کتاب: واجدہ تبسم: اذکار و افکار

کتاب: واجدہ تبسم: اذکار و افکار

کتاب کا نام:واجدہ تبسم:اذکاروافکار
مرتبہ: مسرور صغریٰ
سال اشاعت: ٢٠١٤ قیمت: ٣٠٠ روپے
صفحات: ٣٠٠
کتاب ملنے کاپتہ: عرشیہ پبلی کیشنز، دلشاد کالونی، دہلی
مبصر: ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں رام پور
موبائل نمبر: 91 9520576079

اردو فکشن کی وہ خواتین قلم کار جن کو نظر انداز کیا گیا یا جن کی ادبی خدمات کو بہت جلد بھلا دیا گیا ان میں سے ایک بہت اہم نام ہے واجدہ تبسم! راقم نے سیکڑوں رسائل اور کتابوں کو کھنگالا تو یہ نتیجہ سامنے آیا کہ ہمارے ملک میں اردو قلم کاروں نے واجدہ تبسم پر اتنے مضامین بھی شاید نہیں لکھے جتنی ان کے افسانوں کی تعداد ہے۔ واجدہ تبسم کو نظر انداز کرنے کی بہت سی وجوہ ہو سکتی ہیں اور اس موضوع پر ایک مدلل اور مفصل بحث بھی ہو سکتی ہے۔ واجدہ تبسم پر عدم توجہی کی وجہ محض ان کی فحش نگاری نہیں ہو سکتی کہ یہ کام تو اور بھی کئی خواتین و مرد قلم کاروں نے کیا ہے۔ واجدہ تبسم پر تحقیقی مواد کی فراہمی ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ وہ اسکالرز جو ملک کی مختلف یونی ورسٹیوں میں ایم.فل یا پی ایچ.ڈی کر رہے ہیں اور ان کا موضوع خواتین افسانہ نگار یا ناول نگار یا پھر براہ راست واجدہ تبسم ہی ہیں تو ان اسکالرز اور محققین کو خاصی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رضا لائبریری میں مختلف رسائل کے تقریباً چالیس ہزار شمارے موجود ہیں جن میں ہندوپاک کے کئی اہم رسائل کے کم سے کم تین سو خاص نمبر بھی موجود ہیں اور ان خاص نمبروں میں اکادمی، افکار، زریں شعاعیں، عصری ادب، فکروتحقیق، کتاب، نقوش، نیا دور، شاعر وغیرہ کے افسانہ نمبر بھی شامل ہیں لیکن یہ امر باعث حیرت بھی ہے اور قابل افسوس بھی کہ ان میں نہ تو واجدہ تبسم کا کوئی افسانہ شامل ہے اور نہ ان پر لکھا ہوا کوئی تحقیقی یا تنقیدی مضمون۔ اس کے علاوہ مختلف قلم کاروں یا محققین کے مرتب کردہ افسانوی مجموعے بھی موجود ہیں لیکن ان میں سے کسی میں بھی واجدہ تبسم کا کوئی بھی افسانہ شامل نہیں ہے۔ یہاں تنقیدی کتب، مضامین کے مجموعے اور ادیبوں و شاعروں سے متعلق تحقیقی کتب کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے لیکن راقم کو، کوئی ایسی کتاب جس میں واجدہ تبسم کا تفصیلی سوانحی و تصنیفی تعارف موجود ہو، نہیں ملی۔ ان کا کوئی ناول بھی دستیاب نہ ہو سکا. البتہ ان کے چھ افسانوی مجموعوں کے مطالعہ کا ضرور موقع ملا۔ ان مجموعوں کے نام ہیں_ شہر ممنوع، آیا بسنت سکھی ری، روزی کا سوال، کیسے سمجھاؤں، اترن اور نتھ کا بوجھ۔ لیکن ناشرین کی بے حسی، عدم توجہی اور بد تہذیبی کا یہ عالم ہے کہ کئی کتابوں میں ان کا سوانحی تعارف یا ان پر کوئی تحقیقی یا تنقیدی مضمون تو کجا، کتاب میں موجود افسانوں کی فہرست تک شامل نہیں کی گئی ہے۔ کاغذ بھی انتہائی گھٹیا اور ردی استعمال کیا گیا ہے۔ صرف ایک افسانوی مجموعہ ’شہر ممنوع‘ کے تیسرے ایڈیشن (١٩٧٢) میں خود واجدہ تبسم کا ’اپنی بات‘ عنوان سے ایک صفحہ اور ’میری کہانی‘ موضوع یا عنوان کے تحت واجدہ تبسم کے لکھے ہوئے تقریباً بیس صفحات ضرور موجود ہیں۔

اس پس منظر اور ایسی صورت حال میں اردو کی ایک ابھرتی ہوئی ادیبہ، شاعرہ، افسانہ نگار اور ریسرچ اسکالر مسرور صغریٰ نے ہمت کی اور بڑی کدوکاوش کے بعد ’واجدہ تبسم:اذکاروافکار‘ جیسی اہم کتاب مرتب کی۔ اس کے لیے انھیں دہلی کی مختلف یونی ورسٹیوں کی لائبریریوں کے علاوہ، علی گڑھ، حیدرآباد، ممبئی وغیرہ کے سفر بھی کرنے پڑے۔ وہ اس وقت[جب یہ تبصرہ لکھا گیا. اشتراک)] جواہر لال نہرو یونی ورسٹی دہلی میں پی ایچ.ڈی کر رہی ہیں۔ ان کا موضوع ہے ’اردو میں مقبول عام فکشن کی روایت اور واجدہ تبسم‘۔ انھوں نے اپنی تحقیق کے پیش نظر واجدہ تبسم سے متعلق مواد کو جمع کرنے کا تہیہ کیا اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئیں اور پیش نظر کتاب مرتب کی۔ اس کتاب کی ایک ایک سطر سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اس کی ترتیب میں بے پناہ محنت کی ہے۔
کتاب ’واجدہ تبسم: اذکاروافکار‘ کو چار عنوانات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔ عنوانات اس طرح ہیں -عکس صفات، عکس ذات، عکس شاعری اور عکس خطوط۔ پہلے موضوع ’عکس صفات‘ میں جن قلم کاروں اور محققین کے مضامین شامل کیے گئے ہیں ان کے نام ہیں -شمس الرحمٰن فاروقی، زبیر رضوی، علی احمد فاطمی، محمد حامد سراج، ابو ذر ہاشمی، حقانی القاسمی، سراج نقوی، مرغوب عابدی، جہانگیر رضا کاظمی، عاصم شہنواز شبلی، شمع اختر کاظمی، شہناز کنول غازی اور خود مسرور صغریٰ۔ مذکورہ سارے قلم کاروں کے مضامین انتہائی مختصر ہیں اور عجیب سی بات ہے کہ سبھی مضامین کے عنوانات بھلے ہی الگ الگ ہوں لیکن ان کے مواد اور موضوع میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور سوائے مرغوب عابدی کے کسی قلم کار نے واجدہ تبسم کے کسی افسانہ سے اسلوب یا ان کے موضوعات کے تعلق سے نمونہ بطور کوئی حوالہ اور اقتباس بھی پیش نہیں کیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ سبھی مضامین اس لیے اہم اور قابل قدر ہیں کہ ان قلم کاروں نے اندھیرے میں چراغ جلانے کی بہترین کوشش کی ہے اور اس تاریکی کو دور کیا ہے، جو واجدہ تبسم کے گرد چھائی ہوئی ہے۔
ان مضامین کے علاوہ مسرور صغریٰ نے اپنا مضمون بہت محنت اور تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ مضمون کتاب کے ٢٨ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں انھوں نے واجدہ تبسم کے سوانحی حالات، ان کا مزاج، عادات واطوار، ان کا خاندانی پس منظر، تعلیم کے حصول میں حائل دشواریاں، ان کے افسانوں کے نام، اسلوب، افسانوں کا ماحول اور پس منظر، افسانوں کے موضوعات، ان کے تئیں سماج کے رویے وغیرہ پر روشنی ڈالی ہے اور سیر حاصل بحث بھی کی ہے لیکن خود ان کے مضمون میں معاشرہ اور مرد حاوی سماج سے متعلق ایسے سوالات اٹھائے گئے ہیں جن پر طویل و بسیط اور مفصل بحث کی جا سکتی ہے۔
اس کتاب میں شامل سبھی قلم کاروں کو یہ احساس ہے کہ واجدہ تبسم کے ساتھ ناانصافی کی گئی اور ان کو ادب میں وہ مقام نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق تھیں۔ اس سلسلے میں شمس الرحمٰن فاروقی کے محض ڈھائی صفحات پر مشتمل مضمون سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”ایک ان کا دور عروج تھا جب انھیں اردو افسانے کی لاج اور آبرو قرار دیا جاتا تھا اور ایک ان کا دور زوال و گمنامی ہے کہ ان کا نام شاید ہی نوجوان نسل کے کسی فرد کو یاد ہو۔ خالد اشرف کی ضخیم دو جلدیں ’بر صغیر میں اردو افسانہ‘ واجدہ تبسم سے خالی ہیں۔ مرزا حامد بیگ کی دونوں قاموسی جلدوں ’اردو افسانے کی روایت:١٩٠٣-٢٠٠٩‘میں واجدہ تبسم کا ذکر صرف دو سطروں میں ہے اور وہ بھی افسانہ نگاروں کی ایک عمومی فہرست میں۔ اسے زمانہ کی سرد مہری
کہیے یا اس کا سبب کچھ اور تلاش کیجیے، دونوں صورتوں میں یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔“
(واجدہ تبسم کی یاد میں،ص:٢٣)
کتاب میں ’عکس ذات‘ کے تحت واجدہ تبسم کے دو انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں۔ پہلا انٹرویو نریش کمار شاد نے کیا ہے اور دوسرا انٹرویو شاہد پرویز اور عتیق الرحمٰن نے مشترکہ طور پر لیا ہے۔ مذکورہ دوسرا انٹرویو خاصا طویل ہے اور کتاب کے ۳۳صفحات پر مشتمل ہے۔ان دونوں انٹرویوز سے واجدہ تبسم کی شخصیت، سماجی پس منظر، خاندانی حالات، عادات و اطوار، مزاج کی نرمی اور تلخی، افسانہ نگاری کی ابتدا اور ماحول و موضوعات وغیرہ پر کافی روشنی پڑتی ہے لیکن بہتر ہوتا کہ اس کے ساتھ یہ بھی درج کیا جاتا کہ یہ انٹرویو کب لیے گئے تھے اور ان کی اشاعت سب سے پہلے کن رسائل میں ہوئی تھی۔ اسی حصہ میں واجدہ تبسم کی اپنی تحریر ’میری کہانی‘ کے عنوان سے شامل کتاب کی گئی ہے۔ یہ تحریر ٢٩ صفحات پر مشتمل ہے اور بڑی پر تاثیر ہے۔ اس میں واجدہ تبسم نے اپنے ابتدائی دور کے اور بعد کے حالات بڑے کرب آمیز اسلوب میں تحریر کیے ہیں لیکن میرے نزدیک یہ کرب آمیزی کوئی نئی یا اچھوتی چیز نہیں ہے کیونکہ بیشتر قلم کاروں کو اسی طرح کے حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ادیبوں نے اپنی زندگی اسی طرح حسرت اور عسرت و غربت میں بسر کی ہے۔ حالات کی چکی میں پس کر یا دکھ درد سے صیقل ہو کر ہی کوئی قلم کار بڑا اور اہم قلم کار بنتا ہے۔ بقول شاعر:
محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پہ گایا نہیں جاتا
فنکار کے مرنے پر بے درد عزا دارو
ماتم کی ضرورت ہے فنکار کے جینے پر
اگرچہ واجدہ تبسم کے اس مضمون کے ساتھ بھی تاریخ کا اندراج نہیں ہے لیکن ان کا جو افسانوی مجموعہ ’شہر ممنوع‘ راقم کی نظر سے گزرا ہے اس میں اس مضمون ’میری کہانی‘ پر سنہ١٩٥٩ء درج ہے۔ اس کے بعد واجدہ تبسم کی ایک اور تحریر ’میری فرد جرم‘ شامل کی گئی ہے اور اس کے بعد دل ہلا دینے والا واجدہ تبسم کا ایک خط شائع کیا گیا ہے۔ اس کا عنوان ہے ’نوک مژگاں پہ ٹھہرے ہوئے اشکوں کا پیام‘۔ یہ خط انھوں نے اپنے دیور نازی کی اچانک اور حادثاتی موت کے بعد اپنے پیارے عزیزوں کے نام لکھا تھا۔ یہ خط انتہائی رنج آمیز اور دھندلے، سرخ آنسوؤں سے لکھا گیا ہے کہ خوشی اور مسرت کے آنسو آبدار اور چمکیلے ہوتے ہیں اور غم کے آنسو دھندلے و گدلے!
اس خط میں واجدہ تبسم کی زندگی کے کئی گوشے نمایاں ہوتے ہیں۔
اس کتاب کا تیسرا باب واجدہ تبسم کی شاعری سے ’عکس شاعری‘ عنوان کے تحت سجایا گیا ہے۔ اس میں ان کی تین نظمیں -سہاگن کی انوکھی دعا، ہرے بھرے خواب، آئینے سے اور دو غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ ان کی پہلی غزل کا ایک شعر اس طرح ہے:
کھلی کتاب تھے، ہم کو پڑھا نہیں تم نے
ہر اک ورق پہ تمھارا ہی نام لکھا تھا
کتاب ’واجدہ تبسم:اذکار و افکار‘ کا آخری باب ’عکس خطوط‘ عنوان کے تحت مزین کیا گیا ہے۔ اس میں مختلف قلم کاروں کے، واجدہ تبسم کے نام لکھے تقریباً ٣٥ خطوط شامل کیے گئے ہیں۔ جن لوگوں نے خطوط لکھے ان کے نام اس طرح ہیں -فراق گورکھ پوری، جاں نثار اختر، علی سردار جعفری، مجروح سلطان پوری، رام لعل، پریم واربرٹنی، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، جیلانی بانو، خدیجہ(بیگم جاں نثار اختر) اور یونس دہلوی۔ ان خطوط میں تین چار خطوط واجدہ تبسم کے اپنے شوہر اشفاق کے نام بھی ہیں اور اشفاق کے خطوط واجدہ تبسم کے نام بھی موجود ہیں۔ ان خطوط میں پہلا خط فراق گورکھ پوری کا ہے جو ٢٧/ستمبر ١٩٦٥ کو لکھا گیا ہے اور آخری خط یونس دہلوی کا ہے جس پر ٢٦/ اگست ١٩٧٧ کی تاریخ درج ہے۔ ان سارے خطوط کا اندراج تاریخ وار ترتیب سے نہیں کیا گیا ہے اس لیے یہ واضح رہے کہ ان خطوط میں بہ اعتبار تاریخ سب سے پہلا خط جاں نثار اختر کا ہے جس پر ۸/اکتوبر ١٩٥٥ کی تاریخ لکھی ہوئی ہے۔
مسرور صغریٰ نے نہ صرف اندھیروں میں بلکہ آندھیوں میں ایک چراغ جلایا ہے اور محققین و اسکالرز کے لیے ایک بہترین کتاب مرتب کی ہے۔ امید ہے افسانوی ادب و نسائی ادب سے دل چسپی رکھنے والوں اور خاص کر واجدہ تبسم کی تحریروں کے پرستاروں کو یہ کتاب ضرور پسند آئے گی۔
Dr. M. Athar Masood Khan
Ghaus Manzil, Talab Mulla Iram
Rampur 244901 U. P. India. 
Mob.91 9520576079

یہ بھی پڑھیں: اشاریہ اردو افسانہ-چند وضاحتیں از ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے