نریندر مودی اور امِت شاہ کے عین مطابق حکومتِ بِہار کو ظالم اور جابر پولیس درکارہے

نریندر مودی اور امِت شاہ کے عین مطابق حکومتِ بِہار کو ظالم اور جابر پولیس درکارہے

 


بِہار ملٹری پولیس کے نام بدلنے کے بہانے حکومتِ بِہار نے ایک ایسا قانون بنایاجس سے پولیس کو  بے پناہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے اور عوام پر خطرات کے بادل منڈرانے لگیں گے۔

صفدرامام قادری
صدر شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

ابھی چند دنوں پہلے لوگوں نے اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ بِہار کی پولیس قانون ساز اسمبلی میں داخل ہو گئی اور اسپیکر کے دفتر کے سامنے پُر اَمن احتجاج کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کے اسمبلی ممبران کو مارتے پیٖٹتے وہاں سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوئی۔اس واقعے کے خلاف گذشتہ جمعہ کو بِہار کی سطح پر اپوزیشن نے بند کا اہتمام کیا تھا۔ جسے عوام کی خاص معاونت حاصل رہی اور یہ تسلیم کیا گیا کہ پورے بِہار میں یہ بند بالعموم عوامی احتجاج کے اظہار کی پیش کش میں کامیاب رہا۔بھارتیہ جنتا پارٹی کونئے نئے قوانین بنانے میں خاص دل چسپی رہی ہے اور ہر قانون میں پولیس انتظامیہ کو بے پناہ اختیارات دے کر اُسے ظلم و جبر کی قانونی اجازت دے دی جاتی ہے۔بار بار ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ اس سلسلے سے حکومت کے عوام کو خوف میں مبتلا کرنے کے عمل کو نامنظوٗر کرتی رہی ہیں مگر امِت شاہ اور نریندر مودی کی جُگل بندی میں یہ کام سرِ فہرست ہے۔یوں تو بِہار میں نتیش کمار خود کو ایک سنجیدہ اور لچیٖلا کردار بنا کر پیش کرنے میں ایک طویل مُدّت تک کامیاب رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ انھیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک مختلف امیج کا کردار تسلیم کرتے رہے ہیں مگر گذشتہ انتخاب میں جب اُن کی سیاسی طاقت دھول چاٹنے لگی اوران کی پارٹی فاتحین کی تعداد کے مطابق تیسرے درجے تک پہنچ گئی اور حکومت بنانے کے لیے جیسے تیسے بھارتیہ جنتا پارٹی کی ’بی‘ ٹیم بن کر انھیں وزیرِ اعلا کی کُرسی حاصل کرنے میں کامیابی ملی؛ اس کے بعد اب وہ ہر کام اور ہر بڑا فیصلہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اشارے اور حکم پر کرتے نظر آتے ہیں۔
ابھی تازہ مثال سے اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی امیج کے برخلاف کس طرح کام کرنے کے لیے مجبور نظر آتے ہیں۔ اسی ہفتے میں اچانک اسمبلی کے ایجنڈا میں یہ بات رکھی گئی کہ بِہار ملٹری پولیس (BMP) کے نام کی تبدیلی کے لیے ایک نیا بِل پیش کیا جائے گا۔جب شب خونی انداز میں قانون ساز اسمبلی میں غور کرنے کے لیے پیش کیا گیا تو لوگ حیرت زدہ رہے کہ یہ محض نام کے بدلنے کے لیے نہیں لایا گیا ہے بلکہ چور دروازے سے پولیس کو بے پناہ اختیارات دینے کے لیے یہ ایک قانونی مُہم ہے جس میں جمہوریت کی دھجّیاں اُڑیں گی اور کسی بھی دفتر یا احاطے میں موجود کسی شخص یا جماعت کوبغیر وارنٹ پیش کیے ہوئے وہیں سے گرفتار کر لیا جائے گا۔گرفتاری کے بعداسے مقامی تھانہ یا کورٹ میں پیش کرنا ہے، اس کی واضح صراحت نہیں ہونے سے یہ کچھ اُسی انداز کا قانون معلوم ہوتا ہے جیسے کبھی ٹاڈا ہوتا تھا اور ابھی UAPA ہے۔ فطری طَور پر ایوان میں ردِّ عمل ہوا اور حزبِ اختلاف کے تمام لیڈروں نے اس بِل کو منظوٗر نہیں کرنے اور اس پر تفصیلی تبادلۂ خیالات کے بغیر پیش کرنے پر اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔
ابھی چار مہینے قبل جب بِہار میں الیکشن کے نتائج آئے تھے، اس وقت حکومت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھ سے جاتے جاتے بچی تھی۔حزبِ اختلاف میں خاص طَور سے راشٹریہ جنتا دل جو ایوان کی سب سے بڑی پارٹی ہے، کانگریس، سی پی آئی ایم ایل اور دیگرچھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں کے ارکان حکومت ساز ممبران سے تعداد میں ایک ہاتھ کی انگلیوں سے زیادہ کم نہیں ہیں، اس وجہ سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جن موضوعات پر حزبِ اختلاف کے افراد حکومت سے کھُلی مخالفت کریں تو واضح طَور پر گرمیِ محفل پیدا ہوگی ہی۔اسی وجہ سے اس پولیس جبر کے قانون کو سمجھتے ہوئے اور آنے والے وقت میں اس کے خطرات کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن نے اسمبلی میں زبردست احتجاج کیا تھا۔ سب نے مل کر یہ کوشش کی کہ ایوان میں یہ بِل نہ پیش کیا جائے۔ اس کام کے لیے حکومت کے سامنے جمہوری اداروں نے جو آداب مقرّر کر رکھے ہیں اُسے تمام لوگوں نے آزمایا جس کی وجہ سے ایوان کی کارروائی کو مُلتوی کرتے ہوئے اسپیکر اپنے دفتر میں چلے گئے۔اس دوران حزبِ اختلاف کے افراد اسپیکر کے کمرے کے سامنے فرش پر بیٹھ گئے کہ وہ دوبارہ ایوان میں تشریف نہ لائیں اور اس کالے قانون کی منظوٗری کی راہیں ہم وار نہ ہوں۔
اسی دوران اچانک یہ دیکھا گیا کہ بڑی تعداد میں پولیس فورس دوڑتی بھاگتی آئی اورقانون ساز اسمبلی کے سو سے زیادہ ارکان جو وہاں پُر اَمن انداز میں احتجاج پر بیٹھے تھے انھیں بہ زورِ بازو اُٹھانے کی کوشش ہوئی۔ صحافیوں اور انفرادی کوششوں سے اس ظالمانہ کارروائی کے ویڈیو عوام کے سامنے ہیں جن میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح جوتے اور لات سے پولیس فورس ان ارکانِ اسمبلی کے ساتھ مارپیٖٹ کر رہی ہے اور اُنھیں ذلیل و رُسوا کر رہی ہے۔ انھیں گھسیٹ کر وہاں سے ہٹانے کی کوشش ہوئی اور خواتین رُکنِ اسمبلی کو ان کے بال پکڑ کرکھینچتے ہوئے بھی ان ویڈیوز میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔تمام ارکان کو طاقت کی بنیاد پر حکومت نے وہاں سے باہر کیا اور چند لمحے بعد ایوان کی کارروائی بغیر کسی اپوزیشن لیڈر کے شروع کی اور آناً فاناًاس بل کو منظوٗر کر لیا گیا۔
اس کارروائی کے رد عمل میں ایوا ن کے باہر جب طوٗفان مچا تو بِہار کے وزیرِ اعلا نے سوچا سمجھا ہوا اپنا پہلا اصول یہی پیش کیا کہ لوگوں نے اس قانون کے مندرجات پر غور کیے بغیر اپنے اختلافات پیش کیے ہیں۔پھر انھوں نے اس کی وضاحت کی. ان کی پولیس کے بڑے افسران بھی اس سلسلے سے صفائی دیتے ہوئے نظر آئے مگر ہندستان کے کسی بھی ایوان میں داخل ہو کر پولیس کی کارروائی کے جواز میں ایک لفظ منھ سے نہیں نکل رہا ہے۔ آئینِ ہند میں قانون ساز اداروں کی اونچی جگہ متعین ہے اور اسی لیے وہاں کے داخلی تحفّظ کے معاملا ت کے لیے الگ سے مارشل کا انتظام رکھا گیا ہے۔یہ رواج انگریزوں کے زمانے سے آج تک قایم ہے۔ اُس احاطے میں عام پولیس کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔یہ سوال سیاسی مبصّرین بار بار دریافت کر رہے ہیں کہ کس کے حکم سے قا نون ساز اسمبلی میں پولیس بُلائی گئی اور پولیس نے کارروائی کی۔ اسپیکر جو قانونی طَور سے اُس احاطے کے مالک و مختار ہیں، وہ اس سے انکار کرتے ہیں کہ انھوں نے نظم و نسق کی درستی کے لیے باہر سے پولیس بُلائی۔ اب یہ معاملہ حکومت کے جواب پر مرکوز ہو گیا ہے اور حکومت دوسرے نکات پر اِسے پھِسلانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ممتاز مصنف اور پولیس کے بڑے عہدے دار وِبھوتی نرائن رائے نے اُتّر پردیش کے میرٹھ کے فسادات کی تحقیق کرتے ہوئے اپنے مقالے میں فرقہ پرستی کے سوال پر پی۔اے۔سی۔ کو واضح طَور پر مجرم مانا تھا اور سفارش کی تھی کہ انھیں بشر دوست نقطۂ نظر اختیار کرنے کی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔پورے ہندستان کی پولیس کے سلسلے سے یہ بات واضح ہے کہ کمزور طبقے کے افراد، عورتوں کے تئیں یا اقلیتی طبقے کے لوگوں کے ساتھ پولیس کا برتاو ظالمانہ ہوتا ہے جو جمہوری نظام کے لیے سیاہ دھبّے کی طرح ہے۔ پولیس تمام ظلم و ستم موجودہ قانونوں کی روشنی میں کرنے میں کامیاب ہوتی رہی ہے۔ نتیش کمار کے اس نئے قانون میں اور بھی اختیارات دیے جا رہے ہیں۔ بار بار یہ نعرہ گونجتا رہتا ہے کہ پورے ملک کو ہم گجرات بنا دیں گے۔پتا نہیں کیوں یہ خدشات اُبھرتے ہیں کہ صوبۂ بہار میں ابھی تک جو امن و امان قایم ہے، اس نظام کو تِتر بِتر کرنے کے لیے نئے قوانین کی ضرورت پیدا ہو رہی ہے۔ یہ نیا قانون کہیں سوئے ہوئے عوام کو بے دار کر دے اور انھیں یہ سمجھ میں آنے لگے کہ کہیں نہ کہیں انھیں ہی زیر کرنے کے لیے یہ قانون بن رہا ہے، اس کے بعد سے حکومت کو سبق سکھانے کے لیے کہیں معصوم عوام سڑکوں پر نہ اُتر آئیں۔نتیش کمار کی حکومت کو اس عوامی اختلاف کے قہر سے تب کوئی نہیں بچا سکے گا۔

مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس میں صدر شعبہئ اردو ہیں۔
Email.safdariamamquadri@gmail.com

گذشتہ عرض داشت یہاں پڑھیں : حسین الحق کو ساہتیہ اکادمی انعام ان کی تخلیقی ریاضتوں کا اعتراف ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے