سمجھ میں نہیں آتا کہ عالمی وبا ہے یا عالمی سازش!

سمجھ میں نہیں آتا کہ عالمی وبا ہے یا عالمی سازش!

جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com

انسانوں کے جو بھی مسائل ہوں چاہے وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، ایک طرف مذہب اسلام نے اس کا سب سے بہتر حل پیش کیا ہے تو دوسری طرف حل تلاش کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دل ودماغ عطا کیا ہے. جہاں تک مسلمانوں کا مسئلہ ہے تو رب کے قرآن اور نبی کے فرمان پر عمل کے بغیر کام یابی حاصل نہیں ہوسکتی. اسلام کی تعلیمات نے لوگوں کو رب کی بندگی کرنے اور انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ و رسول کی غلامی کا احسن طریقہ بتایا ہے اور اسی پر عمل پیرا ہونا دونوں جہاں میں سرخ روئی و کام یابی کی ضمانت ہے اور جو لوگ اس پر عمل پیرا ہیں وہ دونوں جہاں میں کام یاب ہیں. آج دنیا کی حرص اور ایک دوسرے پر دنیاوی سبقت حاصل کرنے کی دوڑ میں ہم اطیعو اللہ و اطیعو الرسول سے بہت دور ہوچکے ہیں اور دنیا کی کام یابی کو ہم نے اصل کام یابی سمجھ لیا ہے. جب کہ دین کی خدمت کو چھوڑ کر، اسلام کی تعلیمات سے دور رہ کر ہم کبھی کام یاب ہوہی نہیں سکتے. یہ بات ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آخرت کی کام یابی ہی اصل کامیابی ہے اور یہ کامیابی ہمیں دعوت و تبلیغ اور قرآن و حدیث کے مطابق عمل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی. سیرت رسول اکرم عالم اسلام اور عالم انسانیت کے لیے مشعل راہ تھی، مشعل راہ ہے اور مشعل راہ رہے گی ، راہ نجات تھی، راہ نجات ہے اور راہ نجات رہے گی. آج ہمارے اوپر پوری دنیا میں عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے. اگر مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو ذلت و رسوائی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے. آج پوری دنیا میں مسلمانوں کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور دنیا کی ہر قومیں مسلمانوں کو بدنام کرنے اور مذہب اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے پر تلی ہوئی ہیں اور ہم ہیں کہ رب کے قرآن اور نبی کے فرمان سے دور ہوکر قوم اغیار کا تعاؤن کررہے ہیں اور اپنی تاریخ کو بھلا کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر معجزات کا انتظار کر رہے ہیں. آج کے ساڑھے چودہ سو سال قبل نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک وہ زمانہ آئے گا کہ جب دنیا کی ساری قومیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں گی تو صحابہ کرام نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ کیا اس وقت ہماری تعداد بہت کم ہوگی تو رسول کائنات نے فرمایا کہ نہیں بل کہ مسلمانوں کی تعداد تو سمندر کے جھاگ کے مانند ہوگی لیکن ان کا ایمان بہت کم زور ہوگا، اللہ و رسول سے رشتہ بہت کم زور ہوگا. اب آج کے حالات پر غور کیا جائے اور اپنا محاسبہ کیا جائے تو ساری تصویر صاف ہوجاتی ہے. آج ساری بگاڑ، ساری خرافات، ساری برائیاں، شکوہ شکایت، گالی گلوج، غیبت و چغلی، شراب نوشی، جوا، زناکاری سب کچھ مسلمانوں کے اندر پایا جاتا ہے. یہاں تک کہ دینی کاموں میں بھی ہم نے نام و نمود اور شہرت حاصل کرنے کے لیے خود اپنے ہی ذریعے اس کی شکل بگاڑ دی ہے. شادی بیاہ کا یہ حال ہے کہ ظہر اور عصر کے درمیان کہیں آتش بازی ہوتی ہے معلوم ہوجاتا ہے کہ آج کسی مسلمان کے گھر شادی ہے، بارات کی آمد ہوئی ہے اور بعد نماز مغرب سے عشا یا کچھ اور دیر بعد پٹاخے پھوٹنے کی آواز آتی ہے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ آج کسی مسلمان کے گھر دلہن کی آمد ہوئی ہے. یہ حال ہے آج کے مسلمانوں کا. محسن انسانیت صل اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ نکاح، شادی بیاہ اتنا آسان کرو کہ زنا مشکل ہوجائے لیکن افسوس اُمت نے شادی بیاہ اتنا مہنگا اور اتنا مشکل کردیا کہ زنا آسان ہوگیا. ناجائز تعلقات کی بنیاد پر لڑکے اور لڑکیوں کا موبائل فون پر گھنٹوں گھنٹوں بات چیت کرنا آسان ہوگیا اور معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا اور اب کسی کو نصیحت کرنا بھی مشکل ہوگیا. اصلاح معاشرہ پر مبنی تحریک تقریر و تحریر تک محدود ہوکر رہ گئی، جلسوں کا انعقاد بھی اتنا خرچیلا ہوگیا کہ بس شو پیس بن کر رہ گیا. لوگ اتنا ہی اثر لیتے ہیں کہ جلسہ ہونا چاہیے اور جلسہ سننا چاہیے بس اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں. آج قوم مسلم کا حال تو یہ ہے کہ جمعے کا خطبہ بھی قوم مسلم کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا اس کا بھی کچھ اثر نہیں ہوتا-
ہمیں کھانے پینے والی سنتیں تو معلوم رہتی ہیں، ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول کو کھجور بہت پسند تھی تو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کھجور کے بازار میں چلتے چلتے اللہ کے رسول نے ایک کھجور فروخت کرنے والے کے کھجور کے گچھے میں ہاتھ ڈال دیا اور نکالا تو فرمایا کہ جو تجارت میں دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں ہے، ہمیں یہ معلوم ہے کہ دعوت کھانا سنت ہے تو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا ہے کہ ایک پڑوسی بھر پیٹ کھانا کھا کر سوجائے اور دوسرا پڑوسی بھوکا رہ جائے تو بھر پیٹ کھاکر سونے والا مومن نہیں. غرضے کہ اسلام دین فطرت ہے، اسی وجہ سے اس کی ہر بات فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہوا کرتی ہے مذہب اسلام کی تصویر کو بہتر طریقے سے پیش کرنا چاہیے. کیوں کہ دین اسلام پہلے ایک اچھا انسان دیکھنا چاہتا ہے تب مسلمان. کیوں کہ ایک اچھا انسان ہی سچا مسلمان ہوسکتا ہے. جس کے اندر انسانیت نہیں ہوگی وہ نہ اچھا انسان ہوسکتا ہے نہ سچا مسلمان ہو سکتاہے. اس لیے ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہم نے انسان ہونے کا ، اشرف المخلوقات ہونے کا اور مسلمان ہونے کا کتنا حق ادا کیا. ساری بیماریوں کے لیے جانوروں کو موردِ الزام ٹھہرا دینا مسلے کا حل نہیں ہے. ایک جانور دوسرے جانور کا گھر نہیں جلاتا ایک جانور انسان کی بولی نہیں بولتا لیکن ایک انسان جانور کی بولی بولنے لگتا ہے. جانور تو اگر غلطی بھی کرے تو جانور ہے اسے بہت سی چیزوں کا شعور نہیں ہے لیکن انسان کو تو سوچنے سمجھنے اور فیصلہ لینے کی صلاحیت اللہ نے عطا فرمائی ہے، پھر بھی انسان کی حالت یہ ہے کہ دین کی خلاف ورزی کرتا ہے، سماج معاشرہ و سوسائٹی کی خلاف ورزی کرتا ہے، پڑوسیوں سے بغض و حسد رکھتا ہے. جب کہ پڑوسیوں کے مقام ومرتبہ اور حقوق سے متعلق احادیث کی کتابوں میں یہاں تک ملتا ہے کہ جب نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسليم پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر فرماتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو یہ خدشہ ہونے لگتا کہ کہیں ہماری جائداد میں پڑوسیوں کو آقا صل اللہ علیہ وسلم حصہ دار نہ ٹھہرا دیں. اتنا اونچا مقام ہے پڑوسیوں کا لیکن آج کے انسانوں کا حال یہ ہے کہ پڑوس کی بہن بیٹیوں کی عزت تک پڑوسیوں کی وجہ سے خطرے میں ہے. اگر کچھ اختیارات مل جائیں تو اس کا اتنا ناجائز استعمال کرتا ہے کہ وہ بھول ہی جاتا ہے کہ مظلوم کی دعا کبھی ٹالی نہیں جاتی اور ظلم کی ٹہنی ہمیشہ نہیں پھلتی. چین سے جو کرونا وائرس بیماری آغاز ہوا وہ خود چین کے لوگوں کو احساس کرانے لگا کہ مظلوموں کی دعائیں آسمان تک پہنچ گئیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ایک مظلوم بندے اور اللہ رب العالمین کے مابین کوئی پردہ نہیں ہوتا بل کہ جب ایک مظلوم کے دل سے آہ نکلتی ہے تو آسمان کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں-
اب تو سمجھ میں نہیں آتا ہے کرونا وائرس بیماری ہے یا قہر الٰہی ہے یا کوئی عالمی سازش ہے. تو گویا آج پوری دنیا کے حالات جہاں انسانوں کے لیے تو وہیں بالخصوص مسلمانوں کے لیے سبق آموز ہیں ، درس عبرت ہیں. چین سے اٹھنے والی یہ بیماری دنیا بھر میں پھیلتی چلی گئی. پوری دنیا کے لوگ اس بیماری سے خوف زدہ ہیں. اس سے بچنے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کر رہے ہیں. یہاں تک کہ کثیر تعداد میں لوگ زیارت حرمین شریفین سے محروم ہوگئے. مسلمانوں کو اب تو احساس ہوجانا چاہیے اور ہمیں اپنا اجتماعی و انفرادی محاسبہ کرنا چاہیے. کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے دیگر اقوام کی طرح امت محمدیہ کو عذاب کے ذریعے نہ مٹانے کا اپنے حبیب سے وعدہ کیا ہے، تو عذاب کے جھٹکوں کی وارننگ بھی دی ہے. سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ کیا اسکول و کالج، مدارس و مساجد سے ہی کورونا کے بڑھنے کا خطرہ ہے کہ ان مقامات پر پابندی عائد کی گئی ہے. دوسری جانب سعودی عرب کے حکمراں کے ذریعے عمرہ پر پابندی، حج پر پابندی، بس حج کی رسم ادا کی گئی ہے. جب کہ کورونا کے ماحول میں سعودی عرب کے اندر سنیما ہال کھولے گئے، عورتوں کو ڈرائیوری لائیسنس جاری کیا گیا، عورتوں کے لئے تفریح گاہ بنوائی گئ کیا اس سے کورونا کے بڑھنے کا خطرہ نہیں ہے؟ ماضی کی بنسبت حرمین شریفین کا دروازہ بند ہی کہا جائے گا اور ایک مسلمان کے لیے حرمین شریفین کا دروازہ بند ہونا صرف احتیاطی اقدامات نہ سمجھا جائے بل کہ یہ کسی سازش سے کم نہیں. کیوں کہ عرب حکمرانوں کی جان پنجہ یہود میں ہے. یہ دنیا کی رنگینیوں میں اس قدر ڈوب چکے ہیں کہ انہیں اب احساس ہی نہیں ہے کہ جہاں سے ساری مصیبت ٹل سکتی ہے وہاں پر ہم نے پابندی لگا رکھی ہے. جب کہ یہ عقیدہ اور ایمان ہونا چاہیے کہ ایک مسلمان کو جب حرمین شریفین میں پناہ نہیں مل سکتی تو اسے دنیا میں کہیں پناہ نہیں مل سکتی اور آج ایک وبا سے بچنے کے لیے تم حرمین شریفین کا دروازہ بند کررہے ہو اور دنیاوی رنگ ریلیوں کی اجازت دے رہے ہو کل کہیں پروردگار توبہ کا دروازہ بند کر دے گا تب کیا کرو گے-

جاوید اختر بھارتی ( سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
صاحب تحریر کی دوسری نگارش :قربانی کرو، سنت ابراہیمی ادا کرو فائدہ ہی فائدہ!

نوٹ : مضمون نگار کی رائے سے اشتراک کا متفق ہونا ضروری نہیں.

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے