بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کا تین یوروپی ممالک کا دورہ

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کا تین یوروپی ممالک کا دورہ

مسعود بیگ تشنہ

تین یوروپی ممالک ڈنمارک، جرمنی اور فرانس کا بھارت کے وزیرِ اعظم مودی کا حالیہ دورہ آپسی تجارتی مفادات کے زیرِ نگیں کیا گیا دورہ بتایا گیا ہے. بھارت کی اندرونی مالی حالت بہت خراب ہے. قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے اور ملکی مالی ذرائع چند ہاتھوں میں تیزی سے منتقل ہو رہے ہیں یا ہو چکے ہیں اور گذشتہ دو سال کی کورونا کی وبا کے دوران سیاسی سطح پر لیے گئے فیصلوں جیسے دیس بندی نے چھوٹی اور منجھولی دیسی صنعتوں کو نیست و نابود کر دیا ہے. اس سے پہلے نوٹ بندی میں دو ہزار کے نئے نوٹ جاری کرنے سے الٹا کالا دھن رکھنے والوں اور کالا دھن سفید کرنے والے بڑوں کو (اور پسِ پردہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو قصبہ قصبہ اپنے بھوَن بنانے کا) نادر موقع فراہم کرا دیا. نوٹ بندی کے 360 ڈگری الٹے نتائج، رافیل طیارہ سودا، کورونا کی وبا سے لڑنے [کے نام پر] سرکاری امدادی پرائم منسٹر ریلیف فنڈ کے بدلے نجی ریلیف فنڈ گھوٹالا، کارپوریٹ بھرشٹاچار، کچے تیل کے کنوؤں پر امبانی کی اجارہ داری وغیرہ اور دیوالیہ قوانین نے ایک طرفہ کام کیا ہے اور بڑے چنندہ کارپوریٹ گھرانوں کے وارے نیارے کر دیے ہیں. اسرائیلی حساس جاسوسی سافٹ ویئر جو صرف تشدد پسندوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے، اس کا مبینہ بے محابہ سیاسی استعمال فسطائیت کے حق میں اور شخصی آزادی کے خلاف جاتے قدم کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے. غیر منقسم ہندستان کی آزادی سے پہلے آزادی کے مجاہدین کو کچلنے کے لیے بنائے گیے برطانوی حکومت کے بغاوت کے قانون کو فسطائیت اور مذہبی جنون مخالف ابھرتی نوجوانوں کی زبان بندی کے لیے بے لگام اور بے دریغ استعمال تاکہ وہ سالوں سال جیلوں میں قید رہیں. اس مندی کے دور میں ضرور کچھ نئے اسٹارٹ اپ نے زور پکڑا ہے مگر یہ اسٹارٹ اپ ہیں کتنے اور ان کے مددگار کون کون کارپوریٹ بن رہے ہیں یہ بھی غور کرنے کی بات ہے. غریبی دور کرنے کے اُپائے نہ ہو کر غریب دور کرنے کے اُبائے ہو گئے. آج قومی املاک خطرناک حد تک چند مٹھی بھر بڑے ہاتھوں میں پہنچ گئی ہیں. حالیہ کوئلے کا بحران بھی اسی کی دین ہے. مہنگائی نے عام انسان اور بزرگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے. امیر اور امیر، غریب اور غریب ہوتا جا رہا ہے. چین نے گذشتہ دو سال میں قبضہ کیے علاقوں سے پوری طرح واپسی نہیں کی ہے. چین اور بھارت کا تجارتی میزان چین کی طرف ہی ہنوز جھکا ہوا ہے. سات ہزار کروڑ روپے کے طیارے میں سفر کرنے والے بھارتیہ وزیرِ اعظم کروڑوں کی برآمد شدہ کاروں کے قافلے میں چلنے والے، روایتی دیسی صنعتوں کا جنازہ نکالنے والے وزیرِ اعظم اب عام بھارتیہ کو دیسی کی طرف لوٹنے کی ترغیب دے رہے ہیں. ملک میں فرقہ وارانہ فسادات میں گوناگوں اضافہ ہو رہا ہے. اور زہریلی نفرتی سیاسی بیان بازی عروج پر ہے. ایسے تذبذب، افراتفری، مذہبی تعصب اور غیر یقینی ملکی حالات میں وزیرِ اعظم کا یہ تین یورپی ممالک کا تجارتی دورہ کس سمت لے جائے گا یہ دیکھنے کی چیز ہوگی.
جرمنی کی چانسلر نے جون 2022 میں جرمنی کی میزبانی میں منعقد ہونے والے جی سَیون کے ممالک کے اجلاس کے لیے وزیرِ اعظم مودی کو پیشگی نیوتا بھی دے دیا ہے جو عین نارمل سفارتی نیوتا ہے. روس یوکرین تنازع کے تناظر میں وزیرِ اعظم مودی نے کہا ہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ میں فریقین میں کسی کو فائدہ نہیں پہنچے گا. یہ بھی ایک عام نوعیت کا سفارتی بیان ہے.
ڈنمارک، جرمنی اور فرانس میں حالیہ مہینوں بلکہ گزشتہ کچھ سالوں میں ایشیائی تارکین وطن بالخصوص مسلمانوں کے خلاف سیاسی محاذ آرائی تیز سے تیز تر ہوئی ہیں اور ایوانِ سیاست میں اچانک انتہا پسند اور تشدد پسند پارٹیوں کی نمائندگی بڑھ گئی ہے. ایسے ماحول میں پھر وہ بر سرِ اقتدار پارٹیاں ہوں یا نئی ابھرتی انتہا پسند سیاسی پارٹیاں مسلم مخالف جذبات تیزی سے جِلا پا رہے ہیں. یورپ کے ان تین ممالک میں ایسا ماحول زور پکڑ رہا ہے اور چوتھے اور پانچویں ملک کا نام بھی جوڑنا چاہیں تو اسپین اور ناروے کو بھی اس گروپ میں شامل کر سکتے ہیں. یاد رہے کہ ڈنمارک، اسپین اور ناروے اسکینڈنےوِین ممالک کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں جن کی جڑیں جرمن قوم سے جا ملتی ہیں. ایسے ماحول میں بھارت کے وزیراعظم کا سفر کئی درونِ خانہ باریکیاں رکھتا دکھائی دیتا ہے.
یہ ساری دنیا جانتی ہے کہ سنہ 2014 عیسوی سے لگاتار آر ایس ایس کے ہندووادی نظریات پر چلنے والی دائیں بازو کی نام نہاد ہندو وادی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی مرکز میں بر سرِ اقتدار ہے اور کئی صوبوں میں بھی اس کی حکومت ہے جو کچھ صوبوں میں چنی گئی حکومت میں دَل بدل کروا کر غیر اخلاقی و غیر جمہوری طور پر بنائی گئی ہیں. بھارتیہ جنتا پارٹی کھلے عام مسلم مخالف ایجنڈے پر منصوبہ بند طریقے سے عمل کر رہی ہے اور اس کے کام میں چھوٹے بڑے ہندو وادی دھارمک دل آر ایس ایس کی چھتر چھایا میں مددگار ہیں. اس طرح بھاجپا کے لگاتار دوسری بار مرکزی سرکار میں آنے اور کئی ریاستوں میں دو بارہ بر سرِ اقتدار آنے سے اس کے فسطائیت پسند حوصلے روز افزوں طرقی پر ہیں. اس سیاسی پارٹی نے جو آر ایس ایس کا سیاسی وِنگ ہے دامے درمے سخنے حکومت بنانے، بگاڑنے اور بدلنے میں عالمی ریکارڈ قائم کر دیا ہے. یہ پارٹی ملک میں لگاتار بدامنی پھیلانے اور فرقہ وارانہ دوئی اور انتہا پسندی کا مزاج بنانے میں بے انتہا کامیاب ہوئی ہے. آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کا تیس سال میں اکھنڈ بھارت بنانے کا حالیہ کھلا اعلان اسی سمت میں ایک بڑھتا قدم ہے جو ملک کی سالمیت اور فرقہ وارانہ رواداری کو کھنڈ کھنڈ کرنے پر تُلا ہوا نظر آتا ہے. الغرض ان تینوں یوروپی جمہوریتوں میں سیاسی ماحول بھارت کے سیاسی ماحول کی طرز پر ہوتا جا رہا ہے اور بھارت ایک سیاسی رول ماڈل کے طور پر وہاں دیکھا جانے لگے تو تعجب کی بات نہیں ہے. یہی وجہ ہے کہ جرمنی جیسے ملک میں جو فسطائیت کی تاریخی مار جھیل چکا ہے ایک بھی مودی مخالف مظاہرے کی خبر نہیں ہے.
یہ تکثیریت بہ مقابلہ اقلیت کی نظریاتی جنگ بھی ہے. اس لڑائی میں مہاجرین کی بڑھتی آبادی سے تہذیبی شناخت کھوئے جانے کا زیریں خدشہ بھی شامل ہے. یعنی مذہبی اور تہذیبی شناخت کی جنگ بھی ہے. اس لڑائی میں بس سیاسی پارٹنر بدل گئے ہیں. یورپ میں یہودی اقلیت کی جگہ مہاجری اقلیت بالخصوص ایشیائی مسلمانوں نے لے لی ہے.
بھارت میں جغرافیائی مذہبی و تہذیبی شناخت جسے اکھنڈ بھارت کا نام دیا جاتا ہے، اس کے تحت بھارت میں جنمے غیر ابراہمی دھرم یا مت جیسے سناتن دھرم جین دھرم اور بودھ دھرم کے ماننے والوں کو بالمقابل باہری ابراہیمی ادیان، آپس میں قریب لاکر قدیم مذہبی و تہذیبی شناخت کی پُزور کوشش کی جا رہی ہے. لہٰذا اسی تناظر میں ابراہیمی ادیان بالخصوص اسلام اور عیسائیت کو بھارت کے لیے خطرہ بتایا جا رہا ہے. اس کے لیے سری لنکا، میانمار سے نزدیکی بڑھانے، ادیان کے آدھار پر آبادی کے آدان پردان کو عمل میں لانے کا منصوبہ بند کام جاری ہے. اسی تناظر میں بنگلہ دیش سے علاقوں کا آدان پردان بھی ہوا ہے. سی اے اے یعنی ترمیمی شہریت قانون بھی اسی کا حصہ ہے اور شہری روسٹر بھی. بھارت کے آدی واسیوں کو جن کی تعداد شہری ہندوؤں سے بھی زیادہ ہے ہندو دھرم میں لانے کی مسلسل کوششیں جاری ہیں اور شری رام جی کو ان کا پوجیہ بھگوان بنانے کا مشن جاری ہے. اس ضمن میں آر ایس ایس کی چالیس ہزار سے زیادہ اسکولیں آدی واسی علاقوں میں انھیں تربیت دے رہی ہیں. گئو ماتا سیاست نے مسلم مخالف ہی نہیں انتہا پسندانہ اور متشدّد مسلم کش رویہ اپنا لیا ہے. آر ایس ایس کی سیاست ایسی ہے کہ وہ آدی واسی اور دلِتوں کو گئو ماتا سیاست میں مسلمانوں کے خلاف اپنا آلۂ کار بنا رہی ہے. (کبھی کبھی داؤ الٹا بھی پڑ جاتا ہے اور آدی واسی بھی گئو ماتا سیاست کی چپیٹ میں آکر لِنچنگ کے شکار ہو جاتے ہیں.) تکثیریتی مذہبی اور تہذیبی شناخت کے نام پر شہریت قانون میں اقلیتوں / مہاجرین شہریوں کے شہری حقوق کم کرنے یا سلب کرنے پر پابندیوں کا بڑھتا ٹرینڈ اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے. بھارت میں اسکول یونیفارم میں حجاب پر تنازع، مسجدوں سے لاوڈ اسپیکر ہٹانے کی مانگ، گئو کشی کی سیاست، فرقہ وارانہ کشیدگی میں ایک طرفہ کارروائی یہ سب اسی کی غماز ہیں. ایک بار پھر بھارت جیسا کثیر آبادی والا ملک اور کم آبادی والے یہ تین یوروپی ممالک ایک بڑے بحران کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں. وزیراعظم مودی کے ان تین یوروپی ملکوں کے خاص دورے کو اس تکثیری مذہبی و تہذیبی شدت پسندی کو مزید استحکام اور تقویت پہنچانے کی ایک قواعد کے طور پر بھی دیکھا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا.
(4 مئی 2022 ،اِندور ،انڈیا)
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:ماں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے