گذشتہ لکھنو از عبد الحلیم شرر

گذشتہ لکھنو از عبد الحلیم شرر

محمد مرسلین اصلاحی

” گذشتہ لکھنو" عبد الحلیم شرر کی مایہ ناز تصنیف ہے۔ یہ شہر لکھنو کی گزشتہ تہذیب و ثقافت اور تمدن کی ایک سرگزشت ہے جو ہندستان میں مشرقی تہدیب و تمدن کا آخری نمونہ تھا۔ اس تصنیف میں جہاں شاہان مغلیہ کے جاہ و حشمت اور ان کے طرز حکومت کی تفصیلی تاریخی روئیداد ہے وہیں نوابین اودھ اور ان کی ذریات کے کرتوتوں کی منھ بولتی تصویر ہے۔ ایک ایسا تذکرہ جو اس وقت کی تہذیبی اقدار، معاشرتی اطوار، معاشی و تمدنی صورت حال کی بہترین عکاسی ہے. علم و تفنن، صنعت و حرفت، بود و باش، طرز فکر اور فنون لطیفہ، ذوق و شوق، ان کے کمالات تفنن مثلا کبوتر بازی، جانوروں اور درندوں کو آپس میں لڑانے کا مذاق، بٹیر بازی، قمار بازی، چنگ اور کنکوے اڑانے کا شوق، شعر و شاعری، فن موسیقی سے دل چسپی، کھانے پینے کا اہتمام، ملبوسات، عادات واطوار، وضع و قطع، تہوار، غم و شادی اس کتاب کا اہم حصہ ہے۔ لکھنو دربار کی یہ تہذیب جتنی جلدی ترقیوں کے مدارج پر پہنچی اتنی ہی جلدی فنا بھی ہوگئی. لیکن اس نے لکھنؤ کی معاشرت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ دربار اکثر شاعر، قوال، گویے اور ناچنے والیوں سے آراستہ ہوتا تھا۔ رنڈیاں رقص و سرود اور غزل سرائی کا ماحول پیدا کر نے میں یدطولی رکھتیں۔ پر درد گیتوں، بروگ، بھیرویں، پرچ، سوہنی، ٹھمری، مراثی اور نغموں کی سوز و گداز کی لے اور غنائیت کا بھی ذکر ملتا ہے جو درباری روایت کا حصہ ہو گئیں۔ جہاں طبلہ بازوں، سازندوں اور گلوکاروں کا ہجوم ہوتا، سرود، چنگ، شہنائی، بربط و رباب، ستار، جھانجن اور سارنگی جیسے آلات طرب کو رواج ملا، رقص و سرود کی محفلیں سجتیں، مجرا ہوتا جو مٹیا برج کے بالا خانوں کی زینت رہا۔ اس کے علاوہ گھر میں بیٹھنے والی عورتوں کے لیے پلے پکھاوج اور ڈھول تاشے ان کی عام پسند بن گئی۔ جس کے ساز پر پر درد گیتوں کی دھنیں چھیڑی جاتیں اور لوک گیتوں سے فضا سلگ اٹھتی۔ دہلی میں تان سین کے بعد فن موسیقی پر سب سے پہلے شاہ جہاں کے عہد میں "شمس الاصوات” تصنیف کا ثبوت ملتا ہے. دہلی دربار سے لکھنو منتقل ہوا۔ یہان اس فن نے اور ترقی کی. مجرا اور رنڈیوں کے رقص کی محفلیں دوبالا ہوگئیں. نواب آصف الدولہ کے عہد میں ارباب نشاط، نواب، امرا اور شرفا و صلحا کے لیے ان محفلوں میں حاضری دینا معیوب نہ رہ گیا۔ حقہ نوشی، شراب نوشی اور شباب لکھنوی تہذیب کا حصہ بن گیا۔ جیسا کہ شرر صاحب لکھتے ہیں :
"ان کے زمانے میں بعض شوقین روسائے شہر اگر ارباب نشاط کے قدر دان بھی تھے، تو چھپا کر گانا سنتے تھے۔ اس لیے اب اس فن کی جو کچھ قدر ہوئی، واجد علی شاہ کی عہد شباب کی تخت نشینی میں ہوئی۔ جب کہ لکھنو کا ساغر عیش چھلکنے کو تھا اور گل ہونے والا چراغ آخری مرتبہ بھڑک کر روشن ہوا تھا۔ " ص 221
اکثر مجرے میں بھانڈ ناچتے اور گیتوں کی لے اور گھنگھرووں کی چھن چھناچھن کے سر تال پر تھرکتے۔ شجاع الدولہ کے زمانے میں اسے کافی رواج ملا۔ آگے اس کتاب میں لکھتے ہیں :
"اکثر ڈوم ڈھاڑی بریلی سے آئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خوانین روھیل کھنڈ بھی موسیقی اور ارباب نشاط کے قدر دان تھے جن کی فیاضی سے بریلی و مرادآباد میں ان لوگوں کا نشو و نما اچھی طرح ہوا اور وہاں سے بھی کمال ڈھاڑی اور نقال لکھنؤ آئے اگرچہ اب ان کا اصلی مرکز لکھنو ہی بنا ہوا ہے ۔" ص244
پھر شرر صاحب اس موسیقی کے کلاسیکل طرز کے خاتمے پر اظہار افسوس کرتے ہیں جس کی بمبئی کے تھیٹروں میں درگت ہوئی. جہاں موسقی اور رقص کے معنی ہی بدل گئے. رقم طراز ہیں :
” سچ تو یہ ہے کہ بمبئی کے تھیٹروں نے ہندوستان کو بہ لحاظ فنون رقص و سرود کے بے حد نقصان پہنچادیا ۔" ص250
لکھنو میں سراج الدولہ کے زمانے ہی سے محرم کے دنوں میں بڑی چہل پہل رہتی۔ سوز خوانوں کا ایک جم گھٹ ہوتا۔ امام باڑے سجتے، تعزیہ داری اور مرثیہ خوانی اور عزاداری نے عورتوں پر خاصا اثر ڈالا جس نے عورتوں کو گلے باز بنادیا۔ شرر صاحب نے محرم کا پورا نقشہ اپنے اس تذکرے میں کھینچا ہے جس کی رونقیں عزاداری کم اور یادگار نغمہ و چنگ زیادہ تھی۔ واجد علی شاہ کے دور میں اس کو خوب پروان چڑھایا ۔
اس کتاب میں لکھنوی نوابین کے ذوق شوق میں مختلف الوان نعمت کا تذکرہ بھی بڑے خوب صورت انداز میں ملتا ہے۔ نواب واجد علی نے صدہا خوان نعمت کو فروغ دیا. اس کے عہد میں بے مثال خانساماں اور باورچی لکھنو میں اکٹھے ہوگئے. پلاؤ، زردہ، بریانی، قورمہ، کباب، سبزیاں، شیر مال، پراٹھے اور آبی کے خاص ہنر ایجاد ہوئے۔ اس کے علاوہ متنجن مزعفر، شامی کباب متبادل اچار اور چٹنیاں قابل ذکر ہیں۔ غرض انواع و اقسام کے کھانوں کا اہتمام اس وقت کی مقبول غذاؤں میں شمار ہونے لگا۔ جس کے نتیجے میں نئے نئےطریقے ایجاد کیے گئے. باورچی حد درجہ لطافت، نفاست اور صفائی و نزاکت کا پورا خیال رکھتے۔ صرف پلاؤ کی اتنی قسمیں ہوتیں کہ ہر ایک کا الگ الگ نام تھا. مثلا گلزار پلاؤ، نور پلاؤ، نورتن پلاؤ، کوکو پلاؤ، موتی پلاؤ، چنبیلی پلاؤ وغیرہ. کھانا تیار کرنے والے تین گروہ تھے. ایک تو باورچی کے ما تحتی دوسرے باورچی جن کا کام بڑی بڑی دیگیں اتارنا تھا. تیسرا گروہ رکاب دار ہوتا جو چھوٹی چھوٹی ہانڈیاں پکانا تھا۔ اور پورے ضبط اور سلیقہ مندی کے ساتھ خوان کرم سجاتا۔ جس سے ان کے مذاق کا پتہ چلتا۔ گویا اہل لکھنو کی نفاست مزاجی نے ہر چیز میں تکلفات پیدا کیے.
تعمیرات میں محلات اور محل سرا، امام باڑہ، مقبرہ، قیصر باغ، دیوان خانے، کوٹھے، آصف الدولہ اور واجد علی شاہ کے زمانے کی یادگاریں ہیں جو مشرقی تمدن کا نمونہ ہیں۔ لکھنو کی شام، بازاروں کی رونقیں، محفلیں، محاضرات کی عجب دھوم دھام رہتی جیسے امیر خسرو کی کہہ مکرنیاں ہوں۔ زبان کے معاملے میں اہل لکھنو نفاست پسند واقع ہوئے۔ فصیح و دل کش زبان، لطائف کے زمزمے، محاوروں کے ہمہمے اور شعر و شاعری سے دبستان لکھنؤ لہک اٹھا، جس میں ان کی نزاکت کی آویزش کے اثرات نمایاں تھے۔ گویا مغل دہلوی تہذیب ایک نئے پیکر میں ڈھل کر لکھنو کی معاشرت کا حصہ بن گئی تھی۔ اس عہد میں شیعیت کو غیر معمولی فروغ ملا۔ تولا تبرا، تعزیہ داری، مرثیہ خوانی، مجالس، شام غریباں، کربلا، درگاہیں، امام باڑے اور عزا خانے ان کے بہترین مظہر ہیں۔ لیکن ان تہذیبی عروج کی بے اعتدالیوں کے باعث ان کے عشرت کدوں کی رونقیں ماند پڑ گئیں اور غیرت کی تلوار کند ہوگئی. جو دربار مغلانیوں اور ڈومنیوں کے دم پر تھا اور باہر کی دنیا طوائفوں، مصاحبوں، داستاں گویوں، افیمچیوں، سازندوں اور شاعروں کی رہیں منت تھی۔ اس کے باوجود سطحی عیش کوشیاں رفتہ کار تھی۔ تزئین طبع، آرائش و زیبائش، تکلف و تصنع، نسائیت آمیز شائستگی تہذیبی شکست کا المیہ ثابت ہوا۔ گو کہ سلطنت اودھ کے بانی نیشاپوری ایرانی النسل تھے جن کی غیرت صیقل تھی لیکن رفتہ رفتہ ان کی ذریت میں ایسا تغیر آیا کہ طاؤس و رباب اول شمشیر و سناں آخر ٹھہرا ۔ ان میں عورتوں جیسی وضع داری نے زنخہ پن اور زنانہ اطوار پیدا کیے۔ شرر صاحب رقم طراز ہیں :
"اب سپہ گری اور جنگ جوئی کی بہت کم ضرورت باقی رہ گئی تھی۔ عیش پرستی اور عورتوں کی صحبت بہت بڑھتی جاتی تھی اس لیے مردوں پر عورتوں کی وضع کا اثر پڑنے لگا۔ جو اعتدال سے باہر ہوگیا اور جس قسم کی زینت و آرائش عورتوں کے لیے موزوں تھی مردوں نے بھی اپنی وضع میں اختیار کرنا شروع کردی. " ص20
ان کی وضع قطع کے بھی عجب انداز تھے۔ سر پر کام دار ٹوپیاں، شانوں پر لہراتی زلفیں، منھ میں پان کی گلوریاں، ہونٹوں پر لاکھا، چست انگرکھا، گلبدن کھینچا ہوا ریشمی پائجامہ، اچکن، شروانی، اطلس و کمخاب کے ملبوسات، زیورات کا استعمال مردوں کے لیے بھی معیوب نہ تھا۔ اسی طرح عورتوں کے بھی مخصوص لباس ہوتے تھے جیسے چولی، گھاگھرا، انگیا، تنگ مہری کے پائجامے، کرتی، شلوکا، ساری وغیرہ۔ لکھنو میں عورتوں کے لباس کی تراش خراش اور روز روز جدتوں نے دوسری تہذیبوں کو کافی حد تک اپنی طرف متوجہ کیا. یہی حال زیوارات کا بھی ہوتا۔ سبک، ہلکا نازک اور خوش نما ہوتے۔ اس عہد میں علوم و فنون میں بھی خوب ترقی ہوئی۔ خوش نویسی، چھاپے خانے، تصنیف و تالیف، دین و مذہب، تیر اندازی، نیزہ بازی، گھڑ سواری، کشتی، اور اکھاڑے کو بھی خوب فروغ ملا۔ جو اسی تہذیب کا حصہ ہیں. اس عہد میں قحبہ خانوں کو اس قدر فروغ ملا کہ اس وقت شرفائے لکھنو کا علانیہ ان طوائفوں کے یہاں آنا جانا باعث افتخار تھا۔ شرر کے الفاظ میں:
"لکھنو میں مشہور تھا جب تک انسان کو رنڈیوں کی صحبت نہ نصیب ہو آدمی نہیں بنتا. "
جس معاشرت کی بنیادیں طوائف اور کوٹھے ہوں اس کا اللہ بیلی ! اس طرز معاشرت کی بے اعتدالیاں اودھ کے ابتذال و انحطاط کا باعث بنی۔ لیکن اس بات کا کلی طور پر اعتراف کیا جا سکتا ہے کہ اس عہد میں اردو زبان و ادب کو غیر معمولی شہرت ملی۔ آداب و القاب، نششت و برخاست، طرز کلام، طریقہ مذاق، نفاست طبع، اسلوب گفتگو، بذلہ سنجی، لطائف زبان اور طرز معاشرت لکھنوی تہذیب کا عطیہ ہے۔ لکھنو کی معاشرت دہلی کی ترقی یافتہ معاشرت کا آخری نمونہ تھی۔ لیکن دونوں میں بڑا فرق تھا۔ لکھنو میں ایک خاص نزاکت کا پایا جا نا اس کے لطیف مذاق کا آئینہ دار تھی۔
۔ "گزشتہ لکھنو” اس لحاظ سے لکھنو کی قدیم تہذیب پر ایک انسائکلوپیڈیا ہے۔ اس کتاب کا سب سے اہم نکتہ اس کا اسلوب بیان اور زبان کی صفائی و ستھرائی ہے۔ جس سلیقہ مندی اور لطف کے ساتھ واقعات کی گرہ کشائی کی گئی ہے قابل مطالعہ ہے۔ مصنف کے ذوق ادب اور اسلوب بیان کی عمدگی کا پتہ دیتی ہے۔ شرر صاحب کی جملہ تصانیف میں "گزشتہ لکھنو ” ایک اہم تصنیف ہے اور زبان و ادب کے لحاظ سے اعلا ترین ادبی سرمایہ ہے۔ لیکن اس کتاب میں بعض الفاظ شرر صاحب نے ایسے بھی استعمال کیے ہیں جو مذاق زبان سے ہٹ کر ہیں. مثلا ص 334 پر لکھتے ہیں کہ ” ویسے ہی زنانی محل سراؤں میں" حالاں کہ عورتوں کے لیے زنانی نہیں بلکہ زنانہ مخصوص لفظ ہے. اسی طرح اش اش ، خواتینیں وغیرہ کا لفظ ۔ "گزشتہ لکھنو" کے اسلوب نگارش میں جذباتیت اورشوخی پائی جاتی ہے. وہیں طرف داری اور مبالغہ آرائی بھی ملتی ہے. لہجے کی تلخی اور الفاظ کے صرفہ میں ذرا بھی رعایت نہیں کرتے۔ گو کہ پوری کتاب بہترین انشائیہ نگاری کا اعلامیہ ہے جس میں اسلوب زبان کا بایں ہمہ وجوہ خاص تنوع اور شستگی ملتی ہے۔ شرر صاحب نے تاریخی ناولوں اور انشائیوں سے شہرت پائی. مولوی عبد الرزاق لکھتے ہیں کہ امیر مینائی نے طبیعت کا رنگ دیکھ کر شرر تخلص رکھا۔ چوں کہ شرر کا لڑکپن مٹیا برج میں گزرا جہاں انھوں اس تہذیب کو کھلی آنکھوں سے دیکھا. اور وہیں تعلیم پائی. آج لکھنو ہے نہ ہی وہ تہذیب، مٹیا برج ہے نہ قیصر باغ۔ جن کی ساری رونقیں مرگھٹ ہوگئیں ۔.
***
محمد مرسلین اصلاحی کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو:یونس ٹی اسٹال

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے