"خوابوں کے مرثیے" میں احساس کا سریلا ترنّم

"خوابوں کے مرثیے" میں احساس کا سریلا ترنّم

شاعر: سفیر صدیقی
تبصرہ نگار: مجتبٰی نجم
گیورائی ضلع بیڑ(مہاراشٹر)
رابطہ: 7218418460

کہتے ہیں کہ سفرِ زیست کے دوران عمر کے لحاظ سے مسافر کے احساسات و جذبات میں نکھار آتا ہے۔ تجربات فکر پر اثرانداز ہوتے ہیں اور فکر مافی الضمیر کا روپ دھارن کرتی ہے۔ اس اصول کا اطلاق زندگی کے ہر شعبہ میں ہوتا ہے۔ تعلیم، تجارت، سیاست، ادب، ثقافت ہر میدان میں اس کی ترجمانی ہوتی ہے۔ جہاں تک ادب کا تعلق ہے, عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ زندگی میں پیش آئے مختلف تجربات اک قلم کار کی ادبی حِس کو نکھارتے ہیں اور یہی تجربات اس کے فن پاروں میں جا بہ جا ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن اس اصول میں بھی کہیں کہیں استثنا کا جز شامل ہے۔ ادبی سفر کا اک سفیر اسی زمرے میں آتا ہے۔ مری مراد نوجوان، خوش فکر، خوش بیاں شاعر سفیر صدیقی سے ہے۔ سفیر صدیقی کی شخصیت میں کم عمری سے ہی اک عظیم فن کار انگڑائیاں لے رہا تھا۔ گہرا مطالعہ اور اہلِ قلم کی صحبت نے ان انگڑائیوں کو مزید حسن بخشا۔ اور بہت جلد تخیل کی پرواز عروج پر دیکھی گئی جو ہنوز جاری ہے۔
سفیر صدیقی نے اپنے اولین شعری مجموعہ "کوزۂ فکر" کے ذریعہ خود کو عالمِ ادب میں متعارف کیا۔ جس کی عالمی سطح پر بھرپور پذیرائی ہوئی۔ بہت کم وقفہ بعد دوسرا مجموعہ کلام "خوابوں کے مرثیے" منظر عام پر آیا۔ اس میں ان کی فکری نمو مزید تابناک نظر آتی ہے۔
سفیر صدیقی کی زبان سلیس ہے۔ ان کا فن سلیس انداز میں قاری کے ذہن پر دستک دیتا ہے۔ ان کے ہاں علامات اور استعاروں کا نظام بالکل منفرد ہے۔ وہ ہر علامت بڑی احتیاط سے استعمال کرتے ہیں تاکہ علامات اتنی گنجلک بھی نہ ہوں کہ ہر مصرع مبہم ہوجاے۔ اور اتنی ہلکی بھی نہ ہو کہ شعری چاشنی ختم ہو۔ یہی اک کامیاب قلم کار کی پہچان ہے۔ اک غزل میں آنکھ کو کتنی خوب صورتی سے علامتی لمس عطا کیا گیا ہے، ملاحظہ ہو:
حشر کے دن رب سے پوچھوں گا ضرور
کیوں مری مٹی میں تونے بوئی آنکھ

یوں تو لاکھوں آنکھیں زندہ ہیں، مگر
دیکھتی ہے صرف کوئی کوئی آنکھ

اک غزل میں چاند کو بہت ہی خوب صورتی سے علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
پیارے لگتے ہیں اک ساتھ
کالے بادل، اجلا چاند

مارا مارا پھرتا ہے
شب بھر غم کا مارا چاند

اک جگہ پانی بھی خوب صورتی سے علامتی اور استعاراتی رنگ میں نظر آتا ہے۔
حدتِ ہجر سے پگھلنے لگا
میری آنکھوں کا برف سا پانی

میری آنکھوں سے بہتا رہتا ہے
میرے خوابوں کے زخم کا پانی

مجموعہ میں شامل بیش تر غزلیات پانچ اشعار پر مشتمل ہیں۔ چند غزلیات میں تین یا چار اشعارہیں۔ کم غزلیات چھے اشعار سے مزیّن ہیں۔ یہ شاعر کے حسنِ انتخاب کی صلاحیت کی عکاسی ہے۔ سفیر اک زود گو شاعر ہیں، بسیار نویس نہیں۔ وہ معیاریت کو تعدد پر ترجیح دیتے ہیں۔
سفیر کے کلام میں حالات کے نشیب و فراز، زندگی کے پیچ وخم، رشتوں کی تعمیر تخریب جا بہ جا عیاں ہیں۔ وہ سورج کے کرن کی تمازت اور شبنم کی نمی کو محسوس کرتے ہیں۔ ان احساسات کا دل نشیں پیرایے میں اظہار کرنے کا ہنر وہ بہ خوبی جانتے ہیں۔
ادب کا یہ سفیر تنگ گلیوں سے بھی گزرتا ہے اور کشادہ راستے سے بھی۔ انھوں نے طویل اور مختصر بحروں میں غزل کہی ہے۔ کوئی بھی رہ گزر ان کے لیے دشوار نہیں ہے۔ وہ مشکل قوافی کو بھی مسکراتے ہوئے استعمال کرتے ہیں۔ مشکل ردیف کو بھی اس کا حق دلاتے ہیں۔ خوب صورت تراکیب مشکل بحر کو آسان بنادیتی ہیں۔ منفرد ردیف میں کہی گئی غزلیات کے چند اشعار بہ طورِ مثال پیش ہیں۔
کیا کہا! موت ہے علاجِ عشق!
چل تو پھر مرکے دیکھتے ہیں بھئی!

بنادی آنکھ نے دیوار رقص گاہِ نقوش
تو سر بھی کرنے لگا ساز چھیڑتا ہوا رقص
بول اے کش مکشِ شدتِ تنہائی جاں
رقصِ بسمل کروں یا لطفِ ستم پر ناچوں

سفیر صدیقی کے حسنِ کلام کا چند الفاظ میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ "خوابوں کے مرثیے" یہ مجموعہ ان کی صلاحیتوں کا اک ترجمان ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ان کے کلام میں روز افزوں نکھار آتا رہے۔ جہانِ ادب میں اپنا نام روشن کرتا رہے۔ آمین ثم آمین.

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے