اِسٹیئرنگ

اِسٹیئرنگ

افسانہ نگار : شوبی زہرا نقوی

کالونی کا لان قمقموں سے روشن تھا۔ لوگ چہل قدمی کر رہے تھے۔ دوپٹے سے کمر کسے ہوئے سومترا بھی لان کا چکر لگانے میں مصروف تھی۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی، دل تیزی سے دھڑک رہا تھا، لیکن تھکنے کے باوجود، وہ ہانپتی ہوئی ناک کی سیدھ میں بس چلے جارہی تھی۔ اس کے تیز قدموں سے لگتا تھا، جیسے اپنے مقصد کے لیے زمین گردش کرتی ہے، سومترا بھی اسی طرح اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مسلسل گردش میں ہے۔ وہ جب لان کا چکر کاٹتے ہوئے تھک جاتی تو چند سیکنڈ کے لیے رکوع کی صورت میں رکتی اور پھر زور سے سانس کھینچ کر دوبارہ تیز قدموں سے آگے بڑھ جاتی ۔
اُس وقت قدرت پوری طرح خاموش تھی، بس ستاروں کی پلکیں جھپک رہی تھیں۔ زمین جیسے جیسے وقت کے قدموں پر جنوب سے مشرق کا سفر طے کرے گی، ستاروں پر نیند کا خمار طاری ہوتا جائے گا اوریہ سورج کی پہلی جھلک دیکھتے ہی خوابوں کی دنیا میں ڈوب جائیں گے۔ لیکن ابھی دنیا روشن ہونے میں تھوڑا سا وقت باقی تھا اسی لیے ابھی پھولوں کی پنکھڑیاں مقفل تھیں۔ پرندے خواب غفلت میں محو تھے۔ پیڑ جھکے ہوئے نیند میں اونگھ رہے تھے اورچاروں طرف اندھیرا چھایا تھا۔ لگتا تھا سومترا کی محنت کو قدرت بھی خاموش دیکھ رہی ہے اور نہ صرف دیکھ رہی ہے بلکہ اس کی خود کلامی کی سرگوشیوں کو بھی سن رہی ہے۔ 
سومترا کی سسکیوں نے اس کے پورے وجود میں ہل چل مچا رکھی تھی لیکن اس کی آنکھیں خاموشی سے یادوں کی پگڈنڈی پر رواں دواں تھیں۔ اس کے سامنے ماضی کی رنگین تصویریں پاور پوائنٹ سلائڈ کی طرح ایک ایک کرکے ابھر رہیں تھی اور ڈوب رہیں تھیں۔ یہ تصویریں وہ تھیں جنھیں سومترا کے دماغ کے میموری کارڈ نے، یادوں کے طور پر خود جمع کیا تھا اور آج برسوں بعد یادوں کی اس البم سے بہت سی تصویریں خود بہ خود کھل کر اس کے سامنے بکھر جاتیں. سومترا کا دماغ جیسے جیسے ان تصویروں کو ابھارتا جاتا تھا، ویسے ویسے گزرے ہوئے لمحے اس کو یاد آتے جارہے تھے. جس سے اس کا دل ان گزری یادوں کا ماتم کر رہا تھا اور بدن ان یادوں پر آنسو بہا رہا تھا۔ سومترا پر ان یادوں کا اثر اتنا گہرا تھا کہ وہ اس عالم میں خود کو بھی بھلا بیٹھی تھی۔ 
وہ بیتی ہوئی اس زندگی کو یاد کر رہی تھی جو تھی تو حقیقت لیکن اب اس کی حقیقت خواب سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ وہ حسین اور خوب صورت زندگی جس کی ہر شام سہانی اور ہر صبح خوشیوں سے روشن تھی، جس کا ہر لمحہ پھولوں کی مہکتی ڈالی کی مانند تھا. یہ وہی وقت تھا جب مکیش تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند اس کی زندگی میں داخل ہوا تھا اور پھر اس کی زندگی پر بس خوشیاں ہی خوشیاں رقص کر رہیں تھیں۔ اس وقت اس کو لگتا تھا، یہ جہان خوشیوں کا چمن ہے جس میں رنگ برنگی خوشیاں، وقت بہ وقت پھولوں کی طرح کھلتی رہتی ہیں. لیکن نہ جانے کیسے وقت نے پلٹا کھایا اور اب ہر چیز وقت کی زد میں آکر خزاں کے آنے کی گواہی دے رہی ہے۔ تمام احساسات سوکھے پتوں کی مانند بکھرنے لگے ہیں اور جذبات کی زنجیریں ٹوٹنے لگیں ہیں۔ 
وہ سوچنے لگی کہ نہیں معلوم اس کے اندر کی کشش جو مکیش کو نظر آتی تھی، کہاں چلی گئی ہے؟ یا تو ایسا ہے کہ وہ اپنی کشش کھو بیٹھی ہے یا پھر مکیش کی آنکھوں کی چمک مدھم پڑگئی ہے۔ورنہ مکیش شادی سے پہلے کتنی اچھی باتیں کیا کرتا تھا، جس سے اس کے اندر مکیش کے لیے جذبات کی رو تیز ہوجایا کرتی تھی۔ اس کی باتوں سے یہ دنیا کتنی حسین لگتی تھی، جب مکیش کہتا تھا: 
’’سومو! تم کتنی خوب صورت ہو ۔۔۔ تمہیں خدا نے بڑی فرصت سے بنایا ہے۔ ‘‘
 اس وقت اس کو لگتا تھا حقیقت میں وہ بہت خوب صورت ہے۔
’’سومو! میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہیں ہمیشہ اتنا ہی چاہوں گا ہر وقت اور ہر حال میں۔‘‘ 
اس وقت وہ بے حد جذباتی ہوجاتی تھی، یہ وہی وقت تھا جب سومترا آئینے میں نہیں بلکہ مکیش کی آنکھوں میں دیکھ کر خود کو سنوارتی تھی اور اسے یوں لگتا تھا کہ وہ اس دنیا کی سب سے حسین لڑکی ہے جس کی سادگی میں بھی خدانے سات سنگھار کی ہوئی عورتوں سے زیادہ حسن دیا ہے اور مکیش کو اس کی پرستش کے لیے بھیج دیا ہے ۔
اگلے لمحے اس نے سوچا کہ وہ اتنی جلدی اپنی خوب صورتی کھو دے گی، معلوم نہ تھا اور مکیش جیسا دوست جو میرا آئینہ تھا، مجھے آئینہ دکھائے گا۔ سومترا کو معلوم ہوتا تھا یہ تمام رنگین یادیں بس ابھی چند دنوں پہلے کی ہیں لیکن حقیقت میں اسے لمبا عرصہ بیت چکا تھا اور اب وہ پینتیس سال کی ہوگئی تھی۔ 
مکیش کہیں دوسرے شہر میں جاب کرتا ہے. وہ ہفتے میں دو دن کے لیے آتا اور سومترا اُس کی توجہ کی منتظر رہتی. وہ مکیش کی آنکھوں میں وہی محبت تلاش کرنے کی کوشش کرتی جو اسے پہلے نظر آتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ ایک بار پھر سے وہی دل فریب دن لوٹ آئیں لیکن اس وقت تو جیسے مکیش کے جذبات اور احساسات مرچکے تھے اور اب سومترا اس کے لیے صرف اس کی بیٹی کی ماں رہ گئی تھی۔ سومترا کو اکثر لگتا تھا جیسے مکیش اپنی کلیگ نرملا جس کا ذکر وہ اکثر کرتا رہتا ہے، کی طرف زیادہ جھکتا جا رہا ہے اور اسی لیے وہ سومترا پر توجہ نہیں دیتا۔ وہ  سومترا کو موٹی کہہ کر بلاتا اور سومترا مسکرا کر اس کی باتوں کو نظر انداز کر دیتی لیکن کل رات مکیش نے سومترا کو جس طنزیہ ڈھنگ سے ساری باتیں کہیں، اس نے سومترا کے دل کو چیر کر رکھ دیا اس نے کہا.۔۔۔
’’سومترا! تم کیسی بے ڈول سی ہوگئی ہو، تمھارا پورا جسم پھیلتا جارہا ہے، تم اپنی خوب صورتی کھو چکی ہو، اسی لیے میں اب اپنے دوستوں کو بھی گھر نہیں لاتا، مجھے ان کو تم سے ملواتے ہوئے شرم آتی ہے۔‘‘
یہ سن کر سومترا تو سکتے میں آگئی، اس کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ جس آئینے میں خود کو دیکھتی تھی، وہ آئینہ ٹوٹ چکا ہے اور اس کی کرچیں مکیش کی آنکھوں سے اس کے دل و جگر کو چھلنی کرتے ہوئے اندر اتر گئی ہیں جس نے اس کے پورے وجود کو زخمی کر دیا ہے۔ وہ پوری رات انھی زخموں کی ٹیس سے سو نہ سکی اور خود کلامی میں مصروف کبھی اپنی بے بسی پر آنسو بہاتی رہی اور کبھی مکیش کے اپنے سے دور جانے پر پریشان ہوتی رہی. یہ رات اس نے یوں ہی آنکھوں میں گزاری. پھر اچانک وہ اٹھی اور صبح کی سیر کرنے نکل گئی۔ 
مکیش کی باتوں نے اس کو بہت دکھ پہنچایا تھا، جس سے اس کی طبیعت میں جھنجھلاہٹ پیداہوگئی تھی۔ حالانکہ اس کا دل چاہا کہ  وہ مکیش کا منہ نوچ لے اور کہے کہ تم خود کو کیا سمجھتے ہو؟ تم خود کون سے جان ابراہم ہو؟ تم بھی تو بھوجپوری ہیرو کی طرح ہو، اور میرا بھاری بھرکم جسم بھی تمہاری ہی دین ہے۔ لیکن مکیش کی باتیں سن کر وہ سکتے میں آگئی تھی اور اسی لیے کچھ بول نہ سکی، چند لمحوں بعد اس کی آنکھیں بوجھل ہوگئی تھیں، گلا بھرگیا تھا. لگتا تھا جیسے وہ قوت گویائی کھو بیٹھی ہے۔ اسی لیے وہ خاموش اپنے بستر پر لیٹی آنسو بہاتی رہی۔
قدرت جب سومترا کی سرگوشیوں کو سن چکی تو وہ سومترا کا غم ہلکا کرنے اور اسے مسرت بخشنے کے لیے کروٹ بدلنے لگی۔ سورج نے جنوب سے مشرق کا سفر طے کرتے ہی نقاب الٹ دی جس سے ہر ذی روح میں حرارت پیدا ہوگئی، ستارے پہلی جھلک دیکھتے ہی خوابوں کی دنیا میں ڈوب گئے، چڑیوں نے فرطِ مسرت سے چہچہانا شروع کر دیا، پیڑ جھوم اٹھے، بادِ صبا کلیوں کو بیدار کرتی پھرنے لگی، پھولوں کی خوشبو ہوا کے دوش پر سیر کرتی ہوئی فضا کو معطر کرنے لگی، لیکن یہ تمام چیزیں سومترا کے لیے تسلی بخش نہ تھیں۔ وہ ان چیزوں سے لطف لینے کے بجائے مایوس گھر کی طرف چل دی۔ سومترا گھر پہنچی تو مکیش اور بیٹی نیلو اب بھی محو خواب تھے۔ کافی دیر بعد جب دونوں کی آنکھیں کھلیں تو میز پر ناشتہ سجایا جاچکا تھا اور کچھ دیر بعد تینوں ناشتے کی میز پر موجود تھے کہ اچانک نیلو کی آواز ابھری ۔ 
’’پاپا! آج Parents meeting ہے آج ہم آپ کے ساتھ اسکول جائیں گے۔‘‘
’’نہیں بیٹا! میں تو آپ کے ساتھ اسکول نہیں جاسکتا، مجھے کچھ ضروری کام کرنے ہیں، آپ مما کو لے کر چلی جانا‘‘ مکیش نے نیلو سے کہا۔ 
’’نہیں پاپا ۔۔۔….. آج میں مما کے ساتھ نہیں جاوں گی، ہر بار انھی کے ساتھ تو جاتی ہوں، مجھے اچھا نہیں لگتا، ان کے ساتھ جانا۔ ہمیشہ ساڑی، سوٹ ڈال کر ہی جاتی ہیں. دیکھو تو کتنی موٹی ہوگئیں ہیں. سب کی مما تو جینس اور ٹاپ میں آتی ہیں  slim-slim کتنی اچھی لگتی ہیں ‘‘
کچھ دیر خاموشی کے بعدنیلو پھر بولی:
’’پتا ہے پاپا۔۔۔ …..اسکول کے سارے بچے مجھے چڑھاتے ہیں کہتے ہیں تیری مما تو موٹی ہیں۔ ‘‘
مکیش نے نیلو کی بات سن کر قہقہہ لگایا اور سومترا نیلو کی بات سن کر بیٹھے بیٹھے برف ہوگئی۔ اس نے سوچا کہ شاید مکیش نیلو کو سمجھائیں گے لیکن مکیش نے نیلو کو کچھ نہ سمجھایا بلکہ خود بھی طنز کے تیر چلانے شروع کر دیے : 
’’سومو! نیلو صحیح کہہ رہی ہے۔۔۔  اب تو مجھے بھی تمھیں پارٹیوں میں لے جاتے ہوئے شرم آتی ہے، اسی لیے اب میں اکیلا ہی پارٹی میں چلا جاتا ہوں۔ ‘‘
مکیش کی بات نے ایک بار پھر سومترا کو بری طرح زخمی کر دیا تھا۔ وہ اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئی، اس سے ضبط نہ ہوسکتا، اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
وہ پریشان تھی اور چاہتی تھی کہ ایک بار پھر وہی دن لوٹ آئیں لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ گزرا وقت کبھی واپس نہیں آتا۔ اس نے اپنے دامن سے آنسو پونچھے اور باہر جانے کے لیے مڑی، دیکھا پیچھے مکیش کھڑا ہے۔ 
’’ارے سومو! تم تو رونے لگیں، ہم مذاق کر رہے تھے۔۔۔  سوری یار۔۔۔  اچھا اب ایسا نہیں کہیں گے‘‘ مکیش نے سومترا کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔ 
سومترا کچھ نہ بولی کیونکہ ایک بار پھر سے جذبات کی لہروں نے اس کے گلے کوجکڑ لیا تھا، وہ روتے ہوئے تھوڑا مسکرا دی، مکیش نے اس کو مسکراتے ہوئے دیکھا تو وہ واپس چلا گیا ۔ 
یہ تو عورت کی بڑی خوبی ہوتی ہے کہ وہ روتے روتے بھی ہنسنے لگتی ہے اور ہنستے ہنستے رونے لگتی ہے۔ اس نے مکیش کو پریشان کیے بغیر ہی مسکرانا مناسب سمجھا۔ 
آج شوہر اور بیٹی کے بدلے ہوئے رویوں نے سومترا کو اس بات کا احساس کرا دیا تھا کہ دوسروں کے لیے جینے کے ساتھ خود کے لیے بھی جینا ضروری ہے۔ صرف دوسروں کے لیے جینے والا انسان زیادہ دن خوش نہیں رہ سکتا، یہی وجہ تھی کہ اپنے شوہر اور بیٹی کو اپنی زندگی مان لینے والی سومترا نے اپنے لیے جینا ہی چھوڑ دیا تھا لیکن آج اس نے طے کر لیا کہ وہ خود کوبھی اتنی ہی اہمیت دے گی جتنی مکیش اور نیلو کو دیتی ہے۔ 
سومترا نے صبح کی سیر کے بعد جم جانا شروع کر دیا، جس سے تھوڑے ہی دنوں میں اس نے اپنا وزن کافی گھٹا لیا۔ جم میں اس کی دوستی مختلف عورتوں سے ہوئی، جس کے بعد اس کی وابستگی صرف جم تک ہی محدود نہ رہی بلکہ وہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کی نگرانی کرنے والی تنظیموں سے منسلک ہوگئی۔ اس کا زیادہ وقت تنظیموں کے کاموں میں گزرنے لگا۔ چودہ سال کی نیلو کو اس نے بورڈنگ اسکول میں ڈال دیا تھا۔ اب سومترا ہفتے کے پانچ دن بالکل آزاد تھی اور کبھی کبھی توپورے ہفتے! مکیش گھر کم  آتا تھا، اسی لیے اب اسے نہ کسی بات کا ڈر تھا اور نہ کسی کی ذمہ داری کا خیال۔ مکیش اگر دو دن کے لیے بھی آتا تو وہ مکیش کو قریب بھی نہ آنے دیتی۔ وہ ایک بار پھر شادی سے پہلے والی سومترا بن جانا چاہتی تھی۔ آزاد پنچھی کی طرح اُڑنے والی، جس کے روپ کی سب تعریف کریں، جس کے حسن کے سب شیدائی ہوں، جو ہوا کے دوش پر کھلی فضا میں گردش کرتی پھرے۔ 
ہوا بھی کچھ ایسا ہی، سومترا کو اپنی محنت کے مثبت نتائج حاصل ہوئے، اس کے جسم سے بے جا چربی کا بوجھ ہلکا ہوگیا جس سے وہ شادی سے پہلے والی سومترا دکھنے لگی، خوب صورت، چست اور چھریرا جسم والی سومترا  ۔۔۔۔!
 پہلے جہاں وقت کا تھوڑا حصہ بھی وہ اپنے لیے نہیں گزارتی تھی، اب وہیں اپنی زندگی کا زیادہ حصہ اپنا خیال رکھنے، خود کو سنوارنے  سجانے اور پارٹیوں میں گزارنے لگی، اب مکیش کو بھی ہر کام کے لیے اس سے کہنے کی ضرورت پیش آنے لگی تھی اور یوں دھیرے دھیرے  مکیش اس کی توجہ کا منتظر رہنے لگا تھا، لیکن سومترا کی اس گھر کے علاوہ اب ایک اور زندگی بھی تھی جو اس کی اپنی زندگی تھی، جس زندگی کی وہ خود ہی مالک و مختار تھی، جس کی رنگینیاں اس کے لیے مسرت بخش تھیں اور اب اسی لیے اس پر مکیش کی توجہ اور بے توجہی کا کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ اس نے آخر وہ سب پالیا تھا جس کو وہ پانا چاہتی تھی، اسی لیے اب اس کی زندگی میں مکیش کی کوئی اہمیت نہ رہی تھی۔ حالانکہ مکیش اس پر پوری توجہ صرف کرنے لگا تھا لیکن سومترا کو اب مکیش کی توجہ اور بے توجہی سے کوئی فرق نہ پڑتا تھا ۔ 
ایک دن مکیش نے گھر لوٹتے ہی نیلو سے ملنے کے لیے ہاسٹل چلنے کو کہا، سومترا چلنے کے لیے تیار ہوگئی، وہ کپڑے بدلنے اندر چلی گئی تبھی اس کے موبائل کی میسج ٹون بجی، مکیش نے بے خیالی میں اپنے موبائل کی جگہ سومترا کا موبائل اٹھا لیا، میسج اشوک اگروال کا تھا، میسج میں لکھا تھا: 
’’سومترا میں گھر پہنچ گیا ہوں، تمھارے ساتھ یہ دو دن کیسے گزرے کچھ معلوم ہی نہ ہو سکا، کچھ دنوں میں پھر ملتے ہیں ۔ ‘‘
مکیش چونک گیا! اس نے اُوپر کے میسج پڑھنا شروع کیے، وہ میسج پڑھتا جاتا اور فریز ہوتا جاتا تھا کہ اچانک مکیش کے موبائل میں بھی میسج ٹون بجی۔ 
اُس نے اپناموبائل اٹھایا، اس کی کلیگ نرملا کا میسج تھااس نے لکھا تھا :
 ’’پردیپ گھر آگئے ہیں۔۔۔  تم اب کال مت کرنا، کچھ دن بعد پھر سے گھومنے چلیں گے۔ ‘‘
مکیش کے دونوں ہاتھوں میں موبائل تھے، اس کا پورا جسم جیسے سن پڑ چکا تھا۔ اس کے کانوں میں موبائل ٹون کی آواز گونج رہی تھی، دماغ میں سومترا کی تصویر گردش کر رہی تھی اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ 
تبھی اس اندھیرے کو چیرتی ہوئی سومترا سامنے آکر کھڑی ہوگئی، جینس اور ٹاپ میں وہ بہت پرکشش لگ رہی تھی۔ اس کے حسن کی داد دیتے ہوئے اس کی زلفیں کبھی ماتھے کا بوسہ لیتی تھیں کبھی کاندھوں کو تھپکتی تھیں اور کبھی کمر تھپتھپاتی تھیں۔ اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔ مکیش نے سومترا کا یہ روپ دیکھا تو وہ دیکھتا ہی رہ گیا، اس کے منھ سے کوئی آواز نہ نکلی، وہ نہ جانے کس دنیا میں کھوگیا تھا کہ سومترا نے مکیش کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: 
’’چلیں۔۔۔  ‘‘
’’ہیں  ۔۔۔  ہاں۔۔۔  ‘‘وہ ہڑبڑاکر اُٹھ کھڑا ہوا ۔ 
مکیش گاڑی چلارہا تھا، لیکن اس کو محسوس ہورہا تھا کہ گاڑی کا اسٹیئرنگ (steering) اس کے ہاتھوں سے چھوٹتا جا رہا ہے۔ اس نے اسٹیئرنگ پر پوری طاقت سے ہاتھ جمائے اور اس کو مضبوطی سے پکڑنا چاہا لیکن اس کی پکڑ مضبوط نہیں ہو پارہی تھی۔ اس کے اندر کی طاقت جواب دے رہی تھی۔ گاڑی جیسے جیسے بھاگ رہی تھی، مکیش کا دماغ بھی اسی طرح مسلسل گردش میں تھا اور اسی کش مکش میں کب ہاسٹل تک کا سفر طے ہوگیا معلوم ہی نہ ہوسکا۔
نیلوسے ملاقات کے بعد شام کو دونوں گھر لوٹے، سومترا خوش تھی، لیکن مکیش ابھی بھی بجھا بجھا سا کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ سومترا کومحسوس ہو رہا تھا کہ جیسے مکیش اس سے کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن کہہ نہیں پارہا ہے کہ سومترا نے خود ہی پوچھ لیا :
’’مکیش کیا ہوا ؟ کچھ کہنا چاہتے ہو ۔۔۔  نہ جانے کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ جیسے تم مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہو۔‘‘

’’نہیں! کچھ نہیں‘‘ مکیش نے بات ٹالنے کی کوشش کی کیونکہ اُسے اِس بات کا ڈر تھا کہ نجانے کب گھر بکھر جائے۔ وہ  سومترا سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا اور پھر اس نے ہمت سے کام لیا۔ 
’’وہ سومو!۔۔۔‘‘ مکیش کی آواز گلے میں ہی اٹک گئی، اس نے زور دیتے ہوئے کہا : 
’’سومو!یہ اشوک اگروال کون ہے ؟‘‘
’’اشوک!دوست ہے میرا۔‘‘
’’دوست ہے یا اور کچھ ہے ؟‘‘ مکیش نے زور دیتے ہوئے کہا، اس کی آنکھوں میں اب خون اترنے لگا تھا۔ 
’’دوست ہے یا اور کچھ ہے تمھیں اس سے کیا؟۔۔۔  تمھیں میری زندگی میں دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘
’’میں تمہارا پتی ہوں ۔‘‘ مکیش کی آواز تیز ہوگئی۔ 
’’ہاں! تم میرے پتی ہو لیکن دنیا کو دکھانے کے لیے، ورنہ اب تم سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ‘‘
’’سومترا تم یہ مت بھولو کہ تم میرے گھر میں رہتی ہو۔‘‘ مکیش نے چلاتے ہوئے کہا۔ 
’’میرے سو کالڈ پتی ۔۔۔  میں آپ کے گھر میں نہیں، آپ میرے گھر میں رہتے ہو، یہ گھر میرا ہے۔ آپ شاید بھول گئے ہو کہ یہ گھر کس کے نام ہے ۔‘‘ مکیش کو یاد آیا، گھرخریدتے وقت اس نے یہ گھر سومترا کے نام کرادیا تھا۔ مکیش کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی. اِتنے میں سومترا بولی:
’’دیکھو مکیش ! وقت بدل چکا ہے، پہلے میری زندگی کا اسٹیئرنگ تمہارے ہاتھوں میں تھا۔ تم مجھے جس طرح چاہتے تھے، چلاتے تھے لیکن  اب یہ اسٹیئرنگ میرے ہاتھوں میں ہے اور اب میں اپنی زندگی اپنی مرضی سے جیوں گی، میں موٹی تھی، مجھے کہیں بھی لے جاتے ہوئے تمھیں شرم آتی تھی۔ اب تمھارے ساتھ چلتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔ تمہارا یہ بھاری بھرکم جسم مجھ سے برداشت نہیں ہوتا، اسی لیے اچھا یہی ہوگا کہ تم اپنی زندگی جیو اور میں اپنی زندگی جیتی ہوں۔ مجھے تمہارے اور نرملا کے رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اسی طرح تمھیں میرے اور اشوک کے رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ہم دونوں ایک ہی بندھن میں بندھے ہیں. اسی لیے مکیش!……… زندگی جینے کا جتنا حق تمھیں حاصل ہے، اتنا ہی مجھے بھی ہے، اسی لیے بہتر یہی ہوگا ہم دونوں اپنی اپنی زندگی اپنے اپنے ڈھنگ سے گزاریں، مجھے تم سے اب کوئی لینا دینا نہیں ہے. میں اب کمزور بھی نہیں ہوں اور اگر تم ایسے رہنا نہیں چاہتے ہو تو تم یہاں سے جا سکتے ہو۔ ‘‘
سومترا کی بات سن کر مکیش سناٹے میں آگیا، اس کو محسوس ہوا کہ اس کی طاقت کمزور پڑ گئی ہے اور اس کے ہاتھوں سے اسٹیئرنگ نکل چکا ہے۔ اس نے سومترا کی آنکھوں میں پہلے والی محبت تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن سومترا کی آنکھیں بلینک تھیں۔ مکیش کا دل چاہا کہ ایک بارپھر سے وہی پرانے دن لوٹ آئیں جو کہیں دور جا چکے ہیں ۔
سومترا نے دیکھا کہ مکیش کا پورا وجود مایوسی کی چادر میں لپٹ گیا ہے، وہ وہاں سے اٹھی اور ڈریسنگ روم کی طرف چل دی۔

تبصرہ و تجزیہ :

نثار انجم 

ازدواجی زندگی کی ناچاقیوں پر مبنی افسانہ ہے. جسے مصنفہ نے بڑی سلاست کے ساتھ، دل کش پیرایۂ انداز میں برتا ہے۔ افسانہ تحریر کرتے وقت کردار اور جذبات اظہار کے لیے ایسے لفظوں کا بھی استعمال کیا ہے جو رائٹنگ ٹیبل کے آس پاس جدید ایجاد کی صورت میں سامنے تھے۔ شعوری طور پر اظہار کے اسالیب کا حصہ بنے ہیں۔ کہیں بھی بے جوڑ بے محل محسوس نہیں ہوتے۔ افسانے کے تناظر میں تھیمم تک پہنچنے میں تجرباتی لفظ اپنا معنی بھی نہیں کھوتے. 

سمترا کا مارننگ واک کے دوران باہر کی فضا بندی اور اس کے اندر چلنے والے شکست و ریخت کے عمل کو بھی مصنفہ نے بڑی باریک بینی سے بیان کیا ہے۔ مارننگ واک کے دوران سمترا کی ہلکی پھلکی جسمانی کسرت اور اس کی منظر نگاری خوب ہے۔ سمترا کا کمر سے نصف جھکنے کو رکوع سے مثال دینا ٹھیک نہیں لگا۔
مین ویمن ریلشن شپ پر اچھی پکڑ ہی افسانے کو زیادہ حقیقت سے قریب، جذبات کے تمام رنگوں کو اصل رنگوں جیسا پیش کرنے میں بڑا معاون ہوتا ہے۔ مشرقی روایتوں کے آنگن سے سر نکال کر ایسے جدید تہذیب کے پروردہ معاشرے اور اس کے افراد کا ظاہری نقشہ کھینچنا تو جا سکتا ہے، لیکن ان کے سوچنے کا ڈھنگ ان کے فکر کی روح کو کرداروں میں اتارنا مشکل فن ہے۔ایسی کوشش میں مصنوعی رنگ کا غلبہ کردار کے افکار و جذبات پر حاوی دکھائی دیتے ہیں. جم میں جانے والی سمترا اور غیر مردوں سے تعلقات استوار کرنے والی قاری کی ہم دردی حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ مصنفہ پوری کوشش کرتی ہیں کے سمترا کو افسانے میں مسز رائٹ بنا کر پیش کریں۔ اسٹیٔرنگ اسی کے ہاتھ رہے۔ مکیش سے باغی ہونے میں جو وجوہات پیش کئے گئے اس میں اس کی اپنے بدن کی ساخت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ جس پر چربی کے اضافے نے دل کشی چھین لی ہے۔ یہ اس کی ڈھلتی عمر کی شادابی میں کمی تھی جو مکیش کی آنکھوں میں جاذبیت کا رنگ گھول نہ سکی۔ سمترا کا کھویا ہوا حسن اور جاذبیت کی بازیافت انتقام کا ہتھیار بن کر مکیش کے سینے میں پیوست ہو جاتی ہے. سمترا اپنے نا آسودہ جذبات کی تسکین غیر مرد میں ڈھونڈ لیتی ہے۔ مکیش کا گناہ قابل معافی تھا. ایلیٹ معاشرے میں دعوت دیتی ہوئی آفت کی قلو پتراؤ کے سحر سے بچنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ولیوں والا کام ہے۔ ایک حارکولیین ٹاسک ہے Herculean task۔ بڑے بڑے کو منہ کے بل گرتے دیکھا ہے۔
سمترا دراصل نرگسیت کی مریضہ ہے۔ تمام عمر خود کو آئینے کے سامنے سنوارنے اور حسن کو ابدی دولت سمجھنے جیسے نظریہ حیات نے اسے ایسے مسائل سے دوچار کیا ہے۔ ایلیٹ معاشرے میں دکھاوا، ریا، ظاہری چیزوں کے حسن پر فدا ہونا کلچر کے بنیادی اصولوں میں ہے۔ اور سمترا ایسے ہی تہذیبی روایت میں پلی بڑھی ہے۔
مجموعی طور پر ایک اچھا افسانہ ہے۔ سمترہ کی دوبارہ حسن کی شادابی کے بعد زندگی کی اسٹیئر نگ مکیش کے پاس ہی رہنے دیتی وہ ایک اچھی بیوی، ایک اچھی ماں کے طور پر عورتوں کے کردار پر عظمت ٹانک دیتی۔افسانے پر بحث کرتے ہوئے کسی مبصر نے مصنفہ کی ذاتی زندگی میں جھانک کر دو کشتیوں کے سوار کا ذکر کیاہے۔ مجھے پتا نہیں کیوں یہ تبصرہ کم اور۔ ۔۔۔عناد زیادہ لگتا ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ مصنفہ کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ان سے مزید امیدیں وابستہ کرکے حوصلہ افزائی کرتے. بہر کیف! 
میری جانب سے محترمہ کو ڈھیروں مبارکباد. 
نثا رانجم کا یہ تجزیہ بھی پڑھیں:چھالیا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے