عالمی یوم ماحولیات اور بڑھتی آلودگی

عالمی یوم ماحولیات اور بڑھتی آلودگی

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
رابطہ: 8969648799

سویڈن کی میزبانی میں اس سال منعقد ہونے والی عالمی یوم ماحولیات کی کانفرنس بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اب سے پچاس سال قبل یعنی 1972 ء میں اقوام متحدہ کی کوششوں سے پہلے اسی سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں انعقاد کیا گیا تھا۔ جس میں ماحولیات کی اہمیت کے پیش نظر دنیا کے 119 ممالک نے اس کانفرنس میں شرکت کی تھی اور ہندستان کی نمائندگی وزیراعظم وقت اندرا گاندھی نے کی تھی۔ اسی وقت یہاں United Nation Environment Program(UNEP) کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ سویڈن کی دارالسلطنت اسٹاک ہوم کی میزبانی میں منعقد ہونے والی اس تاریخی عالمی یوم ماحولیات کی کانفرنس میں اس سال کا Theme یعنی خیالیہ "Only One Earth” رکھا گیا ہے۔ یعنی ”صرف ایک زمین“ پر قدرت کے ساتھ بہتر ہم آہنگی کو ضروری قرار دیتے ہوئے ماحولیات کے مسائل کے تدارک کی تدابیر اس کانفرنس میں کیے جائیں گے۔
ہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ماحولیاتی، فضائی و آبی آلودگی نے کرہ ارض پر موجود انسان، حیوانات، اور نباتات کے لیے بہت ہی سنگین اور تشویشناک حالات میں مبتلا کر رکھا ہے۔ انسانی زندگی کی بقا  زمین، ہوا اور پانی کے ساتھ ساتھ لاتعداد اقسام کے جنگلوں، پیڑ پودوں، جانوروں، پرندوں، کیڑے مکوڑوں، سمندروں، ندیوں، تالابوں پر منحصر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر نظام قدرت کے عطا کردہ فطری عطیات اور وسائل پر ہی انسانی زندگی کا دارومدار ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ ہم انسان ہی قدرت کی ان بیش بہا عطیات کی اہمیت و افادیت سے بے پرواہ ہیں اور ان کے تحفظ و بقا کے سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔ نتیجہ میں قدرت کے فطری ماحول کے توازن کو برقرار رکھنے میں ہم دن بدن ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ جن کے منفی اثرات پورے کرہ ارض پر پڑ رہے ہیں اور ان کا خمیازہ موجودہ نسل بھگت رہی ہے اور یہی حال رہا تو اس سے کہیں زیادہ آنے والی نسل بھگتے گی۔ اگر ہم ایک نظر بڑھتے ماحولیاتی مسائل پر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ بہت تیزی سے بڑھتی آبادی، شہروں کا پھیلاؤ، جنگلات کا کٹاؤ، کیمیائی و نیوکلائی عمل اور فضائی آلودگی و کثافت سے ماحولیات کی سنگینی میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق بڑھتی فضائی آلودگی سے ہر سال عالمی سطح پر 70 لاکھ سے زیادہ افراد کی ہلاکت ہو رہی ہے اور کئی لاکھ لوگ دمّہ، کینسر اور دیگر کئی طرح کے امراض کے شکار ہو رہے ہیں۔
عالمی سطح پر بڑھتے ایسے منفی ماحولیاتی اثرات و مسائل کو دیکھتے ہوئے 15دسمبر 1972ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ماحولیات کے تحفظ و توازن کی ضرورت کے پیش نظر اسٹاک ہوم میں ایک اہم کانفرنس کا انعقاد کیا تھا اور یہ فیصلہ ہوا تھا کہ قدرت کے فطری و ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر سال عالمی سطح پر 5 /جون 1974ء سے عالمی یوم ماحولیات کا انعقاد کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے اس اہم فیصلہ کے مطابق 5 جون 1974ء کو امریکا کے شہر اسپوکانہ میں پہلی بار عالمی یوم ماحولیات منعقد ہوا تھا۔ جس کے کچھ مثبت نتائج و اثرات کچھ ایسے ممالک میں دیکھنے کو ملے، جہاں کی حکومت اور عوام نے انسانی بقا کے اس اہم مسئلے پر سنجیدگی دکھائی۔ لیکن ان ممالک میں جہاں انسانی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور صنعتی ترقی کی رفتار بھی تیز ہے، وہاں ماحولیات کی سنگینی کو نظر انداز کیا گیا۔ جس کے مضر اور منفی نتائج ایسے ممالک میں زیادہ نظر آ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بار بار اس عالمی مسئلہ کے سلسلے میں خبردار کرنے کی کوشش کی ہے۔ United Nation Environment Assembly کی ایک رپورٹ میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے دنیا بھر میں تیزی سے معدوم ہوتے جانور، نباتات، انسانی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ کے باعث آلودہ فضا اور پلاسٹک کے استعمال، نامیاتی کھاد اور پانی میں ہامونز میں تبدیلی لانے والے کیمیائی مواد کی موجودگی کو دنیا اس کے ماحول اور اس کی آبادی کے لیے سنگین خطرات قرار دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ ایمسٹرڈیم اور لندن سے تعلق رکھنے والے دو انوائرمینٹل سائنس دانوں جؤستیا گپتا اور پال ایکنز نے مرتب کی تھی۔
عالمی سطح پر بڑھتی آلودگی کے سلسلے میں ورلڈ وائلڈ فنڈ کی جانب سے بھی جاری کردہ Living Planet نامی رپورٹ میں حیران کن اعداد شمار پیش کیے گئے ہیں، نیزماحولیات کے بڑھتے خطرات کے مد نظر اقوام متحدہ نے 1987ء میں یہ طے کیا تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک کو ماحولیات کی سنگین صورت حال سے متنبہ کرنے اور ان کے تدارک کے لے ہر سال دنیا کے مختلف ممالک میں کسی ایک ملک میں مؤثر تھیم کے ساتھ عالمی یوم ماحولیات کے انعقاد کی میزبانی دی جائے اور اسی تھیم پر پوری دنیا میں ماحولیات کو سازگار بنانے کی کوشش ہو۔ بڑھتی آلودگی اور ماحولیاتی مسائل کے تعلق سے بھارت بھی فکر مند رہا ہے اور یہاں ماحولیات کی حفاظت کے لیے اندرا گاندھی کی سربراہی میں نومبر 1986ء کو ہی قانون نافذ کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے مذکورہ فیصلہ کے تحت ہی گزشتہ 2018ء میں عالمی یوم ماحولیات کانفرنس کے انعقاد کے لیے بھارت کو میزبانی سونپی گئی تھی۔ جسے بھارت نے قبول کرتے ہوئے دہلی کے وگیان بھون میں 5 /جون 2018ء کو عالمی یوم ماحولیات منعقد کیا تھا۔ اس کانفرنس میں دنیا کے کئی ممالک کے مندوبین، سائنس دانوں نے شرکت کی تھی اور انھیں توقع تھی کی ایشیا کے اس بڑے جمہوری ملک بھارت میں ماحولیات کے منفی خطرہ کے پیش نظر اہم لائحہ عمل تیار کیے جائیں گے۔ لیکن اس میزبان ملک بھارت کے سربراہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے کلیدی خطبہ میں جو کچھ فرمایا، انھیں سننے کے بعد مندوبین و سائنس دانوں نے کیا تاثر اخذ کیا ہوگا، اس کا اندازہ بس وزیر اعظم کی ”عالمانہ“ تقریر سے ہی  لگایا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم ہند نے اس عالمی کانفرنس میں بتایا تھا کہ انھوں نے اپنے ملک کے ماحولیات کی بہتری کے لیے 40 ملین نئے رسوئی گیس کنکشن دیے ہیں۔ اس سے دیہی خواتین کو زہریلے دھوئیں سے نجات ملے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ دیہی غریب خواتین کو ایک بار رسوئی گیس کنکشن دینے کے بعد ان کی ضرورت کے مطابق ہر ماہ دو ماہ پر مفت گیس بھی دیا جاتا تو ممکن ہے ان دیہی خواتین کو زہریلے دھوئیں سے نجات ملنے کی توقع تھی۔ لیکن مسئلہ تو یہ تھا کہ جن دیہی خواتین کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہ ہر ماہ ہزار روپے کی گیس کہاں سے خریدتیں۔ نتیجہ یہ ہوا  وہ سارے رسوئی گیس سلنڈر کو بے کار محض سمجھتے ہوئے ندیوں اور تالابوں میں پھینک دیے گئے اور اس کے بعدوہ پہلے کی طرح ہی زہریلے دھوئیں میں گھٹ رہی ہیں۔ ہمارے وزیراعظم نے دوسری اہم بات اس عالمی کانفرنس میں یہ بتائی کہ ان کی کوششوں سے ملک میں ’300 ملین ایل ای ڈی بلب نصب کیے گئے، جس سے بجلی کی بچت ہوئی اور فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کے اضافی اخراج سے بچاو ممکن ہو سکا‘۔ بجلی کے بلب سے کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج ہوتا ہے، یہ عالمی کانفرنس میں موجود مندوبین اور سائنس دانوں کے لیے بہت بڑا انکشاف رہا ہوگا۔ طوالت کے خوف سے بھارت کے وزیراعظم کے اس’تاریخی‘ خطاب پر تفصیل میں نہ جاتے ہوئے یہ بھی بتاتا چلوں کہ 2018ء کے عالمی یوم ماحولیات کا تھیم Beat plastic pollution طے کیا گیا تھا اور بھارت نے اپنی میزبانی کے دوران پلاسٹک اور پانی کی آلودگی کو ختم کرنے کا عہد کیا تھا۔ لیکن افسوس کہ ان دنوں آلودگی کا خاتمہ ہونا تو دور، بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے۔ اس کانفرنس کے بعد ہی اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کے ایک سروے کے مطابق ایشیا کی تیسری بڑی معیشت بھارت کے 14 شہر آلودہ فضا کے باعث دنیا کے بدترین 15 شہروں میں شامل ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ اپنے دور اقتدار کے 2019ء تک وہ ملک میں صفائی کی صورت حال کو بہتر کریں گے، تاہم وہ اب تک اس میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا بھارت کے ماحولیات کے ضمن میں ایسے منفی تاثرات بلا شبہ افسوسناک ہیں۔ حیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت فضائی، نباتاتی، سمندری اور جنگلاتی آلودگی کے سلسلے میں کبھی سنجیدہ نظر نہیں آئی۔ جس کے نتیجہ میں ملک کے بیشتر شہر کی فضا میں زیریلے گیس تحلیل ہورہے ہیں۔ اس سال یعنی 2022ء کے عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر حکومت ہند کے محکمہ صحت نے ملک بھر میں سائیکل ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے تاکہ لوگوں میں اپنی اچھی صحت اور فٹ نس کا احساس ہو۔
گزشتہ سال2021ء کے عالمی یوم ماحولیات کے تھیم Ecosystem Restoration (ماحولیاتی نظام کی بحالی) کے ساتھ پاکستان کی میزبانی میں منعقد ہوئی تھی۔ جہاں اس کانفرنس میں ماحولیات کو سازگار بنانے کے لیے کئی اہم لائحہ عمل تیار ہوئے۔ لیکن حالات میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔ پاکستان میں بھی ماحولیات کا بہت برا حال ہے۔ ابھی امریکا کے ایک معروف صحافی احتشام ارشد نظامی، جو کچھ دنوں قبل پاکستان کے دورہ پر تھے۔ انھوں نے کراچی کی اہم شاہراہوں پر پڑے کوڑا کرکٹ، غلاظت، پولی تھن وغیرہ کے سڑتے گلتے تعفن کی اور ان سے فضا میں پھیلی دھوئیں جیسی آلودگی کی تصویر دکھائی تھی۔ جوحد درجہ تشویشناک اور افسوسناک ہے۔ ہمارے دوسرے پڑوسی ممالک کا بھی اس معاملے میں حال اچھا نہیں ہے۔ ماحولیات کے معاملے میں گذشتہ کئی برسوں سے سب سے زیادہ متاثر رہنے والا ملک بنگلہ دیش اوّل نمبر پر ہے، تیسرے نمبر پر پاکستان، پانچویں نمبر پر ہندستان اور دسویں نمبر پر نیپال ہے۔
عالمی سطح پر بڑھتے زہریلے ماحولیات کے پیش نظر بہت سنجیدگی سے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا، اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ حکومت اور عوامی سطح پر متنبہ کرنے کا عمل جاری رکھنے کی توقع ہے، تاکہ زہریلے ماحولیات کے منفی اثرات سے ہونے والے امراض اور ہلاکتوں سے دنیا محفوظ رہے۔
٭٭٭٭٭
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:بہار میں اردو اور اقلیتی ادارے معطل کیوں ہیں؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے