مسلم اور غیر مسلم تعلقات

مسلم اور غیر مسلم تعلقات

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ
رابطہ: 9431003131

اللّٰہ رب العزت نے بنی نوع انسان کے لیے دین اسلام کا انتخاب کیا اور اس کا آخری اور مکمل ایڈیشن آقا و مولا فخر موجودات سرور کونین صلی اللّٰہ علیہ وسلم پرنازل کیا، اور اعلان فرمادیا کہ محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں، ان کے بعد نہ تو کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی رسول، زبان رسالت نے اعلان فرمایا ’’لانبی بعدی‘‘ اور اس بات کا بھی اعلان کروایا گیا کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہاں کے لیے رسول بناکر بھیجے گئے، علاقوں، قبیلوں کی تفریق باقی نہیں رہی او ر ہر قبیلہ اور ہر علاقہ کے لوگ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت قرار پائے۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے قبل جتنے بھی انبیا ورسل بھیجے گئے، انھیں کسی خاص علاقہ اور خاص قوم کو راہ راست پر لانے کی ذمہ داری دی گئی اور انھیں محدود وقت کے لیے احکام دیے گئے اور یہ سارے احکام آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد منسوخ ہو گئے. اب مدار نجات اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین ماننے، قرآن کریم پر عمل کرنے اور رسول خاتم کے طریقوں کو اپنانے میں مضمر ہے، بغیر اس کے نجات ممکن نہیں۔
پھر چونکہ اس امت کو قیامت تک باقی رہنا ہے اور طاغوتی طاقتیں راہ راست سے انسانوں کو بھٹکانے میں ہمیشہ لگی رہتی ہیں، اورابتدائے آفرینش ہی سے ابلیسی حربے کا م کرتے رہے ہیں، اسی لیے دعوت و تبلیغ اور امت کو قیامت تک صحیح رخ اور سمت پرقائم رکھنے کا نبوی کام علما کے ذمہ کیا گیا اور زبان نبوت نے علما کے بارے میں انبیا کے وارث ہونے کا اعلان کیا اور علما کو زمین کا چراغ کہا گیا، ’’العلماء ورثۃ الانبیاء‘‘ اور’’ العلماء مصابیح الارض‘‘ کہہ کر یہ اعلان کر دیا گیا کہ قیامت تک، علماے امت وہ کام کرتے رہیں گے جوماضی میں کار نبوت رہا ہے۔
دور رسالت میں اور اس کے بعد جن لوگوں نے اسلام قبول کر لیا، ان کی حیثیت امت اجابت یعنی اللّٰہ کی وحدانیت اور رسول کے رسالت کو قبول کرنے والے کی ہو گئی، یہ سب مسلمان کہلائے، قرآن پاک میں انھیں خیر امت اور وسط امت کا لقب دیاگیا، ایک گروہ جس نے اس پیغام کو قبول نہیں کیا، ان کی حیثیت امت دعوت کی رہی، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن تک دعوت پہنچانے کا کام ہر دو ر میں داعیان امت کا رہا ہے اور علما اور مصلحین اس فریضے کی ادائیگی میں غیر معمولی تندہی کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔
اس طرح دیکھیں تو تمام غیر مسلم خواہ وہ کسی مذہب کو مانتے ہوں، ان کی حیثیت مدعو قوم کی ہے، اور مسلمانوں سے ان کا رشتہ داعی اور مدعو کا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہونے میں وہ بھی شریک ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ اللّٰہ کے آخری دین کی دعوت ہمیں ان تک پہنچانی ہے۔
داعی اور مدعو کا یہ رشتہ بڑا نازک ہوتا ہے. اس کی اساس اور بنیاد اس محبت اور تڑپ پر ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ لوگ دعوت دین قبول کر لیں، یہ محبت، یہ تڑپ اور یہ بے چینی کبھی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ لگتا ہے کہ آدمی اس فکر میں اپنے کو ہلاک کرڈالے گا۔
مسلمان اسی انداز کا تعلق غیر مسلموں سے رکھتا ہے، اس کی ہدایت یابی کے لیے کڑھتا رہتا ہے، وہ اپنے مدعو سے نفرت نہیں کر سکتا، اس لیے کہ نفرت کی بنیاد پر دعوت کا کام نہیں کیا جا سکتا. اگر کوئی کسی غیر مسلم سے نفرت کرتا ہے تو وہ دعوت کے کام کو صحیح طور پر نہیں کر سکتا، نفرت کی چیز کفر وشرک ہے، کافر ومشرک نہیں، بالکل اسی طرح جس طرح مریض قابل نفرت نہیں ہوتا، مرض قابل نفرت چیز ہوا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ساتھ غیر معمولی برتاؤ کیا، اور انھیں مختلف موقعوں پر عزت واکرام سے نوازا۔ یہاں پر ہمیں اس بڑھیا کو یاد کرنا چاہئے جو اللّٰہ کے رسول کے ڈر سے بھاگی جا رہی تھی، اور اسے گٹھری ڈھونے کے لیے کسی مزدور کی تلاش تھی، اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بڑھیا کی گٹھری اٹھا کر منزل مقصود تک پہنچا دیا، آپ کے اس حسن اخلاق نے بڑھیا کو اسلام سے قریب کر دیا اور وہ کلمۂ ’’لا الہ الااللہ‘‘ پڑھ کر مسلمان ہو گئی۔ گو محدثین کے نزدیک اس کی سند مضبوط نہیں ہے۔
یہ اور اس قسم کے بہت سارے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ داعی کے حسن اخلاق نے دین کی دعوت کے کام کو لوگوں کے دلوں تک پہنچانے کا کام کیا، یہ کام خوف و جبر سے نہ اس زمانے میں کیا جا سکتا تھا اور نہ آج یہ ممکن ہے، آخر قرآن کریم نے یوں ہی اعلان نہیں کر دیا کہ دین میں زبر دستی (کا فی نفسہ کوئی موقع ) نہیں۔
اسلام نے داعی اور مدعو کے اس رشتے کی بنیاد کو پائیداری بخشی اور ان لوگوں کے لیے جو مسلمانوں کے درپئے آزار نہیں ہوئے اور مسلمانوں کے لیے مسائل نہیں کھڑے کیے. ان کے لیے واضح حکم دیا کہ: اللہ تم لوگوں کو ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کر تا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور تم کو تمھارے گھروں سے نہیں نکالا۔ اللّٰہ تعالیٰ انصاف کا برتاؤ کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔
اسلام کا یہ حکم رحمت ورافت اور حسن اخلاق کی تعلیم پر مبنی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان بر واحسان کا تعلق نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرت اسما بنت ابو بکر ؓ کی والدہ حالت شرک میں ان کے پاس پہنچیں، انھوں نے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا ماں کے ساتھ اس حالت میں وہ حسن سلوک کر سکتی ہیں، تو اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہاں ! اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرو.
خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ کفار و مشرکین مکہ کے ایذائیں پہنچانے اور دعوت دین کے کام میں غیر معمولی رکاوٹیں ڈالنے کے باوجود جب مکہ میں قحط پڑا اور لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تو آپؐ نے مکہ مال بھیجوایا تاکہ وہاں کے فقرا اور ضرورت مندوں میں اسے تقسیم کیا جائے۔ اس معاملے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کا معمول بھی اپنے مشرک پڑوسیوں سے حسن سلوک کا تھا، ملک شام کی طرف جاتے ہوئے حضرت عمر بن الخطابؓ کا بیت المال سے مجوسی کوڑھیوں کی مدد کرنا ثابت ہے، اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ قربانی کے گوشت اپنے یہودی پڑوسیوں کوبھی دیا جائے، اس لیے کہ پڑوسیوں کا حق بہت ہے اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق نہیں کی گئی ہے، اسی طرح اسلام نے یتامیٰ کی خبر گیری کے لیے مسلم اور غیر مسلم کی قید نہیں لگائی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کی مالی معاونت کی جاسکتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت بلا تخصیص مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو محض اللّٰہ کی رضا کے لیے کھانا کھلانے کو بہتر عمل اور اپنی رضا کا سبب بتا یا ہے، جب کہ ایک دوسری جگہ یتیموں کی ناقدری اور مسکینوں کے معاملات سے صرف نظر کرنے کو اپنی ناراضگی کا سبب قراردیا ہے۔
حسن سلوک کا ہی ایک طریقہ مریضوں کی عیادت ہے، اسلام میں مریضوں کی عیادت کا حکم مسلم اور غیر مسلم سب کے لیے ہے، امام بخاری نے روایت نقل کی ہے کہ ایک یہودی غلام اللّٰہ کے رسول کے پاس خدمت میں رہتا تھا، جب وہ بیمار ہوا تو آپ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کی عیادت کی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب کی عیادت کی اور ان پر اسلام پیش کیا، ابن حجرؒ نے ان روایتوں سے مشرکین کی عیادت کے جواز پر استدلال کیا ہے، صاحبؒ بحر الرائق نے اسے بر و احسان کے ذیل میں رکھتے ہوئے جواز کے قول کو ترجیح دیا ہے، امام احمد بن حنبلؒ کی بھی یہی رائے ہے۔
حسن سلوک کے ذیل میں ہی تعزیت کا معاملہ آتا ہے، فقہا نے اسے جائز قرار دیا ہے، البتہ ایسے کلمات سے اجتناب کا حکم دیا ہے جس سے شرک کی عظمت کسی درجہ میں بھی سامنے آئے، بعض فقہا نے اسے بعض شرطوں کے ساتھ مخصوص کیا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ بر وتقویٰ کی عمومیت سے حکم عام ہی نکلتا ہے۔
ہم ہندستان میں رہتے ہیں اور بہت سارے ممالک وہ ہیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، ان حالات میں غیر مسلموں سے تجارتی لین دین ایک سماجی اور معاشی ضرورت ہے، اس ضرورت کے تحت مشرکین و کفار کے ہر اس معاملات میں شرکت کی جا سکتی ہے، جو حلال ہو اور سود نیز دوسرے ممنوعات سے پاک ہو، روزمرہ کی خرید و فروخت، اجارہ، رہن اور اس قسم کے دوسرے امور مالیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے غیر مسلموں سے کیے جاتے رہے ہیں اور آج بھی ان کی اجازت ہے، البتہ سود، دھوکا دہی، خمر و خنزیر کے معاملہ میں ان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور ان معاملات میں شریک ہونا مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہو گا، مسلمان غیر مسلموں سے عاریت کا معاملہ بھی کر سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اس کے پاس امانتیں رکھی جا سکتی ہیں اور جان و مال کی سلامتی کا یقین ہو اور احوال اس کے متقاضی ہوں تو بعض صورتوں میں ان سے پناہ بھی چاہی جا سکتی ہے۔فقہا نے غیر مسلم والدین کا نان ونفقہ بھی ضرورتاً دینے کو جائز کہا ہے، بعضوں کا قول اس مسئلے میں وجوب کا بھی ہے۔
صفوان بن امیہ سے یوم حنین کے موقع پر بنی قینقاع کے یہود اور خزاعہ کے ایک فرد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعانت طلب کرنا، احادیث وسیر میں مذکور ہے، اسی بنیاد پر احناف اور شوافع کے یہاں اس کے جواز کا قول منقول ہے، اور مالکیہ میں ابن عبد اللہ اور حنابلہ کی رائے اس کے مطابق ہے۔ تاریخ کا یہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ مدینہ ہجرت کے بعد آپ نے یہودیوں سے معاہدہ کیا اور نبوت سے قبل کی جانے والی حلف الفضول میں ا پنی شرکت پر نہ صرف اطمینان کا اظہار کیا بلکہ فرمایا کہ اگر آج بھی مجھے اس قسم کے معاہدہ کے لیے بلا یا جائے تو میں اس کے لئے راضی ہوں، اس قسم کے واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ مصالح کے پیش نظر آج بھی اس قسم کے معاہدے کیے جا سکتے ہیں۔
تعلقات کی استوای اور مدارات ومواسات میں ہدیہ کے لین دین کی بھی اپنی اہمیت ہے، اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے ’’تھادووتحابو‘‘ کہا گیا ہے، اس سلسلے میں اسلام میں اتنی وسعت ہے کہ ہدایے دیے بھی جا سکتے ہیں اور قبول بھی کیے جا سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک ایلاء کا ہدیہ قبول کیا اور اس چادر کو زیب تن کیا، اسی طرح دومۃ الجندل میں خیمہ کا ہدیہ قبول کیا اور اس نے باندی کا ہدیہ دیا تو اسے بھی قبول کر کے اس کی عزت افزائی کی، حسن سلوک ہی کے طور پر اسلام نے اس بات پر زور دیا کہ غیر مسلم مہمانوں کا اکرام بھی کیا جائے، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں عمل غیر معمولی تھا، وہ واقعہ تو تاریخ کا سبھی کو یاد ہے کہ ایک غیر مسلم آپ کے یہاں مہمان ہوا، آپ نے ضیافت کا غیر معمولی اہتمام فرمایا، کھانا بھی اس نے بھر پور کھایا اور بستر کو گندہ کر دیا، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اسے دھویا، اسی اثنا میں وہ اپنی بھولی ہوئی تلوار لینے آیا تو بھی آپ نے کچھ نہیں فرمایا اور اسے شرمندگی سے بچالیا، اس واقعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ کو اکرام ضیوف کا کتنا خیال تھا۔
غیر مسلموں کے ساتھ اس قسم کا سلوک انھیں مسلمانوں سے قریب کرے گا، ان کی تالیف قلب ہوگی، جس سے دفع ضرر بھی ہوگا، اور دین کا قبول کرنا بھی ان کے لیے آسان تر ہو جائے گا، شریعت چاہتی ہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے آپسی تعلقات کو بڑھا یا جائے اور دنیاوی مفاد اور مال و دولت کے حصول سے بے نیاز ہو کر محض دینی بنیادوں پر اسے تقویت دی جائے۔ فقہا نے ان مقاصد کو شرط کے طور پر ذکر کیا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مداراۃ و مواساۃ کے قبیل کے ان کاموں کا لازمی نتیجہ وہی ہوگا، جس کا ذکر اوپر کیا گیا۔
ایک مسئلہ سیاسی شرکت کا بھی ہے، حکومتیں اب جمہوری انداز میں تشکیل پا رہی ہیں، ان حکومتوں کا مزاج یقینا غیر اسلامی ہے، چاہے ملوکیت ہو یا جمہوریت، دونوں حکومت الٰہیہ کی فکر اسلامی سے متصادم ہیں، اور یقینی طور پر وہاں اللہ کی حاکمیت کا تصور ہر سطح پر ناپید ہے، ایسے میں کیا مسلمانوں کے لیے یہ جائز ہو گا کہ وہ اس طاغوتی نظام کے دست وبازو بنیں۔
اس سلسلے میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری نمائندگی جس قدر عوامی اداروں میں بڑھے گی، امکانات اس بات کے قوی سے قوی تر ہوں گے کہ ہم حکومت میں اپنی باتیں منوا سکیں اور سارا کچھ تو نہیں بہت کچھ منظور کروالیں، ہندستان میں مسلم پرسنل لا کی بقا کی ایک وجہ یہ بھی ہے، نفقہ مطلقہ کی دستوری لڑائی میں ہماری کامیابی کا راز بھی یہی ہے، پارلیامنٹ میں ہمارے ایسے نمائندے موجود تھے، جنھوں نے ہماری بھر پور وکالت کی اور باہر میں ہم نے عوامی دباؤ بنا یا اور حکومت کو اس کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
پس اس معاملہ میں ہمیں قواعد فقہیہ ’’الضرر یزال، الضرورات تبیح المحظورات، المشقۃ تجلیب التیسیر‘‘ وغیرہ کو سامنے رکھنا چاہیے اور ہمارے نمائندوں کو استطاعت بھر پوری قوت کے ساتھ ایوان نمائندگان میں ان صالح قدروں کی ترویج و بقا کے لیے کوشش کرنی چاہیے جو اسلام کو مطلوب ہیں، اس سلسلے میں اسلام نے جو یسر کا فلسفہ پیش کیا ہے اور تشدید و تغلیظ سے اجتناب کی تلقین کی ہے اس سے ہماری اس رائے کو تقویت ملتی ہے۔ نصوص کی حد تک دیکھیں تو حضرت یوسف علیہ السلام کا وزیر خزانہ بننا بلکہ اس کا مطالبہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ غیر مسلم حکومت میں ضرورت کی وجہ سے عہدے بھی قبول کیے جاسکتے ہیں۔ فقہا نے بعض حالات میں منصب قضا کے قبول کرنے کی بھی اجازت دی ہے تاکہ ظلم وشرک و عدوان سے عوام الناس کو بچایا جا سکے۔ یہ در اصل اھون البلتین کو قبول کرنے کے مترادف ہے اور بڑے ضرر و شر کے مقابلے چھوٹے ضرر کو قبول کرنے کا فطری اور فقہی عمل ہے۔
مسلمانوں کے اس قسم کے معاملات کی بنیاد نہ تو تقیہ ہے اور نہ منافقت، بلکہ یہ سب اسلام کی ان تعلیمات کا حصہ ہیں جو اکرام و احترام آدمیت کے ذیل میں آتے ہیں اور جن کے بغیر مذہب اور عمرانیت کی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ لیکن ہماری اس تحریر کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ جو قومیں مسلمانوں سے متحارب ہیں اور جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے، ان کے ساتھ بھی یہی سب سلوک کیا جائے، دنیا کی تاریخ میں ہر دور اور ہر مذہب میں ایسے لوگوں کا معاملہ جدا رہا ہے، جو متحارب رہے ہیں۔
ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم سے تعلقات کی ایک خاص قسم جسے موالاۃ کہتے ہیں وہ جائز نہیں ہے، موالاۃ کے مختلف معنی مفسرین نے لکھے ہیں، ان میں ایک معنی یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنے اس تعلق میں غیر مسلم کے کفر اور اعمال کفریہ سے راضی نہ ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر کی تصویب بھی کفر ہے اور کفر سے راضی رہنا بھی کفر کے مترادف ہے۔
ان ابحاث کا حاصل یہ ہے کہ غیر مسلموں کی مدد مسلمانوں کے مقابل کرنا اور ان سے ایسا تعلق قائم کرنا جس سے مسلمانوں کے ملی راز ان تک پہونچ جائیں اور ملی کاز کے لیے نقصان دہ ہو، مطلقادرست نہیں ہے۔
لیکن جو محارب نہیں ہیں، بچے بوڑھے اور عورتیں ان کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ یہ انسانیت کے خلاف ہے کہ جو آپ سے نہیں لڑ رہا ہے اور خاموشی سے گوشہ نشیں ہے اس کو قتل کر دیا جائے، کیونکہ انسان کا خون معصوم ہے اسے دفع ضرر اور رفع شر کے علاوہ نہیں بہایا جا سکتا.
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:تولیدی شرح میں گراوٹ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے