نیپال میں اردو ادب کا شہاب ثاقب : ڈاکٹر ثاقبؔ ہارونی

نیپال میں اردو ادب کا شہاب ثاقب : ڈاکٹر ثاقبؔ ہارونی

سید بصیر الحسن وفا نقوی 

اردو ایک ایسی زبان ہے جو اپنی سخت جانی اور شیرینی کی وجہ سے نہ صرف ہندستان کے گوشے گوشے میں وجود رکھتی ہے بل کہ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جو اس کے سحر میں گرفتار نہ ہو۔ یعنی یہ وہ زبان ہے جس کو مختلف مقامات کے لوگوں نے اپنایا اور اس کو فروغ دینے میں معاونت کی۔ خاص طور سے شعرا نے اس زبان کو کافی فروغ دیا۔ ابتدا سے لے کر عصرِ حاضر تک نہ جانے کتنے شعرا جو ہندستان کے باشندے بھی نہیں تھے انھوں نے بھی اس زبان کو اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کا وسیلہ قرار دیا۔ ان کی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو شاعری میں مختلف اسالیب، مختلف رنگ، مختلف تہذیب و تمدن سمٹ کر یکجا ہو گئے، جس کی وجہ سے اس زبان کا دامن وسیع ہوا۔ عصرِ حاضر کے اردو ادب پر اگر نگاہ کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ نہ جانے کتنے ہی شعرا اپنے اپنے انداز میں بیرونِ ہندستان اس کو فروغ دینے میں کام یابی حاصل کر رہے ہیں۔ ان شعرا میں ہندستان کے پڑوسی ملک نیپال کے ایک ممتاز شاعرڈاکٹر ثاقب ؔہارونی بھی پیش پیش ہیں۔جو ادو زبان کے سچے عاشق اور دل دادہ ہیں. حالاں کہ ان کی مادری زبان نیپالی ہے لیکن وہ اردو زبان سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ انھوں نے نہ صرف اردو زبان میں اعلا تعلیم حاصل کی بل کہ اردو کے فروغ کے لیے نیپال میں کارہائے نمایاں بھی انجام دیے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے توسل سے لگاتار اردو شاعری کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس مضمون میں ان کی شاعری پر مختصر تبصرہ کرنا مقصود ہے۔
ڈاکٹر ثاقبؔ ہارونی کا کمال یہ ہے کہ وہ اردو زبان کی روایات کا پاس رکھتے ہوئے دورِ جدید کی بات کہنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ کسی طور اپنی شاعری میں ایسے الفاظ نہیں لاتے جو معیار کے مطابق نہ ہوں۔ اسی لیے کہیں کہیں ان کے یہاں ایسے الفاظ بھی نظر آتے ہیں جو عام طور سے آج کے شعرا اپنی شاعری میں استعمال نہیں کرتے۔مثلاً:
ذہنِ خالی تو تپتا صحرا ہے
اثر مشموس ہو رہا ہے ابھی

کوئی بیڑہ ہے بحرِ ہستی میں
دیکھ مرسوس ہو رہا ہے ابھی
رقم کئے گئے اشعار میں ’مشموس‘ اور ’مرسوس‘ جیسے الفاظ میرے اس دعوے کی دلیل ہیں کہ یہ الفاظ عصرِ حاضر کی اردو شاعری میں عام نہیں لیکن تعریف کی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر ثاقبؔ ہارونی نے ان الفاظ کو اس طرح استعمال کیا ہے کہ ان کی غرابت معلوم نہیں ہوتی۔
ان کے یہاں نہ صرف ڈکشن کے اعتبار سے انفرادیت پائی جاتی ہے بل کہ مضامین برتتے ہوئے بھی وہ اپنا منفرد انداز قائم رکھتے ہیں۔ وہ حالاتِ حاضرہ پر عمیق نگاہ رکھتے ہیں اس لیے ان کی حساس طبیعت شاعری میں ڈھل جاتی ہے۔ مثلاً:
ماندگی کسلِ بدن اور تھکن ہو جیسے
بسترِ گل پہ بھی کانٹوں کی چبھن ہو جیسے

سانس لینا ہوا دشوار فضاؤں میں یہاں
اک تعفن سے اٹا نیل گگن ہو جیسے
یعنی آج کا دور ایک ایسا دور ہے جس میں انسان کے لیے سکون کا کوئی گوشہ نہیں. وہ دن بھر تھکا ہارا محنت و و مشقت کے بعد جب اپنے بستر پر آرام کے لیے پہنچتا ہے تو اسے نیند بھی نہیں آتی. اسے زمانے کی تلخیاں اس قدر ستاتی ہیں کہ اس کا پھول جیسا بستر بھی اسے خاروں بھرا لگتا ہے. وہ اپنے آس پاس اس قدر تعفن کا تصور کرتا ہے کہ اس کے لیے سانس لینا بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔
اس حقیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ زمانہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ یہاں قدم قدم پر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ روایتیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں اور نئی تہذیبیں اور نئے رسم و رواج جنم لے رہے ہیں. ایسے میں یہ اس شخص کے لیے تکلیف کا باعث ہے جو اس کو شعوری طور پر محسوس کر رہا ہے۔ ایسا شخص دیکھتا ہے کہ آج کے سماج میں کوئی یقین اور بھروسے کے لائق نہیں رہا تو اس کے یہاں شک و شبہ جنم لینے لگتا ہے اور وہ کسی پر آسانی سے بھروسہ نہیں کرتا۔ ڈاکٹر ثاقبؔ ہارونی اپنی شاعری میں اس کیفییت کو اس طرح پیش کرتے ہیں:
پہلے کوئی میثاق ہو ایسا بھی ہے ممکن
پھر جرم کا اطلاق ہو ایسا بھی ہے ممکن

کیوں اس کے تعلق سے ہیں شبہات دلوں میں
اک صاحبِ اخلاق ہو ایسا بھی ہے ممکن
وہ اپنے گردو پیش میں جبر و استبداد کو بھی محسوس کرتے ہیں۔ وہ سماج اور معاشرے کی تھوپی ہوئی ریت اور رواج کو گوارا نہیں کرتے. لیکن مجبوراً کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ کہتے ہیں:
ماننا ہے تمہیں بھی اے ثاقبؔ
شہر کی ریت اور رواج بھی ہے
وہ اپنے آس پاس جب نگاہ دوڑاتے ہیں تو انھیں جبر و استبداد کا شکنجہ کستا ہوا نظرآتا ہے۔ اس لیے خود کلامی اور علامت کے پیرایے میں کہتے ہیں:
یوں تو میرے کھییتوں کی ہے نمی بھی بے معنی
بہہ رہی ہے صحرا میں اک ندی بھی بے معنی

تلخ زندگی کے ہیں میرے تجربے ثاقبؔ
خود میں جھانک کر دیکھا یہ خودی بھی بے معنی
وہ زمانے میں خلوص کے خواہاں ہیں لیکن وہ انھیں کہیں نہیں ملتا۔ بل کہ انھیں عصرِ حاضر میں ہر شخص کاروباری نظر آتا ہے. یہاں تک کہ مراسم بھی کاروبار کی صورت اختیار کر چکے ہیں:
خلوص ڈھونڈنے نکلا تو ہر جگہ پایا
ہر ایک فکر ہے سود و زیاں سے وابستہ
ان کی بیدار فکر ان کی راتوں کی نیند تک غائب کر دیتی ہے وہ چاہتے ہیں کہ ماحول کو پر سکون اور امن و آشتی سے پر بنایا جائے لیکن ان کے پاس اس بیمار سماج کا کوئی علاج نہیں:
رات بھر نیند اب نہیں آتی
آخر اس کا کوئی علاج بھی ہے
وہ اپنے آپ پر ہی سوالیہ نشان قائم کرتے ہیں اور اپنے ہی سوالات کے جوابات کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، تو انھیں اس کا حل یہ نظر آتا ہے کہ وہ بھی زمانے کے ساتھ ساتھ چلیں:
کہہ رہا ہے مرے اندر کا یہ انساں آج کل
یوسفی کو چھوڑ کر ثاقبؔ زلیخائی بھی دیکھ
وہ کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتے بل کہ محنت و مشقت سے سماج کو بدلنے کا جذبہ دل میں بیدار رکھتے ہیں۔ ان کی راہ میں چاہے کتنی بھی دشواریاں کیوں نہ ہوں وہ ہمت نہیں ہارتے اور عشاق کی طرح منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ زمانے کو مخاطب بھی کرتے جاتے ہیں:
اتنا آساں بھی نہیں ہے یوں ہی چلنا مستقل
یہ طریقِ عاشقاں ہے آبلہ پائی بھی دیکھ
ڈاکٹر ثاقبؔ ہارونی کی شاعری میں محض زمانے کی کڑوی سچائیاں ہی موجود نہیں بل کہ قدم قدم پر ان کی شاعری میں رومانی کیفیتیں بھی جلوہ افروز نظر آتی ہیں۔ وہ محبوب سے براہِ راست گفتگو کرنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ کہتے ہیں:
اپنی آنکھوں میں سجانے کے لیے آؤ نا
تم مجھے اپنا بنانے کے لیے آؤ نا

ظلمتِ شب میں ہوں آنکھیں مری خیرہ خیرہ
جلوۂ طور دکھانے کے لیے آؤ نا

آج اک آگ سی تن من میں لگی ہے میرے
تم سمندر ہو بجھانے کے لیے آؤ نا
یعنی وہ روایتی شاعر کی طرح محبوب کے وصل کی طلب کرتے ہیں لیکن اس سے کہنے میں قطعی دریغ نہیں کرتے۔ وہ کہیں کہیں اپنی شاعری میں ایسا انداز بھی اختیار کرتے ہیں جس سے ان کے محبوب کی جنس کا پردہ قائم نہیں رہتا۔ مثلاً:
میرے خوابوں میں وہ آتی ہے چلی جاتی ہے
شمعِ امید جلاتی ہے چلی جاتی ہے

انگلیوں سے کبھی وہ ریت کی دیواروں پر
میری تصویر بناتی ہے چلی جاتی ہے
انھیں وصل کے حالات و بیانات پر دست رس حاصل ہے۔نہایت خوب صورتی کے ساتھ وہ اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرتے ہیں:
جب بھی چھت پہ آتے ہو بارشوں کے موسم میں
بھیگ بھیگ جاتے ہو بارشوں کے موسم میں

بھیگتی قباؤں سے جھانکتے ہوئے جوبن
خوب گل کھلاتے ہو بارشوں کے موسم میں
غرض ڈاکٹر ثاقبؔ ہارونی ایک ایسے شاعر ہیں جو روایت کا پرچم تھام کر نئی شاعری کے میدان کو سر کرنے نکلے ہیں۔ ان کی شاعری میں جہاں نیپال کا حسن، وہاں کی خوب صورتی، وہاں کے پری پیکر نظر آتے ہیں وہیں وہ جب کائنات کا حساس نگاہوں سے مشاہدہ کرتے ہیں تو دنیا میں ہونے والے ہر چھوٹے بڑے واقعے سے متاثر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی شاعری میں ایک درد مند دل دھڑکتا ہوا نظر آتا ہے اور یہ دل انھیں سرحدوں کی قید سے آزاد کر دیتا ہے۔

صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: موم کی لڑکی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے