کتاب کا نام :  شاہد علی خان (ایک فرد _ ایک ادارہ)

کتاب کا نام : شاہد علی خان (ایک فرد _ ایک ادارہ)

مرتب: ڈاکٹر نصیر الدین ازہر
ضخامت : 294 صفحات
قیمت : 401
مبصر : محمد انعام برنی
ریسرچ اسکالر
دہلی یونی ورسٹی، دہلی

آزادی ہند کے بعد جن شخصیات نے اردو زبان و ادب کی نوک و پلک سنوارنے میں اپنی عمر کا صد فی صد حصہ صرف کر کے اس زبان کی علمی و ادبی چاشنی سے ہم جیسے عاشقان اردو کو محظوظ ہونے کا موقع فراہم کیا ان عبقری شخصیات میں ایک نام سابق جنرل مینیجر (مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، دہلی) مرحوم شاہد علی خان کا بھی سر فہرست ہے. جس کی اردو زبان و ادب کے تئیں بیش بہا قربانیاں آب زر سے لکھنے کی مستحق ہیں۔ آپ نے سنہ 1951ء میں جامعہ مکتبہ لمیٹڈ دہلی سے بہ حیثیت جونئیر کلرک اپنی ملازمت کا آغاز کیا اور ترقی پاکر 2006ء میں جنرل مینیجر کے عہدے سے سبک دوش ہو کر وظیفہ یاب ہوئے.
چند کلمات صاحب کتاب کے حوالے سے بھی آپ تمام قارئین کے گوش گزار کرنا اپنا فرض اولین سمجھتا ہوں. موصوف عہد حاضر کے لائق اعتبار نقاد، محقق اور اس پر مستزاد یہ کہ آپ ایک منجھے ہوئے استاد ہیں۔ آپ ریاست ہریانہ کے بلکہ یوں کہا جائے کہ ملک گیر پیمانے پر تعلیمی اعتبار سے سب سے خشک ترین ضلع نوح میوات کے ایک ڈگری کالج میں تیں دہائیوں تک اپنے علمی سمندر سے وہاں کی خشکی کو تری میں تبدیل کرنے کے لیے کوشاں رہے جس کے گزشتہ 10 برسوں سے مثبت نتائج بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ گزشتہ سال آپ اپنی ملازمت کی 60 سالہ مدت کار مکمل کرنے کے بعد سے اپنی ادھوری پڑی کتابیات کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں منہمک ہیں۔ حال ہی میں آپ کو آپ کی مجموعی ادبی خدمات کے لیے ہریانہ اردو نے "کنور مہندر سنگھ بیدی" اعزاز سے نوازا ہے۔
محترم المقام عالی جناب ڈاکٹر نصیر الدین ازہر کی مرتب کردہ کتاب بہ عنوان شاہد علی خان: ایک فرد ایک ادارہ ان کی کئی سالوں کی فنی اور تخلیقی ریاضتوں کا ثمرہ ہے۔
اس کتاب سے قبل بھی صاحب کتاب کی مختلف موضوعات پر نصف درجن کتابیں منصۂ شہود پر آ کر علمی و ادبی حلقوں میں داد و تحسین پا چکی ہیں۔ جن کے نام آپ تمام قارئین کی علمی تشنگی کو بجھانے کے لیے ذیل میں رقم کیے جا رہے ہیں۔ جو آپ تمام کے علمی و ادبی سفر میں معاون و مددگار ثابت ہوں گی۔
سجاد ظہیر:حیات و جہات
باقیاتِ سجاد ظہیر
مصور سبزواری: فکر و فن
اقبال کی فکری جہات
انگارے اور اس کے مصنفین کا تنقیدی مطالعہ
ان کے علاوہ موصوف کی دو کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آنے کے لیے مضطرب ہیں۔ ہم رب العالمین سے دعا گو ہیں کہ وہ کتابیں بھی جلد ہم تمام محبین اردو کے مطالعہ کا محور و مرکز بنیں۔
زیر نظر کتاب ان 42 مضامین کا مجموعہ ہے جو شاہد علی خان کے چاہنے والوں کے قلم سے خلق ہو کر اس کتاب کی زینت بنے ہیں۔ جن میں شمس الرحمٰن فاروقی، صدیق الرحمٰن قدوائی، شمیم حنفی، مجتبیٰ حسین، عتیق اللہ، اختر الواسع، صغریٰ مہدی، حقانی القاسمی، توقیر احمد خان، احمد محفوظ، سلام بن رزاق، نصرت ظہیر اور عمیر منظر جیسے کہنہ مشق ادیب اور ناقدین کے نام پیش پیش ہیں۔ جنھوں نے بلاواسطہ یا باالواسطہ طور پر ان سے اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ سیکھا اور پایا تھا۔کتاب کی ابتدا میں موصوف مرتب کا وسیع و بسیط مقدمہ شامل کتاب ہے۔ جس میں انھوں نے شاہد علی خان کی زندگی سے جڑے ہوئے ان تمام پہلوؤں پر بات کرنے کی کوشش کی ہے جو اس سے قبل پردۂ خفا میں تھے۔ ایک دفعہ جب مرتب کتاب نے شاہد علی خان سے دہلی کے کسی ادبی جلسے میں چلنے کو کہا تو انھوں نے کچھ اس انداز سے جانے سے انکار کیا جس سے ان کی صاف گوئی اور بے باکی کا اندازہ لگانا کوئی مشکل امر نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں انھی کی زبان سے یہ چند جملے۔
"سچ بات کہوں گا اور لوگوں کو بری لگ جائے گی۔ اس لیے نہ جانا ہی بہتر ہے. "
شاہد علی خان ان چند بے غرض اور خاموش مزاج شخصیات میں سے ایک تھے جو جھوٹی تشہیر اور خودنمائی سے کوسوں دور رہتے تھے۔ جب کہ یہاں تو لوگ اپنی کتابوں پر ایک ایک مضمون لکھوانے اور ایک ایک ایوارڈ پانے کے لیے پیسوں کا چڑھاوا کرتے نظر آتے ہیں۔ موصوف مرتب ایک جگہ اپنے مقدمے میں یوں رقم طراز ہیں کہ جب میں نے کتاب ترتیب دینے سے قبل لوگوں سے شاہد علی خان کے حوالے سے مضامین لکھنے کی درخواست کی تو ان میں ایک نام مشہور طنز و مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا بھی تھا جنہوں نے پہلی ہی فرصت میں میرے کہنے پر اپنا ایک مضمون میرے بتائے ہوۓ پتے پر ارسال کر دیا۔ جو اتفاقاً میری غیر موجودگی میں شاہد علی خان کے ہاتھ لگ گیا۔ جس کی وجہ سے وہ مجھ سے اتنے ناراض ہوئے کہ وہ مضمون میری ہی آنکھوں کے سامنے آگ کے حوالے کر دیا۔ اور کہا کہ یہ سب خرافاتی کام آپ میری ذات سے وابستہ کر کے کیوں سر انجام دے رہے ہو. "
شاہد علی خان نہ ہی پروفیسر تھے نہ ہی نقاد تھے نہ ہی ادیب تھے نہ ہی شاعر تھے ہاں اتنا ضرور ہے جو بھی ان کی رفاقت اور سایہ عاطفت میں رہا وہ انھی کی حیات میں پروفیسر، ادیب، شاعر، نقاد اور نہ جانے کتنے حکومتی اداروں کا صدر اور سیکریٹری ضرور بن گیا۔ جب آپ اپنی ملازمت کے ابتدائی سالوں میں عروس البلاد ممبئی میں مکتبہ جامعہ کے انچارج کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے تو اس وقت ہر شام اور ہر اتوار کو ممبئی اور اس کے اطراف و اکناف میں بسنے والے فلمی نغمہ نگاروں سے لے کر عام انسان تک جس کا اردو زبان سے کسی نہ کسی طرح سے کوئی نہ کوئی رشتہ تھا ان کے دفتر پر ان تمام کا تانتا لگا رہتا تھا۔ جن میں اختر الایمان، سردار جعفری، مجروح سلطان پوری، جاں نثار اختر اور نئی نسل سے فضیل جعفری، باقر مہدی، عزیز قیسی، سلام بن رزاق اور مقتدر حمید وغیرہ وقتاً فوقتاً آتے رہتے تھے۔ تبھی تو آپ کے چاہنے والے 1970 میں جب آپ کا تبادلہ ممبئی سے دہلی ہوا یوں لب کشا ہوئے:
اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
شاہد صاحب کی مینیجری میں جو غعر معمولی شہرت مکتبہ جامعہ لمیٹڈ اور کتاب نما نے ملک اور بیرون ممالک میں پائی وہ کسی دوسرے مینیجرز کی مینیجری میں ان دونوں کو تادم تحریر نصیب نہ ہو سکی۔ متعلقہ شاملِ کتاب مضامین میں اس بات کا بارہا ذکر کیا گیا ہے کہ مکتبہ جامعہ سے کسی بھی کتاب کا شائع ہونا اس کتاب اور اس کے تخلیق کار کے لیے سند کا درجہ رکھنے کے مترادف تھا۔ جس کا اعتراف ان تمام اکیڈمیوں اور اداروں نے بھی کیا جنھوں نے شاہد صاحب کو ان کی بے لوث ادبی خدمات کے عوض انھیں مختلف اعزازات سے نوازا تھا۔
شاہد علی خان اردو دنیا میں اس لحاظ بھی ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے کہ انھوں نے ہی سب سے پہلے کتاب نما میں جو ایک علمی و ادبی مجلہ تھا مہمان اداریے لکھنے کی روایت قائم کی تھی. جس نے نہ جانے کتنے ادب دوستوں کو بام عروج پر پہنچا کر بڑے فن کار اور بڑے ادیب ہونے کا تمغہ دلا دیا۔ جو ہنوز جاری و ساری ہے۔ حال ہی میں کتاب نما کے پے در پے تین شمارے پروفیسر شہزاد انجم کی ادارت میں آئے ہیں۔
اسی کتاب میں شامل ایک مضمون بہ عنوان میرے ابا جسے شاہد صاحب کی بیٹی تسنیم شاہد نے تحریر کیا ہے، پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے. اس مضمون کے مطالعہ کے بعد پتا چلتا ہے کہ شاہد صاحب کو مکتبہ جامعہ لمیٹڈ اور کتاب نما سے کس حد تک محبت تھی۔
ملاحظہ فرمائیں ایک اقتباس بہ طور نمونہ:
"ایک باپ کی حیثیت سے انھوں نے ہمیں ہر وہ سہولت مہیا کرائی جس سے کوئی ایک اچھی زندگی گزار سکتا ہے، لیکن وقت نہیں دیا. "
دوسری جگہ یوں لکھتی ہیں:
” وہ مکتبہ کے جنرل مینیجر ہوئے اور اس شیر خوار بچے جیسے ادارے کو پال پوس کر اس شکل میں کھڑا کر دیا جس شکل میں وہ آج موجود ہے. "
تیسری جگہ یوں گویا ہیں:
"مکتبہ ان کی اولاد میں سے ایک تھا۔ ہم ہمیشہ کہتے تھے کہ مکتبہ ابا کی اولاد ہے۔ بلکہ پہلی اولاد ہے۔ اور وہ اس کو ہم سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ مکتبہ جامعہ کے آگے ان کے بیوی، بچے دوسرے درجے کی حیثیت رکھتے تھے. "
صاحب کتاب بھی شاہد صاحب سے انتہا کی حد تک محبت کرتے تھے. جب بھی آپ اپنی جائے ملازمت سے ہفتہ دس دن میں اپنے مکان دہلی آتے تو شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ آپ شاہد صاحب کے پاس مکتبہ، ان کے دولت کدے یا نئی کتاب پبلشنگ ہاؤس حاضری دینے نہ پہنچے ہوں۔ اس حوالے سے مزید معلومات کے لیے ملاخطہ ہو ناظمہ جبیں صاحبہ (جو رشتے میں استاد محترم کی شریکِ زندگی بھی ہیں) کے مضمون بہ عنوان وہی ہے شخص ادیبوں کی آنکھ کا تارا سے چند اقتباسات:
"ہفتہ کے آخری دن اپنے بیوی بچوں کے درمیان ہریانہ سے چل کر دہلی آنے والے جناب ڈاکٹر نصیر الدین ازہر صاحب جیسے ہی اپنے گھر پہنچے، کاندھے سے بیگ اتارا اور واپس سیڑھیوں کی طرف روانہ، ابھی ذرا تین نمبر ہو کر آتا ہوں۔ شاہد صاحب کی دکان بند ہو جائے گی۔ ارے ذرا دو منٹ ٹک کر چائے پانی تو لے لیجیے۔ ارے چھوڑو یوں گیا اور آیا۔"
دوسری جگہ یوں گویا ہیں:
"کبھی کبھی Irritate ہو کر سوچتی کہ میں بھی جا کر دیکھوں، مکتبہ جامعہ کے سابق جنرل مینیجر، یہ شاہد علی خان ہیں کیا چیز۔ جس کی زلفوں کے اسیر یہ جناب نصیر ہیں. "
تیسری جگہ مزاحیہ انداز میں یوں رقم طراز ہیں:
"اچھا! یہی ہیں وہ شاہد علی خان جن کے عشق میں تین بچوں کے ابا نے دنیا و مافیہا سے بے خبری اختیار کر لی ہے. "
آخر میں، مَیں اس کتاب کی نوعیت کے حوالے سے یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ زیر نظر کتاب استاد محترم ڈاکٹر نصیر الدین ازہر کے کئی تنقیدی اور تحقیقی پہلوؤں کو روشن کرتی ہے۔ امید کرتا ہوں کہ تمام ادب دوست اور ادب نواز لوگ اس کتاب کو شرف قبولیت بخشیں گے۔
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے