آہ! میرا ہم نوا نہ رہا

آہ! میرا ہم نوا نہ رہا

(خراج محبت اور تعزیت)

سوگوار:
محمد شہباز عالم مصباحی
گنجریا، اسلام پور، مغربی بنگال

سنجیدہ خوانی اور تحریر و قلم سے سنجیدہ دل چسپی کی وجہ سے میں منتخب قلم کاروں کو ہی فیس بُک پر پڑھتاہوں اور وہ بھی وقت ملنے پر، لیکن حضرت مولانا ذاکر دیناج پوری کی نجی تحریروں کو فیس بُک پر دیکھتے ہی میں پڑھتا تھا، خاص طور پر سورجا پوری معاشرے کی خرافات کی اصلاح کے حوالے سے ان کی بیش قیمت نگارشات کو پڑھتا بھی تھا اور اپنی وال سے شیئر بھی کرتا تھا، جس پر وہ بے حد مشکور و ممنون ہوتے اور سرجی اور حضرت کہہ کر جزاک اللہ خیرا یا شکریہ کہتے۔ یہ ان کے بڑپن کی دلیل تھی کہ اپنے سے عمر میں چھوٹے لوگوں کو بھی سر جی یا حضرت کہتے تھے اور وہ بھی ایک صاحب قلم اور صاحب بصیرت ہونے کے باوجود، جب کہ عموما حال یہ ہے کہ نو سکھیے قلم کار بھی اپنے سے بڑوں کی عزت و آبرو کی کوئی پروا نہیں کرتے ہیں۔

حضرت مولانا ذاکر دیناج پوری صاحب (متوطن: ڈانگی پاڑہ، گوا گاؤں، گوال پوکھر، مغربی بنگال) جب بھی لکھتے تھے مضمون کی شکل میں ہو یا چھوٹی پوسٹ کی شکل میں چشم کشا، فکر انگیز اور بصیرت افروز لکھتے تھے۔ ان کے مضامین میں ایک بڑی خوبی یہ دیکھی کہ وہ ہر منظر کی بڑی خوب صورت تعبیر کر لیتے تھے جو ان کی قادر الکلامی اور زبان دانی کی دلیل تھی۔

ان کی جن تحریروں نے انہیں پورے علاقے میں معروف و مشہور کیا وہ ان کی سورجا پوری بولی میں تحریریں ہیں۔ منگلو اور بدھوا جیسے افسانوی کرداروں کے ذریعے انہوں نے سورجا پوری معاشرے کی اکثر خرافات، بدعات، بے راہ رویوں اور خرابیوں کی اصلاح کے حوالے سے بہترین نگارشات لکھیں۔ خاص طور پر روایتی اور غیر مفید جلسوں کی اصلاح پر ان کی تحریروں کو فیس بُک دنیا میں کافی پذیرائی ملی اور مجھے بھی بے حد پسند آئیں۔ ان تحریروں کو پڑھ کر لگتا تھا کہ ذاکر صاحب میرے دل کی بات کہہ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں ان تحریروں کو ضرور شیئر کرتا تھا۔ وہ تحریریں افسانوی رنگ میں تنقیدی ہونے کے باوجود کافی حد تک مزاحیہ بھی ہوتی تھیں جو قارئین کو ہنساتی بھی تھیں اور اصلاح کا درس بھی دیتی تھیں۔ طنز میں مزاح کا رنگ بھرنا اور پھر اسے ایک کہانی کی شکل میں پیش کرنا آسان کام نہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اس طرح کے اسلوب میں اردو میں مجتبی حسین لکھتے تھے۔ ذاکر صاحب سورجا پوری زبان کے واقعی ایک عظیم طنز و مزاح نگار تھے۔ سورجا پوری زبان کی جب بھی ادبی تاریخ لکھی جائے گی تو طنز و مزاح کے حوالے سے ذاکر صاحب کا نام اولین فہرست میں ہوگا۔ ذاکر صاحب اسلوب کے ساتھ پیش کش کے فن سے بھی واقف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ طویل تحریریں فیس بُک پر بہت کم پڑھی جاتی ہیں. یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی طویل طنزیہ و مزاحیہ تحریروں کو کئی قسطوں میں پیش کرتے تھے اور ہر قسط کا خاتمہ ایسے انداز میں کرتے تھے کہ قاری کو اگلی قسط پڑھنے کا بے صبری سے انتظار رہتا۔

حضرت ذاکر صاحب تمام سنی بریلوی تنظیموں کے ہمدرد و خیر خواہ تھے۔ آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ پر غیروں سے زیادہ اپنوں کی کرم فرمائیاں رہیں اور رہتی ہیں، لیکن حضرت ذاکر صاحب کو کبھی بھی بورڈ پر کسی قسم کی تنقید کرتے نہیں دیکھا، بلکہ انہوں نے ہمیشہ بورڈ کو سراہا اور بورڈ والوں کی حوصلہ افزائی کی اور ایک بار انہوں نے بورڈ کے قومی صدر حضرت اشرف ملت کی دعوت کے لئے مجھے واٹس ایپ پر مسیج بھی کیا اور میں نے دعوت منظور بھی کرالی، لیکن کسی ناگزیر سبب کی بنیاد پر وہ جلسہ نہیں ہو پایا اور یوں ذاکر صاحب سے بالمشافہ ملاقات سے محرومی رہی، کیوں کہ بہت امید تھی کہ اس جلسے میں وہ بھی رہتے۔ علماء و مشائخ بورڈ کے علاوہ ہر سنی بریلوی تنظیم کے حوالے سے ان کی یہی سوچ تھی اور وہ کسی بھی تنظیم پر طنز و تعریض نہیں کرتے تھے، بلکہ ان تنظیموں کو وہ غنیمت سمجھتے تھے کہ ہمارے بریلوی معاشرے میں جہاں نظم و ضبط کا بہت فقدان ہے، اگر بعض لوگ منظم ہوکر اپنی استطاعت بھر کام کرتے ہیں تو یہی بہت بڑی بات ہے اور ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ایسی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرکے ہم انہیں اور آگے بڑھائیں۔ وہ خود بھی فیس بُک پر فیضان اسلام نام سے ایک بڑا منظم گروپ چلاتے تھے۔ سنی بریلوی تنظیموں سے ہم دردی کے علاوہ ہندوستان کی موجودہ مسلم مخالف زہریلی فضا کو دیکھ کر اکثر بصیرت مند افراد کی طرح وہ بھی ملی مشترکہ مسائل کے حوالے سے اپنے اپنے مسلکی دائرے میں رہ کر بین المسالک اتحاد کے قائل تھے۔

ذاکر صاحب کے اس طرح بے وقت چلے جانے سے کافی خلا ہوگیا۔ اس وبا نے ایک قیمتی شخصیت کو ہم سے چھین لیا۔ وہ تھے تو لکھتے تھے اور وہی لکھتے تھے جس پر ہم لکھنا چاہتے تھے اور پھر ان کی تحریر دیکھ کر لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی اور پھر ہم کسی دوسرے کام میں لگ جاتے تھے۔ وہ ہمارے ہم نوا تھے، ہم فکر تھے، ہم خیال تھے، ہم درد تھے۔ اب جب اس دار فانی کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں تو اب ان کی اہمیت کا احساس ہو رہا ہے۔ اور گئے بھی تو اس طرح کہ اپنے فیس بُک احباب میں سے کسی کو کانوں کان خبر لگنے نہ دی۔ در اصل وہ ایک صابر و شاکر مزاج کے انسان تھے۔ ایسے لوگ اپنا دکھ درد اپنے رب کے علاوہ دوسروں سے بہت کم بیان کرتے ہیں. ہاں کچھ دن پہلے انہوں نے اپنی طبیعت کی ناسازی کی خبر دی تھی اور پھر بتایا تھا کہ اب طبیعت بحال ہوگئی ہے، البتہ سانس لینے میں کچھ پریشانی ہے تو ہم مطمئن ہوگئے تھے، لیکن کسے معلوم تھا کہ اپنا یہ ہم نوا اطمینان کی خبر دے کر خاموشی سے ہمیں ہی خیر آباد کہنے والا ہے۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ کل شب 26 اپریل، 2021 میں وہ سوئے فردوس روانہ ہو چکے ہیں اور رات ہی میں تدفین بھی ہو چکی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون.

سنے کون قصۂ دردِ دل، میرا غم گسار چلا گیا
جسے آشناؤں کا پاس تھا ،وہ وفا شعار چلا گیا

ذاکر صاحب کے اوصاف حمیدہ میں سے ان کی زود نگاری، حق گوئی، بے باکی، بے تعصبی، خوش اخلاقی، ہم دردی و خیر خواہی، سماجی و سیاسی ادراک، مفکرانہ ذہن، ناقدانہ بصیرت جیسے اوصاف قابلِ ذکر ہیں اور اپنے ان اوصاف کی بنیاد پر وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ رب کریم ان کی دینی، ملی اور سماجی خدمات قبول فرمائے اور باغ فردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور ان کے اہل و عیال کو صبر جمیل سے نوازے اور ان کی غیبی امداد فرمائے۔ فیس بُک کے تمامی احباب سے حضرت ذاکر صاحب کے ایصال ثواب کے لئے ایک مرتبہ فاتحہ خوانی اور دعا کی خصوصی درخواست ہے۔ اس کے ساتھ اس ماہ مقدس میں اس وبا کے خاتمے اور اس سے متاثر افراد کی صحت یابی کے لئے بھی ضرور دعا کریں۔ اس بے ثبات زندگی کو اس وبا نے مزید بے ثبات بنا دیا ہے۔ نہ معلوم کہ کب کس کو یہ اپنا لقمۂ تر بنالے۔ اس لئے ایک دوسرے کے گلے شکوے کو معاف کریں اور ایک دوسرے کے حق میں دعائے خیر بھی کرتے رہیں۔ اللہ بس، باقی ہوس۔ رہے نام اللہ کا۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے