نام کتاب : روشنی کا سفر (بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ)

نام کتاب : روشنی کا سفر (بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ)

مصنف: جمیل اختر شفیق
ناشر: فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے مالی تعاون سے خود مصنف، رابطہ: 7004771081
قیمت: 170 روپے صفحات: 200 سنہ اشاعت: 2021

مبصر: شاہد حبیب (مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی، لکھنؤ کیمپس)۔ 504/122 ٹیگور مارگ، نزد ندوہ کالج، ڈالی گنج، لکھنؤ
موبائل: 8539054888

جمیل اختر شفیق کے تعارف کے کئی حوالے ہیں۔ وہ شاعر کی حیثیت سے پوری اردو دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں اور مشاعروں میں اپنی خوب صورت ترنم کی بدولت جہاں محفل لوٹنے میں کام یاب رہتے ہیں وہیں ملک و بیرونِ ممالک کے رسائل و جرائد میں اپنی غزلوں و نظموں کی اشاعت سے قارئین کی ایک بڑی تعداد کو متاثر بھی کر لے جاتے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سنے جانے والے شاعر بھی ہیں اور پڑھے جانے والے بھی۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ مشاعروں کا کوئی شاعر یکساں توجہ کے ساتھ رسائل و جرائد میں چھپ کر وہاں سے بھی داد و تحسین وصول کرنے میں کام یاب ہو جائے۔ 2018 میں ان کا شعری مجموعہ "دھوپ کا مسافر" شائع ہوا تو ناقدین کی ایک بڑی تعداد نے ان کے فکر و فن پر مضامین لکھے اور ان کی انفرادیت اور امتیازات کو واضح کیا۔ جمیل اختر شفیق کے تعارف کا ایک بڑا حوالہ ان کا دل پذیر مقرر ہونا بھی ہے۔ وہ دینی، اصلاحی اور عصری مسائل پر جب لب کشائی کرتے ہیں تو لاکھوں کا مجمع ہمہ تن گوش ہو جاتا ہے۔ حالات حاضرہ کے موضوعات کی سمجھ نے انھیں کئی حیثیتوں سے فائدہ پہنچایا۔ اپنے زیرِ تدریس طلبہ میں مقبولیت عطا کی تو سیاسی گلیاروں کا بھی دُلارا بنایا، اپنی شاعری کے لیے خام مواد کی تلاش میں مدد دی تو کہانیوں کے نئے موضوعات کی طرف رہ نمائی بھی کی۔ مطالعے کے شوق کی وجہ سے وہ تنقیدی مضامین لکھنے پر بھی قدرت حاصل کر چکے ہیں اور ڈیڑھ دہائی سے بچوں کے لیے اصلاحی و تمثیلی کہانیاں لکھ کر ادبِ اطفال کے بھی مقبول ادیب بن چکے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ان کی بچوں کے لیے لکھی گئی ڈھائی سو سے زائد کہانیوں کے انتخاب کا پہلا نقش ہے۔
اس مجموعے میں جمیل اختر شفیق نے اپنی جن کہانیوں کو شامل کیا ہے، اسے ادبی نقطۂ نظر سے دیکھنے کے بجائے بچوں کی اخلاقی تعمیر کی نظر سے دیکھنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اور حقیقت یہی ہے کہ آج ادبِ اطفال کے نام پر جن تحریروں کا وجود عمل میں آ رہا ہے، ان میں تعمیرِ اخلاق کے پہلوؤں سے صرفِ نظر کر کے اساطیری و غیر منطقی لوازمات کی طرف زیادہ توجہ کی جاتی ہے۔ اور اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ بچوں کی دل چسپی کو بنائے رکھنے اور ان کے اندر مطالعے کا شوق پیدا کرنے کےلیے یہ ایک ضروری عمل ہے۔ لیکن اس مجموعے میں شامل جمیل اختر شفیق کی 35 کہانیوں میں سے کسی ایک کہانی کو پڑھ کر ایسا نہیں لگتا کہ توجہ کہانی سے ذرا دیر کے لیے بھی ہٹی ہو۔ حالانکہ ان کہانیوں میں نہ اساطیر ہے اور نہ ہی کوئی غیر منطقی واقعہ۔ بچوں کے اندر دنیا کی آگہی اور دنیا سے جڑے مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے جمیل اختر شفیق کی کہانی کے اسلوب کی پیروی ضروری بھی ہے اور تخریبیِ اخلاق کے اس دور میں مستحسن بھی۔ جمیل اختر شفیق کی کہانیوں کے موضوعات کو ایک نظر دیکھ کر ہی اس دعوے کی دلیل قاری کو مل جاتی ہے۔
گھر واپسی، ندامت کے آنسو، حماقت، اپنی فطری خوبیوں کو پہچانو، مجبوروں کی مدد سے مصیبتیں ٹل جاتی ہیں، علامہ ابنِ باز کا دانش مندانہ فیصلہ، تمھارے لیے بھی اس میں سبق ہے، احساس، حیرت انگیز تبدیلی، حیرانی، کسان کا شاعر بیٹا، آج اللہ نے میری مراد پوری کر دی، یقین، عبرت آموز خواب، عہد، عمل کی تاثیر، ایک ایسی موت جس نے۔۔۔۔، احتساب، والدین کی صحبت کو غنیمت جانو، غیر متوقع کام یابی، بدگمانی، اولاد کو اولاد ہی رہنے دیجیے، مثالی طالب علم، ماں کی عظمت کا احساس، بیٹا غلطی میری بھی تھی، جیسی کہانیوں کے عنوانات بچوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں، کہانی کے اختتام تک باندھے رکھتے ہیں اور قاری کے اندر علم و حکمت کے بیج بونے میں بھی کام یاب رہتے ہیں۔
جمیل اختر شفیق نے اپنی کہانیوں کے لیے جس زبان کا استعمال کیا ہے وہ عام فہم ہیں اور بچوں کے ذخیرۂ الفاظ کو بڑھانے میں کام یاب بھی نظر آ رہے ہیں۔ اور باتیں اتنی دل چسپ ہیں کہ پڑھتے جائیے اور آنکھوں پہ پڑے پردے کو ہٹاتے جائیے۔ کہیں پر بھی اُکتاہت کا احساس نہیں ہوتا۔ کہانیوں کی اسی خوبی کے پیش نظر پروفیسر شکیل احمد قاسمی نے کتاب میں شامل اپنے تاثرات میں لکھا ہے کہ "جمیل اختر شفیق کی تحریریں پڑھتے ہوئے کئی بار میرے آنسوؤں نے ان کی کوشش و کاوش کو خراج تحسین پیش کیا ہے". کتاب میں شامل تعمیر سیرت اور کردار سازی کے پہلوؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے وہ آگے لکھتے ہیں کہ "میرا مشورہ ہے کہ تعلیمی اداروں کے ذمہ داران اسے مناسب مقامات پر داخل نصاب یا خارجی مطالعے کا لازمی حصہ بنائیں". جمیل اختر شفیق نے کتاب میں شامل اپنے مقدمے میں کہانیوں سے اپنی طبعی دل چسپی کا ذکر کرتے ہوئے امی سے کہانی سننے کی ضد اور اس کی پوری روداد کو دل نشین انداز میں بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ”وقت کے ساتھ ساتھ جب شعور کی سطح تھوڑی بلند ہوئی، زندگی کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا شروع کیا تو قدم قدم پر رونما ہونے والے واقعات و حادثات، عبرت و موعظت کا ایک نیا تحفہ لیے کھڑے تھے۔ میں نے بس اتنا کیا کہ انھیں نظر انداز کر کے آگے بڑھ جانے کے بجائے دل کے نہاں خانوں میں ان تحفوں کو بہت سلیقے سے سنبھال کر رکھا تاکہ آنے والی نسلیں مستفید ہو سکیں". جمیل اختر شفیق کے اس تحفے کو پروفیسر شکیل احمد قاسمی کے علاوہ ڈاکٹر ارشد فہیم مدنی، ڈاکٹر عطا عابدی، ڈاکٹر کامران غنی صبا اور انظار احمد صادق نے بھی قیمتی گردانا ہے اور ادبِ اطفال سے متعلق لٹریچر میں اس اضافے کو وقعت کی نظر سے دیکھا ہے۔
امید ہے جمیل اختر شفیق کی تازہ کاوش کو ادب اطفال میں ایک قیمتی اضافہ سمجھا جائے گا اور بچوں کو زبان و ادب کی طرف متوجہ کرنے والے ادارے اس کتاب کی اہمیت کو سمجھ کر اسے بڑے پیمانے پر تقسیم و تشہیر کی طرف متوجہ بھی ہوں گے۔ حکومت اترپردیش کا ادارہ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے ادب اطفال کی طرف بھی توجہ کی اور اس کتاب کی نشر و اشاعت میں مدد فراہم کی۔ مصنف، ناشر اور ادب اطفال سے متعلق سبھی ہنرمندوں کی خدمت میں ہدیۂ تبریک.
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے