ہماری عمومی زندگی میں لاشعور ایک اجنبی ٹرم ہے

ہماری عمومی زندگی میں لاشعور ایک اجنبی ٹرم ہے

انٹرویو نگار: علیزےنجف
سرائے میر اعظم گڈھ اترپردیش

زندگی کے اخلاقی و نفسیاتی اقدار سے آشنا منیرہ احمد سے علیزےنجف کی ایک ملاقات

اس دنیا کی اگر تمام نعمتوں کا ایک تجزیاتی جائزہ لیا جائے تو یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے بہترین نعمت خود زندگی ہی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں کیوں کہ جب ہمیں زندگی عطا کی جاتی ہے تبھی ہم اس دنیا اور اس کی آسائشوں سے بہرہ ور ہو تے ہیں. زندگی کا اپنے آپ میں کوئی ثانی نہیں لیکن اس نعمت سے حظ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کے اسرار و رموز کو سمجھا جائے اور اس کے بنیادی مقاصد کو دریافت کرنے کی کوشش کی جائے اور اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ کیا ہم زندگی کو وہ مقام دے پا رہے ہیں جس کی وہ مستحق ہے. ہمارے معاشرے کا ایک بدترین المیہ یہ ہے کہ ہم نے زندگی کو سمجھا ہی نہیں اور نہ ہی اس کو سمجھنے کے لیے کوئی سنجیدہ سعی کرتے ہیں. زندگی کے بےشمار پہلو ہیں، ان میں سے کچھ بالکل واضح ہیں. وہ یہ کہ ایک انسان کی اپنی ایک انفرادی زندگی ہوتی ہے اور ایک خاندان سے متعلق ہوتی ہے اور ایک معاشرتی اور مذہبی امور پہ بھی مبنی ہوتی ہے. ان تمام پہلوؤں پہ مبنی زندگی کو کامیاب اور موثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم life skills سیکھیں اور اپنی ذات کی تربیت میں اپنے parent اور ماحول کے ساتھ ساتھ اپنا بھی حصہ ڈالیں کیوں کہ جو کام ہم خود کر سکتے ہیں اس کی تلافی کسی اور صورت ممکن نہیں. اگر زندگی ایک آرٹ ہے تو اس کا تقاضہ ہے کہ ماہرین سے اس فن کو سیکھا جائے. جب تراشنے سے ایک پتھر بھی بیش قیمت ہو سکتا ہے تو ہم زندگی کو for granted کیوں لیں. زندگی اور زندگی سے متعلق سبھی رشتوں اور ذمے داریوں کو بحسن خوبی تبھی نبھایا جا سکتا ہے جب ہمیں اس کی اہمیت و ماہیت کا صحیح علم ہو. ہمارے اندر یہ عادت کسی ناسور کی طرح اندر ہی اندر اپنی جڑ مضبوط کرتی جارہی ہے وہ ہے دوسروں کو الزام دے کر اپنی ذمے داریوں سے دست بردار ہونے کی عادت. ہمیں سب سے پہلے اپنی ذمے داریوں کو قبول کرنا ہوگا. یہیں سے ہی زندگی کو بامقصد بنانے کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں ماہرین کی آرا ہمارے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں. آج میں ایک ایسی ہی ماہر شخصیت اور لائف کوچ منیرہ احمد کے ساتھ سوالات و جوابات کا سیشن کرنے جا رہی ہوں جن کو انسانی نفسیات پہ عبور حاصل ہے. وہ نہ صرف بہترین لائف کوچ ہیں بلکہ ملک و بیرون ملک سے انھوں نے family mediation ، time management parenting پہ کئی ڈپلوما بھی کیے ہیں. انھوں نے انسانی زندگی کی قدر و قمیت سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے بےشمار عملی کوششیں بھی ورکشاپ اور سیمینار کی صورت میں کی ہیں. اس کا ایک جیتا جاگتا ثبوت parenting and relationship coaching کا ادارہ ہے جس کی بانی خود منیرہ احمد ہیں.
آئیے ان سے بات کر کے ان سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک زندگی کیا ہے۔ مسائل سے نمٹنے کے لیے کن صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے. عادتوں کو کیسے بدلا جا سکتا ہے. آئیے یہ سب کچھ ہم براہ راست منیرہ احمد سے جانیں گے اور بہت سے ایسے سوالات بھی کریں گے جو کہیں نہ کہیں ہماری روزمرہ کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں. کیوں کہ ہمیں زندگی کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کا آرٹ بھی سیکھنا ہے. اس جانب آپ بھی ہمارے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیے وما توفیقی الا باللہ. علیزےنجف
علیزےنجف: سب سے پہلے تو ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ منیرہ احمد کون ہیں اور ان کی شخصیت کے کون سے پہلو ان کی نظر میں سب سے زیادہ نمایاں ہیں؟
منیرہ احمد: اگر آپ میری نظر سے دیکھنا چاہتی ہیں تو منیرہ احمد ایک خاتون شخصیت ہیں جو زندگی کے کئی مشکل اور آسان مرحلوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے یہاں تک پہنچی ہیں اور سفر ہنوز جاری ہے۔ مستقل سیکھتے رہنا یہی میری زندگی کا نمایاں عنصر رہا ہے۔
علیزےنجف: آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے؟ ابتدائی تعلیم کے دوران کی شخصیت اور موجودہ شخصیت میں آپ کیا واضح فرق محسوس کرتی ہیں؟
منیرہ احمد: الیکٹریکل انجینئرنگ میں ماسٹرز
پھر لائف کوچنگ، فیملی میڈیشن، کاؤنسلنگ، تھراپی اور ایسے ہی کئی موضوعات پر بے شمار سرٹیفیکیٹس۔
انسانی شخصیت ہر تجربے کے ساتھ بدلتی ہے۔ ہر گزرتا وقت بہت سے بےبنیاد تصورات کو ختم کرکے حقیقی دنیا میں لے آتا ہے۔ سو میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ خاص کر کاؤنسلنگ اور کوچنگ کی فیلڈ میں آکر شخصیت میں ٹھہراؤ آیا اور سوچ میں گہرائی بھی۔
علیزےنجف: منیرہ احمد کا خود کے ساتھ کیسا رشتہ ہے؟
منیرہ احمد: اللہ کی شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے منیرہ احمد بنایا۔ کبھی منیرہ پر پیار آتا ہے تو کبھی اسے سرزنش بھی کرنی پڑتی ہے۔
علیزےنجف: ہر انسان کے لیے زندگی الگ معنی رکھتی ہے، آپ کے عملی تجربات کے مطابق زندگی کیا ہے؟ اور اس کو گذارنے کے لیے کن چیزوں کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے؟
منیرہ احمد: زندگی ایک تحفہ ہے، ایک تجربہ ہے اور سفر ہے۔ اس میں اپنے اقدار اور مقصد حیات کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے.
علیزےنجف: آپ کی مجموعی صلاحیتوں کا اگر فردا فردا ذکر کروں تو غالبا بات لمبی ہو جائے گی اس لیے مختصراً آپ کو لائف کوچ کہتی ہوں. میرا سوال یہ تھا آپ کی صلاحیت کے اس سفر میں آپ کے ذاتی رجحانات کا دخل تھا یا guardian guidelines کے تحت اس سفر کا آغاز ہوا؟
منیرہ احمد: بس ایک سفر ہی ہے جس میں کئی مرتبہ رخ موڑنا، راستہ بدلنا پڑا۔
جو فیصلہ کیا وہ حالات کے تقاضے کے پیش نظر کیا۔ فیصلے سارے میرے ہی تھے اس لیے ذاتی رحجانات ہی کہوں گی.
علیزےنجف: آپ کی شخصیت کی تعمیر و ارتقا میں سب سے زیادہ کس کا کردار رہا؟
منیرہ احمد: ہر اس فرد کا، ہر اس کہانی کا جس میں جستجو اور شوق کے ساتھ اصولوں کا عنصر نمایاں تھا.
علیزےنجف: موجودہ وقت میں تعلیم و تمدن نے غیر معمولی ترقی کی ہے لیکن تربیت کا پہلو معلق ہوتا جا رہا ہے. یہی وجہ ہے کہ لوگ رشتے اور سماجی ذمے داریوں کے حوالے سے بےحسی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں. بحیثیت ایک کاؤنسلر کے آپ کے نزدیک اس کے اسباب و تدارک کیا ہیں؟
منیرہ احمد: بے سوچے سمجھے حالات کی رو میں بہ جانا اور بھیڑ چال چلنا۔ مغرب کی تقلید میں اپنی اصل کو بھول جانا.
علیزےنجف: لوگ جسمانی بیماریوں کو تو بیماری خیال کرتے ہیں اور اس کا مناسب علاج و معالجہ بھی کرتے ہیں لیکن نفسیاتی بیماریوں کو جو کہ رویوں میں منعکس ہوتی ہیں اس کو بیماری تسلیم ہی نہیں کرتے کجا کہ اس کا ٹریٹمنٹ لینے پہ آمادہ ہوں. آپ انسانی نفسیات کی تربیت پہ عبور رکھتی ہیں آپ کے خیال میں ایسا کیوں؟
منیرہ احمد: نفسیاتی بیماریاں چونکہ سوچ اور رویوں دونوں میں تبدیلی کا باعث بنتی ہیں چنانچہ اس کو کردار کی کم زوری سمجھا گیا یا ایمان کی۔ نفسیاتی بیماری بظاہر نظر نہیں آتی۔ اچھا خاصا بظاہر صحیح سلامت انسان شکست خوردہ ہوجاتا ہے۔ جوش و ولولہ ختم ہوجاتا ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ وہ کاہل ہے، توجہ حاصل کرنے کے لیے ڈراما کررہا ہے۔ وہ کچھ کرنا نہیں چاہتا۔ چونکہ بیماری نظر نہیں آتی اس کی سنجیدگی کا احساس نہیں ہوتا۔ کہیں ذہنی بیماری کم ہمتی کی صورت میں نظر آتی ہے تو کہیں جارحیت کی صورت میں۔ ایسے میں اکثر آس پاس والے اذیت کا شکار رہتے ہیں اور بیماری کو کردار کی خامی گردانتے ہیں۔ اور شاید یہ سمجھا جاتا ہے کردار کی کم زوری کا کوئی مداوا نہیں اس لئے لوگ علاج کی بجائے تنہائی اور معاشرے سے دوری اختیار کرتے ہیں یا پھر معاشرہ خود انکو تنہا کردیتا ہے.
علیزےنجف: کسی بھی معاشرے کو اخلاقی بہتری کی طرف لانے کے لیے کن کن عوامل پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے؟
منیرہ احمد: اپنی اور اپنے بچوں کی تربیت۔ جو کسر ہماری تربیت میں رہ گئی وہ ہمیں خود پوری کرنی ہے اور اگلی نسل کی اخلاقی تعمیر پر کام کرنا ہے.
علیزےنجف: ہم اپنے ویلیو سسٹم کو کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں؟
منیرہ احمد: چونکہ اجتماعی معاشرے اور خاندان زوال پذیر ہیں، انفرادیت پر زیادہ زور ہے تو اب معاشرے کی تعمیر کے لیے فرد کے کردار کی تعمیر کرنی ہوگی۔ ہر فرد کو اپنی اقدار کی نشان دہی کرکے اس کو اپنانے پر اور اسکو اگلی نسل تک منتقل کرنے پر کام کرنا ہوگا.
علیزےنجف: ہمارے یہاں ناکامی کو منفی صورت میں ہی لیا جاتا ہے. لوگ ناکام ہونے پر نفسیاتی شکست و ریخت کا شکار ہو جاتے ہیں. حالانکہ ماہرین کے نزدیک ناکامی کامیابی ہی کا ایک زینہ ہے. آپ ناکامی کو کس طرح دیکھتی ہیں اور اس کو کس طرح مینیج کرنا چاہیے؟
منیرہ احمد: جب ہم چلنا سیکھتے ہیں تو قدم قدم لڑکھڑاتے ہیں۔ بار بار گرتے ہیں۔ پھر بھی ہر بار اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
انسانی دماغ کی ساخت اور صناعی ایسی ہے کہ کچھ سیکھنے کے لیے اس پر بار بار عمل کرنا ضروری ہے. یعنی جب تک سیکھتے نہیں تب تک مہارت نہیں آتی۔ مہارت تک پہنچنے کے لیے ناکامی ناگزیر ہے۔
کبھی ناکامی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ابھی مزید کام جاری رکھو اور کبھی ناکامی کا مطلب ہوتا ہے راستہ بدلو، طریقہ بدلو، سوچ بدلو۔
بدقسمتی سے جاہ و مال کی کو موجودہ دوڑ میں جلد حصول کو کامیابی سمجھا گیا اور کوشش کو بے سود، جب تک حاصل نہیں کیا۔
علیزےنجف: انسانی شخصیت کی تشکیل میں آپ فارمل تعلیم کے ساتھ انفارمل تعلیم کو کس قدر ضروری سمجھتی ہیں؟
منیرہ احمد: ہم کلاس روم سے زیادہ زندگی سے سیکھتے ہیں۔ ہر تجربہ ہر گفتگو کچھ نہ کچھ سکھا رہی ہوتی ہے. پھر ہم بچوں کو آدھا دن کمرے میں بند کرکے، گفتگو پر باپندی لگا کر انکو تجربات اور لوگوں سے دور رکھ کر کتابی علم سکھانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔
اسی لیے پی آر سی ہوم اسکولنگ کی حمایت کرتا ہے جہاں طالب علم کتابی و نظریاتی علوم کے ساتھ ساتھ زندگی میں رہ کر زندہ رہنا سیکھتا ہے۔
بچوں کے لیے قدرتی ماحول میں رہنا، ہر عمر کے افراد سے بات چیت کرنا، کتب خانے جانا، عجائب خانے جانا، نت نئے تجربات کرنا، درختوں پودوں اور جانوروں کے درمیان رہنا، غلطیاں کرنا سب تعلیم کا اہم حصہ ہیں جنہیں پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ ایک مصنوعی ماحول میں بے جان کتابوں اور بے عمل اساتذہ کے ذریعے ان کو تعلیم دینے کی کوشش کی جارہی اور نتیجہ ہم سب جانتے ہیں۔
علیزےنجف: آپ کے نزدیک شعور کیا ہے اور لاشعور کیا ہے اور ان کے مابین صحت مند ربط کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے؟
منیرہ احمد: پہلے جب ہم کچھ سیکھتے ہیں تو ایک شعوری کاوش ہوتی ہے۔
جب ہم کوئی کام بار بار کرتے ہیں تو وہ لاشعور میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ جیسے جب ہم کوئی چیز پہلی مرتبہ یاد کرتے ہیں تو اس کو یاد کرنا اور دہرانا شعوری ہوتا ہے پھر جب یہ اعادہ بار بار ہو تو اس کو دہرانے کے لیے سوچنا یا شعوری کوشش کرنا ضروری نہیں رہتا۔
جیسے ڈرائیونگ جب سیکھتے ہیں تو ایک ایک فعل سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ پھر جب ڈرائیونگ کی خوب پریکٹس ہوجائے تو بے دھیانی اور بے خیالی میں بھی ڈرائیونگ ہوجاتی ہے۔
علیزےنجف: انسان کی اندرونی شخصیت میں لاشعور ایک بڑا کردار ادا کرتا ہے. ہماری عمومی زندگی میں لاشعور ایک اجنبی ٹرم ہے. میرا بنیادی سوال یہ ہے کہ لاشعور کی تربیت کے بنیادی تقاضے کیا ہیں؟
منیرہ احمد: مستقل شعوری کوشش یہاں تک کہ علم راسخ ہوجائے. علم راسخ وہی ہے جو شعور سے ایک قدم آگے ہے. پہلی زبان جو ہم سیکھتے اور بولتے ہیں وہ راسخ ہوجاتی ہے. جو زبان جتنی زیادہ بولتے ہیں وہ اتنی رواں ہوجاتی ہے.
علیزےنجف: آپ کی نظر میں کامیابی کیا ہے؟ اور اس کا حصول کیسے ممکن ہے؟
منیرہ احمد: کامیابی کا کوئی ہمہ جہت تصور نہیں۔ اس کا انتخاب ہر فرد خود کرے گا کہ وہ اپنے لیے کامیابی کا کیا تصور رکھتا ہے. اس کا انحصار صلاحیتوں اور اقدار پر ہوتا ہے۔ کسی کے لیے عہدہ اور پیسہ کامیابی ہے. کسی کے لیے خدمت خلق. کسی کے لیے عبادت. کسی کے لیے تعلیم و تعلم.
علیزےنجف: ہماری زندگی میں مذہب کا کیا کردار ہے کیا وجہ ہے کہ مذہب ہمارے درمیان روایتی طرز میں منتقل ہو رہا ہے اور اس کی روحانی حقیقت ابہام کا شکار ہو کے رہ گئی ہے. آپ اس کو کس طرح دیکھتی ہیں؟
منیرہ احمد: دین ہے تو مکمل ضابطۂ حیات مگر یہ فیصلہ ہر فرد خود اپنے لیے کرے گا کہ دین کی اس کی زندگی میں کیا اہمیت ہے اور وہ اس پر کتنا عمل پیرا ہونا چاہتا ہے۔ اور جتنا اس کا یقین اور عمل ہوگا اتنا ہی اس کی زندگی میں اثرات نمایاں ہوں گے۔
دین کی روحانیت اس لیے ابہام کا شکار ہوگئی ہے کہ جدید دنیا کی سہولتوں اور آسائشوں میں ڈوب گئے ہیں۔ زندگی کا مقصود و منتھی یہی ستر اسی سالہ زندگی ہوگئی ہے۔ تعلیم پر توجہ ہے تربیت پر نہیں. ذریعۂ معاش پر توجہ ہے کردار پر نہیں.
سہولیات اور آسائشات پر توجہ ہے اقدار پر نہیں.
جب مادیت کم ہوتی ہے تو روحانیت کے لیے جگہ بنتی ہے اور ہماری زندگیاں تو ساز و سامان سے لدی پھندی ہیں۔
علیزےنجف: انسانی آبادی کا ایک بڑا حصہ life skills کی اہمیت سے غافل و گریزاں ہیں. آپ کے مطابق اس گریز کے پیچھے وجہ کیا ہے؟
منیرہ احمد: ہماری اپنی ثقافت تھی۔ اپنا طرز زندگی تھا۔ اجتماعیت تھی۔ بڑوں کا حکم چلتا تھا۔ سب کا طرز زندگی کم و بیش یکساں تھا۔ انفرادیت پر زور نہیں تھا۔ اختلافات کو عموما بڑے سلجھا دیتے تھے یا دبا دیتے تھے۔ اس لگے بندھے نظام میں ہر فرد کو ان لائف اسکلز کی ضرورت نہیں تھی جن کی بات ہم آج کرتے ہیں۔
اب جو دنیا پھیلی تو انفرادیت کو فروغ ملا۔ انفرادیت کو فروغ ملا تو یکسانیت اور ہم آہنگی کا زوال شروع ہوگیا۔ بڑے علم اور حکمت میں پیچھے رہ گئے۔ دنیا نوجوانوں کے ہاتھ میں آگئی۔
چونکہ وقت سراسر بدل رہا تھا۔ تجربہ کسی کے پاس نہیں تھا۔ سب ہاتھ پیر مار نے لگے۔ ایک افراتفری مچ گئی اور بس مچی ہوئی ہے۔
اب اس نئی دنیا میں جینے کا ڈھنگ ہم سب کو سیکھنا ہوگا۔
علیزےنجف: آج کے دور میں اسکرین ٹائمنگ ایک بڑا چیلینج بن گیا ہے. اس سے جسمانی و نفسیاتی دونوں ہی صحت متاثر ہورہی ہے. میں آپ سے یہ جاننا چاہتی ہوں کہ ڈجیٹل ڈٹاکسیشن کی کارگر ترکیب کیا ہے؟
منیرہ احمد: جی بالکل۔ پردہ سیمیں پہلے کمروں میں دیواروں پر چسپاں ہوتے تھے۔ اب ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ اس کے جہاں فوائد ہیں وہاں یہ بھی ہوا کہ اس چمکتی دمکتی مگر اندر سے خالی دنیا نے ہمیں اپنا اسیر بنالیا۔
اب اس جال سے نکلنے کا طریقہ یہی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں با معنی سرگرمیوں کا بندو بست کریں،
گھروں میں علمی محفلیں سجائیں، کتابیں مل کر پڑھنے کا اہتمام کریں، کچھ قدرت سے جڑنے کی تدبیر کریں، جو ہاتھ کے ہنر تھے ان کو سیکھیں، کچھ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں.
علیزےنجف: آپ ماشااللہ پی۔آر۔سی۔ کی بانی ہیں اس کی بنیاد رکھتے وقت آپ کے ذہن کے پس منظر میں کیا تھا اور فی وقت اس کے طے شدہ مقاصد کس حد تک حاصل ہو چکے ہیں اور مستقبل میں اس میں کس طرح کی جدت و ندرت کی خواہش مند ہیں؟
منیرہ احمد: پی آر سی ایک تجربے کے طور پر شروع ہوا تھا کیونکہ اس وقت پاکستان میں لائف کوچنگ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ نہ کاؤنسلنگ اتنی عام تھی۔ الحمد للّٰہ یہ تجربہ کامیاب ہوا۔
اب ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ اس کے دائرہ کار کو وسیع کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی حاصل کی جائے۔ اس کے لیے دعا اور جد و جہد دونوں جاری اور ساری ہیں اور لوگوں سے استدعا ہے کہ اس کے پیغام کو آگے پھیلائیں.
علیزےنجف: آپ ایک ایسی شخصیت ہیں جو مختلف شہروں و ملکوں میں عازم سفر رہتی ہیں. یوروپی ممالک کو بھی قریب سے دیکھنے کو موقع ملا ہے. میرا سوال یہ ہے کہ یوروپ کی کوئی ایسی تین خوبیاں بتائیں جو ایشیائی ممالک میں مفقود ہیں یا خال خال نظر آتی ہیں؟
منیرہ احمد: یورپ کا سفر ضرور کیا ہے لیکن یورپ میں رہنے کا موقع نہیں ملا۔ ہاں البتہ میں آسٹریلیا، سنگاپور۔ کینیڈا اور امریکا میں رہ چکی ہوں۔
بیرون ملک دو چیزیں مجھے بہت متاثر کرتی ہیں
نظم و ضبط
اور صفائی ستھرائی
ہر چیز میں ترتیب ہے، نظم و ضبط ہے اور یہ سب جبری نہیں بلکہ رضاکارانہ ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور چھوٹی چھوٹی باتیں بھی مجھے بہت پسند ہیں. مثلاً قطار بنانا
کسی کے لیے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دینا
انجان لوگوں کے سامنے مسکرا دینا
دوسروں کے لیے راستہ چھوڑ دینا
یہی باتیں ہیں جو زندگی میں تناؤ کو کم کرتی ہیں.
علیزےنجف: خوشی اور سکون ہر دل کی مطلوبہ آرزو ہے لیکن اکثر لوگ یہ حسرت لیے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ خوشی اور سکون کے حصول کا اپنا کوئی اصول ہے یا یہ مقدر کے تحت ملتا ہے؟
منیرہ احمد: ہم لوگوں نے خوشی کا ایک غیر حقیقی معیار بنا لیا ہے.
اچھا گھر ہو
اچھی تعلیم ہو
اچھی آمدنی ہو
فرماں بردار اولاد ہو
اچھا سسرال ہو
آگے پیچھے پھرنے والا شوہر ہو
ہر سہولت میسر ہو
ہر جگہ قبولیت ملے
ہر کام وقت پر ہوجائے
ہمیشہ مکمل صحت ہو
کوئی تکلیف، کوئی محرومی، کوئی مایوسی نہ ہو
ہر توقع، ہر امید، ہر خواہش، ہر ارمان پورا ہو.
اگر ہم زمین پر جنت مانگیں گے تو نا خوش ہی رہیں گے.
یہ زندگی امتحان گاہ ہے
یہاں بہت کچھ ملے گا
یہاں بہت کچھ نہیں ملے گا
بہت کچھ مل کر چھن جائے گا
یہاں کچھ حاصل کرنے کے لیے جدو جہد کرنی پڑے گی.
یہاں دکھ درد تکلیف رہے گی
خوش رہنے کا گر شکر گزاری میں ہے، جو ملا اس سے بھرپور طور پر لطف اندوز ہونے میں ہے اور جو نہ ملا اس کی چاہ کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دینے میں ہے.
علیزےنجف: بچے ہماری قوم کے لیے ایک اثاثہ کی حیثیت رکھتے ہیں. اس اصطلاح کے باوجود بچے کی شخصیت کی نشوونما کے لیے کوئی سنجیدہ حکمت عملی اختیار نہیں کی جاتی. آپ کے خیال میں ایسا کیوں؟
منیرہ احمد: دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا آپ نے.
توجہ کا مرکز، ترجیحات، اقدار اور مقصود حیات
کا تعین یا تو ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو غلط رخ پر،
قطب نما خراب ہے تو سمت کا تعین کیسے ہوگا.
علیزےنجف: ہماری سوچیں ہم پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہیں اس کو مثبت بنائے رکھنے کے لیے کن باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے؟
منیرہ احمد: سوچ اکثر حقیقت بن جاتی ہے. سوچ ہی جذبہ بنتی ہے. اور جذبہ عمل کا محرک. سوچوں کو مثبت دھارے پر رکھنا ضروری ہے. اس کے لیے تفکر و تدبر کو اپنانا ہوگا. تعمیری سوچ رکھنے والوں میں اٹھنا، بیٹھنا، رکھنا ہوگا صحت مند سرگرمیوں کو اپنانا ہوگا.
علیزےنجف: ہماری زندگی میں رشتوں کا کیا کردار ہے. رشتے نبھانے کے لیے کن خوبیوں پہ کام کرنا ضروری ہوتا ہے؟
منیرہ احمد: اگر ہم خلوت پسند صوفی نہیں تو مضبوط رشتوں کے بغیر صحت اور خوشی محال ہے.
لوگ ہی زندگی کو خوب صورت اور با معنی بناتے ہیں. مضبوط رشتے بنانے کے لیے آپس کے تفرقات کو تسلیم کرنا ہوگا. شخصی آزادی کی گنجائش رکھنی ہوگی. طرز گفتگو کو محکم اور باوقار بنانا ہوگا.
علیزےنجف: ایک ذاتی سوال کہ آپ نے اب تک کی زندگی گزار کر کیا سبق سیکھا. مثلا کوئی دو اصول بتائیں جو آپ کو لگتا ہے کہ زندگی کے تجربے نے آپ کو سکھایا ہے؟
منیرہ احمد: بہاؤ میں بہنے کی بجائے اپنے راستے کا خود تعین کرو.
رشتہ جتنا بھی قریبی ہو، محبت جتنی بھی گہری ہو حد فاصل ضرور قائم رکھو.
علیزےنجف: آپ introverted ہیں extroverted ہیں؟
منیرہ احمد: کچھ درمیانی درمیانی صورت حال ہے. بہت زیادہ بولنے کی عادت نہیں. البتہ جہاں ضروری ہوتا ہے وہاں بولنا سیکھ لیا ہے. طبعیت میں کچھ شرمیلا پن ہے جس پر وقت ضرورت قابو پانا پڑتا ہے.
علیزےنجف: ادب اور فنون لطیفہ سے کس حد تک لگاؤ ہے؟
منیرہ احمد: کسی زمانے میں شاعری کرتی بھی تھی اور پڑھتی بھی تھی. اب اتنا رحجان نہیں رہا. کتب بینی کا شوق ہے مگر اب میں نے فکشن پڑھنا چھوڑدیا ہے. اپنے شعبے سے متعلق کتب کا مطالعہ کرتی رہتی ہوں. تاریخ اور جغرافیہ میں کافی دل چسپی ہے.
علیزےنجف: کیا آپ کو لکھنے میں دل چسپی ہے. کیا انسانی شخصیت سازی کے موضوع پہ آپ کوئی کتاب مرتب کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟
منیرہ احمد: ہاں ایک خاکہ تو ترتیب دیا تھا، کچھ تحقیق بھی شروع کی تھی، پھر معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا. اپنے آپ کو پھر تحریک دینے کی ضرورت ہے.
کتاب تو انسان لکھ لے مگر اس کے بعد اس کے قاری ڈھونڈھنے کا مرحلہ کچھ حوصلہ پست کردیتا ہے.
اور پھر مجھے لگتا ہے کہ میرے پاس کہنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن انداز کچھ خشک ہے۔ اس لیے خدشہ ہے کہ شاید حسب توقع پزیرائی نہ ملے.
علیزےنجف: اس انٹرویو کے دینے کے دوران آپ کے احساسات کیا رہے تھے؟
منیرہ احمد: آپ نے بہت محنت سے بہت گہرے سوال ترتیب دیے. کچھ سوالات تفصیل طلب ہیں مگر بہت زیادہ تفصیل میں نہیں جا پائی. کچھ سوالات ایسے ہیں جن پر تحریری مکالمے کے بجائے گفتگو کرنا زیادہ مفید ثابت ہوگا.
علیزےنجف: بحیثیت لائف کوچ آپ نے لوگوں کو کس نفسیاتی مسائل کا سب سے زیادہ شکار ہوتے محسوس کیا ہے؟
منیرہ احمد: سب سے بڑا مسئلہ طرز گفتگو کا ہے.
ہمیں اپنے احساسات دوسروں تک پہنچانے نہیں آتے اس لیے ہم گلہ شکوہ کرتے ہیں، الزام دہی کرتے ہیں، تذلیل کرتے ہیں اور پھر جس نتیجے کے خواہش مند ہوتے ہیں اس سے یکسر مختلف نتیجہ سامنے آتا ہے تو ہم مزید مایوس ہوجاتے ہیں.
علیزےنجف: کوئی ایک پیغام جو آپ اس انٹرویو کے ذریعے لوگوں تک پہنچانا چاہتی ہیں.
منیرہ احمد: ہم اپنی زندگی کے تماشائی نہیں بلکہ کھلاڑی ہیں.
اس لیے ہمیں اپنی بے بسی کے بجائے اپنی قابلیت پر توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے.
***
گذشتہ انٹرویو یہاں پڑھیں:جذباتی آگہی کی بے حد ضرورت ہے: حیا ایشم

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے