حضور حجۃ الاسلام اور  قانون تحدید عمر ازدواج

حضور حجۃ الاسلام اور قانون تحدید عمر ازدواج

مفتی محمدعبدالرحیم نشترؔ فاروقی
ایڈیٹرماہنامہ سنی دنیا و مفتی مرکزی دارالافتاء، بریلی شریف

1929ء میں جب انڈیا گورمنٹ نے ’’شاردابل‘‘ یعنی تحدید عمر ازدواج کا قانون پاس کیا تو اسلامیان ہند میں ایک عام اضطرابی کیفیت پیدا ہوگئی، مسلمان سخت بے چینی و پریشانی کا شکار ہونےلگے، ملک کے طول و عرض سے مسلسل اس سیاہ قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہونے لگیں، قائدین مذہب و ملت اور ذمہ داران ملک و قوم باربار حکومت کویہ یاد دہانی کرارہے تھے کہ اس سیاہ قانون کی منظوری مسلم پرسنل لامیں سخت مداخلت ہے مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک بھی نہیں رینگی ۔
اس سے پہلےکہ ہم اس سلسلے میں حضور حجۃ الاسلام کی سرگرمیوں کاجائزہ لیں، شاردابل کی جھلکیوں اور اس کے مضمرات پر ایک نظر ڈال لیں تاکہ معاملے کی نزاکت اور حالات کی سنگینی کا بہ خوبی اندازہ ہوسکے:
شاردا بل کمیٹی نے شادی کے لیے لڑکی کی عمر کم از کم چودہ سال مقرر کی، اس قانون کے نفاذ سے یہ امر لازم ہوجا تا کہ عام طور پر مسلمان قید و بند کی صعوبتوں میں گرفتار ہو جائے، بہت سی وہ یتیم لڑکیاں جن کا کوئی پر سان حال اور پرورش کنندہ نہیں، صغر سنی میں ازدواج ان کی پرورش کا ایک مؤثر ترین ذریعہ ہو سکتا ہے، جب یہ جبری قانون نافذ ہو چکا ہوگا تو ان بے چاریوں کے رشتۂ ازدواج کا قیام اس قانون کی رو سے ایک دشوار کن امر ہوجائے گا، نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ ان مصیبت کی ماری غریب و یتیم، شریف و کم سن اور بے یار ومددگار بچیوں کے ہاتھوں کاسۂ گدائی ہوگا اور وہ دربدرکی ٹھوکریں کھاتی بھیک مانگتی پھریں گی۔
ایسی صورت میں انھیں وہ تربیت نہیں حاصل ہو سکے گی جو ان کی زندگی پر کوئی خوش گوار اثر ڈال سکے، جن کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کبھی خوش گوار مستقبل شکل نہیں دیکھ سکیں گی اور اگر وہ قانونی حد بلوغت پر پہنچ کر خوش قسمتی سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو بھی گئیں تو ان کے اندر اس قسم کے اخلاق کا فقدان ہوگا جس سے وہ شوہر کے دل پر حکمرانی کر سکیں، اس لیے ان کا ابتدائی دور جو ماں باپ کی شفقت بھری آغوش میں گزرتا یا بہ حالت صغر سنی و یتیمی احکام شریعت کے مطابق رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو جانے پر شوہر کے ظل عاطفت میں بسرہوتا وہ اس قانونی بندش اور عمر ازدواج کی تحدید کی بنا پر فقر و فاقہ اور مصیبت زدہ ماحول میں گزرےگا۔
ان کے اندر تعلیم وتربیت کے فقدان کے باعث وہ اخلاق و آداب نہ پیدا ہو سکیں گے جو بعد ازدواج شوہر کو اپنی جانب مائل کر سکے، بے چاریوں نے ابتدائی عمر میں جسمانی تکالیف برداشت کیں، فقر و فاقہ کی مشقتیں جھلیں، ازدواج کے بعد بھی اس منحوس قانون نے چین سےنہ بیٹھنے دیا کہ اخلاقی کم زوریوں کی بنیاد پر شوہر کی عدم موافقت اور طبعی میلان نہ ہونا روحانی اذیتوں کا باعث بنا اور ان ساری تخریب کاریوں کا سہرا اسی کم بخت جبری قانون کے سر جاتا ہے جس کے جبریہ نفاذ کا غلغلہ اُس وقت پورے ہندستان میں بلند کیا جا رہا تھا، شاردا بل کے مضمرات سے متعلق دبدبۂ سکندری اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتا ہے:
’’ حقوق صغائر و صنف نازک کی حمایت و حفاظت کا دنیا کو خطبہ سناسنا کر شاردا بل کی آواز پرلبیک کہنے والے کان کھول کر سن لیں، شاردا بل کی منظوری مداخلت فی الدین ہی نہیں خیال کی جاتی بلکہ یہ حقیقت نا قابل انکار ہے کہ شاردا بل نے صنف نازک اور حقوق صغائر کو ہی تیز اور چھلتی ہوئی چھری سے ذبح کیا ہے……. قانون شریعت ہی وہ جامع اور مکمل قانون ہے کہ جس نے صغر سنی کے نکاح جائز ٹھہرا کر صنف نازک بالغوں کے حقوق کی پوری پوری نگہ داشت کی، ملت اسلامیہ نے اولیا کو (والدین) تزویج صغائر کا حق عطا فرمایا، شریعت طاہرہ کایہ حکم صدہا حکمتوں اور بے شمار مصلحتوں سے بھرا ہوا ہے مگر قانون ازدواج ان سب کو یک قلم فنا ہی نہیں کر دیتا بلکہ اولیا کے شرعی حقوق بھی مٹاکر مداخلت فی الدین کا مترادف ٹھہرتا ہے۔
ایسی مثالیں بکثرت ملیں گی کہ ایک شخص دفعتاً کسی مہلک مرض میں مبتلا ہوا، موت آنکھوں کے سامنے پھرنے لگی، زندگی کی آس ٹوٹ گئی، جائداد اولاد ہے اور صرف ایک دو لڑکیاں !وہ صغر سنی اور کوئی ایسا قریبی عزیزبھی نہیں جو اس کے بعد اس کی چھوٹی چھوٹی بچیوں کا سرپرست بنے یا اس کی متروک جائداد کی نگہ داشت کرے۔
اس نازک وقت میں جب کہ وہ ہمیشہ کے لیے اپنی چہیتی بچیوں سے رخصت ہونے والا ہے ادھر تو ہمدرد فراق کی کشمکش اور ادھر ان یتیم بچیوں کا مستقبل اس کے سامنے ایک نہایت مہیب اور خطرناک منظر پیش کر رہا ہے، اس وقت اس کے نزدیک بجز اس کے اور چارۂ کار نہیں (کہ) وہ ان بچیوں کو رشتۂ ازدواج میں منسلک کر کے ہمیشہ کے لیے چین کی نیند سو جائے، اس لیے کہ یہی ایسی ایک صورت ہے کہ اس کے بعد اس کی صغر سنی لڑکیاں آرام وراحت کی نیند بسر کر سکتی ہیں اور اس کی متروکہ جائداد کہ جس کی وہ لڑکیاں مالک ہیں، مامون ومحفووظ رہ سکتی ہے لیکن اس جبری قانون کے نفاذ کے بعد اولیا کا حق تزویج باطل اور اس قسم کی ساری مصلحتیں فوت!
یہ ہے اس ہلاکت بار قانون ازدواج کا نتیجہ جس نے آج اسلامی دنیا کو بے چین بنا دیا ہے اور یہ ہے صنف نازک کی حمایت اور یتامیٰ (یتیموں)کے حقوق کی نگہ داشت جس کا اجمالاً اوپر بیا ن ہوا۔‘‘
(دبدبۂ سکندری رام پور،۱۸؍۱۹ جلد ۶۷)
کمیٹی نے ایک تجویز یہ بھی پیش کی کہ پندرہ سال سے کم عمر لڑکی سے مجامعت کو جرم قرار دیا جائے، بیوی اگر بارہ سال کی ہوتو شوہر کو دس سال کی قید اور جرمانہ اور بارہ اور پندرہ کے درمیان ہوتو ایک سال کی قید مع جرمانہ! غرض قانون ازدواج کے ضمن میں ’’شاردا بل‘‘ کے ذریعہ جس قدر قیود و پابندیاں عائد کی جارہی تھیں وہ سراسر شرعی اصول وضوابط کے خلاف تھیں، اسلام اگر تحدید عمر ازدواج ضروری خیال کرتا تو زفاف اور مجامعت کے لیے یقیناً ایک حد قائم کی جاتی، لیکن تحدید محض اس لیے نہیں کی گئی کہ بلوغت کی کوئی حد معین نہیں، بلوغ میں اختلافِ آب وہوا کو کافی دخل حاصل ہے، سرد ممالک میں لڑکیاں بہ تاخیر بالغ ہوتی ہیں اور گرم ممالک میں بمقابلۂ سرد ممالک کے بہت جلد بالغ ہو جاتی ہیں، ملکوں اور مقامات کے اس اختلاف سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر ایک خاص ملک میں سن بلوغ کی کوئی حد مقرر کی جائے تو یہ بھی نا ممکن ومحال ہے، اس لیے کہ بلوغ افراد میں بھی سن و سال کا اختلاف ہے بلکہ ملک تو دنیا کے ایک وسیع وعریض قلعہ کا نام ہے، اگر ایک صوبہ بلکہ ایک ضلع حتیٰ کہ اگر ایک قصبہ سے چند افراد جمع کیے جائیں اور تحقیق کی جائے تو ان کا سن بلوغ متضاد ہوگا اور یہ بات بھی تجربات سے ثابت ہے کہ آسودہ حال لوگوں کی لڑکیاں عموماً بہت جلد بالغ ہو جاتی ہیں، اس کے برعکس غریب اور مفلوک الحال لوگوں کی لڑکیاں بہ تاخیر جوان وبالغ ہوتی ہیں۔
ایسی صورت میں قانون اسلام جو تمام دنیا کے لیے تہذیب وتمدن، معاملت ومعاشرت ہر اعتبار سے ایک جامع اور مکمل قانون ہے، وہ بلوغ کی کوئی حد کیوں کر مقرر کر سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے زفاف و مجامعت کی کوئی حد مقرر نہیں کی کہ کسی سن وسال میں مناکحت و مجامعت ہو، چنانچہ ابوالمعانی حضرت مفتی ابرار حسین تلہری ایڈیٹر ماہنامہ یادگاررضابریلی شریف لکھتے ہیں:
’’ بعض ممالک میں نو سال کی لڑکیاں بالغ اور جوان ہو کر مجامعت کا تحمل کر سکتی ہیں، ہندستان میں بھی بکثرت آسودہ حال لڑکیاں گیارہ بارہ سال کی عمر میں سن بلوغ کو پہنچ کر مباشرت کے قابل ہوجاتی ہیں اور اس سے ان کی تندرستی پر کوئی نا خوشگوار اثر نہیں پڑتا، متوسط الحال لوگوں کی لڑکیاں تیرہ سے چودہ سال تک بالغ ہوکر شوہر کے قابل ہو جاتی ہیں اور بلوغ کی انتہائی منزل پندرہ سال ہے، لڑکی بالغ ہوکر خواہ وہ کسی سن وسال کی ہو اس کے اندر مجامعت کی قابلیت اور استعداد پیدا ہو جاتی ہے اور یہی اس کی جوانی کی ابتدائی منزل ہے، جوانی کی اپنی اسی منزل میں قدم رکھ کر دربارۂ زفاف لڑکی کسی مزید استعداد اور قابلیت کی محتاج نہیں رہتی ۔
جو لڑکیاں نو یادس سال کی عمر میں بالغ ہو جاتی ہیں، اگر وہ عوارض جسمانی سے پاک ہیں تو بلاشبہ وہ اس سن و سال میں مجامعت کی صلاحیت وقابلیت رکھتی ہیں اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کے اندر خواہ وہ کسی سن وسال کی ہو مجامعت کی قابلیت واستعداد کا پیدا ہوجانا فطرتاً اسے مباشرت کی طرف مائل کرتا ہے، اگرچہ قبل بلوغ اس کا وقوع نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ بلوغ کے بعد لڑکی کا رشتۂ ازدواج میں منسلک نہ ہونا عقلاً اور نقلا ًہر طرح معیوب خیال کیا جاتا ہے۔
یہ امر مسلم ہے قبل بلوغ مجامعت کا لڑکی کی جسمانی صحت پر ضرور، نا خوشگوار اثر پڑتا ہے مگر اس کے اعتراف میں غالباً کمیٹی کو بھی کوئی تامل نہ ہوگا کہ بعد بلوغ زفاف اور مجامعت ہر گز مضر نہیں، کمیٹی نے بلوغ کی حد چودہ سال مقررکی اوراس امرکی کوئی تصریح نہیں کہ بلوغ اور زفاف کے درمیان چندسال یاچندماہ کاحدفاصل کے طورپرگزرجانالازم ہے نیزچودہ سال کی حد بھی حقیقتاً ایک ایسی حد ہے کہ جس عمر پہنچ کر عموماً لڑکیاں بالغ ہوتی ہیں اور بلوغ کی انتہائی منزل پندرہ سال ہے تو گویا کمیٹی نے اس امر کو تسلیم کر لیا کہ بلوغ سے کچھ قبل یا بلوغ سے کچھ بعد لڑکی میں مجامعت کی قابلیت واستعداد اور اس کے عمل کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے تو جب بلوغ یا قرب بلوغ ہی مجامعت کی شرط ٹھہری تو کیا وجہ ہے کہ جو لڑکیاں دس یا بارہ سال کی عمر میں جوان ہو جائیں کہ مجامعت کی متحمل ہو سکتی ہوں، اگر اس کے ساتھ شوہر مجامعت کرے مجرم ٹھہرے اور یہ امر اس کی بدچلنی پر محمول ہو اور جرم ہی ایسا سنگین کہ دس سال کی قید مع جرمانہ؟
ہماری شریعت حقہ نے جس طرح نکاح کے لیے کسی سن وسال کو خاص نہیں فرمایا، اس طرح زفاف کی بھی کوئی حد معین نہیں بلکہ اس قسم کے احکام صادر فرمائے کہ شوہر بیوی سے مجامعت کا مطالبہ اس وقت کر سکتا ہے کہ جب اس میں مجامعت کو برداشت کرنے کی طاقت پیداہوجائے۔‘‘
(دبدبۂ سکندری، ص ۸؍ نمبر۱۸ ؍۱۹؍ جلد ۶۷)
واضح ہوکہ شریعت نے ہر گز اس امر پر مجبور نہیں کیا کہ اگر لڑکی بارہ سال کی بالغ بھی ہے اور مجامعت کو برداشت بھی کرسکتی ہے پھر بھی اس کے ساتھ جماع سے احتراز کیا جائے بلکہ اسلام نے زفاف کے لیے لڑکی میں تحمل جماع کی طاقت کو شرط قرار دیا ہے، چنانچہ کتب فقہ میں اس قسم کی تصریحات بکثرت موجود ہیں کہ اگر زیادہ عمر والی لڑکی یا وہ بالغہ لڑکی جو مجامعت برداشت کرنے کی طاقت نہ رکھتی ہو تو وہ شوہر کے حوالے نہیں کی جاسکتی۔
اسلام نے اس سلسلے میں مسلمانوں کو آزاد رکھا ہے کہ اگر کسی کی بیوی بارہ سال کی ہے اور وہ مجامعت برداشت کرنے کے قابل ہے تو وہ اس کے ساتھ ضرور مجامعت کر سکتا ہے اور وہ ہر گز ہرگز مجرم ومستوجب جرمانہ نہیں، حکومت کو ہر گز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کے جائز فعل کو قابل سزا اور مستوجب جرمانہ قرار دے۔
مختصر یہ کہ شاردا بل کمیٹی کی ساری تجاویز کا مرجع ازدواج صغائر تھا، کمیٹی نے ازدواج کی عمر کی تحدید کی مگر مسلمان اس تحدید کو کسی طور پر ماننے کو تیار نہیں ہوئے، کیونکہ یہ تحدید مسلمانوں کی معاشرتی زندگی پر منفی طور پر اثر انداز ہوئی، لہٰذا مسلمانوں نے شاردا بل کی پرزور مخالفت کرتے ہوئے اسے ’’مداخلت فی الدین‘‘ قرار دیا اور اس سلسلے میں احتجاجی جلسوں کے ذریعہ اپنی بر ہمی وبے زاری اور اپنے کرب واضطرار کا اظہار کیا، چنانچہ حجۃ الاسلام نے مسلمانوں کے اس بر محل اضطراب کو شدت سے محسوس کیا اور اس سیاہ قانون کے خلاف ۲۰؍ستمبر ١٩٢٩ء کو ایک عظیم الشان احتجاجی جلسہ منعقد کیا، اس سلسلے میں جماعت رضائے مصطفےٰ کی ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیں :
’’20؍ستمبر 1929ء کو بعد مغرب زیر صدارت حضرت حجۃ الاسلام مولانا مولوی شاہ محمد حامد رضا خاں صاحب مدظلہ العالی مسلمانان بریلی کا ایک جلسہ منعقد ہوا، جس میں شرع مطہرہ کی پابندی پر مقررین نے تقریریں کیں اور ان لوگوں سے اظہار بے زاری کیا جو شریعت کی پابندی کو غیر ضروری خیال کرتے ہیں، اس کے بعد اصل مقصد کی طرف توجہ کی گئی یعنی "شاردا بل" کے متعلق جناب مولانا مولوی ابوالمعالی محمد ابرار حسین صاحب صدیقی تلہری مدیر یاگار رضا بریلی کا ایک ریزولیشن بایں الفاظ پیش ہوا کہ یہ جلسہ حکومت کو توجہ دلاتا ہے کہ وہ مسئلۂ ازدواج میں تقید عمر سے با زرہے اور وہ اس وعدے کو یادکرے جو کسی مذہب میں مداخلت نہ کرنے کے متعلق کر چکی ہے، نکاح یا زفاف کے لیے قانوناً کوئی عمر مقرر کرنے کا اسے کس طرح کوئی حق ہے؟ ایسے قوانین ضرور ہماری مذہبی و دینی آزادی سلب کرنے والے ہیں۔
مسلمان ایسے قوانین کو جابرانہ اور قانون شرع میں ترمیم یقین کر رہے ہیں اور اس سے دیندار مسلمانوں کی انتہائی دل آزاری ہو رہی ہے، آج حکومت کو ان امور میں جو من وجہٍ عبادت ہیں ابھارا جارہا ہے، اگر مسلمان اس پر خاموش رہے اور انھوں نے ٹھنڈے دل سے تسلیم کر لیا، اس پر جیسی بے چینی چاہئے اس کا اظہار نہ کیا تو کل حکومت ایسے امور کی طرف قانون سازی کے لیے متوجہ کی جائے گی جو سراسر عبادت ہیں، کس قدر ستم ہے کہ جو قانون ہندو چاہتے ہیں اس کا نفاذ تمام کیا جاتا ہے، ہندو مذہب کے خلاف جو بات ہے کیا ضرور ہے کہ وہ اسلام کے بھی خلاف نہ ہو، اسلام نے ہمیں جس بارے میں آزاد کیا ہے ہم اس میں کیوں کوئی قید پسند کرلیں، ویسے ہی ہر قسم کی قیود کیا تھوڑی ہیں جو روز بروز اور پابندیاں اختیار کی جائیں، مذکورہ بالا ریزولیشن باتفاق رائے پس ہوا ۔‘‘
(دبدبۂ سکندری،نمبر۱۹/۱۷؍جلد۶۷؍بابت ماہ ستمبر1929ء)
اس کے باوجود بھی جب حکومت کے کانوں جوں تک بھی نہ رینگی تو دوسرا عظیم الشان احتجاجی جلسہ ۱۹؍اکتوبر ۱۹۲۹ء بروز شنبہ نومحلہ میں منعقد کیا گیا، جس میں مقامی علما کے علاوہ بیرون جات کے بھی مایہ ناز علما اور مقتدر مشائخ کرام نے شرکت فرمائی، حجۃ الاسلام بہ نفس نفیس اس عظیم الشان جلسے کی صدارت فرمارہے تھے، جلسہ سے پہلے بعد نماز عصر ایک خصوصی مجلس شوریٰ منعقد ہوئی، جس میں تمام علمائے کرام اور جماعت رضائے مصطفےٰ مقامی کے اراکین شریک تھے، اس خصوصی میٹنگ میں اس امر پر غور وخوض کیا گیا کہ اس سیاہ اور مہلک قانون سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو کون سی تدابیر اور کیسےکرنے چاہیے۔
شب کو مسلمانان بریلی کا عام جلسہ منعقد ہوا جس میں ابتدا تلاوت قرآن پاک اور نعت ومنقبت کے بعد حضرت مولانا معوان حسین رامپوری نے نہایت ہی زبردست پرمغز اور ولولہ انگیز تقریر فرمائی، انھوں نے کھلے لفظوں میں اس سیاہ قانون کے مضمرات اور مضر اثرات ونقصانات سے آگاہ کیا اور اسےمسلم پرسنل لا میں صریح مداخلت قراردیتے ہوئے اس سلسلے میں شریعت مطہرہ کے احکامات مسلمانوں کے سامنے رکھے۔
ان کے بعد حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب قبلہ مارہروی کی تقریر پر تنویر ہوئی، آپ نے فاضل رامپوری کی تقریر کے ہر ہر حرف کی تائید فرمائی اور مسلمانوں سے اس قانون کے خلاف کمربستہ ہونے کی زور دار اپیل کی، آپ کے بعد صدر الافاضل حضرت علامہ نعیم الدین صاحب مرادآبادی اور ان کے بعد جناب نواب وحید احمد خاں صاحب (ایم اے ، ایل ایل بی) نے نہایت اثر انگیز تقریر فرمائی۔
اس عظیم الشان احتجاجی جلسے میں علمائے کرام نے عام مسلمانوں کی رائے سے حسب ذیل تجاویز پاس کیں :
(۱) مسلمان بریلی کا یہ عظیم الشان جلسہ ’’شاردا ایکٹ‘‘ کو شریعت حقہ اسلامیہ میں صریح مداخلت اور حقوق شرعیہ کا اتلاف اور مسلمانوں کی معاشرتی واقتصادی زندگی کے لیے سخت مضر اور نا قابل برداشت پابندی سمجھتا ہے ۔
(۲) یہ جلسہ گورمنٹ کو ملکۂ وکٹوریہ کا اعلان عدم مداخلت فی الدین جس کی توثیق وتائید متعدد بار ہو چکی ہے یاد دلاتا ہے اور وائسرائے ہند سے پر زور اپیل کرتا ہے کہ وہ اس اعلان کی پابندی کرتے ہوئے اس ایکٹ کو منسوخ کریں یا کم از کم مسلمانوں کو اس سے مستثنیٰ کریں۔
(۳) جن چند نا عاقبت اندیش اور شریعت سے نا واقف مسلمانوں نے اس کی تائید کی ہے، یہ جلسہ ان کے اس عمل پر اظہار نفرت و حقارت کرتا ہے۔
(۴) یہ جلسہ مسلمانان ہند سے پر زور اپیل کرتا ہے کہ وہ ہر جگہ عظیم الشان جلسہ منعقد کرکے اس ایکٹ کے خلاف صدائے احتجاج بلندکریں اور گورمنٹ کو یہ جتا دیں کہ حقیقتاً وہ دین میں مداخلت کرکے مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو پامال کر رہی ہے۔
(۵) یہ جلسہ یہ تجویز کرتا ہے کہ وائسرائے ہند کو ایک تار ان تجاویز کے متعلق روانہ کیا جائے ۔
(۶) یہ جلسہ تجویز کرتا ہے کہ انگریزی و اردو اخبارات کو تحریکات بالا کی ایک ایک نقل روانہ کی جائے ۔
اس طرح یہ عظیم الشان احتجاجی جلسہ بہ حسن و خوبی اور کامیاب اختتام پذیر ہوا ۔
(دبدبۂ سکندری ،ص ۸ ؍بابت ماہ اکتوبر ۱۹۲۹ء ،نمبر۰ ۲؍ جلد ۶۷)
مذکورہ سرگرمیاں حضورحجۃ الاسلام کی سیاسی بصیرت اور دینی غیرت وحمیت کی روشن دلیل ہیں، آپ نے اپنے اس برمحل اقدام سے مسلمانوں کے اندر دینی غیرت وحمیت کی ایک نئی روح پھونک دی اورحکومت کوصاف لفظوں میں یہ بتادیا ؎
باطل سے ڈرنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے