کشمیر کےسنگین حالات، آخر وہاں امن و امان کی بحالی کب ہوگی؟

کشمیر کےسنگین حالات، آخر وہاں امن و امان کی بحالی کب ہوگی؟

سرفرازاحمد قاسمی، حیدرآباد
برائے رابطہ: 8099695186

گذشتہ کئی ماہ سے میں یہ مسلسل لکھ رہاہوں کہ ملکی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، نہ اس ملک میں لوگوں کی زندگیاں محفوظ ہیں، اور نہ ہی ان کا کاروبار، نہ ہی بینک بیالنس، لیکن اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ مسلسل دروغ گوئی میں مصروف ہیں اور بڑے پیمانے پر جھوٹ پھیلارہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی دینے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ ملک میں سب ٹھیک ٹھاک ہے، سب چنگاسی ہے، حالانکہ ملک کے موجودہ حالات اور اس کی حقیقت کچھ اور ہی چغلی کررہےہیں، ایسے میں سوال یہ ہے کہ اقتدار کے لالچی لوگ آخر کیوں ملک اور قوم کو گمراہ کررہے ہیں؟ آنے والی ہر صبح ملکی مسائل میں تشویشناک حدتک اضافہ کر رہی ہے، اور حکومت خوش فہمی میں مبتلا ہے، نفرت کی سیاست اورمذہبی بلیک میلنگ عروج پر ہے کیوں کہ حکمراں پارٹی کےلیے یہ ایک ایسا نشہ ہے کہ جس کے بغیر وہ اقتدار کی کرسی تک نہیں پہنچ سکتے، لہذا اسی ایجنڈے کوآگے بڑھاؤ، اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالو، عوام کی آنکھوں میں دھول جھوکو اور ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرو، سوال یہ ہے کہ آخر یہ کب تک چلے گا؟ اور یہ سلسلہ کہاں جاکر رکےگا؟ جن ریاستوں میں بی جے کی حکومت ہے وہاں تو انتہائی تشویشناک صورت حال ہے، لوگوں کے درمیان افراتفری اوربے چینی ان کے چہرے سے عیاں ہے، کشمیر بھی انھی ریاستوں میں ہے جہاں ہر روز آگ و خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، لوگوں کے جمہوری حقوق کوبری طرح کچلا جارہاہے اور کشمیریوں کی زندگیاں اجیرن بنادی گئی ہیں، کشمیری لیڈران مسلسل وہاں کے حالات سے باخبر کررہےہیں لیکن جہاں میڈیا اداروں پر پابندی ہے وہاں کے لوگوں کی چینخ و پکار دنیاکو کون سنائے گا؟ اور کون نشر کرےگا؟ جہاں انٹر نیٹ پر پابندی ہو، کرفیو کاماحول ہو، لوگوں میں ڈروخوف کی فضا ہو، سیاسی قائدین کئی کئی ماہ سے گھروں میں نظر بند ہوں، عام آدمی کا گھروں سے نکلنا مشکل ہو، کیا آپ کو لگتاہے کہ ان حالات میں وہاں سب کچھ ٹھیک ہے؟ یہ حال صرف جنت نما کشمیر کا ہی نہیں بلکہ بلکہ تری پورہ اور ناگالینڈ وغیرہ میں بھی یہی سب ہورہاہے، کشمیر کی شیرنی اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی جس طرح گذشتہ کئی ماہ سے مسلسل آواز اٹھارہی ہیں اور حالات سے واقف کرارہی ہیں، اصل تصویر کشمیر کی وہی ہے، کشمیر کے دوسرے قائدین غلام نبی آزاد، فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ وغیرہ نے وہاں کے حالات پر جس طرح کی خاموشی اختیار کی اور مودی حکومت کے ڈرسے بھیگی بلی بنے رہے، محبوبہ مفتی تن تنہا آواز بلند کرتی رہیں اور کررہی ہیں، ملک میں بڑے بڑے لیڈران کو جس طرح خاموش کردیاگیاہے ایسے میں محبوبہ مفتی کا حقیقت سے پردہ اٹھانا لائق تحسین ہے، بغیر کسی ڈر اورخوف کے وہ مسلسل کشمیر اور کشمیریوں کے حقوق کےلیے آواز اٹھا رہی ہیں، یہ بڑی بات ہے، پی ڈی پی صدر، اور مفتی سعید کی بیٹی شیرنی کی طرح گرج رہی ہیں اور مودی حکومت کو للکارہی ہیں کہ جموں وکشمیر کا خصوصی موقف اور اس کی ریاستی حیثیت بحال کی جائے، اس سے کم کسی بات پر کشمیری عوام مودی حکومت سے راضی نہیں ہوں گے، غلام نبی آزاد کی راجیہ سبھا کی میعاد کی تکمیل پر وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کی تعریف و تحسین کا جومنتر پڑھا تھا، غلام نبی آزاد ابھی تک اس سحر سے آزاد نہیں ہوئے ہیں، کشمیری لیڈر کو قوم یاد دلارہی ہے کہ جموں کشمیر نے مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود مذہب کی بنیاد پر تقسیم کے نتیجے میں قائم ہوئے پاکستان کے ساتھ جانا ہرگز پسند نہ کیا اور اپنا مقدر ہمیشہ ہمیش کےلیے اپنے بھارت کے ساتھ وابستہ کرلیا، آزاد بھارت کے دستور سازوں نے کشمیری عوام کے اس احسان کو یاد رکھتے ہوئے اس احسان کے بدلے میں یہ احسان کیاکہ دستور کی دفعہ 370 اور 35A جموں وکشمیر کو خصوصی موقف عطاکیا، اس ضمن میں کشمیریوں کو خصوصی مراعات اورسہولتیں دی گئیں، مودی حکومت نے جموں وکشمیر کے ساتھ احسان فراموشی کرتے ہوئے، سرحدی ریاست کی خصوصی حیثیت اور خصوصی مراعات سے متعلق دستوری دفعات منسوخ کردیے، اور ستم بالائے ستم یہ کہ جموں کشمیر کی ریاستی حیثیت بھی ختم کردی گئی، یہیں پر بس نہیں کیاگیا بلکہ اس سرحدی ریاست کو تقسیم کرتے ہوئے جموں وکشمیر اور لداخ دو مرکزی علاقے قرار دیے گئے، آرایس ایس کو ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست برداشت نہ ہوئی اس لیے سنگھی حکومت نے اس تعلق سے ظالمانہ فیصلے سنادیے، اس دوران بغیر کسی جرم اور قصور کے بے شمار افراد کو جن میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے، جیلوں میں بندکردیاگیا، عوام کے بنیادی حقوق بری طرح پامال کیے جارہے ہیں، جموں، کشمیر اور خاص کر وادی میں خوف و ہراس کی کیفیت ہے، عوام کو پولس اور سیکوریٹی فورسس کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا، غیر جماعتی اساس پر کرائے گئے مجالس مقامی کے چناؤ میں کشمیری پارٹیوں کے تائیدی امیدواروں کی جیت اور بھگوا پارٹی امیدوار کی ناکامی سے مودی اور امیت شاہ اس قدر خوف زدہ ہیں کہ وہ اب اسمبلی الیکشن کرانے کی ہمت نہیں کرسکتے، محبوبہ مفتی جرأت و ہمت کے ساتھ حالات کا سامنا کررہی ہیں اور وہ مسلسل دوسال سے زائد عرصہ قبل کیے گئے تمام ظالمانہ اقدامات سے دست برداری کا مطالبہ کررہی ہیں، جب کہ غلام نبی آزاد اور دوسرے کشمیری قائدین، خصوصی موقف کی بحالی سے زیادہ الیکشن کے انعقاد میں دل چسپی دکھارہے ہیں، ایسے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ وہاں امن امان کی بحالی کیسے ہوگی؟ کشمیر کا اصل مسئلہ انتخاب کا انعقاد نہیں بلکہ اصل مسئلہ خصوصی دفعات 370 اور 35A کی بحالی کا ہے، خصوصی دفعات کی بحالی کے بغیر چناؤ کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اگر خصوصی موقف کی بحالی کے ساتھ مرکز کی راست حکمرانی رہے تو اس سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا اور خصوصی موقف کی بحالی کے بغیر جموں و کشمیر کا اقتدار کشمیری قائدین کو حاصل ہونے سے وہاں کی عوام کو بھی کچھ خاص فائدہ نہیں ہوگا، اس وقت کشمیری قائدین میں کشمیریت کا جذبہ صرف محبوبہ مفتی میں نظر آرہاہے، کشمیر کے مردوں کو اس کشمیری خاتون سے عزم و ہمت کا سبق لینا چاہیے، 5 اگسٹ 2019 کو مودی حکومت نے کشمیر کے خصوصی موقف کو منسوخ کیاتھا، دوڈھائی سال گذر جانے کے بعد آج تک وہاں امن قائم نہیں ہوسکا، آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کشمیر کی سابق وزیر اعلا محبوبہ مفتی نے گذشتہ دنوں مرکز پر یہ الزام عائد کیاتھاکہ وہ جموں کشمیر کو پر امن ریاست کے طور پر پیش کررہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی سڑکوں پر خون بہہ رہاہے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے پر لوگوں پر انسدادِ دہشت گردی قوانین نافذ کیے جارہے ہیں، انھوں نے”نیا کشمیر" کی اصطلاح کے استعمال پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جس نئے کشمیر کی تشہیر کی جارہی ہے، وہ سچ نہیں ہے بالکل جھوٹ ہے، آج ایک 18ماہ کی لڑکی اپنے باپ کی نعش حاصل کرنے دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہے، جسے سیکوریٹی فوسس نے شہید کردیاتھا، آج ایک کشمیری پنڈت کو دن دہاڑے گولی ماردی جاتی ہے، سڑک ایک بہاری شخص کے خون سے لال ہوجاتی ہے، کیا ہم اسے نیا کشمیر کہیں گے؟ کیالفظ نیا کشمیر سے ہمیں یہی توقع تھی؟ ہرجگہ صورت حال بہتر بتائی جارہی ہے تو پھر نیم فوجی فورسس کی تعداد میں اضافہ کیوں کیاجارہا ہے؟ نئے بنکر کیوں بنائے جارہےہیں؟ انھوں نے مودی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہاکہ نیا کشمیر بھول جائیں، نئے ہندستان کی بات کریں، نئے ہندستان میں دستور کے بارے میں بات کرنے والوں کو ٹکڑے ٹکڑے گیانگ قرار دیا جاتاہے، اقلیتوں کو چاہے وہ سڑک کنارے سبزی بیچنے والا ہو یافلم اسٹار ہو، اس کا سماجی و معاشی بائیکاٹ کیاجاتاہے، ہوسکتاہے یہ نیا ہندستان ہو لیکن یہ میرا ہندستان نہیں ہے، یہ مہاتما گاندھی کا ہندستان نہیں، ایسا معلوم ہوتاہے کہ یہ ناتھورام گوڈسے کا ہندستان ہے، اور وہ گوڈسے کا کشمیر بنارہے ہیں، جہاں لوگوں کو بات کرنے تک کی اجازت نہیں، مجھے ہفتے میں کم ازکم دودن گھر پر نظر بند رکھا جاتاہے، انھوں نے کہاکہ کشمیریوں نے 1947 میں قومی ترنگا کو اپنایا اور ہندستان میں شامل ہوئے، لیکن مجھے ڈر ہے کہ اس وقت بھی اگر آج کی حکومت برسراقتدار ہوتی تو نتائج یکسر مختلف ہوتے" فاروق عبداللہ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آرٹیکل 370 کی بحالی تک کشمیر میں امن قائم نہیں ہوسکتا، کئی سیاسی جماعتوں نے مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ مودی حکومت نے کشمیرکا خصوصی موقف منسوخ کرنے کے بعد جو بھی دعوے کیے تھے وہ ہرروز تنکے کی طرح بکھرتے نظر آرہے ہیں، عمر عبداللہ نے کہاکہ بی جے پی نے دنیا بھر میں کہاکہ دفعہ 370 منسوخ کرنے کے بعد کشمیر میں بندوقیں خاموش ہوجائیں گی، لیکن اس کی منسوخی کے بعد بھی تشدد جاری ہے، انھوں نے کہاکہ جموں کشمیر کا موجودہ انتظامیہ صورت حال سے نمٹنے اور عوام کو سلامتی کا احساس فراہم کرنے میں پوری طرح سے ناکام ہے، انھوں نے کہاکہ میرے دور میں ہم اس قدر مطمئن تھے کہ ہم نے کئی مقامات سے بنکر ہٹادئے تھے، لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف ان علاقوں میں بنکرس قائم کیے گئے ہیں بلکہ اضافی بنکرس بنائےگئے ہیں، اگر آرٹیکل 370 بندوق کے پیچھے کی وجہ تھی پھر حملوں کاسلسلہ پورے کشمیر میں بند کیوں نہیں ہوا؟ انکاؤنٹر اورپولس کے ذریعے عوام کے قتل کا سلسلہ کیوں جاری ہے؟" جموں کشمیر میں دہشت گردی کے مسلسل بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتےہوئے اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں بحث کا مطالبہ کیا گیاہے، لوک سبھا میں نیشنل کانفرنس کے رہ نما حسنین مسعودی نے خصوصی طور پر جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ دہشت گردانہ حملوں کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے اور ان میں جان و مال کابڑا نقصان ہورہاہے، انھوں نے کہاکہ وہاں حالات سنگین ہوتے جارہےہیں، اوراس طرح کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے، لہذاٰ ایوان میں اس معاملے پر خصوصی بحث ہونی چاہئے، انھوں نے کہا کہ ریاست میں آئے روز کوئی نہ کوئی دہشت گردی کاواقعہ رونما ہورہاہے اوربے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں، غورطلب ہے کہ جموں کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے مضافات میں کل شام بھی جنگجوؤں نے پولس کی ایک بس پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں دوپولس اہلکار شہید اور 12جوان زخمی ہوئے تھے، خبر یہ بھی ہے کہ کشمیری پنڈت بھی بڑی تعداد میں کشمیر چھوڑچکے ہیں گویا کہ پنڈت بھی وہاں محفوظ نہیں، حکومت نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ کتنے پنڈتوں نے کشمیر چھوڑا اس کے اعدادوشمار ہمارے پاس نہیں ہیں، آخر اس سنگھی حکومت کے پاس نہ شہید کسانوں کی لسٹ ہے نہ لاک ڈاؤن اور کورونا سے جان گنوانے والوں کی لسٹ ہے توپھر حکومت کے پاس کیاہے؟ ہندستانی تاریخ کی انتہائی بے شرم، بے غیرت اورناکام حکومت، مودی حکومت ثابت ہوئی ہے، ایسے لوگ ملک وقوم کا تحفظ کیسے کریں گے؟ ملک کے انصاف پسند عوام اور مذہبی وسیاسی قائدین کا فریضہ ہے کہ وہ کشمیر کے خصوصی موقف کی بحالی کےلیے جدوجہد کریں، اس سے اظہارِ یگانگت کریں، اورحکومت سے پوچھیں کہ جب آرٹیکل 370 ہٹانے کے بعد مقصد پورا نہیں ہوا تو آخر اس کا فائدہ کیا ہوا؟ اوریہ کہ وہاں امن وامان کی بحالی کیسے اور کب ہوگی؟
(مضمون نگارکل ہندمعاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com
صاحب مضمون کی گذشتہ تحریر :پولیس تحویل میں موت، پولیس کی جواب دہی طے ہونی چاہئے!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے