ڈیجیٹل ایجوکیشن، تعلیم، درس وتدریس کا بدلتا منظر

ڈیجیٹل ایجوکیشن، تعلیم، درس وتدریس کا بدلتا منظر

تعلیم، درس و تدریس اور اکتساب کی موجودہ صورت حال
فاروق طاہر، حیدرآباد، انڈیا.

farooqaims@gmail.com,9700122826

ابتدائے آفرینش سے انسان علم کا متلاشی رہا ہے۔ علم ہی کی بدولت انسانی زندگی میں خوش گوار تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ انسانوں نے علم کو مختلف ذرائع بالخصوص قلم اور قرطاس کی مدد سے اکٹھا و محفوظ کیا۔ یہ ہی ذریعہ اگلی نسلوں تک علم کی منتقلی کا کارگر وسیلہ بھی ثابت ہوا۔ تعلیم وتدریس ایک قدیم پیشہ ہے۔ قدیم مدارس سے دور جدید کے اسکولوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نظام تعلیم میں زبردست تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے اس عہد جدید میں ابھی گرما گرم مباحث جاری ہیں کہ کیا ٹیکنالوجی اساتذہ کا متبادل ثابت ہوگی؟ کیا درس و تدریس کا پیشہ اب زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہ پائے گا؟ یہ سوالات، شک و شبہات اس لیے سر اٹھا رہے ہیں کہ روبوٹس اساتذہ کے مقام پر درس و تدریس کے فرائض انجام دے سکتے ہیں بل کہ چند مقامات پر یہ عمل شروع بھی ہوچکا ہے۔ ان مباحث سے کم و بیش یہ نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں کہ طلبا کا اساتذہ پر انحصار بہت کم ہوجائے گا، کیوں کہ اب حصول علم کے بہت سے متبادل ذرائع موجود و دست یاب ہیں۔ روایتی تعلیم یا قدیم تعلیم کا مرکز و محور اساتذہ ہواکرتے تھے۔ درس و تدریس کا پورا کام ان ہی کے کندھوں پر عائد تھا لیکن فی زمانہ طلبا حصول علم کا سفر از خود انجام دے سکتے ہیں۔ جدید تعلیم نے استاد کے رول و کردار کو بڑی حد تک بدل کر رکھ دیا ہے۔ درس و تدریس کے اس بدلتے منظر میں اساتذہ کے رویوں، استعداد اور مہارتوں میں تبدیلی انتہا ئی اہم ہے۔ اساتذہ کو ٹیکنالوجی سے مربوط تعلیم، جدید تکنیک پر مبنی درس و تدریس اور اکتساب کے طریقوں کو سیکھنے کے لیے خود کو تیارکرنا ہوگا۔حصول علم اور معلومات تک طلبا کی رسائی کو انٹرنیٹ، اسمارٹ فونز اور گوگل تلاش(گوگل سرچ) نے بہت آسان بنا دیا ہے۔ بے شک اساتذہ کا درس و تدریس میں پہلے کی طرح فعال کردارنہیں ہو گا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کا کردار بالکل ناپید ہو کر رہ جائے گا۔
اساتذہ کو معتبر معلومات آن لائن مہیاکرنے ہوں گے تاکہ انٹرنیٹ کی مددسے طلبا ان تک آسانی سے پہنچ سکیں۔ طلبا کی اکتسابی صلاحیتوں اور دل چسپی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو نہ صرف مواد مضمون تخلیق کرنا ہوگا بل کہ ان کی آن لائن فراہمی کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ معلومات کو پاور پوائنٹ، ای بکس، ویڈیوز، آن لائن کوئز(معموں) کی صورت میں آن لائن فراہم کرتے ہوئے یہ سب کام اساتذہ بہ خوبی انجام دے سکتے ہیں۔ کمرۂ جماعت کی حدیں اب متعین و محدود نہیں رہیں بل کہ کلاس روم کے حدود اب ٹوٹ چکے ہیں۔ جس طرح سے ٹیکنالوجی پر مبنی تعلیم سے بیک وقت ہزاروں لاکھوں طلبا عالمی سطح پر فیض یاب ہورہے ہیں اسی طرح اساتذہ کو بھی اپنے علم کو اب ساری دنیا تک پہنچانے کی پوری آزادی حاصل ہوگئی ہے۔
اکیسویں صدی:
اکیسویں صدی میں تعلیم کا زیادہ تر زور زندگی اور پیشہ وارانہ(کیرئیر سازی) مہارتوں کو سکھانے میں معاون اختراعی مہارتوں، معلومات، میڈیا (وسائل) اور ٹیکنالوجی پر صرف کیا جارہا ہے۔ آج طلبا کو اپنی تمام تر توجہ وتوانائی منضبط علم(Disciplinary Knowledge)، ترسیل و مواصلات (Communication)، خول سے باہر جھانکنے، غور و فکر، تنقیدی سوچ، مسائل کا حل اور دریافت و کھوج (Sense of Inquiry) جیسے علوم و فنون سیکھنے میں صرف کرنی چاہیے۔ یہ بات مصدقہ ہے کہ نئی نسل ٹیکنالوجی کی دیوانی ہے، یا یوں کہیے کہ یہ ٹیکنالوجی سے متاثر یا اس کی عادی ہوچکی ہے۔ یہ خوب ہے یا ناخوب یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ان وسائل سے بچوں میں توجہ اورانہماک کا فقدان ضرور پیدا ہوا ہے۔ آج کا طالب علم الجھن، خلفشار اور پریشانی کا شکار ہے۔ دور جدید کے طلبا کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لیے آج اساتذہ کو ایک منصوبہ ساز(Planner)، وسائل فراہم کرنے والا، ڈیجیٹل رہبر، مہندس(Digital Instructor)، ٹیکنالوجی سے محبت کرنے والا، تاحیات ڈیجیٹل لرنر(Lifelong digital Learner) اور ایک حقیقی پیش گو کے طور پر اپنے فرائض منصبی کو ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ طلبا کی طویل تعلیمی ضروریات و خصوصیات کی تکمیل اور انھیں مطلوب مہارتوں سے لیس کرنے کے لیے اساتذہ کو لازمی طورپر کمپیوٹر خواندگی(Computer Literacy) حاصل کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ حرف وصوت اور صورت پر مبنی اکتسابی مواد (Audio Visual Learning Content) بھی تخلیق وتیار کرناچاہیے۔ تعلیمی ویڈیوز میں عبارت کے علاوہ تمام متعامل، باہمی گفت و شنیدکا مواد جیسے صوت(آواز) صورت (Image)، حرکت پذیری (Animation) اور ترسیمی وضاحتوں (Graphics)کو شامل کیا جاتا ہے۔ دراصل یہ وہ اجزا ہیں جو جدید سوشل میڈیا پلیٹ فارمز(سماجی رابطے کے ذرائع) جیسے فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام وغیرہ کو مقبول بناتے ہیں اور اسی وجہ سے طلبا انھیں پسند بھی کرتے ہیں۔
آن لائن تعلیم کو درپیش مسائل/چیالینجنس:
آن لائن تعلیم میں حائل سب سے بڑی دشواری ناقص انٹرنیٹ رابطہ (کنکشن) کی ہے اور یہ مسئلہ تقریباً سبھی ترقی پذیر ممالک کو درپیش ہے۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر کمپیوٹر خواندگی بھی کم ہی پائی جاتی ہے۔ آن لائن تعلیم کی بنیادی خرابیوں میں سے نمایاں خرابی طلبا اور اساتذہ کے درمیان جسمانی تعامل کا فقدان بھی ہے۔ آن لائن تعلیم کے دوران تمام طلبا ایک کمرۂ جماعت میں موجود نہیں رہتے ہیں جس کی وجہ سے ٹیم ورک کا فقدان بھی پایا جانا لازمی امر ہے۔ورچول کام میں طلبا کے درمیان غیر رسمی گفتگو بہت کم ہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان میں جذبہ ہم دردی و صلہ رحمی بھی کم ہی فروغ پاتا ہے۔ اس کے علاوہ طلبا کو درپیش کسی مشکل مسئلہ کے حل میں جسمانی دوری کی وجہ سے استاد فوری مدد فراہم کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ مزید اس کے ایک مخصوص عمر کے بعد اساتذہ میں نئی تدریسی مہارتوں کو سیکھنے کا رجحان، میلان اور دل چسپی بھی کم ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اساتذہ اپنے آپ کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

حالیہ تجربات اور مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آن لائن تعلیم اپنے فوائد اور تاثیر پذیری کے دم پر تمام درپیش مسائل و چیالنجس کو بخوبی عبور کرلے گی۔ اساتذہ برادری اسی بناء پر آن لائن تعلیم کی معید نظرآتی ہے۔ وبا اور وبائی امراض کا بہت جلد خاتمہ ممکن ہے اور یہ ختم بھی ہوجائیں گے لیکن آن لائن تعلیم انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں نہ صرف قائم رہے گی بل کہ اس کی مقبولیت میں ہر دن اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔
آن لائن تعلیم کے چند فوائد ذیل میں بیان کیے جارہے ہیں۔
1۔ آن لائن تعلیم میں لچک پائی جاتی ہے اس کے علاوہ یہ آسان اور سستی بھی ہے۔
2۔ یہ طریقہ تعلیم علاقائی حدود سے ماورا ہے۔ اس کی رسائی کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔
3۔ آن لائن تعلیم سلف پیسڈ ہے۔ سلف پیسڈ تعلیم سے مراد ایک ایساتعلیمی نظام جس میں طلبا کو اپنی رفتار سے اکتساب (آموزش) کا موقع دیا جاتا ہے۔
4۔ مختلف النوع نصاب دست یاب ہیں جنھیں بہت آرام و سکون کے ساتھ مکمل کیا جا سکتا ہے۔
5۔ آن لائن تعلیم قابل تکرار ہوتی ہے۔ کیوں کہ آن لائن تعلیم میں مستعمل ذرائع اور تدریس کو محفوظ (Record) کر لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے طلبا جس قدر اور جتنی بار چاہیں اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
اساتذہ اگر مثبت رویوں کو اختیار کرلیں تو بہت ہی مختصر مدت میں وہ خود کو آن لائن تدریسی ٹیکنالوجی سے آراستہ کرسکتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب اساتذہ تکنیکی مہارتوں سے ہم آہنگ ہوجائیں گے تو پھر دوسری جماعت یا بیچ کو پڑھانا ان کے لیے بہت آسان ہوجائے گا۔ ٹیکنالوجی اساتذہ کو ڈیجیٹل وسائل و کمرۂ جماعت کے انتظام، انصرام، جانچ و تعین قدر میں بھی مددفراہم کرتی ہے۔
خلاصہ گفتگو:
آن لائن طریقہ تعلیم کو مثبت طریقے سے اپنا جائے تو پہلی بار یہ کٹھن ضرور محسوس ہوگا، لیکن یہ طریقہ تعلیم تخلیق و اختراع سے بھر پور ہونے کے ساتھ ساتھ آسان اور سہولت بخش بھی ہے۔ کسی بھی دشواری اور رکاوٹ کو ہمت، استقلال اورحکمت سے سامنا کرتے ہوئے حل کیا جاسکتا ہے۔ آن لائن تدریس کی تیاری میں اساتذہ بالخصوص ٹیکنالوجی سے نابلد اساتذہ کو مشکلیں پیش آسکتی ہیں لیکن مسند تدریس پر ایک استاد اس وقت تک ہی فائز رہتا ہے جب تک وہ طالب علم رہتا ہے۔ جب استاد طالب علم باقی نہیں رہتا ہے تو اس کے اندر کا استاد بھی فوت ہوجاتا ہے۔ تعلیم، درس و اکتساب کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ عار نہ محسوس کرتے ہوئے اساتذہ جدید تعلیمی تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ اور آراستہ کرتے ہوئے ہی بہ خوبی تدریسی فرائض سے عہدہ بر آ ہوسکتے ہیں۔
ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ تعلیم کی ہیئت و ماہیت بھی لگاتار تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ سال 2020 کی ابتدا ہی سے ساری دنیا کوویڈ19-وبا سے نالاں و پریشاں ہے۔کئی ممالک نے وبا پر قابو پانے کے لیے کاروبار زندگی کو یک لخت لاک ڈاؤن کے عنوان سے مسدود کردیا۔ تعلیمی اداروں کی بندش سے اساتذہ کے ساتھ طلبا بھی گھروں تک محدود بل کہ مقید ہوکر رہ گئے ہیں۔ بالمشافہ درس وتدریس اور اکتساب کی راہیں مسدود ہوکر رہ گئی ہیں۔درس و اکتساب کے عمل کو مجروح ہونے سے بچانے کے لیے آن لائن پلیٹ فارمس (ترسیلی رابطوں) جیسے زوم، گوگل میٹ، مائیکروسافٹ ٹیم، ویب ایکس اور کئی دیگر انٹر نیٹ سے مربوط اپلیکیشنز کو بادل نخواستہ استعمال کرنا پڑا۔ اچانک روایتی تعلیم کی مسدودی سے متذکرہ سماجی ترسیلاتی رابطوں کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہوا۔ طلبا ٹکنالوجی سے محبت، رغبت اور وابستگی کی وجہ سے تکنیکی زبانوں، مہارتوں، تکنیکی اصول و ضوابط اور کلیات کو بہت تیزی سے سیکھتے اور جذب کرتے جارہے ہیں۔ اس کے برخلاف اساتذہ کو ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونے میں بہت زیادہ دشواریوں اور دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بیش تر اساتذہ روایتی درس و تدریس بہ الفاظ دیگر روایتی چاک بورڈ طریقہ تدریس کے ذریعے معلومات کی ترسیل میں مہارت رکھتے تھے اور انھوں نے درس و تدریس میں ٹکنالوجی کے استعمال سے خود کو بڑی حد تک دانستہ یا غیر دانستہ طور پر دور رکھاتھا۔ عام طور پرتعلیم میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے اکثر اساتذہ کو گریزاں ہی دیکھا گیا ہے۔ درس و اکتساب کی جدید و تکنیکی مہارتوں سے خود کو لیس کرنے میں تامل و تساہل کی عادت نے انھیں غیرمرئی یعنی آن لائن ٹیچنگ (ورچول ٹیچنگ) کی انجام دہی میں پریشانیوں اور دشواریوں کا شکار کردیا۔ ٹیکنالوجی سے بے تعلقی بیش تر اساتذہ کے لیے ایک چیالنج کی صورت قطار اندر قطار مسائل لے کر وارد ہورہی ہے۔
روایتی تعلیم میں تعلیم کا مرکز و محور اکثر اساتذہ ہوا کرتے تھے۔ آج تعلیمی صورت حال تیزی سے تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ آنے والے دنوں میں معلومات کا حصول اور اخذ و اکتساب کا کام ٹیکنالوجی کی مدد سے طلبا از خود انجام دینے لگیں گے۔ تعلیم، درس و اکتساب کی اس انقلابی تبدیلی سے اساتذہ کا موجودہ کردار یکسر بدل کر رہ جائے گا۔ اساتذہ کی حیثیت ایک معلم و مدرس کے بجائے ایک سہل کار (Facilitator)، اطالیق (Coach,Instructor) وتجزیہ کار (Analyst) کی ہوکررہ جائے گی۔ اساتذہ تعلیم وتربیت اوردرس واکتساب میں ٹیکنالوجی کے انضمام کو اگر قبول کرلیتے ہیں تو آن لائن تعلیم دل چسپ اور فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ خوش قسمتی سے مفت اور سستے سافٹ ویئر دستیاب ہیں۔ موبائل فونز اور ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرس کے ذریعے اور سافٹ وئیر کے استعمال سے گھر پر ہی ریکارڈنگ اسٹوڈیوز کی طرح بہترین ویڈیوز بنائے جاسکتے ہیں۔ آج اسمارٹ فونز مربوط انٹرنیٹ کی سہولت بیش تر طلبا کو کسی نہ کسی صورت حاصل ہے. اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے دام الفت میں گرفتار، نئی نسل(طلبا) ایسے ویڈیوز کو بہت زیادہ پسند بھی کرتی ہے۔ طلبا مضمون، موضوع و مباحث کی بہتر تفہیم و ادراک کے لیے ویڈیوز کی رفتار کو کم کرسکتے ہیں، دوبار، سہ بار بل کہ کئی بار انھیں چلا کر دیکھ سکتے ہیں۔ مابعد وبائی دور، آن لائن تعلیم دنیا کے لیے نئی ضرورہے لیکن یہ اب ایک عام بات ہوچکی ہے۔ اساتذہ کوشکوے شکایات تج کر میدان عمل میں آنے کا وقت ہے۔
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ! خدا کیا کرتا ہے

فاروق طاہر کا یہ مضمون بھی ملاحظہ ہو: ہوم اسکولنگ، تعلیمی نقصان کے ازالے کا ایک متبادل راستہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے