کے احساسات کیا رہے؟
شفیق الحسن: میں صرف معتبر ذرائع یا میڈیا پلیٹ فارم سے خبریں شیئر کرتا ہوں، جن پر میں یقین رکھتا ہوں۔ جیسے انڈین ایکسپریس، دی ہندو، دی ٹیلی گراف، دی اسٹیٹس مین، دی ٹریبیون، دکن کرونیکل، دکن ہیرالڈ، ٹائمز آف انڈیا، ہندوستان ٹائمز، انقلاب، روزنامہ سہارا، سیاست، این ڈی ٹی وی، دی وائر، دی کوئنٹ، الجزیرہ، بی بی سی اور کئی دوسرے اخباراور پورٹل۔ میری کوئی ٹیم نہیں ہے، میں یہ خود کرتا ہوں۔ میں نے ان 5 سالوں میں ایک لاکھ سے زیادہ خبروں کے تراشے اور دیگر خبریں اور مضامین شیئر کیے ہیں۔ میں صحافت میں سنسنی خیزی سے ہمیشہ گریز کرتا ہوں۔ کیونکہ سنسنی خیزی میں جعلی خبروں کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ میں نے کبھی کوئی ایسی نیوز کلپ شیئر نہیں کی جس کے جعلی ہونے کا مجھے شک ہو۔
علیزے نجف: اپنے اس پانچ سالہ سفر کا کوئی دل چسپ واقعہ ہمارے قارئین سے شیئر کریں اور کیا کبھی ایسا بھی تجربہ ہوا جب آپ نے کسی خبر کو فیک خیال کیا اور ریسرچ میں وہ سچی نکلی ؟
شفیق الحسن: میرے 5 سالہ نیوز کلپنگس کے سفر کے دوران خاص طور پر ابتدائی 1000 دنوں کے دوران، میری پہلی براڈ کاسٹ صبح ٹھیک 8:00 بجے (ایک سیکنڈ ادھر نہ ایک سیکنڈ ادھر) ہوتی تھی۔ میں نے یہ ٹریفک ریڈ لائٹ سے کیا، بچوں کے اسکول سے، اس اسپتال سے جہاں میری والدہ کا آپریشن کیا جا رہا تھا اور یہاں تک کہ جامعہ کی جامع مسجد سے جہاں میرا صبح 8 بجے کا وقت نماز عید سے ٹکرا رہا تھا۔ میں نے ٹائمنگ کا حساب لگایا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ امام صاحب یقیناً چند منٹ لیٹ ہوں گے لیکن میں ایک سیکنڈ کی بھی دیر نہیں کرسکتا تھا اور میں نے اپنی نشریات ٹھیک 8 بجے صبح کی اور مسجد کے اندر جاکر آسانی سے نماز ادا کی۔
میں ہمیشہ جھوٹی خبروں کو ہاتھ نہ لگانے کی کوشش کرتا ہوں۔ تاہم صبح کے اخبارات میں چھپنے والی ہر خبر معتبر نہیں ہو سکتی۔ امکانات ہمیشہ رہتے ہیں کہ ان میں سے بہت سی پلانٹ کرائی گئی کہانیاں ہوں۔ مجھے کسی فرضی کہانی کا انتخاب اور نشر کرنا یاد نہیں ہے۔جو مجھے معتبر لگی وہی شیئر کیا۔
علیزے نجف:  اگر آپ کو زندگی ایک بار پھر سے پروفیشن کے لیے کسی بھی شعبے کے انتخاب کا موقع دے تو آپ کس شعبے کا انتخاب کریں گے اور کیوں؟
شفیق الحسن: اس میں کوئی شک نہیں کہ میں صحافت کا انتخاب ہی کروں گا کیونکہ یہ میرا جنون رہا ہے. اردو اور ہندی کے روزناموں اور ہفتہ واروں میں لکھنا شروع کیا تو میں 14سال کا تھا۔ تاہم اگر موجودہ حالات ایسے ہی رہے اور جمہوریت کا چوتھا ستون طاقتور لوگوں کی زبان بن گیا تو میں صحافت کو اپنا مشغلہ توبناؤں گا لیکن اپناگھر کسی اور کام سے چلا لوں گا۔
علیزے نجف: زندگی ایک ایسی نعمت ہے جو ہر انسان کو ملی ہوئی ہے. آپ کے نزدیک زندگی کی تعریف کیا ہے اور موت کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ زندگی سے موت تک کے اس سفر کو آپ کن اصولوں کے ساتھ گزارنے کے حق میں ہیں اور آپ کی زندگی کا کوئیmantra ہے، اگر ہاں تو کیا ہے؟
شفیق الحسن: میں موت سے زیادہ زندگی پر یقین رکھتا ہوں کیونکہ موت ایک حتمی سچائی ہے اور یہ ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتی ہے جس کے بارے میں ہم ٹھیک سے نہیں جانتے. جب کہ زندگی دریافت کرنے اور تجربہ کرنے کے لامحدود مواقع فراہم کرتی ہے۔
ہماری پیدائش سے لے کر آخری سانس تک، ہم اپنے وجود کو درپیش بہت سے چیلنجوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ ہم زندگی اور موت کا کھیل کھیلتے ہیں۔ زیادہ تر وقت زندگی غالب رہتی ہے لیکن موت کبھی بھی اپنی گرفت نہیں کھوتی اور آپ کو اس لمحے پکڑ ہی لیتی ہے جب آپ زندگی کو ناقدری کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ناقابل معافی غلطی کرتے ہیں اور یہ اس کھیل کا خاتمہ ہوتا ہے۔ تاہم، میرا ماننا ہے کہ ہماری زندگی کا دورانیہ جو بھی ہو، زندگی کو فضل و کمال، وقار و عظمت اور کامیابیوں سے مزین ہونا چاہیے اور اسے طویل کرنے کی ہماری بھرپور کوششوں کے باوجود اگر یہ موت کے ہاتھ لگ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اس دنیا کو آپ کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔
مزید برآں میرے نزدیک برداشت اور صبر ہی ایک خوش گوار، کامیاب اور پرامن زندگی گزارنے کا واحد منتر ہے۔ یہ منتر آپ کو مشکل حالات سے نکالتا ہے اور آپ کو بڑی شرمندگی، جسمانی، ذہنی اور مالی نقصانات سے بچاتا ہے اور آپ کی دانش مندی اور دور اندیشی آپ کو زندگی بھر بڑا فائدہ دیتی ہے۔ تاہم، آپ کی برداشت اور صبر کو بزدلی نہ سمجھا جائے اس لیے بعض اوقات آپ کو حالات کا سامنا کرنا چاہیے۔
علیزے نجف: انسان اچھائی اور برائی کا مجموعہ ہے. یہ بشری کمزوری ہے جس سے کوئی مستثنیٰ نہیں. میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کو اپنی کون سی عادت بہت پسند ہے اور کون سی عادت ہے جو ناپسند ہے اور آپ اسے بدلنا چاہتے ہیں لیکن بدل نہیں پا رہے؟
شفیق الحسن: کچھ عادتیں پیدائشی ہوتی ہیں، کچھ کو بدلنا بہت مشکل ہوتا ہے، کچھ آپ بدلتے وقت کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ صبح سویرے اٹھنا اور اخبار پڑھنا میری عادت ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ موجودگی میرے لیے ناپسندیدہ عادت ہے۔ اس عادت کو میں بدلنا چاہوں گا اور میں اچھی کتابیں پڑھ کر سونا پسند کروں گا نہ کہ فیس بک، ٹویٹر، واٹس ایپ پر میسجز، لائکس اور کمنٹس چیک کرنے کے مکڑجال میں الجھا رہوں۔
علیزے نجف:  کھونا اور پانا اس دنیا کا عام سا واقعہ ہے. آپ نے اب تک کی زندگی میں ایسا کیا پایا ہے جس کی خوشی اب بھی آپ کے درون احساس میں باقی ہے اور ایسا کیا کھویا ہے جس کی کسک بہت دنوں تک آپ کے اندر رہی؟
شفیق الحسن: 2019 میں انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر (IICC) میں میری شان دار تکریم کے دوران جب میں اپنے والد کو اسٹیج پر لے گیا وہ میری سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک تھی اور یہ احساس ہمیشہ میرے دل میں رہے گا۔ 2021 میں اپنی ماں کو ہمیشہ کے لیے کھونا میراسب سے بڑا نقصان تھا جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
علیزے نجف: آپ کی مصروفیات بہ قول آپ کے صبح سے شروع ہو کر رات گئے تک رہتی ہے. ایسے میں آپ خود کو اور اپنے رشتوں کے تعلق کو کیسے مینیج کرتے ہیں. ایک workaholic انسان کو کس طرح اپنی پرسنل اور پروفیشنل زندگی کو متوازن رکھنا چاہئے؟
شفیق الحسن: ان تمام سالوں میں میری زندگی خبروں کے گرد گھومتی رہی۔ میں ایک سیکنڈ کی تاخیر کے بغیر صبح 8:00 بجے اپنے ہدف کو حاصل کرنے پر اللہ کا شکر ادا کرتا تھا۔ گھر میں یا بڑے خاندان میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ انصاف کرنا بہت مشکل تھا۔ پھر بھی کسی نے شکایت نہیں کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ میں فیک نیوز سے لڑنے اور معاشرے میں بیداری پیدا کرنے کے مشن پر ہوں۔
علیزے نجف: آپ اپنے مزاج کے اعتبار سے introverted ہیں یا extroverted ؟ کس طرح کے لوگوں سے ملنے میں آپ خوشی محسوس کرتے ہیں اور کون سے لوگ ہیں جن سے ملنے میں آپ کو کوفت محسوس ہوتی ہے؟
شفیق الحسن: بچپن سے میں فطرت کے لحاظ سے ایک انٹروورٹ شخص رہا ہوں۔ تاہم ان 5 سالوں میں مجھ میں کچھ زبردست تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور اب میں اس کا اظہار کرسکتا ہوں کہ میں اس عرصے میں کن تجربات سے گزرا ہوں۔ 2017 سے پہلے میں ہمیشہ کیمرے یا میڈیا کی لائم لائٹ سے بھاگتا تھا۔ 2019 میں انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر میں اپنے اعزازواکرام کے دوران میں بڑی شخصیات کے سامنے بغیر کسی دقت کے 11 منٹ کی تقریر کرنے میں کامیاب ہوا کیونکہ میں نے خود کو باور کرایا کہ وہ بڑے لوگ ہو سکتے ہیں لیکن یہ وہی افراد ہیں جو ہر صبح 8:00 بجے خبروں کےمیرے تراشوں کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔
علیزے نجف: یہ انٹرویو دیتے ہوئے آپ کے احساسات کیا تھے اور اس میں کیے گئے سوالات سے آپ کس حد تک مطمئن تھے اور اس انٹرویو کے ذریعے آپ اپنے دل کی کوئی بات لوگوں تک پہنچانا چاہیں گے؟
شفیق الحسن: مجھے بےحد خوشی ہوئی اور کافی متاثر بھی ہوں کہ آپ نے اس انٹرویو کے لیے مجھ پر اچھی خاصی تحقیق کی ہے۔ سوالات قدرے مشکل تھے لیکن اتنے معقول تھے کہ میں نے بغیر کسی دشواری کے ان سب کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن آپ کے سوالات اور میرے جوابات کے سب سے بڑے جج تو قارئین ہیں۔
***
انٹرویو نگار: علیزے نجف کا گذشتہ انٹرویو : کوئی بھی واقعہ کسی پس منظر کے بغیر جنم نہیں لیتا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے