ڈاکٹر ابرار احمد کی کتاب: انتظار حسین کی افسانہ نگاری

ڈاکٹر ابرار احمد کی کتاب: انتظار حسین کی افسانہ نگاری

علیزے نجف

ایک لکھاری جب قلم اٹھاتا ہے تو سب سے پہلے لفظوں کے پیچ و خم سے نبرد آزما ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ ان پہ اپنی گرفت مضبوط کر لیتا ہے پھر احساس کی شمولیت ان کو گرہ آلود ہونے سے بچاتی ہے تاکہ لفظ الجھے نہیں اور تحریر کی اصل ماہیت و علت کو زک نہ پہنچے۔ پھر مشق در مشق کے بعد تحریریں اس کے احساسات کی عکاس اور اس کی صلاحیتوں کی ترجمان بن جاتی ہیں جسے وہ پوری خوش اسلوبی کے ساتھ استعمال کرتا ہے اور ذوق و ادب کی زیبائش سے اسے آراستہ کرتا چلا جاتا ہے۔
اور پھر جب ایک لکھاری انھی پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے ایسے مقام پر آتا ہے جب وہ کسی عہد رفتہ کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کو واگذار کرنے کے لیے قلم آزمائی کرتا ہے تو ایسے میں نہ صرف وہ اس ہستی کے محاسن کو بیان کرتا ہے بلکہ وہ ان تحریروں کے پس پردہ اپنے ادبی احساسات اور سماجی نظریات اور اپنی منفرد اسلوب نگاری کی بھی عکاسی کر رہا ہوتا ہے۔ ایک قاری ایسے میں نہ صرف موضوع بیاں شخصیت کے تئیں اپنے علم میں اضافہ کر رہا ہوتا ہے بلکہ لکھاری کے قلم کے پیچ و خم سے بھی آگاہی حاصل کر رہا ہوتا ہے۔
میری اس تمہید بیانی کا مقصد ایک ایسی شخصیت کی طرز تحریر اور ان کی ذات کو زیر بیان لانا مقصود ہے جن کا نام ڈاکٹر ابرار احمد ہے جو کہ خود کو اردو ادب کا طالب علم کہتے ہیں، ہم اسے اپنی زبان میں منکسر المزاجی کہہ سکتے ہیں۔ اردو ادب سے ہی انھوں نے جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی ہے. اس وقت وہ بحیثیت پروفیسر اپنے تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی کتاب ‘انتظار حسین کی افسانہ نگاری` کے عنوان سے منظر عام پر آ چکی ہے جو کہ تحقیق و تنقید پر مبنی ایک جامع کتاب ہے۔ تحقیق و تنقید لکھاری سے ہمیشہ سنجیدگی کا مطالبہ کرتی ہے اور قوت ارتکاز تنقید نگاری کے لیے معاون ثابت ہوتی ہے تاکہ ایک لکھاری اپنے موضوع فکر سے کسی بھی لمحے نہ بھٹک سکے. جب ہم ان کی اس کتاب کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی تحقیقانہ صلاحیت سے استفادہ کرنے کی بھرپور سعی کی ہے اور یہ کہیں نہ کہیں ان کی شخصیت کی سنجیدگی اور ان کی ذات میں یکسوئی کی صفت کو اجاگر کرتی ہے۔
ڈاکٹر ابرار احمد ادب اطفال سے بھی شغف رکھتے ہیں اور ان کے اس شغف کا اندازہ ایک قاری ان کی ان کہانیوں سے بہ آسانی لگا سکتا ہے جو انھوں نے بچوں کے لیے لکھی ہیں۔ بچوں کے لیے اعلا ادب تحریر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لکھاری اپنی مشاہداتی صلاحیت کو ہمیشہ بیدار رکھے اور ساتھ ساتھ وہ بچوں کی نفسیات سے بھی آگاہ ہو۔ ابرار احمد کی بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں میں اس کا عکس واضح طور پہ نظر آتا ہے۔
یہ تو ہوا مصنف کا شخصی تعارف اور یہ میں نے اس لیے کروایا تاکہ ان کی تصنیف کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کے مافی الذہن کو سمجھنے میں آسانی ہو. اس وقت میرا موضوع انتظار حسین کی افسانہ نگاری میں ڈاکٹر ابرار احمد کی اسلوب نگارش کا جائزہ لینا ہے اس لیے میں اپنے موضوع پہ واپس آتی ہوں ۔
انتظار حسین جن کا شمار جدت پسند مصنفین میں ہوتا ہے، انھوں نے اپنے عہد کے کم و بیش تمام موضوعات کو جس طرح اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے، شکستہ سماجی اقدار کو تقویت دینے کے لیے انھوں نے اپنے افسانوں میں جس طرح کا اسلوب اختیار کیا، ان تمام پہلوؤں کو مصنف نے بلاتامل بڑی روانی کے ساتھ اپنی اس کتاب میں بیان کیا ہے. اس کتاب میں انھوں نے نہ صرف انتظار حسین کے افسانوں کا تجزیاتی جائزہ پیش کیا ہے بلکہ انھوں نے ان کے سوانحی کوائف اور ادبی پس منظر اور اس وقت کی سماجی صورت حال اور ملک کی تقسیم کے تحت بدلتے ہوئے اقدار کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ انتظار حسین ایک ایسی ادبی شخصیت تھی جو کہ ہمہ جہت صلاحیتوں کی حامل تھی. اس لیے ان کے فن کا محاکمہ کرنے والے کے لیے ضروری تھا کہ وہ ہمہ تن یکسوئی کے ساتھ ان کے افسانوں کے بین السطور کی ترجمانی کرے. ڈاکٹر ابرار احمد نے اس جدو جہد میں قابل قدر کوشش سر انجام دی ہے۔
مصنف نے یہ چاہا کہ انتظار حسین کی شخصیت کے تمام پہلو کچھ اس ترتیب کے ساتھ قاری کے سامنے آئیں کہ ان کا ذہن بوجھل ہوئے بغیر ان سے روشناس ہوتا چلا جائے. اس غرض سے انھوں نے انتظار حسین کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کو مختلف ابواب میں تقسیم کر دیا ہے۔
پہلے باب میں انھوں نے انتظار حسین کے سوانحی کوائف اور ان کو ملنے والے اعزازات اور اسفار کو بلا کم و کاست بیان کیا ہے اور ان کی تمام تصنیفات کی تفصیل بھی اسی باب کے ذیل میں بیان کی ہے. ان کی تصنیفات کی ایک لمبی فہرست ہے جو کہ انتظار حسین کی ہمہ جہت شخصیت کی زندہ دلیل ہے۔
اس کے بعد ذکر آتا ہے اس کتاب کے دوسرے باب کا جس کو مصنف نے ‘ انتظار حسین اور ان کا عہد` کا نام دیا ہے. اس کے تحت انھوں نے انتظار حسین کے زمانے کی صورت حال اور ان کے بچپن کا ماحول اور گھر کی فضا اور اس عہد نے انتظار حسین کی شخصیت کو جس طرح [متاثر] کیا ہے اس کو انھوں نے کمال خوبی سے بیان کیا ہے، اسی کے تحت ایک جگہ ڈاکٹر ابرار احمد لکھتے ہیں:
” ہر تخلیق تخلیق کار کے ذہن و شخصیت اور اس کے عہد و سماج کی عکاس و ترجمان ہوتی ہے جس کے آئینہ میں ہم سماج میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا عکس دیکھتے ہیں. جیسے جیسے ہمارے سماج میں تبدیلی ہوتی ہے اسی اعتبار سے ادب کے فن میں بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے. ظاہری طور پر اس کا فن خالص انفرادی چیز معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں اس کی تخلیقات تمام تر خارجی حالات، واقعات، اور اجتماعی حادثات کا نتیجہ ہوتی ہے"
بےشک ہر دور کا لکھاری اپنے دور میں مروجہ اقدار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا. کیوں کہ سماجی، معاشی، ثقافتی، تہذیب و اقدار کا دائرہ کبھی اتنا محدود نہیں ہوتا کہ اس سے بہ آسانی بچا جا سکے ایسا ہی کچھ انتظار حسین کے ساتھ بھی ہوا۔
اسی لیے ڈاکٹر ابرار احمد نے انتظار حسین کی اردو ادب کے تئیں ان کی خدمات پر روشنی ڈالنے سے پہلے انتظار حسین کی جائے پیدائش اس وقت کی مہیا سہولتوں اور درپیش مسائل، ان کے گھر اور گرد و نواح کے ماحول، ان کی دل چسپی، فطرت کے تئیں ان کی جذباتیت پر بڑی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ اسی کے ذیل میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں ‘کسی ادیب کی تخلیق کا جائزہ لینے سے قبل اس تخلیق کار کے عہد کا مطالعہ اشد ضروری ہے۔ کیوں کہ ادیب کی عظمت کا صحیح اندازہ اس کے پورے ماحول کے تناظر میں ہی کیا جا سکتا ہے` انھوں نے اپنی اس کتاب میں بعینہ اپنے خیال کی عملی توثیق کی ہے۔ اس وقت کا ادبی ماحول کیسا تھا اور کس طرح ان کے اندر ادبی ذوق پروان چڑھا اور اس وقت ان کے احساس پہ کیا بیتی اور خیالات میں کیا انقلاب پیدا ہوا جب وہ اپنے آبائی مکان سے ہجرت کر کے ہاپوڑ اور ہاپوڑ سے ہجرت کر کے میرٹھ پہنچے یہ ان کی زندگی کی پہلی ہجرت تھی تو محبت کا یہ فطری تقاضہ تھا کہ وہ برسوں اس کے زیر اثر رہے. اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے ابرار احمد نے انتظار حسین کا ہی وہ جملہ بطور اقتباس نقل کیا ہے جو انھوں نے سہیل احمد کے کسی سوال کے جواب میں کہا تھا:
"جی ہاں ہجرت میری زندگی میں بہت شروع سے ہی آ چکی تھی. پہلا داغ اس وقت لگا ہے جب میں نے اپنی بستی ڈبائی سے ہجرت کی اور اٹھ کر دوسرے شہر آیا جسے میرٹھ ضلع کہتے ہیں۔ جہاں تک میرا خیال ہے دس گیارہ سال کی عمر تک اس بستی (ڈیائی) میں رہا ہوں. وہ تو دس سال تھے دس یا گیارہ تھے مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ پوری ایک صدی تھی وہ علاقہ وہ چھوٹی سی زمین وہ بستی اور اس کے باہر چھوٹے چھوٹے دیہات جہاں میں کبھی کبھی یکے میں بیٹھ کر جایا کرتا تھا، کبھی بیل گاڑی میں، ان سب چیزوں کو دھیان میں لاتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ چھوٹی سی زمین پورا بر اعظم تھی"
یہ اقتباس انتظار حسین کی پچھلی دس سالہ زندگی اور اس وقت کے ان کے احساسات اور ہجرت کے کرب کی بھرپور عکاسی کرتا ہے اور اس کے بعد ان کی گذرنے والی زندگی نے جس طرح ان کے شعور کی تربیت کی ہے ان کے افسانوں, سفرناموں اور ڈراموں میں اس کی جھلکیاں صاف طور پر نظر آتی ہیں. انتظار حسین نے اگر اپنے شعور کو افسانوں ڈراموں میں پرویا ہے تو ابرار احمد نے اپنے تحقیقی سطور میں ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو مزید واضح کیا ہے انھوں نے اس سب کچھ کو بیان کرنے کے لیے بالکل سادہ اور عام فہم اسلوب اختیار کیا ہے اور حتی المقدور مشکل الفاظ کے استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔
اسی باب کے تحت وہ آگے لکھتے ہیں کہ کس طرح تقسیم کی خونی آندھی نے اس وقت کے ماحول میں ایک انتشار برپا کردیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے امن پسند اور بھائی چارہ والا ماحول تعصب و تنگ نظری کی نذر ہو گیا اور اس وقت کی سیاسی صورت حال نے کس طرح کروٹ لی اور ہندستان کی تقسیم میں کس طرح کے نظریات نے کلیدی کردار ادا کیا اور اس کے بعد کس طرح کے خیالات تھے جس نے ملک کی ترقی کی سمت کو لاسمتی میں تبدیل کر دیا. اور تقسیم کے بعد کس طرح کے ماحول کو فروغ ملا. ان سب کچھ کو انتظار حسین نے جس طرح اپنی تصنیفات کے ذریعے اپنے قاری تک پہنچایا تھا اور جس طرح اس کی منظر کشی کی تھی ابرار احمد نے ان سب کو بڑی عرق ریزی کے ساتھ اپنی تحقیق کے ذریعے اکٹھا کیا اور نہایت ہی دیانت داری کے ساتھ اپنے جامۂ الفاظ میں ڈھال کر دنیاے ادب کے قارئین کے حوالے کیا ہے. ان کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے یہ بات واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے. اس وقت تقسیم ہند نے ہندو و مسلم اتحاد میں جس طرح نقب لگائی تھی اس کی دراڑیں وقت کے ساتھ بڑھتے بڑھتے ایک خلا کی صورت اختیار کر چکی ہے. فی الوقت اس نے ملکی معیشت کو دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اور سیاست جو کہ ہر دور میں ملکی نظام کا محرک رہی ہے اس نے اس چنگاری کو ہوا دے دے کر دہکتے ہوئے شعلوں میں تبدیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے. اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ لوگ ہر شے پر واقعے کو مذہب کی عینک سے دیکھنے لگے، جس کے اثرات آج کے دور میں بطور واقعہ نظر آنے لگے ہیں۔
انتظار حسین نے ایسے ہی دور میں افسانے ڈرامے وغیرہ لکھے، جب کہ ہر طرف انسانیت اخلاقیات کی دریدہ دامنی کی کوششیں شروع ہو چکی تھیں اور مذہبی تفریق بھی اپنے پر پھیلانے لگی تھی. تہذیبی، اخلاقی، سماجی قدروں کی شکست و ریخت کے اثرات عام انسانی زندگی کو متاثر کرنے لگے تھے اور لاقانونیت اور تخریب کاری کے واقعات عام ہوتے جا رہے تھے. ڈاکٹر ابرار احمد نے ان تمام زاویوں کو اپنی کتاب میں کماحقہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے. مثال کے طور پر ان کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
"جس طرح کے سیاسی و سماجی ماحول میں انتظار حسین کی ذہنی نشوونما ہوئی تھی انھوں نے اپنے ماحول سے جو اثرات قبول کیے ان کو پورے شرح و بسط کے ساتھ اپنی تحریروں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں اس عہد کی سیاسی، سماجی، اور معاشرتی زندگی اپنی تمام جزئیات کے ساتھ نظر آتی ہے۔ اگر کوئی شخص اس عہد کے سیاسی سماجی اور معاشرتی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے تو ان کی تحریریں اس کے لیے بیش قیمتی اور کارآمد مآخذ ثابت ہوں گی."
عام حالات کو ایک ادیب نہایت گہرائی سے دیکھنے کا عادی ہوتا ہے اور جب حالات دگرگوں اور معمول سے ہٹ کر ہوں، ایسے میں ایک ادیب کا عام انسان سے زیادہ متاثر ہونا بالکل فطری ہے. بالکل ایسا ہی کچھ انتظار حسین کے ساتھ بھی ہوا. ان کی ہر تحریر ان کے عہد کی عکاس ہے. جب انتظار حسین جیسا حساس قلم کار قلم اٹھاتا ہے تو ان کی تحریروں میں سوز بھی ہوتا ہے اور سچائی بھی اور درپیش مسائل کا ذکر اور اس کے سد باب کی کوشش بھی نظر آتی ہے. میرے خیال میں کسی عہد کا ایک سچا ادیب بعد کے دور کا جزوی مؤرخ بھی ہوتا ہے۔ بعد کی آنے والی نسلیں ان کی تحریروں کی نظر سے اس وقت کو دیکھتی اور سمجھتی ہیں۔بالکل اسی طرح ابرار احمد نے انتظار حسین کے افسانوں اور دیگر تصانیف کے ذریعے جو کچھ دیکھا اور سمجھا ان کی یہ تحقیق پہ مبنی کتاب اسی کا ماحصل ہے.
اس دور کے اردو ادب کے دوسرے ادیبوں کی تحاریر پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہی حساسیت اور زاویہ نظر اپنی اپنی ہیئت میں دوسرے ادیبوں کے یہاں بھی نظر آتی ہے. یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سماجی ماحول کا ادب پر پڑنے والا اثر بالکل فطری زود اثر ہوتا ہے۔
اس کتاب کے تیسرے باب کو انھوں نے "انتظار حسین کی افسانہ نگاری کا فکری و فنی تجزیہ" کے عنوان سے موسوم کیا ہے. اس باب کے تحت انھوں نے انتظار حسین کی افسانہ نگاری کا حقیقی تجزیہ کیا ہے. اس زاویے پہ میں اپنی رائے دینے سے پہلے انھی کا ایک اقتباس نقل کرنا چاہوں گی.
” انتظار حسین کے اب تک متعدد افسانوی مجموعے گلی کوچے (1954ء) کنکری (1955ء)، آخری آدمی (1967ء)، شہر افسوس (1972ء)، کچھوے (1981ء)، خیمے سے دور (1986ء)، خالی پنجرہ (1993ء)، شہر زاد کے نام (2002ء) اور نئی پرانی کہانیاں (2006ء) شائع ہو چکے ہیں جن کے رجحانات اور موضوعات ایک دوسرے سے مختلف جہات کی نشان دہی کرتے ہیں. ان کے افسانوں کے خاص موضوعات ہجرت، ماضی کی بازیافت، مذہبی و اخلاقی اقدار کی شکست و ریخت، ذہنی یا داخلی انتشار، تشکیک، اجنیت، تنہائی، محرومی، مایوسی کا احساس، عدم شناخت، تہذیبی و معاشرتی رشتوں کے زوال کا احساس، تقسیم ہند، فسادات، قیام بنگلہ دیش اور ان سے پیدا شدہ سیاسی و سماجی حالات اور ان تمام کے نتیجے میں انسان کا مرتبۂ انسانیت سے گر جانا بلکہ حیوان کے قالب میں تبدیل ہو جانا شامل ہے۔ انتظار حسین اپنے افسانوں میں ان تمام مسائل و موضوعات کے ساتھ ساتھ فرد پر پڑنے والے مختلف اثرات کا بھی احاطہ کرتے ہیں. "
مذکورہ اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے ان کے افسانوں کا تجزیہ اس خوب صورتی کے ساتھ کیا ہے کہ قاری انتظار حسین کے افسانوں کے تمام پہلوؤں سے مختصراً متعارف ہو سکتا ہے. ان کے اس تجزیاتی خاکوں کو پڑھ کر بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انتظار حسین ہجرت کے کس کرب سے گذرے تھے، اپنے آبا و اجداد کی تہذیب و معاشرت اور ان کی روایات و رسومات سے کٹ کر ان کے احساسات کیا تھے، یہ سب کچھ ہمیں ان کی تحقیق میں نظر آتا ہے۔
ان کے افسانے "محل والے" کے مرکزی خیال کا تجزیاتی جائزہ لیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:” ہجرت کرنے والے یہ لوگ جو کبھی اخلاقیات اور اتحاد میں لوگوں کے لیے مثال ہوا کرتے تھے بڑے سے بڑا طوفان بھی جن کے اتحاد کو نہیں توڑ سکا تھا لیکن نئے وطن کے آباد ہونے کا مسئلہ ان کے لیے اتنا بڑا مسئلہ بن گیا کہ ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا اور وہ اخلاقی طور پر اتنے پست ہوتے چلے گئے کہ وہ منتشر اور بکھر کر رہ گئے. اس سے وطن میں آباد ہونے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے" اس تجزیاتی اقتباس سے ڈاکٹر ابرار احمد کی تجزیاتی صلاحیت کا اندازہ تو ہوتا ہی ہے اور ساتھ میں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ محسوسات پر ان کی گرفت کتنی مضبوط ہے۔
اسی طرح انھوں نے یکے بعد دیگرے ان کے سارے ہی افسانوں کا اس گہرائی سے تجزیہ کیا ہے کہ ان کے بیان کردہ لفظوں میں سارے ہی کردار اپنے ما فی الذہن کی ترجمانی کرتے نظر آ رہے ہیں، یہ وہ صفت ہے جو ایک لکھاری کو لکھاری بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔
انتظار حسین اپنے اس فنی سفر میں جس طرح کے تجرباتی موڑ سے گذرے، مثلاً جس طرح تصوف، فلسفے، بین المذاہب تعلیمات کی تاثر انگیزی نے ان کے افسانوں میں علامت اور تمثیل نگاری پیدا کرنے میں جس طرح ایک اہم کردار ادا کیا تھا وہ سب کچھ اس کتاب میں بڑی سلاست و سادگی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے. انتظار حسین نے اپنے افسانوں کے کرداروں کی تخلیق میں اپنے ماضی کی یادوں کا سہارا لیا، انھوں نے بدلتے وقت کی قدروں کی حقیقت کو ماضی کی تہذیب کی روشنی میں عیاں کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے. انھوں نے ہر طرح کے خیالات کو سنا، سمجھا اور مناسب لگا تو اپنے افسانوں کے ذریعے پیش کیا. جیسا کہ خود ابرار احمد لکھتے ہیں :
"جدید افسانہ نگاروں میں یہ امتیاز صرف انتظار حسین کو حاصل ہے کہ انھوں نے اساطیر، تمثیل، دیومالا، اور تاریخ کی بازگوئی سے فائدہ اٹھا کر جدید افسانوں کو نئے فنی اور معنیاتی امکانات سے روشن کیا ہے. "
افسانہ یا کسی دوسری صنف کی تحریروں میں اسلوب و زبان کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو ادب کو نفیس اور اعلا ادب میں تبدیل کر دیتا ہے اور کسی لکھاری کی اصل صلاحیتوں کا اندازہ اس کے اسلوب و زبان سے ہی ہوتا ہے، غرضیکہ اسلوب و زبان کا کمال لکھاری کے درجۂ کمال کو ترتیب دیتا ہے. اس ضمن میں اگر میں یہ کہوں کہ انتظار حسین کے اسلوب نگارش اور زبان دانی پر کوئی تبصرہ کرنا میری حد جسارت میں نہیں آتا تو شاید میرا یہ خیال غلط نہیں ہوگا کیوں کہ اردو ادب کی عالمی سطح پہ انتظار حسین کی اسلوب نگاری کی آفاقیت کا بڑے بڑے دانشور اعتراف کر چکے ہیں اور خود اس کتاب کے مصنف نے اس کا بلا تامل نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ اس پر تفصیل کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ہے۔
اگر اس وقت میں ڈاکٹر ابرار احمد کی اسلوب نگاری پہ بات کروں تو میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ بےشک اپنی تحقیق و تنقید کو اس قدر خوب صورت اسلوب و بیان میں پیش کیا ہے کہ دل معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لفظ کا بوجھل پن اور قطع احساسی، اور غیر ضروری ابہام، اور ناقص تسلسل سے انھوں نے حتی الامکان گریز کیا ہے جو کہ یقینا ان کی شعوری کوشش اور عمدہ صلاحیت کا نتیجہ ہے۔
اس کتاب کے چوتھے اور آخری باب کا عنوان "انتظار حسین کے افسانوں میں اساطیری و دیومالائی عناصر" ہے اس باب میں انھوں نے انتظار حسین کی ان شعوری و غیر شعوری کوششوں کا ذکر کیا ہے جس کا انھوں نے اپنے افسانوں کی تخلیق کے لیے سہارا لیا ہے جو کہ افسانوں کی تاریخ میں تاریخی اہمیت کے حامل رہے ہیں اور جدید افسانہ نگاری میں دیومالائی اساطیر کے کثرت استعمال نے افسانوں کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔
انتظار حسین جو کہ دیو مالائی اساطیر کی اپنے افسانوں میں شمولیت کے لیے اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں، ان کے افسانوں میں بہ کثرت اس کی مثالیں ملتی ہیں اور یہ اساطیر کی گہرائی اور تہہ داری آگے چل کر ان کی ذات کا جزو لاینفک بن گیا ہے اور ان کا طرۂ امتیاز بھی. ان کے فن کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہوئے گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
"انتظار حسین کا فن اپنی قوت ان تمام سرچشموں سے حاصل کرتا ہے جو تہذیبی روایات کا منبع ہیں یعنی یادیں، خواب، انبیا کے قصے، دیومالا، توہمات ایک پوری قوم کا اجتماعی مزاج اور اس کا کردار اور اس کی شخصیت. "
انتظار حسین کا اساطیری مآخذ ہندی اور اسلامی اساطیر ہیں جس کا انھوں نے گہرائی کے ساتھ مشاہدہ و مطالعہ کیا ہے پھر اپنے افسانوں میں جا بجا پیش کیا ہے. مصنف نے ان کے اساطیر پہ مبنی تمام افسانوں کا گہرائی سے تجزیہ کرتے ہوئے بطور مثال ان کے اقتباسات کو بھی بیان کیا ہے.
ڈاکٹر ابرار احمد کی یہ کتاب انتظار حسین کے فکری و فنی اور نظریاتی پہلوؤں پر مبنی سیر حاصل تحریر ہے. انھوں نے اگرچہ اپنی تحقیق و تنقید کو معروضی شکل میں پیش کیا ہے لیکن پڑھتے ہوئے تفصیل کا لطف ملتا ہے. کیوں کہ کچھ مفاہیم بین السطور میں رہ کر بھی اپنی جامعیت کو مضمحل نہیں ہونے دیتے. اس تناظر میں ان کی تلخیص کا بھی شمار کیا جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا. اس میں ادب سے شغف رکھنے والے قاری کی تسلی کا بھرپور سامان ہے۔ اور اردو ادب کی خدمت کا جذبہ بھی اور ان کی صلاحیتوں کا اعلی مظہر بھی اور مستقبل کا روشن چراغ بھی۔
ابرار احمد کی یہ کتاب ان شاء اللہ ضرور آنے والے وقتوں میں دنیاے ادب میں اپنا مستحق مقام حاصل کر لے گی۔
علیزےنجف کی گذشتہ نگارش:ہماری عمومی زندگی میں لاشعور ایک اجنبی ٹرم ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے