افراد اور اداروں پر تنقید کرنے کی بجائے خود تعمیری پہل کیجیے

افراد اور اداروں پر تنقید کرنے کی بجائے خود تعمیری پہل کیجیے

(تجربات کی روشنی میں نوجوانوں کے نام پیغام)
کامران غنی صبا
تنقید اگر اصلاح کے نقطہ نظر سے ہو تو تنقید میں ہم دردی ہوتی ہے لیکن عموماً ہوتا یہ ہے کہ لوگ تنقید میں اعتدال و توازن برقرار نہیں رکھ پاتے ہیں. ہم میں سے اکثر لوگ دوسروں کے کام میں کیڑا نکالنے میں ایسا مصروف ہوتے ہیں کہ اپنی تعمیری صلاحیت بھی کھو بیٹھتے ہیں. اگر ہم اپنے آس پاس کے چند ایسے لوگوں کی زندگی کا تجزیہ کریں جو منفی تنقید میں ضرورت سے زیادہ دل چسپی لیتے ہیں یا جن کے پاس منصوبے تو بہت ہوتے ہیں لیکن وہ صرف دوسروں سے توقعات رکھتے ہیں تو آپ کے سامنے نتیجہ یہی آئے گا کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کوئی بڑا تعمیری کام نہیں کیا. ایسا نہیں ہے کہ منفی تنقید کرنے اور مشورہ دینے والے سبھی لوگ تخریبی ذہن کے ہوتے ہیں. بعض لوگ شخصی طور پر انتہائی نیک، مخلص اور قوم کا درد رکھنے والے ہوتے ہیں. قومی و ملی درد ہی بسا اوقات ان کے لہجے کو تلخ بنا دیتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں وہ خود بھی غیر شعوری طور پر اسی راہ پر چل پڑتے ہیں جس سے بچنے کا وہ دوسروں کو مشورہ پیش کرتے ہیں.
اگر ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر دوسروں پر تنقید کرنے اور دوسروں سے بڑی بڑی توقعات رکھنے کی بجائے اپنی سطح سے ہی کوشش شروع کریں تو اللہ راستے پیدا کرتا ہے. ورنہ ہماری زندگی صرف گلہ شکوہ کرنے اور کیڑا نکالنے میں ختم ہو جاتی ہے اور ہم اپنی ذات سے قوم کو فائدہ پہنچانا تو دور بسا اوقات نقصان ہی پہنچا بیٹھتے ہیں.
ہم قوم کی تعلیمی پس ماندگی پر آنسو بہاتے ہیں. ادارے اور افراد کو اپنی پستی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں. اگر ہم اس کی جگہ اپنی استطاعت بھر لوگوں کو تعلیم یافتہ کرنے کی کوشش کریں تو کم از کم اپنی عاقبت تو بہتر کر ہی سکتے ہیں. مسلمانوں کا کون سا محلہ، کون سا گاؤں ایسا ہے جہاں معاشی تنگی کی وجہ سے بچے تعلیم سے محروم نہیں ہیں؟ ہم اپنی قیادت کو، اداروں کو ذمہ دار ٹھہرا کر کیا خود بری الذمہ ہو سکتے ہیں؟
اگر آپ واقعی قوم کی حالت سے پریشان ہیں. آپ کے دل میں قومی تڑپ ہے. تو آج سے ہی بسم اللہ کیجیے اور ہم چند دوستوں کے تجربے کی روشنی میں پہل کر کے دیکھیے. ان شاء اللہ بہتر نتائج ظاہر ہوں گے اور آپ کا نام صدقہ جاریہ کے رجسٹر میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے گا.
آپ کے افراد خانہ، رشتہ دار اور احباب جنہیں آپ پر اعتبار ہے، آپ ان سے رفاہی اور فلاحی کاموں کے لیے ماہانہ کچھ رقم حاصل کریں، رقم کی حصولیابی کے لیے ہرگز کسی پر دباؤ نہ بنائیں.
یہ رقوم درج ذیل کاموں میں خرچ کی جا سکتی ہیں:
اپنے گاؤں اور محلے کے ویسے بچوں کی فہرست تیار کریں جو معاشی تنگی کی وجہ سے اسکول یا مدرسہ جانے سے محروم ہیں.
ہر ماہ جمع ہونے والی رقم کے حساب سے بچوں کی تعلیمی کفالت کا نظم کریں.
اپنے آس پاس کے مریضوں، پریشان حالوں کے دکھ درد میں کام آئیں.
کوشش کریں کہ آپ کے کسی پڑوسی کو کسی کے در پر ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے. اگر کوئی بے روزگار ہے تو اسے کسی چھوٹے موٹے روزگار سے جوڑنے کی کوشش کریں.
خدمت کے ذریعہ دعوت دین کا کام بھی آسان ہو جاتا ہے. جو لوگ دعوت دین کے کام سے جڑے ہیں انھیں بطور خاص خدمت خلق کے لیے الگ سے کچھ وقت ضرور نکالنا چاہیے.
ہم لوگوں نے ذاتی طور پر تجربہ کر کے دیکھا ہے کہ صرف تین دوستوں سے شروع ہونے والی تحریک آج الحمد للہ اس مقام پر ہے کہ تقریباً سو سے زائد بچوں کی تعلیمی نگرانی ہو رہی ہے. رشتہ دار، دوست اور احباب از خود تحریک میں شامل ہوتے جا رہے ہیں.
تحریک کو نمود و نمائش سے بچاتے ہوئے آپ بھی اپنے اپنے علاقوں سے شروع کیجیے. ان شاء اللہ لوگ ساتھ ضرور آئیں گے. اگر ہر محلے، علاقے اور گاؤں سے چند باہمت اور مخلص نوجوان اٹھ کھڑے ہوں اور سب کی اجتماعی کوششوں سے کچھ لوگ بھی تعلیم یافتہ، برسر روزگار اور خدمت کے نتیجے میں ہدایت یافتہ ہو گئے تو ہماری یہ کاوش بڑی بڑی عبادتوں پر سبقت لے جائے گی. ان شاء اللہ
اس سلسلہ میں رہنمائی کے لیے ہم ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں.

کامران غنی صبا کی گذشتہ نگارش : مایوسی کے حصار سے باہر نکلیے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے