بالیدہ شعور کا آئینہ: دکھتی رگ

بالیدہ شعور کا آئینہ: دکھتی رگ

مبصر: نیاز اختر
(ایس ڈی اوآفس، جمشیدپور۔ ۸۳۱۰۰۱ ، جھارکھنڈ)

’’دکھتی رگ‘‘ جواں سال افسانچہ نگار خالد بشیر تلگامی کے افسانچوں کا تازہ ترین مجموعہ ہے، جس میں کل ایک سو چھ افسانچے ہیں۔ یہ دیگر بات ہے کہ اس مجموعے میں ’’دکھتی رگ‘‘ نام کا کوئی افسانچہ نہیں ہے تاہم انھوں نے معاشرے کی دکھتی رگوں کو ٹٹولنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور بہت حد تک کامیاب رہے ہیں۔
کہانی، داستانوں، ڈراموں، ناولوں اور افسانوں کا سفر عبور کرتے ہوئے افسانچہ تک پہنچی ہے۔ مختصر کہانی یا افسانچہ دور حاضر کی ضرورت بن گئی ہے۔ انسان مشین بن کر رہ گیا ہے۔ مشینی دور میں لوگ افسانوں کے مقابلے افسانچے پڑھنا زیادہ پسند کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے افسانہ نگار افسانچوں پر محنت کررہے ہیں اور اسے بامِ عروج پر پہنچا رہے ہیں۔ ان ہی افسانچہ نگاروں میں خالد بشیر تلگامی کا بھی نام آتا ہے۔ وہ ملک اور بیرون ملک کے مؤقر رسالوں میں شائع ہورہے ہیں۔ انھوں نے ’’گلشن افسانچہ‘‘ کے نام سے ایک وہاٹس ایپ گروپ بھی بنا رکھا ہے، جس پر معروف اور غیر معروف افسانچہ نگاروں کے افسانچے اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب میں تلگامی کے افسانچوں کے تعلق سے نور شاہ، ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا، تنویر اختر رومانی، ایم مبین، سرور غزالی اور پروفیسر اسلم جمشیدپوری کے مضامین شامل ہیں۔’’اپنی باتیں ‘‘ کے عنوان سے خالد بشیر تلگامی نے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔
خالد بشیر تلگامی کا تعلق خطۂ کشمیر سے ہے، جہاں روزانہ کچھ نہ کچھ حادثے اور واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ تلگامی کے افسانچوں میں مختلف موضوعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کے افسانچوں میں کشمیریت اور وہاں کے حالات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ ان کا ایک افسانچہ ’’ بینا کا درد‘‘ ہے جس کی آپ قرأت کریں گے تو محسوس ہوگا کہ کشمیر کے لوگ کیسی کس مپرسی کے دور سے گزررہے ہیں۔ اس افسانچے کا کردار اپنی حیات ہی میں اپنی آنکھ اس لیے عطیہ کردینا چاہتا ہے تاکہ وہ وہاں کے ناگفتہ بہ حالات کو اپنی نظروں سے نہ دیکھ سکے۔ علاوہ ازیں نجات، روح، بَلی، چیخ، اندھا قانون، شناخت وغیرہ ایسے افسانچے ہیں جو کشمیر کے حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔ معروف افسانہ نگار تنویر اختر رومانی اپنے مضمون ’’دکھتی رگ پر انگلی رکھنے والا افسانہ نگار: خالد بشیر تلگامی ‘‘ میں بجا فرمایا ہے۔
’’خالد بشیر تلگامی کے افسانچوں کی قرأت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ذاتی کرب، انسانی درد، لسانی ملال، سیاسی جلال، کشمیری غم، ملّی الم، ملکی ستم سے بے حد بے چین ہیں۔ ان کی یہ بے چینی الفاظ کے جامے میں، افسانچوں کے پیکر میں ڈھلتی ہے۔‘‘
مندرجہ بالا اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ تلگامی مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ ان کے بیش تر افسانچے حالاتِ حاضرہ پر مبنی ہیں. انھوں نے کورونا جیسی عالمی وبا اور اس سے پیدا ہونے والی سیاسی، سماجی اور معاشرتی بدعنوانیوں نیز لاک ڈاؤن کو اپنے افسانچوں کا موضوع بنایا ہے اور کم لفظوں میں بہت کچھ کہہ دیاہے۔ قہر، کتے کا باپ، اعلان، عظمت، جھوٹ کا انجام، واہ کورونا، حکمت، لاٹری، تبدیلی، آخ تھو، بے خبر، اور آکسیجن کورونا پرلکھے گئے بہت اچھے افسانچے ہیں جو دکھتی رگ میں اٹھتی ٹیس کو اجاگر کرتے ہیں۔ کورونا پر لکھے گئے افسانچوں میں ’’آکسیجن‘‘ بہترین افسانچہ ہے، جس میں جمع خوری کرنے والوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
خالد بشیر تلگامی اپنی قوم و ملت کی بے راہ روی سے بھی نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ بالخصوص مختلف مسلکوں میں الجھے ہوئے لوگوں اور اس سے پیدا ہونے والی سماجی اور مذہبی خرابیوں کے خلاف بھی ان کے افسانچے نبرد آزما ہیں۔ دیوار، اپنی مسجد، کاش ایسے ہی افسانچے ہیں۔
خالد بشیر تلگامی نہ صرف فنِ افسانچہ نگاری کے رموز و نکات سے واقفیت رکھتے ہیں بلکہ انھیں اپنے افسانچوں میں بہ خوبی برتنا بھی جانتے ہیں۔ وہ اپنے موضوعات سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ کردار نگاری کے معاملے میں بھی ان کا بالیدہ شعور دیکھنے کو ملتاہے۔ ان کے سارے کردار آس پاس کے ماحول سے اخذ کیے گئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں انھوں نے بڑی بڑی باتیں کی ہیں۔ وہ چند سطور کے افسانچوں میں سماج اورمعاشرے کی بے راہ روی اور کج روی کو اجاگر کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے بیش تر افسانچوں کا اختتام چونکانے والا ہوتا ہے، قاری کو دیر تلک سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ان کی زبان عام فہم، سلیس اور رواں ہے۔ اسی وجہ سے ان کے یہاں ترسیل کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔
کتاب کا ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ہے۔ ترتیب اور کمپوزنگ تنویر اختر رومانی نے کی ہے۔ اس کتاب کا سرورق دیدہ زیب ہے۔ چند کمیوں سے صرف نظر کیا جائے تو کہا جا سکتاہے کہ تلگامی نے فن کے تقاضوں کو اپنے افسانچوں میں بروئے کار لایا ہے۔ امید ہے ادبی حلقوں میں اس کتاب کی کافی پذیرائی ہوگی۔ تلگامی اگر اسی طرح فعال رہے تو ادبی دنیا سے اپنا لوہا منوالیں گے۔
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :بالیدہ شعور کا آئینہ: دکھتی رگ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے