غیاث الرحمان کے افسانہ منڈاوالی کا تجزیاتی مطالعہ

غیاث الرحمان کے افسانہ منڈاوالی کا تجزیاتی مطالعہ

نثارانجم
اس افسانے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ابتدا سے کناڈا والی فلائٹ کی گڑ گڑاہٹ تک قاری کو یہ بھنک تک نہیں لگتی کہ کافکا کی طرح فکر کو جھٹکا کب کیسے اور کہاں لگے گا؟
البتہ ساس بہو والی چشمک افق پر اخلاقی جگنوؤں کی ٹمٹماہٹ اور افسانے پر طاری شب نور کا سینہ چاک کر بچوں کی طرح جگنو کو بوتل میں بند رکھنے کی خواہش ضرور جاگی تھی لیکن نصیبوں والی اپنی سحر میں باندھ فکر کی انگلی تھامے منڈاولی کے ٹرالی تک لے أئی جہاں افسانے کے فسوں نے قاری کو اس کے وجود کے ساتھ جھنجھوڑ دیا۔
سلیس اور دل کش زبان ،عمدہ انداز بیان اور مطالعاتی حسن سے مالا مال افسانہ ہے۔ بہتر ین ناموں والے کرداروں کے ساتھ نقش و نگار والے پیراۓ اظہار بھی ہیں۔ ہونٹوں پر چھل سے رقص کرتا ہوا نرم،نازک انداز تخاطب بھی ۔ گلاب کی پنکھڑی اور شہد کے بلینڈ سے تر صندلی تالو سے مس کرتی ہوئی مصری کی ڈلیوں سے لدی پھدی زبان کی ملکہ نصیبوں والی بہو بھی ہے جو اپنی خوش دامن منڈاوالی کو رجھاتی ہوئی مل جاتی ہے۔
"اے سکھ ویرا۔۔۔۔اماں کو ابھی تک کھڑا ہی رکھا۔ "
"اما ں کو پیروں میں کتنا درد ہورہا ہوگا۔
” ماں کو پرانا گٹھیا ہے۔تمہیں اتنا بھی خیال نہیں”
دل موہ لینے والی موہنی کی زبان کی گلابی پرت کے بہت نیچے کل اور چھل جیسا سکنڈ نیچر کی خباثت بھی ہے جو اپنے مفاد پر کنڈلی مارے بیٹھی ہے۔ قاری کے معیاری اور خوش اخلاقی یارڈ اسٹیک Yardstick پر
مسکراتی ،ہم دردی کے پھوہار برساتی ،لبھاتی مرصع ، مقفی اور مقناطیسی تیور اخلاق کی رنگوں کی پالکی سے اتر ساس کے پیروں کے پاس بچھ جانے والی بہو ہے جو اپنے مکالمے، اپنی شیرینی لہجے اور سلوک حسنہ سے ساس کے سادہ لوح دل میں اتر جاتی ہے ۔یہ بڑے گھر کی بیٹی والی چھل سے بھری رنگولیاں ہیں جو قاری کے روم روم میں حلاوت اور اخلا قی مٹھاس گھول دیتی ہیں۔قاری بہو کے شیریں لہجے کے سحر میں اس کی محبت والی شبنمی آنچ کو اپنے دل پر ایک عقیدت بھرے بوسے کے لمس کو محسوس کرتا ہے ۔بہو ایسی کہ مولوی نذیر احمد کی اصغری کی طرح لوگ گھر کا پتہ پوچھنے لگیں اور پرورش کے اس گہوارے کی تلاش شروع ہوجاۓ۔

"اے سکھ ویر اماّں کو پرانا گھٹیا ہے ۔ "۔
"اماں، تب تک آپ اس ٹرالی پر بیٹھ جاؤ۔”
"اماّں ، اپنا سر، کان اور چھاتی اچھی طر ح ڈھک لو موسم ٹھنڈا ہو گیا ہے ۔”
"اماں پیر سیدھے کر لو ۔”
"اے بیٹی تو میرا کتنا دھیان رکھتی ہے ۔”
"اے اماّں گرو کی سوگندھ میں آپ کو اپنی سگی ماں ہی سمجھ رہی ہوں ۔”

یہاں ساس ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک بیٹے کو جنم دینے والی وہ ماں ہے جو اس نسبت سے منڈا والی کی طرح مشہور ہو جاتی ہے کہ برسوں بعد اس گاؤں میں کسی نے بیٹے (منڈے)کو جنم دیا تھا۔سکھ ویر کی پیدائش گاؤں میں وقار کی دیوار کی طرح اس ماں کے گرد نام پہچان اور سماجی تکریم کی طرح کھڑی ہو جاتی ہے اور اسے *منڈاوالی* بنا دیتی ہے۔ اس دیوار کے اٹھنے کے تین سال کے اندر ہی فوجی شوہر کی موت سے منڈاوالی کے سر پر تنی وہ مضبوط محافظت والی چھت ٹوٹ کر اس کے پیر وں تلے آجاتی ہے لیکن سرکاری عطیہ کی زمین بن کر بچھ جاتی ہے۔
منڈاوالی چھت سے محروم، سرکاری عطیہ والی زمین کو اپنی عقیدت کی آنچل سے باندھے، ناف سے اوپرتک کی صابرانہ اور مجاہدانہ زندگی بڑی رضامندی اور خود سپر دگی کے ساتھ جیتی آئی ہے ۔ سکھ ویر کی پرورش پرداخت سے کناڈا تک اس کے گرد اس وقت بھی ایک بیٹے کی ماں ہونے کی فخریہ عظمت اور تکر یم والی مضبوط دیوار ہے ۔جس کے حصار میں رہنا اسے فکری زعم عطا کرتا ہے ۔اس کی چھاتی پر منڈے کا تمغہ فخر کی طرح اس کی شخصیت سے نتھی ہے۔
بہو اور بیٹے کے کہنے پر عقیدت کی أنٹی سے بندھی سر کاری عطیے والی زمین کے کاغذات کو بھیگی آنکھوں کے ساتھ سونپ دیتی ہے۔ اب بیٹے اور بہوکے ساتھ کناڈا جانے کےلیے تیار بیٹھی ہے۔
بیٹا ماں کے لیے وہیل چئیرWheel chair لانے گیا ہے۔ نصیبوں والی بہو ساس کے پاؤں کے پاس عقیدت اور محبت کے گھڑے پی شرشاربیٹھی ہے۔
سکھ ویرا کے انتظار میں منڈاوالی جب ٹرالی پر آنکھیں کھولتی ہے تو منڈے کے فخر والی دیوار کے ملبے تلے دبی سردی میں سن ہوچکی تھی۔۔شوہر کی موت سے چھت اڑگئ تھی آج چھل نے پاؤں کے نیچے سے زمین بھی کھینچ لی۔
منڈاوالی نےجس دیوار کو اپنے ہاتھوں سنوارا، ناموس عظمت والی دیوار بنائی اور جس سے سے پیٹھ لگا کر سہارا کے لیے بیٹھی تھی اسی دیواروں کی سوراخوں میں چھپے چھل کے بچھو کی ڈنک کی شکار ہوگئی اور اس ناموسی اور حفاظتی دیوار کا ملبہ اسی کے جسم پر آ گرا ۔منڈا پاؤں کے نیچے سے واہے گرو کی سورگ چھوڑ زمین نکال لے گیا۔منڈاوالی بغیر چھت اور زمین کے اپنے غرور کے تمغے کی چبھن کو شعور دل میں شدت سے محسوس کرتی ہے۔ مگر سفاکیت کی اس شدت کا درد قاری اپنی جلد پر محسوس نہیں کرتا۔
افسانے کے پہلےحصے میں بہو کے ذریعہ نرم گفتاری اور شیشیے میں اتارنے کا عمل ہوائی اڈے پر ہی کیوں جب کہ کاغذات اور زمین کے ڈیلر سے معا ملات پہلے ہی طے ہوگئے تھے۔ہوائی اڈے پر محبت والے چھل اور ہم دردی کا مظاہرہ ساس کو زک دینے کے بجاۓ قاری کو ہوائی اڈے پر بہو کے بہتر ین برتاؤ اور چھل محبوب سے منڈاوالی کو لبھا نےسے زیادہ قاری کو چکما دینے کا انداز جھلکتا ہے۔ مذکورہ افسانے میں چھل کے گردش کرتے ہوۓ جام فطری حصہ نہیں بن پاۓ ہیں ۔ماں کے بڑے دکھ پر پل بھر میں لٹ جانے کے احساس کاغلبہ زیادہ ہے۔
ائیر پورٹ پر بے یار و مددگار چھوڑ جانا ایک المناک سفاکیت کو دکھاتا ہے۔یہاں فطری رنگ سے زیادہ مصنوعی رنگ کا عمل دخل ہے۔
مجموعی طور ایک متاثر کن افسانے پر غیاث الرحمان صاحب کو مبارک باد۔

نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی پڑھیں : ہاؤس ہوسٹس

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے