لال کبوتر

لال کبوتر

احسان قاسمی
(نوٹ : "راتے ندی کنارے ملیو… بہت جروری بات ہے… سمجھی؟ " یہ اور اس طرح کے دوسرے الفاظ و تراکیب نے مجھے اس افسانے کی اشتراک پہ تدوین کے دوران رینو کی یاد دلائی. پھنیشور ناتھ رینو. پدم شری پھنیشور ناتھ رینو. میلا آنچل ناول کا خالق دوسرا پریم چند. جو آنچلک (علاقائی) ادیب بھی کہلاتا ہے. جس کے افسانے "مارے گئے گل فام" پر تیسری قسم فلم بنی، راج کپور اور وحیدہ رحمن نے اس فلم میں اپنا کردار نبھایا ہے. ہندی آتی ہو اور موقع ملے تو ضرور پڑھیے. میں نے کل ہی پڑھا. گوگل پہ موجود ہے.
لیکن مجھے رینو کی یاد پنچ لیٹ افسانے کی وجہ سے آئی… آج سے تقریباً پندرہ سترہ برس قبل غالباً انٹر میڈیٹ میں رینو کا یہ افسانہ پڑھا تھا. اور رینو کا نام سنا تھا. ہمارے گاؤں ( جین خورد، مظفرپور) میں پنچ لیٹ ہوا کرتا تھا. شاید اس لیے بھی کہانی میرے ذہن پر ہمیشہ سوار رہی. تب مجھے ادب کا اتنا شعور بھی نہ تھا جو کچھ اب ہے.
رینو کی یاد آئی تو میں نے گوگل کیا. رینو پہ ایک مضمون اردو میں موجود ہے. پھر فاروق ارگلی کے مضمون کا خیال آیا جو حال ہی میں اشتراک نے بھی شایع کیا ہے. یہ مضمون حقانی القاسمی کی شخصیت و کارنامے پر ہے. اس میں ان کی کتاب ‘رینو کے شہر میں` کا ذکر ہے. میں نے پھر گوگل کیا. ریختہ پر اس کا دیدار نصیب ہوا. اوراق پلٹے گئے. حقانی القاسمی کی پر شکوہ زبان، در و بست میں جذبہ، درد، کسک اور نئے روشن مستبل کی تلاش، قدیم تاریخ کے جھروکے سے جھانکتے کھنڈرات اور ملبے ملے. اس میں ایک اقتباس ہے : ” ادب تو در اصل گاؤں کے گرد و غبار میں ہے. وہاں کی ندیوں میں ہے، وہاں کے بنوں میں ہے، وہاں کے رمناؤں میں ہے. ان آنکھوں میں ہے جو شہر کی کثافت سے آلودہ نہیں ہوئی ہیں. ان ہونٹوں کی سلسبیل میں ہے جو کسی لمس سے آشنا نہیں ہیں. پان کی گمٹی میں بیٹھا ہوا گھنگھریالے بالوں والا آدمی مجھے م. ع سے زیادہ بڑا افسانہ نگار لگتا ہے. اور چائے خانے کی ٹوٹی ہوئی گندی تپائی پر بیٹھا ہوا خیالوں میں گم ایک شخص مجھے عین. صاد سے بڑا تخلیق کار نظر آتا ہے. پیپل کی چھاؤں کے نیچے بیٹھا ہوا ایک گنجا آدمی ز. ر کو اپنی جنبش سے زیر و زبر کرسکتا ہے. مگر سوال شناخت کے بحران کا ہے. در اصل یہ وہ رائٹرز ہیں جن کی کوئی شناخت نہیں ہے. صرف اس لیے کہ انھیں وہ وسایل میسر ہیں اور نہ ہی وہ مدیران مہیا ہیں جو کسی کو بھی تحت الثری سے فلک الافلاک پر بٹھا سکتے ہیں. " (ص: ٢٣)
شناخت کا بحران ہی وہ موضوع ہے جو مجھے اس افسانے کی تدوین کے وقت شدت سے محسوس ہوا. یہ افسانہ اپنے موضوع، ٹریٹمنٹ، زبان و بیان کے حسن کی وجہ سے اپنے زمانے کے چند بہترین افسانے میں شامل ہے. لیکن کیا یہ ہے؟ کیا احسان قاسمی کے سامنے بھی شناخت کا بحران نہیں ہے؟ میرے خیال میں شناخت کے اسی بحران کی وجہ سے خود حقانی القاسمی کی اس کتاب میں احسان قاسمی کے فکر و فن پر کوئی تحریر مجھے نہیں ملی.
افسانہ لال کبوتر میں کردار کے زبان  سے جب لال کبوتر بولا جاتا ہے تو اسے ت پہ تشدید کے ساتھ پڑھیں. اس میں  باز کے ذریعے کبوتر کو چھاپ لینے کا واقعہ کس ہنر مندی سے تخلیق ہوا ہے اس پہ غور کریں. گاؤں کی ایک بھولی بھالی منیا اور کبوتر میں کیا قدر مشترک ہے؟ کبوتر امن اور سادگی کی علامت ہے. پھر وہ لال کیوں ہے؟ لال تو خون کا رنگ ہوتا ہے. دلہن کے دوپٹے کا رنگ ہوتا ہے. باز اور افسانے کے کردار بہاری میں کیا قدر مشترک ہے؟ بہاری کے بازوؤں کی مچھلیاں اتنی نمایاں کیوں ہیں؟ باز اور بازوں میں کیا مناسبت ہے؟ گاؤں کے لوگ ایک بڑی مشین کو کیوں دھکا دے رہے ہیں؟ وہ کھیتی بھی تو کرسکتے تھے؟ جب ہم ان جیسے سوالوں پہ غور کرتے ہیں تو افسانے کا اصل حسن قاری پہ ظاہر ہوتا ہے. رینو کی کہانیوں میں بیل گاڑی کا ذکر ہے. احسان قاسمی کا عہد گاؤں اور مشین کے درمیان بدلتے سماجی، سیاسی، معاشی رشتوں کو نیا روپ دے رہا تھا. اس افسانے کے تفصیلی تجزیہ سے نہ صرف افسانے کا حسن سامنے آئے گا بلکہ احسان قاسمی کی ہنر مندی بھی ظاہر ہوگی. طیب فرقانی….) 


مُنیا پائل چھنکاتی وہاں جا پہنچی جہاں مزدور کام پر لگے تھے۔ آج اس نے سرخ رنگ کی اپنی پسندیدہ ساڑی پہن رکھی تھی جس کا کنارہ سنہرے رنگ کے گوٹے سے سجا تھا۔ کوسی ندی پر کافی طویل پل تعمیر کیا جا رہا تھا۔ سینکڑوں مزدور کام پر لگے تھے۔ وہ مختلف گروہوں میں بنٹے مختلف کام انجام دے رہے تھے۔ انھی میں اس کا باپ بھی تھا۔ وہ اسے بیڑیاں دینے آئی تھی مگر یہ تو صرف ایک بہانہ تھا، دراصل وہ بہاری کو دیکھنےآئی تھی۔ وہ دِنوا، سُکھوا اور سلطان وغیرہ کے ساتھ مل کر ایک بہت بھاری مشین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ وہ کچھ دورکھڑی اسے نہارتی رہی۔ بہاری کے ننگے صحت مند جسم پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے اور بازؤں کی مچھلیاں پھڑک رہی تھیں۔ اس نے اپنی دھوتی کو اوپر تک سمیٹ کر کس کر باندھ رکھا تھا۔ اس کی ننگی رانیں اور پنڈلیاں دیکھ کر منیا کا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ بہاری حقیقتاً پتھر کا تراشیدہ طاقت کا مجسمہ لگ رہا تھا۔ وہ تو ہمیشہ اسی کے سپنے دیکھا کرتی تھی اور جس دن کبھی تنہائی میں موقع پا کر بہاری اس سے دوچار باتیں کرلیتا یا ہلکے سے اسے چھیڑ دیتا تو وہ گھنٹوں کھاٹ پر پڑی پڑی انگڑائیاں لیتی رہتی اور پرانی کھاٹ دیر تک چرمراتی رہتی۔ وہ بڑے انہماک سے بہاری کو نعرے لگا لگا کر اس وزنی مشین کو دھکے لگاتے دیکھتی رہی۔ تھوڑی دیر کے لیے کام رک گیا۔ مزدور اپنا اپنا پسینہ پوچھنے لگے۔ اس کی نظر دنوا پر پڑی تو وہ دور سے ہی اسے آنکھ مار کر بڑے بھدّے انداز میں مسکرایا۔ غصّہ سے ناک بھوں چڑھاتی ہوئی وہ بڑبڑائی۔۔۔۔۔ "حرامی !" مزدور پھر کام پر لگ گئے تھے۔ دِنوا آواز اٹھانے لگا؛
"زور لگاکے ہیّا۔۔۔۔۔ دم لگا کے ہیّا۔۔۔۔۔ لال کبوتّر۔۔۔۔۔۔ ہیّا!!
لال کبوتّر۔۔۔۔۔۔؟؟ وہ سر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگی۔ دنوا کا قہقہہ دورتک اس کا پیچھا کرتا رہا۔ آنگن میں کھاٹ پر گرکر وہ ہانپنے لگی۔ چہرا لال بھبھوکا ہو اٹھا تھا۔ ہانپتے ہوۓ زیر لب دنوا کو لاکھوں گالیاں دیتی رہی۔۔۔۔۔ حرامی۔۔۔۔ کتّا کا پلّا— سوّر کا جنا۔۔۔۔۔۔ وہ وہیں کھاٹ پر پڑے پڑے سو گئی۔ نیند ٹوٹی بھی تو کوئی شور سن کر۔ سامنے آم کے پیڑ پر باز ایک کبوتر کو چھاپ بیٹھا تھا۔ کبوتر بری طرح چھٹپٹا رہا تھا۔ اس کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سن کر ہی شاید اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔ وہ کافی اضطراب کے ساتھ اس لڑائی کو دیکھتی رہی۔ بےداغ سفید کبوتر خون کے رنگ میں رنگتا جا رہا تھا۔ اس کی جدوجہد کم زور پڑتی جا رہی تھی اور پروں کی پھڑپھڑاہٹ معدوم ہوتی جا رہی تھی۔ بڑی دیر تک باز اسے بھنبھوڑتا رہا پھر بڑی لاپرواہی سے پیڑ کے نیچے پھینک کر پروں کو جنبش دیتا بیکراں آسمان میں کھو گیا۔ شام تک اس کے ذہن پر بار بار خون سے رنگا وہی لال کبوتر منڈلاتا رہا۔ شاید اس واقعہ کے ناگوار اثرات اور بھی دیر تک قائم رہتے لیکن شام میں ندی کنارے سے لوٹتے ہوۓ بہاری تنہائی میں مل گیا۔ اس نے اسے ہلکے سے چھیڑا تو وہ لجا گئی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھ کر اس کی کلائی پکڑ لی تو وہ اندر تک کانپ گئی جیسے من کی شانت ندی میں کسی شریر بچّے نے چھوٹی سی کنکری پھنںک دی ہو۔ وہ لہروں کے سمان کانپتی رہی۔
بہاری نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا "راتے ندّی کنارے مِلیو۔۔۔۔ بہت جروری بات ہے۔۔۔۔ سمجھی—؟" وہ تھرتھراتے قدموں سے گھر واپس آئی اور دیر تک کھٹیا پر پڑی کانپتی رہی جیسے جاڑا بخار آ گیا ہو. جب رات کا سنّاٹا کافی گہرا ہو گیا اور ساری جھونپڑیوں کے دیے ٹمٹما کر خاموش ہو گئے تو وہ چپ چاپ گھر سے نکل کر ندی کی جانب چل دی۔ عارضی جھونپڑیوں کی اس عارضی بستی سے نکل کر تیز چلتی ہوئی وہ اس چٹّان کے پاس آ گئی جس پر بیٹھ کر وہ ہر شام غروب آفتاب کا منظر دیکھا کرتی تھی۔ اتنی رات گئے اس جگہ آنےکا اس کا یہ پہلا اتّفاق تھا۔ چاروں جانب ایک پراسرار خاموشی چھائی تھی۔ ندی کی کانپتی لہروں پر چاند یوں جھلملا رہا تھا جیسے سونے کی مچھلی تیر رہی ہو۔ وہ خنک ریت پر بیٹھ گئی۔ نصف شب کی ٹھنڈی ملائم ہوا اس کے گالوں اور گردن میں گدگدی لگا رہی تھی۔ اس کا ننھا سا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ وہ سب کچھ بھول کر اس حسین منظر میں کھو گئی تھی۔ یکایک اسےاحساس ہوا کہ کسی کی گرم سانسیں اس کے عارض سہلا رہی ہیں۔ سر گھما کر دیکھا تو بہاری نہ جانے کب اس کے پہلو میں آ بیٹھا تھا۔ اس کی زبان گنگ ہو گئی، بس ٹکر ٹکر اس کا منھ دیکھتی رہی۔ بہاری دھیرے سے پھسپھسایا۔۔۔۔۔ "منیا!" اور اس نے بے اختیار اسے اپنی گود میں سمیٹ لیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی احتجاج کرتی اس نے اپنے پتھریلے ہونٹ اس کے نازک لبوں پر رکھ دیے. وہ مدہوش سی اس کی بانہوں کے حلقہ میں ڈھلکی رہی۔ بہاری اس کی گداز بانہوں کو سہلاتا رہا اور اسے کچھ خبر بھی نہ ہوئی کہ کب اور کیسے بہاری کے ہاتھ کہاں کہاں پہنچ گئے۔ گرمی سے پہاڑوں کی چوٹیوں پر جما برف پگھلنے لگا اور پگھل پگھل کرنشیب میں بہنے لگا۔ پہاڑوں کی ننگی چوٹیاں تن کر کھڑی ہو گئیں۔ موجیں کناروں سے سر مارنے لگیں اور جس ندی پر اس نے برسوں سےبندھ باندھ رکھا تھا وہ گیلے ریت کے گھروندے سا بھسبھسا کر ڈھ گیا۔ وہ ساحل پر یوں بچھ گئی جیسے دھوبی کپڑے دھو کر پسارتے ہیں۔ پھر ندی کی طوفانی موجیں کناروں کو توڑ کر باہر نکل آئیں اور کھیت کھلیان باغ باغیچے سب ڈوب گئے۔ اس سیلابِ بے کنار میں وہ خود بھی غرقاب ہونے لگی تو جان بچانے کے لیے زور زور سے ہاتھ پاوٗں پھینک تیرتی رہی۔ رفتہ رفتہ ندی کا تموّج کم ہوا۔ سیلاب کا زور ٹوٹا تو ندی کناروں میں سمٹنے لگی۔ وہ نچڑے ہوۓ زرد کپڑے کی مانند چاند کی یرقان زدہ روشنی میں ساحل کے ریت پر بچھی رہی۔ اچانک ایک کرخت آواز بم کے گولے کی مانند کانوں کے پاس پھٹی؛
” کیا ہو رہا ہے یہاں؟" وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ سامنے موت کے دیوتا کی مانند دنوا کھڑا تھا۔
"اچھا، منیا اور بہاری۔۔۔۔۔ کا بات ہے ری منیا؟۔۔۔۔۔ بڑی سریپھ جادی بنتی ہے اور ای کا ہو رہا ہے ہیاں دو بجے رات میں–؟؟ ٹھہر بستی بھر میں ہلّا نہ کر دیا تو ہمرا نام بھی دنوا نہیں۔۔۔۔۔۔۔!!
وہ سنّاٹے میں رہ گئی۔ بہاری دنوا کے پیروں پر گر پڑا، "دینا بھائی۔۔۔۔۔۔ دینا بھائی۔۔۔۔۔۔ معاف کر دے۔ دیکھ منیا کی عجّت کا سوال ہے اور پھر اگر اس کے باپو نے سن لیا تو۔۔۔۔۔۔۔؟"
دنوا گرج کر بولا؛ "ہمرا حصہ دو تو ٹھیک۔۔۔۔۔۔" بہاری اس کے پاس آ گیا ۔ سمجھاتے ہوۓ بولا؛ "منیا کا کرے گی بول؟ بڑی بدنامی یوگی۔۔۔۔۔ جینا حرام ہو جائے گا۔۔۔۔۔ پھر کوئی تجھ سے بیاہ بھی نہ کرے گا۔۔۔۔۔۔ جانے دے جو کہتا ہے مان جا۔" وہ خاموشی سے اس کا منہ تکتی رہی۔ بول بھی کیسے سکتی تھی؟ ندی کچھ بولتی تھوڑا ہی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ خاموشی سے سرد ریت پر لیٹ گئی۔ دنوا بھوکے باز کی مانند اس پرجھپٹ پڑا۔ وہ پھڑپھڑاتی رہی، چھٹپٹاتی رہی، وہ بھنبھوڑتا رہا اور پھر اسے نیم مردہ سا چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
"چل پاٹنر" بہاری کا ہاتھ تھامتے ہوۓ اس نے کہا اور دونوں بستی کی جانب چل پڑے۔ وہ نیم جاں سی پڑی پڑی ان ہیولوں کو زرد چاندنی اور کہرے میں گم ہوتے دیکھتی رہی۔ پھیکی چاندنی ریت کے ذروّں سے الجھی تھی۔ چاروں طرف ایک درد انگیز سنّاٹا مسلّط تھا اور خاموش ندی اس کے بغل میں سوئی تھی۔ کہیں کوئی صدا نہیں۔۔۔۔۔ نہ ملّاحوں کے گیت، نہ موجوں کی سرسراہٹ اور نہ چپّووٗں کی چھپچھپاہٹ۔۔۔۔۔۔!
یکایک اس سنّاٹے کو توڑتی ہوئی دنوا کے بھدّے انداز میں گانے کی صدا آتی ہے؛ "زور لگا کے ہیّا۔۔۔۔۔۔ دم لگا کے ہیّا۔۔۔۔ لال کبوتّر۔۔۔۔۔ لال کبوتّر۔۔۔۔۔۔ !!#
***
احسان قاسمی کا یہ افسانہ بھی پڑھیں:پیپر ویٹ

شیئر کیجیے

One thought on “لال کبوتر

  1. احسان قاسمی صاحب کی کہانی ” لال کبوتر ” پر طیب فرقانی صاحب کی خوبصورت اور شاندار تمہید نے کہانی کے منظر اور پس منظر کے حوالے سے جو تجزیاتی پہلو رکھا ہے اس سے قاری کا تحسس اس قدر بڑھتا ہے کہ قاری بنا پڑھے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ کسی ادیب یا شاعر کو اس کی تخلیق کے ساتھ پیش کرنے کا جو نادر اسلوب طیب فرقانی صاحب کے یہاں ہے وہ نہ صرف فنکار کے فکری رجحان کو عیاں کرتا ہے بلکہ تخلیق کو وسعت و معانی بھی عطا کرتا ہے ۔

    بلا شبہ ” لال کبوتر” احسان قاسمی صاحب کی بہترین کہانیوں میں سے ایک ہے جس میں موصوف نے اپنی فنکارانہ صلاحیت سے ایک ایسی کہانی تخلیق کی ہے جس میں کبوتر کی چھٹپٹاہٹ اور بھروسے کے خون سے لتھ پتھ کلائمکس کا ہر لفظ لال ہو جاتا ہے ۔یہی نہیں حساس دل بھی باز کے خونخوار پنجوں کی چھاپ میں آنے سے نہیں بچ پاتا ہے ۔ ایک چیز جو اس پوری کہانی میں شدت سے محسوس کی جا سکتی ہے وہ باز کا فعل ہے جو کبوتر کا خون نچوڑتا ہے اور اسے لاپرواہی سے پٹک کر اڑ جاتا ہے ۔۔۔۔ کبوتر کے لئے باز کی شناخت بھلے ہی مشکل نہ ہو پھر بھی وہ اس کی گرفت میں آ جاتا ہے ۔۔۔۔ لیکن اس باز کی شناخت کیسے کی جائے جس کے چہرے پر چہرہ ہو۔
    اس کہانی کی خوبصورتی اسکی ٹریٹمنٹ ہے ، اسکا بیانیہ ہے، اس کی روانی ہے۔۔۔ کردار کے ذریعے ادا کئے گئے وہ خوبصورت مکالمے ہیں جن میں لفظوں کی بازیگری نہیں ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے