خمار بارہ بنکوی کو خراج عقیدت

خمار بارہ بنکوی کو خراج عقیدت

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

( بتاریخ 19 فروری 2022 ممتاز اردو شاعر خمار بارہ بنکوی مرحوم کی برسی کی مناسبت سے راہی معصوم رضا ساہتیہ اکادمی اور ہندوستانی ساہتیہ سبھا کے زیر اہتمام ان کی یاد میں جناب پرویز ملک زادہ کے زیر نظامت ایک آن لاین مشاعرے کا انعقاد ہوا جس میں شعرا اور تمام شرکاے بزم نے مرحوم کو پرخلوص خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سامعین و ناظرین کو اپنے کلام سے محظوظ فرمایا۔ اس موقر بزم ادب میں ہندی و اردو کے معروف سخن وروں کے درمیان خاکسار نے بھی یاد رفتگاں کے تحت خمار بارہ بنکوی کو منظوم خراج عقیدت اور انھی کی زمین میں دو غزلیں پیش کیں۔

یاد رفتگاں : بہ یاد خمار بارہ بنکوی
تاریخ پیدایش : ۱۵ ستمبر
تاریخ وفات : ۱۹ فروری ۱۹۱۹

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

بارہ بنکی کی شان تھے جو خمار
اُن کے عرض ہُنر پہ سب ہیں نثار
اُن کی غزلوں میں ہے جو سوز و گداز
بن گئے اس سے سرخی اخبار
ہے جو عصری ادب کا سرمایہ
اُس نئی سوچ کے تھے وہ معمار
ان کا مخصوص تھا لب و لہجہ
روح پرور ہیں دل نشیں اشعار
ادبی تاریخ کی ہیں جو رونق
ایسے لوگوں میں اب ہے اُن کا شمار
اُن کے اشعار میں نمایاں ہیں
شہر و دیہات و کوچہ و بازار
محفلوں میں جہاں کہیں بھی گئے
وہاں برقی تھے مطلعِ انوار

ایک زمین کئی شاعر
خمار بارہ بنکوی اور احمد علی برقی اعظمی
خمار بارہ بنکوی

وہ سوا یاد آئے بھلانے کے بعد
زندگی بڑھ گئی زہر کھانے کے بعد
دل سلگتا رہا آشیانے کے بعد
آگ ٹھنڈی ہوئی اک زمانے کے بعد
روشنی کے لیے دل جلانا پڑا
ایسی ظلمت بڑھی تیرے جانے کے بعد
جب نہ کچھ بن پڑا عرض غم کا جواب
وہ خفا ہو گئے مسکرانے کے بعد
دشمنوں سے پشیمان ہونا پڑا
دوستوں کا خلوص آزمانے کے بعد
رنج حد سے گزر کے خوشی بن گیا
ہو گئے پار ہم ڈوب جانے کے بعد
بخش دے یا رب اہل ہوس کو بہشت
مجھ کو کیا چاہئے تجھ کو پانے کے بعد
کیسے کیسے گلے یاد آئے خمارؔ
ان کے آنے سے قبل ان کے جانے کے بعد

احمد علی برقی اعظمی

رو پڑا ناگہاں مُسکرانے کے بعد
یاد آئی بہت اُس کی جانے کے بعد
میری آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں
وہ نظر آیا جب اِک زمانے کے بعد
روح پرور تھا اُس کا یہ طرزِ عمل
روٹھ جانا دوبارہ منانے کے بعد
روٹھنے اور منانے کی دل کش ادا
ہے بہت دل نشیں دل لگانے کے بعد
دل کو دل سے ملاتی ہے یہ دل لگی
اُس کا ہونا پشیماں ستانے کے بعد
تلخ و شیریں ہے رودادِ دل بستگی
مُنکشف یہ ہوا آزمانے کے بعد
خانۂ دل مرا پھر نہ روشن ہوا
’’ ایسی ظلمت بڑھی تیرے جانے کے بعد ‘‘
حاصل زندگی تھا یہ میرے لیے
شمعِ دل کو جلانا بُجھانے کے بعد
کیفیت دل کی تھی میرے نا گُفتہ بہ
جب نہ آیا تھا وہ، اُس کے جانے کے بعد
شخصیت کا مری بن گیا ایک جز
میرے قلب و جگر میں سمانے کے بعد
ہے یہ برقی حسینوں کی فطرت کا جُز
وعدہ کرکے نہ آنا بُلانے کے بعد
***
یہ بھی ملاحظہ فرمائیں :ادیب و شاعرِ خوش فکر چندربھان خیال از برقی اعظمی 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے