سروش غیب : ایک مطالعہ

سروش غیب : ایک مطالعہ

مولانا آفتاب رشک مصباحی
القدس لائبریری، داراپٹی، مظفرپور ( بہار)
Mob No -8210586235

تضمین باب تفعیل کا مصدر ہے، جس کا معنی ملانا، شامل کرنا ہوتا ہے۔ شاعری کی زبان میں تضمین اس نظم کو کہتے ہیں جس میں شاعر کسی کے کلام پر اپنے اشعار کی زیادتی کے ذریعہ ایک نئی نظم کہتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ شاعر اگلے کے کلام پر اس کے پہلے مصرع کے ہم قافیہ تین مصرعوں کا یا صرف ایک مصرع کا اضافہ کرتا ہے۔ مخمس تضمین نگاری میں شاعر جس کلام پر تضمین لگاتا ہے ضروری نہیں کہ کلام کی زبان اور تضمین کی زبان ایک ہی ہو، کبھی کلام اور تضمین دونوں یک زبان ہو تے ہیں اور کبھی مختلف ۔
زیر تبصرہ کتاب "سروش غیب" بھی مخمس تضمینی کلام کا ایک مجموعہ ہے، جس کے خالق بی یو ایم ایس ڈاکٹر جناب التفات امجدی صاحب ہیں۔ امجدی صاحب طبابت کے پیشہ میں نام کمانے کے ساتھ ادب کی دنیا میں بھی اپنا منفرد اور اعلا مقام رکھتے ہیں۔ موصوف اصلا رباعی کے شاعر ہیں، لیکن دیگر اصناف سخن میں بھی کشادہ دست واقع ہوئے ہیں۔ ان کے پرواز تخیل میں صرف زبان و بیان کی کارفرمائی نہیں ہے، بلکہ آبائی اور روابطی صوفیانہ ماحول اور رکھ رکھاؤ کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ نیز وہ خود فطرتا بھی صوفی مزاج ہیں اور صوفیانہ ادب کا عمدہ ذوق بھی رکھتے ہیں، سماع صوفیہ سے عشق کی حد تک لگاؤ بھی رکھتے ہیں، جس کا ثبوت "سروش غیب" اور” روح سماع" ہے۔
سروش غیب میں جن نامور شعرا کے فارسی کلام پر تضمین کہی ہے، ان کے نام یہ ہیں: جلال الدین رومی، سعدی شیرازی، عثمان مروندی، صابر کلیری، بو علی قلندر، فخر الدین عراقی، امیر خسرو، نصیر الدین چراغ دہلی، حافظ شیرازی، مولانا جامی، محمد جان قدسی، نیاز بریلوی، فرد پھلواروی، عزیز صفی پوری اور تصدق علی اسد۔ اور جن شعرا کے اردو کلام پر تضمین نگاری کی گئی ہے، ان کے نام یہ ہیں: خواجہ میر درد، سراج اورنگ آبادی، سودا، میر تقی میر، نیاز بریلوی، مصحفی، انشاء اللہ انشاء، بہادر شاہ ظفر، ذوق، غالب، مومن، بیدم وارثی، داغ دہلوی، آسی غازی پوری، مولانا حالی، اکبر دانا پوری، شاد عظیم آبادی، اکبر الہ آبادی، تصدق علی اسد، علامہ اقبال، حسرت موہانی، فانی بدایونی، جگر مراد آبادی، حفیظ جالندھری، فیض احمد فیض، میرا جی، شکیل بدایونی، مجروح سلطان پوری، ابن انشا اور عبد الوحید فرنگی محلی۔
التفات امجدی نے عموما ان ہی کلام پر تضمین کہے ہیں جو صوفیانہ قوالیوں میں پڑھے جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کا تعلق جس صوفی خانوادے سے ہے وہ صاحب سماع خانوادہ اور خانقاہ ہے۔ موصوف کے جد امجد حضرت سید شاہ تصدق علی سلطان اسد چشتی صابری علیہ الرحمہ کو روحانی فیوض و برکات عارف باللہ حضرت سید شاہ امجد علی چشتی صابری قدس سرہ سے حاصل ہوئے، جن کا سلسلہ تصوف اوپر جا کر معروف صابری بزرگ قدوۃ الاولیا، عارف باللہ حضرت شیخ عبد الحق صابری چشتی رودولوی قدس سرہ سے جا ملتا ہے۔ بابا صاحب خواجہ فرید الدین گنج شکر پاک پٹن شریف سے چشتی فیضٓان کے دو دھارے چلے اور دونوں دھاروں نے چشتیت کے فروغ میں نمایاں کارنامہ انجام دیا اوران سے فیض یاب ہونے والے چشمے آج بھی خلق خدا کی روحانی سیرابی کا کام حسن و خوبی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ ایک سلطان جی خواجہ نظام الدین اولیا سے نظامی دھارا اور دوسرا مخدوم کلیر خواجہ علاء الدین صابر کلیری سے صابری دھارا۔ اور ان دونوں سلاسل کے مشائخ کے یہاں ابتدا ہی سے سماع کا رواج رہا ہے۔ اسی نسبت سے موصوف کی صابری خانقاہ "خانقاہ امجدیہ" سیوان میں سماع کا اہتمام روایتی تزک و احتشام سے ہوتا آ رہا ہے، جس کی روحانی و عرفانی فضا نے انھیں صوفیانہ کلام سے قریب تر کر دیا ہے۔
امجدی صاحب نے اردو کلام پر تو اردو ہی میں تضمین کہی ہیں، لیکن فارسی کلام میں انھوں نے کلام اور تضمین کی زبان ایک ہی ہو اس کی رعایت نہیں کی ہے اور یہ ضروری بھی نہیں ہے۔ فارسی کلام پر تضمین کی یہ صورت اختیار کی ہے کہ شاعر کے پہلے شعر یعنی مطلع پر تضمین فارسی میں ہے، اس کے بعد کے اشعار پر تضمین اردو میں ہے۔ لیکن، یہاں بھی بعض فارسی کلام کے مطلع پر اردو میں ہی تضمین شامل ہے۔
تضمین نگاری ایک طرح سے شرح نگاری کا کام ہے کہ صاحب تضمین اگلے کے کلام پر اس اعتبار سے مصرعے لگاتا ہے جس سے کلام کا ابہام دور ہو کر قاری کے لیے اس کا مفہوم و معنی بالکل واضح ہو جائے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شاعر نے جو باتیں کہی ہیں، تضمین نگار اپنی تضمین کے ذریعہ شاعر کی باتوں میں ایسا معنوی اضافہ کرتا ہے جو اگلے کے شعر کو مزید تخیلی پرواز عطا کر دیتا ہے۔ التفات امجدی کے اس مجموعۂ تضمین میں یہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں۔
فارسی کلام کے مطلع پر فارسی تضمین کے چند نمونے دیکھیں:
(۱)منم سالار در ہر عرصۂ پیکار می رقصم
منم ظاہر منم باطن دم اظہار می رقصم
ندانستم بہ یست و بود را اخبار می رقصم 
"جمال خویش می بینم بہر بازار می رقصم
کہ خود را یافتم در خود ازاں اسرار می رقصم"

(۲)دل عاشقاں مست و سرشار داری
بہ ہر سو عجب گرم بازار داری
کہ ناز و ادائے طرح دار داری
"دو عالم بکاکل گرفتار داری
بہ ہر مو ہزاراں سیہ کار داری"

(۳)انداز قامت یک طرف رخسارے زیبا یک طرف
مے خانہ، میکش یک طرف پیمانہ صہبا یک طرف
گلزار لالہ یک طرف ہم سنگ خارا یک طرف
"دی شب کہ می رفتی بتا رو کردہ از ما یک طرف
افگندہ کاکل یک طرف زلف چلیپا یک طرف"

اب فارسی کلام کے مطلع پر اردو تضمین دیکھیں:
(۱)بے خوف مرا عزم، یہ ہمت نہ مری ہارے
کیا کوئی زباں کھولے مجبور ہیں جب سارے
خاموش تماشائی بت ہو گئے بے چارے
” آمادہ بقتل من آں شوخ ستم گارے
ایں طرفہ تماشہ بیں نا کردہ گنہ گارے"

(۲)کہاں ان کی رہبری سے ہوئی حق سے آشنائی
مرے دل کو واعظوں کی کوئی بات ہی نہ بھائی
مجھے ذکر سے ملا کچھ نہ تو فکر راس آئی
"صنما رہ قلندر سزد ار بمن نمائی
کہ دراز دور دیدم رہ و رسم پارسائی"

التفات امجدی کا کمال یہ ہے کہ زبان و بیان کی چاشنی کو برقرار رکھتے ہوئے انھوں نے شاعر کے مفہوم کلام پر ایک معنوی حسن کا اضافہ کیا ہے. یا کم از کم اگلے کے شعر کی خوب صورت ترجمانی کی ہے۔ آپ پورا مجموعہ پڑھ جائیں، اس بات کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ان کے یہاں بھرتی کی پیوبند کاری نہیں کی گئی ہے۔ جو بھی کہا، جتنا بھی کہا صاحب کلام کے تتبع میں کہا اور خوب کہا۔
عراقی کے ایک شعر پر جو معنوی حسن پیدا کیا ہے، اس کا نظارہ دیکھیں:
عجب اک مقام دیکھا تھا جہاں عجیب عالم
نہ وہاں کوئی تھا ادنی نہ وہاں کوئی معظم
کہ مجھے ہر ایک میکش ملا پارسا مجسم
"بہ قمار خانہ رفتم ہمہ پاک باز دیدم
چو بہ صومعہ رسیدم ہمہ یافتم دغائی"

اسی طرح بو علی قلندر شرف کے شعر پر لگائی تضمین ملاحظہ ہو:
گلاب باغ جنت ہے مرے اس یار کا چہرہ
مری نبض عقیدت کا ہے اس کی سانس سے رشتہ
وہی تو ہے مرا حاصل، مرا کعبہ مرا قبلہ
"روم در بت کدہ شینم بہ پیش بت کنم سجدہ
اگر یابم خریدارے فروشم دین و ایماں را"

اسی طرح سعدی شیرازی کے ایک شعر پر کہی گئی تضمین نے اس بات کی خوب صورت توضیح کر دی کہ جلوۂ خدا کا ظہور جہاں ہو وہی سجدہ گاہ ہے، خواہ وہ مسجد ہو کہ غیر مسجد۔
بیدم شاہ وارثی کا شعر ہے:
جس جا تو نظر آئے سجدے وہیں کرتا ہوں
اس سے نہیں کچھ مطلب کعبہ ہو کہ بت خانہ
اسی طرح ایک دوسرے شاعر کا یہ شعر دیکھیں:
جبیں اپنی اس جا پہ خم دیکھتے ہیں
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
اب شیخ سعدی شیرازی کے شعر پر لگائی گئی تضمین دیکھیں اور تضمین نگار کو داد دیں:
تیری رہ گزر ہی تو منزل عبادت ہے
چاہتوں کے خم میں بھی ہے نہاں اسی کی مے
جس میں ہے وہ پوشیدہ وقف سجدہ ہے وہ شے "رفتنم پئے سجدہ حاجتے بہ مسجد نے
طاق ابروے جاناں خانۂ خدا ایں است"

اللہ رحمن و رحیم اپنے بندوں پر کس قدر مہربان ہے، اس کا اندازہ لگا پانا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کی صرف ایک تمثیل حدیث پاک میں یہ ملتی ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے۔ ماں کی اپنے اولاد سے شفقت و محبت اور مہربانیوں سے ہر کوئی واقف ہے۔ اولاد خواہ جیسی ہو، ایک ماں سے اس کی مصیبت و پریشانی دیکھی نہیں جاتی۔ اپنی خوشی، اپنی راحت، بلکہ اپنی جان پر کھیل کر اپنی اولاد کو خوش رکھنے اور انھیں ہر مصیبت سے بچانے کی آخری حد تک کوشش کرتی ہے۔ اس قسم کے نظارے دنیا نے بارہا دیکھے ہیں۔ اسی سے اپنی محدود پرواز تخیل سے انسان ایک اندازہ تو لگا ہی سکتا ہے کہ جب ایک ماں اپنی اولاد پر اس قدر مہربان ہو سکتی تو جو ذات ستر ماؤں سے بھی زیادہ مہربان ہے، اس کی مہربانی کا عالم کیا ہوگا۔ چنانچہ اسلامی کتابوں میں یہ بات ملتی ہے کہ بندہ گناہ کرتا ہے پھر توبہ کر لیتا ہے تو اس کا رب اسے معاف کر دیتا ہے۔ اور ایسا ایک بار نہیں بار بار ہوتا ہے کہ بندہ گناہ کر کے توبہ کرتا ہے اور وہ مہربانی کر کے اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ اسی بات کو اکبر دانا پوری نے اپنے ایک حمدیہ شعر میں بیان کیا ہے ، جس پر امجدی صاحب نے خوب صورت تضمین کہی۔ ملاحظہ ہو:
تیرا خیال دل میں ہر لمحہ ہر گھڑی ہے
ہر پھول ہر کلی میں تیری ہی دل کشی ہے
چشم کرم ہو مجھ پر یہ التجا مری ہے
"میں ہوں ضعیف بندہ تو مالک قوی ہے
عصیاں ہے فعل میرا بخشش ہے کام تیرا"

کہتے ہیں کہ”جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے"۔ اگر اللہ رب العالمین کی حمایت کسی کو حاصل ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت تمام تر داؤ بیچ لگا کر بھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس عنوان پر شاہ تصدق علی اسد کے ایک شعر پر کہی گئی تضمین دیکھیں:
اثر کس ذات پر کرتی بھلا گفتار نمرودی
کبھی سر سبز ہو سکتا نہ تھا کردار نمرودی
اسے گرنا تھا آخر گر گئی دیوار نمرودی
"جلاتی کیسے ابراہیم کو وہ نار نمرودی
جما تھا نقشہ ان کے سامنے تیری حمایت کا"

التفات امجدی کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں تضمین کہتے ہوئے اسلوب زبان و بیان کو متأثر ہونے نہیں دیا ہے۔ جہاں فارسی کلام پر فارسی میں یا فارسی کلام پر اردو میں اور اردو کلام پر اردو میں تضمین نگاری کی ہے، ہر جگہ نہ صرف زبان و بیان، بلکہ مفاہیم و مطالب شعر کی بھی خوب رعایت کی ہے، جس کا لطف اہل ذوق ہی پا سکتے ہیں.
۱۷۵/صفحے پر مشتمل سروش غیب شاعر موصوف کی بیش قیمت علمی و ادبی شاہ کار ہے، جس کا انتساب انھوں نے اپنے استاد معروف شاعر و ادیب صوفی بزرگ ڈاکٹر طلحہ رضوی برق داناپوری کے نام کیا ہے، جب کہ اس پر ایک شان دار مقدمہ خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کی علمی و روحانی شخصیت علامہ شاہ ہلال احمد قادری مجیبی (جنھیں اب علیہ الرحمہ بھی لکھنا پڑ رہا ہے) کا ہے۔ یہ کتاب اپنی طباعت کے اعتبار سے ایک نہایت عمدہ، جاذب نظر اور پر کشش ہے، جو ادب پسند حضرات کو یقیناً پسند آئے گی۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے