ظفر کمالی کے اعزاز میں عظیم آباد میں ادبی نشست

ظفر کمالی کے اعزاز میں عظیم آباد میں ادبی نشست

ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ ادیب ظفر کمالی کے اعزاز میں ہوئی عظیم آباد میں ایک اہم ادبی نشست
ہر روز نہاتاہوں اپنے خوں سے محسوس یہ ہوتا ہے فلسطین ہوں میں : ظفر کمالی
منتخب شعراے کرام نے اشعار سنائے اور نقادوں نے ظفر کمالی کی خدمات پر تبصرہ کیا
رپورٹ: ڈاکٹر افشاں بانو
ظفر کمالی کا بہ حیثیت نثر نگار اور شاعر اردو میں جو مقام ہے، وہ ان کی بے پناہ مشقتوں اور تبحرِ علمی سے ممکن ہوا ہے۔ وہ ہفت قلم ہیں۔ شاعری، ظرافت نگاری، رباعی گوئی، تنقید و تحقیق، تذکرہ نگاری اور ادبِ اطفال کے زمرے میں گذشتہ چار دہائیوں سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مختلف اصناف میں ان کی سترہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ادبِ اطفال کے حوالے سے ان کے تیسرے شعری مجموعے حوصلوں کی اڑان پر ساہتیہ اکادمی کا انعام براے ادبِ اطفال دیا جانا حقیقت میں ان کی مسلسل علمی کاوشوں کا اعتراف ہے۔ اہلِ عظیم آباد کو اس بات پر فخر حاصل ہے کہ ان کی ادبی و علمی تربیت اس شہر کے اداروں پٹنہ یونی ورسٹی اور کتب خانۂ خدا بخش اور پھر گورنمنٹ اردو لائبریری کی چہار دیواری میں مکمل ہوئی۔ اس دائرے سے باہر عظیم آباد کی ادبی شخصیات کے درمیان انھوں نے اپنے بال و پر کھولے۔ ابتدائی دور سے ہی انھیں احمد جمال پاشا کی شاگردی حاصل تھی۔ ان سب سے مل کر وہ ایک ایسی شخصیت بن کر ابھرے جس کا آسانی سے کوئی بدل تیار نہیں ہوسکتا۔
ظفر کمالی کے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملنے کے بعد عظیم آباد تشریف آوری پر بزمِ صدف کی جانب سے ایک غیر رسمی شعری اور نثری مخصوص نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں شامل شعراے کرام اور نقادوں نے مذکورہ خیالات کا اظہار کیا۔
پروفیسر صفدر امام قادری نے بہ حیثیت میزبان نظامت کے فرائض انجام دیے۔ معروف محقق اور کتب خانۂ خدا بخش سے وابستہ ڈاکٹر محمد ذاکر حسین نے بات چیت کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے بتایا کہ ظفر کمالی جیسے افراد کو ایوارڈ دے کر ساہتیہ اکادمی نے اپنا اعتبار اور وقار بڑھایا۔ ممتاز شاعر اور نقاد ڈاکٹر عطا عابدی نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایوارڈ ان کے پختہ قلم اور مقبول عام ہونے کا بھی اشارہ ہے۔ معروف شاعر ڈاکٹر کاظم رضا نے ظفر کمالی کی گوناگوں ادبی صفات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک وقت میں متعدد متضاد صنفوں میں کامیابی کے ساتھ طبع آزمائی کرنے میں اپنی مہارت ثابت کرچکے ہیں۔ شعبۂ اردو، اے این کالج کے صدر ڈاکٹر منی بھوشن کمار نے ڈاکٹر ظفر کمالی کو ساہتیہ اکادمی انعام کی مبارک باد دیتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ بچوں کی نفسیات پر ان کی گہری نظر ہے۔
ڈاکٹر عبدالباسط حمیدی، صدر شعبۂ اردو، پٹنہ وومنس کالج نے ظفر کمالی کی تصنیفی خدمات کے تعلق سے اپنی حیرت کا اظہار کیا کہ آخر کوئی شخص کس طرح ایک وقت میں سنجیدہ شاعری کے ساتھ ظریفانہ شاعری اور پھر بچوں کے عین مطابق موضوع اور اسلوب کا انتخاب کرپاتا ہے۔ مگدھ مہیلا کالج کے استاد ڈاکٹر سہیل انور نے ظفر کمالی کے ادبی کاموں سے اپنی پرانی واقفیت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی شاعری اور نثر دونوں انھیں عزیز ہے۔ معروف شاعر جناب اشفاق عادل نے ظفر کمالی سے اپنے دیرینہ تعلقات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اپنی محنت و مشقت کی بہ دولت وہ رفتہ رفتہ ادب کے میدان میں کس قدر بلندیوں تک پہنچے۔ اردو ڈائرکٹوریٹ سے وابستہ ڈاکٹر افشاں بانو نے بتایا کہ ماضی میں وہ ظفر کمالی کی تحقیقی خدمات کے حوالے سے اپنا مقالہ لکھ چکی ہیں اور ان کی شاعری کو بھی پسند کرتی ہیں۔ ظفر کمالی کی علمی شخصیت میں جو وقار ہے، وہ ہر شخص کے لیے باعثِ کشش ہے۔ ان کی علمی گہرائی کا ذکر کرتے ہوئے بھی انھوں نے ساہتیہ اکادمی انعام ملنے پر مبارک باد پیش کی۔ ڈاکٹر عابدہ پروین نے بتایا کہ کم از کم تین دہائیوں سے ان سے ملاقات اور ادبی موضوعات پر تبادلۂ خیالات کرنے کا انھیں موقع ملتا رہا ہے۔ وہ خود کو خوش نصیب سمجھتی ہیں کہ بہار ٹیکسٹ بک کی کتابیں تیار ہونے کے دوران کئی برس تک ظفر کمالی صاحب کے ساتھ انھیں کام کرنے کے اور سیکھنے کے مواقع میسر آئے۔
بزمِ صدف کے ڈائرکٹر صفدر امام قادری نے ظفر کمالی سے اپنے تعلقات کی نوعیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تقریباً پینتیس برس پہلے ہم دونوں کی ملاقات ہوئی۔ اس وقت بھی وہ اگرچہ درسی تحقیق کے کاموں میں مشغول تھے مگر وہ فنافی العلم معلوم ہوتے تھے۔ خدا کا فضل ہے کہ وہ اب بھی اسی انہماک، جوش اور توجہ کے ساتھ علمی کاموں میں مصروف ہیں۔ اس دوران ان کا علم بڑھا اور متعدد اصناف میں انھوں نے خود کو پھیلایا۔ کمال یہ ہے کہ وہ ہر جگہ کامیاب رہے۔ ظفر کمالی کی کامیابی میں ان کی گوشہ نشینی اور بہتوں کی طرح ہوس کاری میں مبتلا نہ ہونے سے ایسی ترقی حاصل ہوئی۔ ان کے علمی انہماک اور کاموں میں سنجیدگی نے یہ دن دکھایا کہ ان کے قدموں میں ساہتیہ اکادمی جیسے بڑے ادارے نے اپنا انعام رکھ دیا۔
خصوصی شعری نشست میں جناب کاظم رضا، اشفاق عادل، عطا عابدی، صفدر امام قادری اور ظفر کمالی نے اپنے چنندہ اشعار سنائے۔ نئے لب و لہجے اور عصرِ حاضر کے مسائل و مباحث ان شعرا کے کلام میں بہ آسانی محسوس کیے جاسکتے تھے۔ سب نے اپنے منتخب اور نمایندہ اشعار سنائے۔ چند ایسے اشعار جن پر شعرا کو خوب خوب داد ملی، انھیں نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے:
تیری راہوں میں جو گنوائے دل کرے جستجو کہے ہائے دل
مجھے دے کے ضبط کا مشورہ بھری انجمن میں رلائے دل

ان کے بخشے ہوئے یہ تحفے ہیں جام، مینا، خمار، تنہائی
تیری محفل کا حسن ہنگامہ میرے گھر کی بہار تنہائی
کاظم رضا
حقیر جانو نہ ان حاشیہ نشینوں کو
انھی کناروں نے دریا سنبھال رکھا ہے
۔۔۔۔
تمام منظرِ خوش رنگ آنکھ میں بھر لو ذرا سی دیر میں یہ سب دھواں نہ ہو جائے
اس ایک بات سے خائف ہوں ان دنوں عادل مرا حریف کہیں مہرباں نہ ہوجائے
اشفاق عادل
بات جب پانی پہ تصویر بنانے کی ہوئی
شرط دنیا سے مری وعدہ نبھانے کی ہوئی
ہو گئیں آنکھیں جو پتھر تو تعجب کیوں ہے
جب خطا ہم سے بھی کل خواب سجانے کی ہوئی
۔۔۔
ہمیں بس خواب سے نسبت رہی ہے ستارے سو گئے تو سو گئے ہم
خوشی ہے یہ کہ دنیا ہم نے پالی مگر یہ غم کہ آخر کھو گئے ہم
عطا عابدی
کئی یگوں کے فسانے تھے میری آنکھوں میں یہ اور بات کہ خاموش و بے صدا میں تھا
ہر ایک سمت سے یلغار تھی رفیقوں کی فراتِ وقت پہ سالارِ کربلا میں تھا
۔۔۔
رات رانی ہے وہ راجاؤں میں گھر جاتی ہے
دن تو مزدور ہے کس طرح گزارا ہوگا
۔۔۔
سڑک کے حادثے میں ہم بھی اک دن ڈھیر ہو جائیں
یہ غزلیں، شعر اور دفتر میاں صفدر بھلاوا ہیں
صفدر امام قادری
اس موقعے سے ڈاکٹر ظفر کمالی نے اپنی چند رباعیات خاص طور سے پیش کیں۔
رہوار نہیں جس کا وہی زین ہوں میں
گھیرا ہے  جسے سانپوں نے وہ بین ہوں میں
ہر روز نہاتا ہوں اپنے خوں سے
محسوس یہ ہوتا ہے فلسطین ہوں میں
۔۔۔
سورج کے اجالوں کو گھٹا چاٹ گئی
کیا کیا نہ زمانے کی ہوا چاٹ گئی
ایسا تو کبھی ہم نے دیکھا نہ سنا
بیمار کو اس کی ہی دوا چاٹ گئی
۔۔۔
سوکھے ہوئے ہونٹوں کی دعا رونے لگی
دیکھا جو مرا حال دوا رونے لگی
آئی تھی ملاقات کی خاطر مجھ سے
بیٹھی جو سرہانے تو قضا رونے لگی
۔۔۔
بیمار اڑانوں کا سفر ہے درپیش
سفاک تکانوں کا سفر ہے درپیش
دم لے لے ذرا بھاگ نہ یوں عمرِ رواں
اب آگے ڈھلانوں کا سفر ہے درپیش
ظفر کمالی نے اصحابِ عظیم آباد اور بزمِ صدف کا خاص طور سے شکریہ ادا کیا جس نے ان کے اعزاز میں یہ محفل آراستہ کی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اپنے اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرکے جو کچھ میسر آیا، اسی کی حفاظت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تحقیق و تنقید کے ساتھ رباعی گوئی، ظرافت اور بچوں کے ادب میں لگاتار کچھ لکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ ساہتیہ اکادمی نے جو انعام بخشا ہے، اس کے جیوری ممبرس اور کمیٹی کے ارکان کا میں خاص طور سے شکریہ ادا کرتا ہوں ورنہ میرے جیسے گوشہ نشیں آدمی کے لیے بھلا انعام و اکرام کی گنجایش کہاں سے پیدا ہوسکتی تھی۔ نشست کا اختتام میزبان صفدر امام قادری کی جانب سے اظہار تشکر اور پُرتکلف عشائیے کے ساتھ ہوا۔ انھوں نے تمام افراد سے یہ گزارش کی کہ اکتوبر مہینے میں ظفر کمالی کی ادبی خدمات کے حوالے سے منعقد کیے جانے والے سے می نار کے لیے اپنے نئے مقالے جلد از جلد تحریر کریں۔ دیگر شرکا میں جناب پرویز عالم، جناب منہاج عالم، محترمہ فرحت صغیر، محترمہ ناہید پروین، صائمہ قادری اور سدرا قادری شامل تھے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : گوشہ گیری کو انعام: ظفر کمالی کو ساہتیہ اکادمی کا ادبِ اطفال کا انعام

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے