اردو: اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

اردو: اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

ڈاکٹر سلیم احمد
ایڈیٹر، سہ ماہی ادبی نشیمن، لکھنؤ
موبائل: 9415693119

کوئی بھی رسالہ ہو یا اخبار، اس کی اشاعت اور آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ اشتہار ہی ہوتا ہے اور اس میں سرکاری اشتہاروں کا بڑا اہم رول ہوتا ہے۔لیکن گزشتہ کئی سالوں سے اردو رسائل و اخبارات سرکاری اشتہاروں کے حصول کے لیے ایک نوع کی نبرد آزمائی میں مبتلا ہیں۔ اس صورت حال کے باوجود یہ بات صرف نجی رسائل و اخبارات پر نافذ ہوتی ہے، سرکاری رسائل کو اس نبرد آزمائی سے چھوٹ حاصل ہے۔ اس نوع کے رسائل میں ”آج کل“ اور ”نیا دور“ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ ”آج کل “ کی تو تقریباً ۸۰ برس کی شان دار تاریخ ہے اور ’’نیا دور‘‘ تقریباََ ۶۵ برس کا طویل سفر طے کرنے کے بعد اپنے مدیران اور ذمہ داران کی نا اہلی کی بنا پر دم توڑنے کے کگار پر ہے۔ حالانکہ ان رسائل کو نہ تو سرکاری اشتہارات کی ضرورت رہی ہے اور نہ ہی یہ خریداروں کے محتاج ہوتے ہیں اور پھر یہ نجی رسائل کے مقابلے میں بہت کم قیمت پر دستیاب بھی ہوتے ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے لیے سرکار کی طرف سے خطیر رقم مختص ہوا کرتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایک خبر تیزی سے گردش کر رہی ہے کہ ”معیار“ کی ضمانت مانا جانے والا اردو کا مشہور رسالہ ’’آجکل‘‘ خریداروں کی کم ہوتی تعداد کی وجہ سے بند ہونے کے قریب ہے۔ چونکہ اس رسالے کو اس کے ذمہ داران نے” معیار“ کی سند دے رکھی تھی، اس لیے غیر معروف تخلیق کاروں کو اس میں بہت کم جگہ ملی۔ اور پھر اس کے ارباب مجاز نے کبھی توسیع اشاعت کی مہم بھی نہیں چلائی۔ اس لیے اس رسالے کو آج یہ دن دیکھنے پڑرہے ہیں۔ بہر کیف حالات بہت نازک ہیں۔ اس لیے گلے شکوے بھلا کر اس رسالے کو بند ہونے سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یونی ورسٹی اور کالجوں کے اساتذہ اور وظیفہ خوار ریسرچ اسکالرس ”آجکل“ کے قارئین کی تعداد میں اضافہ کرنے میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ رسالہ بند ہونے کی صورت میں نہ تو مدیر کی تنخواہ میں کوئی کمی ہوگی اور نہ ہی ذمہ داروں یا عملے کی نوکری پر اس کا کوئی منفی اثر پڑنے والا ہے۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے ’’نیا دور‘‘ کے گذشتہ کئی برسوں سے شائع نہ ہونے کے باوجود مدیر، ذمہ داران اور عملے کی نہ تو تنخواہ میں تخفیف ہوئی اور نہ ہی نوکری پر اس کا کوئی اثر پڑا۔ یہاں پر ایک بات واضح کر دوں کہ یہ کہنا کہ خریداروں کی کم ہوتی تعداد کی وجہ سے رسالہ بند ہونے کے قریب ہے، یہ بات ہرگز درست معلوم نہیں ہوتی. کیوں کہ یہ سرکاری رسائل ہیں اور سرکاری رسائل کے بند ہونے کی وجہ صرف اور صرف ذمہ داروں کی ناہلی اور من مانی ہوتی ہے اور من مانی کہیں بھی ہو وہ نقصان دہ ہی ہوتی ہے۔ خریدار کم ہونے کی بات تو محض ایک بہانہ ہے۔ این سی پی یو ایل ماہنامہ ’’اردو دنیا‘‘ سمیت خواتین، ادب اطفال اور تحقیق کے ضمن کے مختلف رسالے شائع کر رہی ہے، اردو اکادمی، دہلی بھی ماہنامہ ’’ایوان اردو‘‘ اور ماہنامہ ”امنگ“ جیسے رسائل کی اشاعت مسلسل جاری رکھے ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے رسائل ہیں جو پابندیِ وقت کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں اور انھیں خریدار بھی مل رہے ہیں، ایسے میں صرف ”آجکل“ کو ہی کیوں خریدار کے نہ ملنے کی شکایت ہو سکتی ہے بھلا۔ اس لیے مسئلے کی جڑ کو کہیں اور تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال رسالے کے بند ہونے کی صورت میں اردو ادب کا بڑا خسارہ ضرور ہوگا۔ لہٰذا تمام اہل قلم، اہل علم اور محبان اردو سے خصوصی اپیل ہے کہ ماہنامہ ’’آجکل‘‘ کو اس زوال آمادہ فضا سے نکالنے میں ہنگامی طور پر تعاون کریں، ساتھ ہی ایڈیٹوریل بورڈ اور دیگر ذمہ داران اپنی پالیسی میں نرمی اختیار کریں اور قارئین کی تعداد میں اضافے کی مہم چلائیں۔ کیوں کہ اس رسالے نے اب تک اردو ادب کی جو خدمت انجام دی ہے اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ لہٰذا اس رسالے کے وجود کو بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے. اس سلسلے میں اردو تنظیموں اور محبان اردو کو حکومت اور متعلقہ اداروں کو میمورنڈم ارسال کرتے ہوئے آگاہ کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی ان کوششوں کی اشاعت اخبارات میں بھی کرائی جانی چاہئے تاکہ بااثر طریقے سے دور تک اس کی آواز پہنچے۔
افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ اردو تہذیب کادم بھرنے والے ہی وقت پر اردو کا عَلم اٹھانے سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ اردو کی روٹی کھانے والے ہی جب اردو کے ساتھ بے وفائی پر اتر آئیں گے تو پھر کس سے امید رکھی جائے گی. یہ نئی بات نہیں ہے۔ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اردو کے حق میں بڑی بڑی باتیں کرنے والے اور اردو کے نام پر اپنی دکان چلانے والے اپنے مفادات کی خاطر اردو کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک المیہ ابھی حال ہی میں راجیہ سبھا کے لیے منتخب ہونے والے معروف شاعر عمران پرتاپ گڑھی کا پیش آیا ہے۔ عمران کی تو دکان اردو سے ہی چلتی رہی ہے، جب تک وہ صرف ہندی کے کوی مانے جاتے رہے، اس وقت تک ان کو پہچاننے والے بس گنے چنے لوگ ہی ہوتے تھے۔ لیکن اردو کو اپنانے کے بعد ہی وہ مقبولیت کی بلندی تک پہنچ پائے اور اسی وجہ سے انھیں کانگریس پارٹی نے ہاتھوں ہاتھ لیا بھی۔ لیکن اردو سے دغا کرتے ہوئے انھوں نے راجیہ سبھا میں اردو کے بجائے ہندی میں حلف لیا۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اردو دوستوں اور مشاعروں کے منتظمین کو چاہئے کہ ایسے دھوکے باز لوگوں کا کھل کر بائیکاٹ کریں، تبھی ان کے عقل ٹھکانے آئے گی۔ یہ معاملہ صرف ایک عمران پرتاپ گڑھی کا نہیں ہے۔ اس کے پیچھےتدراصل ایک شکست خوردہ ذہنیت کام کرتی ہے۔ اس سے قبل اردو کے ایک مقبول ترین شاعر ”وسیم بریلوی“ جن کا اصل نام زاہد حسن خان ہے، وہ سماجوادی پارٹی کےٹکٹ پر ۶ سال تک اتر پردیش قانون ساز کونسل کے رکن رہے اور اب سبک دوش بھی ہوچکے ہیں، انھوں نے بھی کبھی ایوان میں یا ایوان کے باہر اردو کے مفاد میں کوئی بات نہیں کی، صرف مشاعرے پڑھنے میں دل چسپی رکھتے رہے۔ اردو حلقوں کے سرکردہ افراد کی یہ لا تعلقی افسوسناک امر ہے۔ ان کی یہ بے حسی اور سرکاری اداروں کی عدم توجہی کے سبب گنگا جمنی تہذیب جیسی عظیم روایت کی حامل زبان ”اردو“ کو لے کر احساسِ کمتری کا شکار ہونا اور اس کے مستقبل پر آزادی کے اتنے برسوں بعد بھی سوالیہ نشان کا موجود ہونا ایک المیہ سے کم نہیں۔ اردو داں طبقے نے اگر اب بھی سنجیدگی سے اس طرف توجہ مرکوز نہیں کی تو اس شان دار وراثت کا کیا حشر ہوگا، اس کے لیے آنے والے وقت کا انتظار نہیں کرنا پڑےگا بلکہ اس کی تباہی اور ہولناکی کو ایک عام فہم آدمی بھی بیان کر سکتا ہے کہ جو قوم اپنی زبان سے کٹ جاتی ہے وہ اپنے مستقبل کو اپنے دشمنوں کے ہاتھوں گروی رکھنے پر مجبور کر دی جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں خود چوکنا رہنے اور دوسروں کو چوکنا رکھنے کی ذمے داری بھی اٹھانی تو پڑے گی ہی.
(سہ ماہی ادبی نشیمن ،لکھنؤ کے تازہ شمارے کے اداریے سے چند اقتباسات)۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :سہ ماہی ادبی نشیمن کا تازہ شمارہ

شیئر کیجیے

One thought on “اردو: اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

  1. اداریہ میں بے حد اہم باتیں اٹھائی گئیں ہیں۔ نیا دور کا بند ہونا اور آجکل جیسے معیاری اور تاریخی رسائل کے بند ہونے کی کگار پہ ہونا اردو کے شائقین کے لئے ایک المیہ ہے جس کے ذمہ دار صرف مدیر ان ہی نہیں ہیں بلکہ اتر پردیش اور سینٹر میں اردو دشمن حکومتیں زیادہ ذمہ دار ہیں۔ امجد حسین کی ادارت میں نیا دور نے کارہائے نمایاں انجام دئے تھے لیکن اس کے بعد اس کا ذوال شروع ہو گیا تھا۔ اس کا اندازہ تب ہوا جب میری ایک غزل شائع ہوئی اور کئی مہینے تک معاوضہ نہ آنے پر پوچھا تو جواب ملا کہ متعلقہ ڈپارٹمنٹ سے رسالے کے لئے رقم جاری نہیں کی جارہی ہے۔ آجکل کو عابد کرہانی مرحوم نے اپنی ادارت میں زندہ رکھنے کی کافی کوشش کی تھی مگر ان کے بعد اس کی اشاعت میں دو دو مہینے تاخیر شروع ہو گئی تھی اور اب تو شاید بند ہی ہو گیا ہے۔ اس کے انتظامیہ کا عالم یہ تھا کہ ایک بار میں نے سالانہ خریداری کی رقم بھیجی تو چیک گھوم پھر کے ایک مہینہ بعد اس تاکید کے ساتھ واپس آیا کہ اسے مدیر کے پاس نہیں سرکولیشن منیجر کے پاس بھیجا جائے۔ بہر حال سرکاری رسالوں کے زندہ رہنے کے لئے قارئین کا تعاون اور سرکاری منشا اور مدد دونوں ہی ضروری ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے