موجودہ حالات میں کرنے کے چند کام

موجودہ حالات میں کرنے کے چند کام

محمدقمرانجم فیضی
رابطہ نمبر۔6393021704
اس وقت دوبارہ ملک ایک طرف کووڈ کی تباہ کاریوں سے دوچار ہے تو دوسری طرف سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے ۔میں ملک کے تمام باشندوں کو کووڈ سے سبق لینے اور اپنے حقیقی خالق و مالک کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتا ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی کی بھیجی ہوئی تعلیمات کو نظر انداز کرکے انسانی معاشرے کی تشکیل کی جتنی صورتیں اختیار کی گئی ہیں ان سب کے بڑے نقائص اور عیوب بے نقاب ہوچکے ہیں اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت شدید تر ہوگئی ہے ۔ میں کووڈ کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے سلسلے میں تعزیت کا اظہار کرتا ہوں اور ان تمام افراد اور خاندانوں سے ہم دردی کا اظہار کرتا ہوں جو کووڈ سے متاثر ہیں، اس کے نتیجے میں ہونے والی مالی پریشانیوں سے دوچار ہیں ، یا اس دوران اظہار رائے کے جرم میں انتظامیہ اور پولیس کے مظالم کا شکار ہوئے ہیں ۔میں ملک کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورت حال پر اپنی فکر مندی کا اظہار کرتا ہوں ، عالم اسلام کی صورت حال پر تشویش ظاہر کرتا ہوں اور ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی ذمہ داریاں یاد دلانا چاہتا ہوں.
(1)ملک کو معاشی بحران سے بچائیں: ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے کسی تیاری کا موقع دیے بغیر 24مارچ 2020 سے اکیس دن کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیاتھا۔ اس غیر متوقع اعلان نے 130 ملین لوگوں کو سنگین بحران سے دوچار کردیا تھا۔اسی طرح عوام کو پریشانی میں مبتلا کرنے والا نوٹ بندی کا اعلان نومبر 2016 میں کیا گیا تھا۔اس لاک ڈاؤن نے کروڑوں لوگوں کو کھانے سے محروم ، بے گھر اور بے روزگار کردیا اور ہزاروں لوگ موت کا نوالہ بن گئے تھے، اسی طرح ملک میں بڑے پیمانے پر لوگ اور خاص طور سے محنت کش طبقہ جنوب سے شمال اور مغرب سے مشرق کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوا تھا، اور اب 2021/ میں بھی وہی سب کچھ ہو رہا ہے، آکسیجن کی کمی، اسپتالوں کی نا گفتہ بہ حالت، اور انتظامیہ کی لا پرواہی سے آج شمشان گھاٹوں پر صرف اور صرف چِتائیں ہی جل رہی ہیں، اور ان کی خوف ناک اور کالے دھوئیں سے شہر در شہر کی فضاؤں میں مہیب سائے گھوم رہے ہیں، یہ سب کچھ واضح طور پر حکومت کی بد انتظامی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے ہوا، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ کووڈ سے متاثر ہوئے ، بہت بڑی تعداد بے روزگار ہوئی ، ملک کی جی ڈی پی بہت نیچے آگئی۔اورشرح ترقی منفی ہوجانے کے درپے ہے۔ بحران سے نپٹنے کے لیے مرکزی حکومت ، ریاستی حکومتوں کی طرف سے جو بھی کوششیں ہوئی ہیں وہ ناکافی ہیں ، تاہم موجودہ صورت حال کی سنگینی تقاضا کرتی ہے کہ حکومت مختلف حربوں سے اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے بجائے پوری توجہ ملک کے حالات کو بہتر بنانے پر مرکوز کرے ۔ نعروں کے بجائے وسیع تر قومی مفاہمت کے ساتھ حکمت عملی اختیار کی جائے اور پارٹی لائن سے اوپر اٹھ کر ملک کے تمام طبقات کا اعتماد حاصل کرکے فوری اقدامات کئے جائیں۔ کووڈ کی تباہ کاریوں اور اس کا مقابلہ کرنے میں ملک کے نظام معیشت اور نظام صحت کی بے بسی کے پیچھے ملک میں پھیلا ہوا کرپشن اور غیر عوام دوست معاشی پالیسیوں کا بھی بڑا کردار ہے ۔ وقت کا ناگزیر تقاضا ہے کہ فوری وقتی اقدامات کے ساتھ ساتھ اور ان سے آگے بڑھ کر ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں ، ملک کی معاشی پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے ، نج کاری کی طرف بڑھتے قدموں کو روکا جائے ، صحت وتعلیم کی تجارت کاری سے باز رہا جائے اور بجٹ کے بڑے حصے کو عوام کے رفاہ اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے مختص کیا جائے۔ ملک کی اس سنگین صورت حال سےنپٹنے کے لیے حکومت پر تکیہ کرنا ہرگز کافی نہیں ہوسکتا ہے ، اس کے لیے عوامی بیداری اور احساس ذمہ داری ناگزیر ہے ۔ عوام کو ہر طرح کی تفریق سے بالاتر ہوکر بھائی چارے کے ماحول کو بڑھانا چاہئے اور باہم کفالت کے رجحان کو فروغ دینا چاہئے ، جو لوگ بے روزگار ہیں ، یا کووڈ کی وجہ سے ناقابل برداشت اخراجات کا سامنا کررہے ہیں ، ان کی کفالت کے لئے معاشرے کے تمام افراد بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ، یہ انسانیت کا تقاضا ہے ، جو سبھی پر عائد ہوتاہے ۔
(٢) ملک کو سیاسی بحران سے باہر نکالیں: اگر ایک طرف ملک معاشی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے تو دوسری طرف وہ سیاسی بحران سے بری طرح دوچار ہوچکا ہے۔ آئینی اداروں کی خود مختاری پر بڑے اور ناقابل نظر انداز سوالیہ نشانات کھڑے ہوگئے ہیں ۔ اظہارِ اختلاف کی آزادی شدید خطرے سے دوچار ہے ، عدلیہ کے اعلیٰ ترین اداروں سے جاری ہونے والے فیصلے پوری دنیا میں تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں ، حزبِ اقتدار ملک کی اقلیتوں کے خلاف مسلسل جارحیت کا مظاہرہ کررہی ہے تو حزب اختلاف کا رول ناقابل ذکر ہوکر رہ گیا ہے ۔ موجودہ حکومت کی اقلیتوں ، دلتوں ، کم زور طبقات اور خاص طور سے مسلم مخالف پالیسیاں اور فیصلے ملک کی جمہوری پہچان کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہیں ۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ایک خاص طبقے کا کردار ملک میں یکجہتی کی فضا کو مسموم کرنے والا ہے ، میڈیا اور سوشل میڈیا میں نفرت پھیلانے والی باتیں اور ان پر حکومت کی خاموشی اور بسا اوقات سرپرستی، ملک کی اقلیتوں کے اندر بے اعتمادی اور غصہ کا سبب بن رہی ہے ۔ این آر سی ، سی اے اے اور این پی آرکے علاوہ اس لاک ڈاؤن میں آکسیجن اور بےجا الزامات عائد کرکے قیدوبند سے دوچار کیا جارہا ہے، وہ نہایت قابل مذمت ہے ۔ حکومت کی اولین ذمہ داری اور آئین سے وفاداری کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ وہ آئین اور آئینی اداروں پر ملک کے تمام طبقات کےاعتماد کی حفاظت کرے ۔ نیز سیاسی بحران کی یہ صورت حال ملک کے تمام لوگوں کے لیے فکر مندی کا باعث ہونی چاہیے.
(٣)عالم اسلام کی تشویش ناک صورت حال : عالم اسلام کے مختلف خطوں میں برسوں سے جاری خانہ جنگی تشویش ناک ہے ۔ ان خانہ جنگیوں میں لاکھوں جانیں تلف ہوئیں اور نا قابل شمار مالی نقصانات لاحق ہوچکے ہیں ۔ صورت حال کی اس خرابی کے لیے عالمی طاقتیں بھی یقیناً ذمہ دار ہیں ، تاہم اسے سنبھالنے اور درست کرنے کی اولین ذمہ داری امت مسلمہ پر عائد ہوتی ہے ۔ ضروری ہے کہ ان خانہ جنگیوں کے اسباب کی صحیح تشخیص کی جائے اور ان کے سدِّ باب کی عالمی سطح پر مہم چلائی جائے ۔بعض مسلم ممالک میں سیاسی بالیدگی اور حقوق انسانی کی صورت حال تشویش ناک ہے ، ان ملکوں میں اظہارِ رائے پر پابندی ہے اور اصلاح کی پرامن کوششوں کے جرم میں ہزاروں افراد برسہا برس سے جیلوں میں بند ہیں ۔مسلم ممالک کی یہ صورت حال عالمی سطح پر ان کی تصویر کو خراب کرنے والی ہے اور ان کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ اسےتبدیل کرنےکے لئے تشدّد سے مکمل پرہیز کرتے ہوئے مسلسل اور طویل پرامن جدوجہد ضروری ہے ۔
(٤)ہندوستانی مسلمان حوصلے کے ساتھ اپنا فرض نبھائیں :ہندوستانی مسلمانوں کو وطن عزیز میں جن مسائل کا سامنا ہے ، ان میں سب سے سنگین مسئلہ بڑھتی ہوئی فسطائیت اور رسول پاک کی بارگاہ میں گستاخیوں کا سلسلۂ دراز ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ طوفان مزید بلاخیز ہوتا چلاجارہا ہے ۔ یقیناً فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کا یہ ماحول نیا نہیں ہے ۔ ملک میں نفرت اور تعصب کو ہوا دینے اور مسلمانوں کے خلاف فسطائی طاقتوں کے گم راہ کن پروپیگنڈے کی ایک پوری تاریخ موجود ہے ۔البتہ حالیہ برسوں میں جب سے فرقہ پرستی اور فسطائیت کے اس رجحان کو سرکاری چشم پوشی حاصل ہوئی ، صورتِ حال خاصی سنگین ہوگئی ہے ۔ نفرت اور فسطائیت کے اس انتہائی خطرناک اورموذی وائرس سے چھٹکارا پانے اور برادرانِ وطن کے ذہنوں میں مسلمانوں سے متعلق پیدا کی گئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا ایک مؤثر طریقہ خدمتِ خلق اور فلاحِ انسانیت کی سرگرمیاں اور اسلامی اخلاقیات کے عملی دعوتی مظاہر ہیں ، جس کی روشن مثال ملک کے مسلمانوں نے کووڈ کے دوران پیش کی ہے ۔ پورے ملک میں مسلمانوں نے لاک ڈاؤن کے دوران مصیبت کی اس گھڑی میں بلا تفریق مذہب وملت اپنے ضرورت مند اور مصیبت زدہ بھائیوں کی مثالی اور والہانہ انداز میں مدد کی ۔ مسلم تنظیمیں اور مسلم این جی اوز بھی خدمتِ خلق کے معاملے میں پیش پیش رہیں ۔ اس دوران جماعت اسلامی نے بھی ملک بھر میں مہماتی انداز سے ریلیف کا کام کیا اور ملک و ملت کی رہ نمائی کے لیے بروقت اپیلیں جاری کیں ۔ مسلم امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدمت و دعوت کی راہ پر صبر وتحمل اور عزم واستقامت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ۔
تعلیمی اور معاشی لحاظ سے مسلمانوں کی صورت حال بہت توجہ طلب اور منظم جدجہد کی متقاضی ہے ۔ ملت اسلامیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک نئی فکرو سوچ کے ساتھ تعلیمی اور معاشی ترقی کی منصوبہ بندی کرے ۔ ملک کی نئی تعلیمی پالیسی کی کم زوریوں پر تنقید کے ساتھ اس میں موجود امکانات کو اپنی تعلیمی ترقی کے لیے استعمال کرے ۔ اسی طرح ملک کے قوانین اور ضوابط سے عدم واقفیت اور ایک حد تک لاپروائی آنے والے وقتوں میں دشواریوں میں اضافہ کرسکتی ہے ۔ مسلمانوں کی این جی اوز ، تنظیموں اور اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام کام ملک کے قانون کے مطابق تمام ضروری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انجام دیں ۔ وہیں مسلمانوں کو اپنی تمام قانونی دستاویزات کی تکمیل کے لیے سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے ۔ یہ حقیقت نگاہوں کے سامنے رہنی چاہئے کہ درپیش چیلنجوں اور پریشان کن حالات سے نپٹنے کے لیے تمام ضروری تدبیریں اختیار کرتے ہوئے ، نصب العین سے گہرا تعلق بہرحال ضروری ہے ، مسلمانوں کی حقیقی کامیابی کا انحصار ان کی اپنے نصب العین سے وابستگی پر ہے ۔

صاحب مضمون کا یہ مضمون بھی ملاحظہ فرمائیں : فضائل شب برات اور آج کا مسلمان

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے