مولانا حسرت موہانی: ایک عہد ساز شخصیت

مولانا حسرت موہانی: ایک عہد ساز شخصیت

(یومِ وفات پر خصوصی پیشکش)

خرّم ملک کیتھوی
رابطہ: 930426009

مصنف، شاعر، صحافی، اسلامک اسکالر، سماجی خدمت گزار، اور ۱۹۲۱ میں آزادی کامل (پورن سوراج) کی مانگ کرنے والے اور انقلاب زندہ باد کا نعرہ دینے والے آزادی کے سپاہی حسرت موہانی صاحب کی يوم وفات پر خراج عقیدت.
آپ کا پورا نام سید فضل الحسن حسرت موہانی مسعودی تھا. آپ کی پیدائش ۱ جنوری ۱۸۷۵ کو برطانیہ کے زیر اقتدار ہندستان کے اناؤ ضلع کے موہان گاؤں میں ہوئی تھی. آپ کے والد کا نام سید اظہر حسین تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ ۱۹۰۳ء میں علی گڑھ سے بی اے کیا۔ عربی کی تعلیم مولانا سید ظہور الاسلام فتح پوری سے اور فارسی کی تعلیم مولانا نیاز فتح پوری کے والد محمد امیر خان سے حاصل کی تھی۔ حسرت سودیشی تحریک کے زبردست حامیوں میں سے تھے اور انھوں نے آخری وقت تک کوئی ولایتی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ شروع ہی سے شاعری کا ذوق تھا۔ اپنا کلام تسنیم لکھنوی کو دکھانے لگے۔ ۱۹۰۳ء میں علی گڑھ سے ایک رسالہ ”اردوئے معلی“ جاری کیا۔ اسی دوران شعراے متقدمین کے دیوانوں کا انتخاب کرنا شروع کیا۔ سودیشی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے رہے چنانچہ علامہ شبلی نے ایک مرتبہ کہا تھا۔ ”تم آدمی ہو یا جن، پہلے شاعر تھے پھر سیاست دان بنے اور اب بنیے ہو گئے ہو۔“ حسرت پہلے کانگریسی تھے۔ گورنمنٹ کانگریس کے خلا ف تھی۔ چنانچہ ۱۹۰۷ء میں ایک مضمون شائع کرنے پر جیل بھیج دیے گئے۔ ان کے بعد ۱۹۴۷ء تک کئی بار قید اور رہا ہوئے۔ اس دوران ان کی مالی حالت تباہ ہو گئی تھی۔ رسالہ بھی بند ہو چکا تھا۔ مگر ان تمام مصائب کو انھوں نے نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور مشق سخن کو بھی جاری رکھا۔ آپ کو ‘رئیس المتغزلین‘ بھی کہا جاتا ہے- مولانا حسرت موہانی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ حسرت موہانی نے ۱۳حج کیے ۔ پہلا حج ۱۹۳۳ میں کیا اور آخری حج ۱۹۵۰ میں ادا کیا۔ ۱۹۳۸ میں حج کے بعد ایران، عراق اور مصر بھی گئے،.
جب ہمارے ملک ہندوستان پر انگریز سامراج کا تسلط تھا تو اس وقت ملک کی آزادی کی خاطر کئی الگ الگ نعروں کا ظہور ہو رہا تھا، اُسی کڑی میں ایک نعرہ جس نے ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا، وہ "انقلاب زنده باد" کا نعرہ بھی آپ نے ہی دیا تھا،
۱۹۲۱ میں احمد آباد کی کانگریس میٹنگ میں عظیم مجاہد آزادی شہید اشفاق اللہ خان، رام پرساد بسمل کے ساتھ تھے.
وہ ہندستانی تاریخ میں پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے انگریزوں سے پوری آزادی (آزادی کامل) کی مانگ کی تھی، انھوں نے ہندستان کی آزادی کے بعد اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح دی اور غزل
(چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے)
جسے غلام علی صاحب نے اپنی آواز دی تھی، آپ نے ہی لکھی ہے، اگر ان کی شخصیت کی بات کی جائے تو پاکستان کے کراچی میں حسرت موہانی میموریل سوسائٹی، حسرت موہانی میموریل لائبریری، ہال، ٹرسٹ کا قیام اُن کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے،
مولانا کے یوم وفات پر ہر سال یہ ٹرسٹ ان کی یاد میں پروگرام کرتا ہے، اسی طرح پاکستان کے کراچی شہر کے اورنگی ٹاؤن میں ان کے نام کی ایک کالونی اور روڈ بھی ہے.
اسی طرح بھارت کے شہر کان پور میں مولانا حسرت موہانی ہاسپٹل، مولانا حسرت موہانی روڈ ہے، اسی طرح کانپور میں واقع بتھر⁦ میں حسرت موہانی گیلری ہے، کلکتہ کے مٹیابرج میں حسرت موہانی میموریل گرلز ہایر سیکنڈری اسکول ہے.
آپ ایک بہترین شاعر بھی تھے، اسی لیے آپ کو رئیس المتغزلین بھی کہا جاتا ہے، جب ہم آپ کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو پاتے ہیں کہ:
آپ اردو غزل گوئی کی تاریخ میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو شاعری کے ارتقا میں ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ان کے خیال اور انداز بیان دونوں میں شخصی اور روایتی عناصر کی آمیزش ہے۔ حسرت موہانی کو قدیم غزل گو اساتذہ سے بڑا ہی ذہنی و جذباتی لگاؤ تھا۔ اور یہ اسی لگاؤ کا نتیجہ تھا کہ کلاسیکل شاعروں کا انھوں نے بڑی دقت نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ اور اپنی طبیعت کے مطابق ان کے مخصوص رنگوں کی تقلید بھی کی۔ قدیم اساتذہ کے یہ مختلف رنگ حسرت کی شاعری میں منعکس دکھائی دیتے ہیں۔ اور خود حسرت کو اس تتبع کا اعتراف بھی ہے.
آپ نے صرف ایک ہی صنف کی شاعری نہیں کی،
بلکہ آپ نے الگ الگ موضوعات پر لکھا ہے اور کیا خوب لکھا ہے، آپ نے عشقیہ شاعری کے ساتھ ساتھ سیاسی شاعری بھی خوب کی، چوں کہ آپ کا سیاست سے گہرا لگاؤ تھا اس لیے آپ نے اس میدان میں بھی اپنی شاعری کے جوہر دکھائے ہیں، کچھ اشعار سے اسے سمجھا جا سکتا ہے.
کٹ گیا قید میں رمضاں بھی حسرت
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا
ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جائے
واللہ کبھی خدمت انگریز نہ ہوگی
آپ نے کئی کتابیں تصنیف کیں ہیں، آپ کی تحریر کردہ کچھ کتابوں کے نام یہ ہیں:
۱ کلیات حسرت موہانی
۲ شہر کلام غالب
۳ نکاتِ سخن
۴ مشاہدات زندہ
انھوں نے اپنے کلام میں حب الوطنی، اصلاح معاشرہ، قومی ایکتا، مذہبی اور سیاسی نظریات پر روشنی ڈالی ہے. ۲۰۱۴ میں ہندستانی حکومت نے ان کے اعزاز میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا.
حسرت موہانی نے ۷۲ سال کی عمر میں ۱۳ مئی ۱۹۵۱ء کو لکھنؤ میں وفات پائی.
آج مولانا حسرت موہانی کو گزرے ہوئے۷۲ سال ہو گئے، ان گزرے سالوں میں آپ کو جو عزت اور احترام ملنا چاہیے تھا شاید نہیں ملا، آپ دل سے کانگریسی تھے، لیکِن۸۲ سال تک کانگریس نے اقتدار میں ہوتے ہوئے آپ کو کبھی وہ عزت نہیں دی جس کے وہ حق دار تھے.
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:جوش ملیح آبادی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے