بارانِ کرم

بارانِ کرم

بارانِ کرم (کوئٹہ کی برفباری سے متاثر ہو کر)
ہنگامِ محشر (کوئٹہ میں برفباری کی تصویر کا دوسرا رُخ) از سید فخرالدین بَلّے

بارانِ کرم
(کوئٹہ کی برفباری سے متاثر ہو کر )
نظم نگار : سید فخرالدین بَلّے

گردوں سے برستے ہوئے یہ برف کے گالے
تنتے ہوئے ہر سمت ہر اِک چیز پہ جالے

دُھنکی ہوئی روئی کی طرح صاف شگفتہ
شفاف، سبک، نازک و خود رفتہ و خستہ

رخشندہ و تابندہ و رقصندہ جوانی
یہ برف کی بارش ہے کہ پریوں کی کہانی

دوشیزگی شام و سحر کے یہ سنبھالے
چھائے ہوئے بکھرے ہوئے ہر سمت اُجالے

چاندی میں نہائے ہوئے یہ کوہ و بیاباں
ہے عام بہ عنوانِ طرب زیست کا ساماں

انوار کا ٹیکہ ہے پہاڑوں کی جبیں پر
غالیچۂ سیمیں ہے بِچھا ہے جو زمیں پر

موتی ہیں کہ دامن میں کوئی رول رہا ہے
جوبن کی ترازو میں سحر تول رہا ہے

ہر برگ و شجر رشکِ تنِ یاسمنی ہے
صحن و در و دیوار کی کیا سِیم تنی ہے

گو عارضی بخشش سہی فطرت کی یہ چھل ہے
ہر ایک مکاں آج یہاں تاج محل ہے

شوخیِ مناظر میں نظر کھوئی ہوئی ہے
زانوئے شبستاں پہ سحر سوئی ہوئی ہے

چمپا سے چنبیلی سے ہراک زلف گُندھی ہے
ہر ایک سرِ کوہ پہ دستار بندھی ہے

یا چشمے پہ جیسے کوئی مہناز بنا کر
بیٹھی ہے بصد ناز اداؤں کو چُرا کر

ہے وادیٔ بولان کہ حوروں کا بسیرا
ہر گام پہ حانی نے لگا رکھا ہے ڈیرا

چاندی کا کٹورا ہے سرِ آب پڑا ہے
بِلّور کا ساغر ہے کہ صہبا سے بھرا ہے

ہر ذرے سے جوبن کی کرن پھوٹ رہی ہے
انوار سے ظلمت کی کمر ٹوٹ رہی ہے

ہیں کوثر و تسنیم بھی، ساقی بھی ہے، مے بھی
ہے ساز بھی، مضراب بھی، آواز بھی، لَے بھی

مطلوب بھی موجود ہے، طالب بھی، طلب بھی
پائل بھی ہے، جھنکار بھی، مطرب بھی، طرب بھی

منظر بھی ہے، منظور بھی، ناظر بھی، نظر بھی
ہے ناز بھی، انداز بھی، اندازِ دگر بھی

ہیں ارض و سما، کون و مکاں نور میں غلطاں
بارانِ کرم ہے کہ اترتا ہوا قرآں

ہر منظرِ پُر کیف پہ جنت کا گماں ہے
سڑکوں پہ پڑی برف ہے یا کاہ کشاں ہے

ہر ذرّہ ہے مہتاب ، ہر اِک ذرّہ ہے خورشید
ہے برف کہ اک جشنِ جہاں تاب کی تمہید

اس برف سے رعنائی و شوخیِ گلِ تر
یہ برف ہے پیشانی بولان کا جھومر

یہ برف بلوچوں کی دعاؤں کا ثمر ہے
یہ برف نہیں فصلِ بہاراں کی خبر ہے

اس برف سے مہوش تری تصویر بناؤں
بت ساز بنوں اور صنم دل میں بٹھاؤں

ڈرتا ہوں مگر برف پگھل جائے گی اک دن
انفاس کی حدت سے یہ گل جائے گی اک دن


ہنگامِ محشر
(کوئٹہ میں برفباری کی تصویر کا دوسرا رُخ )
نظم نگار : سیدفخرالدین بَلّے

ہے برف کے اِس عکس میں سرشاری و مستی
لیکن ہے اِسی عکس کا اِک دوسرا رخ بھی

تصویر کے اس رُخ میں ہے ژولیدہ جوانی
ہے ہوش رُبا صبر طلب، جس کی کہانی

گھنگھور گھٹائیں ہیں دھواں دھار دُھندلکا
یَخ بستہ ہواؤں سے ہے اِک حشر سا برپا

آبادیاں مانندِ بیاباں ہیں لَق و دَق
آتا بھی ہے ذی روح نظر کوئی تو منہ فق

حرکت ہے نہ ہلچل، نہ حرارت، نہ جنوں ہے
پُر ہَول فضا زیست گرفتارِ فسوں ہے

سنسان گلی کوچے ہیں اجڑے ہوئے بازار
ہیں برف میں مدفون چمن سبزہ و گلزار

ہر چیز ہے ٹھٹھری ہوئی افسردہ و بے رنگ
ہر آن ہوئے جاتے ہیں دامانِ نظر تنگ

ہے ساز نہ آواز نہ بربط ہے نہ دَف ہے
کُل سلسلۂ کون و مکاں برف بکف ہے

بے جان ہیں احساس و گماں ہُو کا ہے عالم
چلتی ہے ہوا جب تو شجر کرتے ہیں ماتم

سردی کا یہ عالم ہے جگر کانپ رہے ہیں
منہ برف کی چادر سے سبھی ڈھانپ رہے ہیں

پابندِ نشیمن ہے کوئی غار میں پابند
ہیں طفل و زن و پیر و جواں گھر میں نظر بند

راہوں میں رکاوٹ ہے ہر اک گام پہ قدغن
یہ برف ہے یا زیست کے آثار کا مدفن

یہ برف ہے یا مرگ و قیامت کی نشانی
بے رنگ ہو جیسے کسی بیوہ کی جوانی

واللہ کہ ایمان لرزتا ہے دلوں میں
آتش کدے آباد مساجد میں گھروں میں

برفیلی چٹانوں کا ہر انداز ہے بھونڈا
بے رنگ ہو جیسے کسی خُرانٹ کا چونڈا

محرومِ تپِ زیست کا ٹھٹھرا ہوا تن ہے
ہے برف پہاڑوں پہ کہ کوڑھی کا بدن ہے

باغات خزاں دیدہ ہیں، پامال چمن ہے
یہ برف ہے یا مُردہ پہاڑوں کا کفن ہے

گردوں سے برستے ہوئے یہ برف کے گالے
تنتے ہوئے ہر سمت ہر اک چیز پہ جالے

سیدفخرالدین بَلّے کی یہ تخلیق بھی پڑھیں :

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے