اردو میں تضمین نگاری کی روایت

اردو میں تضمین نگاری کی روایت

 طفیل احمد مصباحی


تضمین نگاری کا شمار صنائعِ لفظی میں ہوتا ہے ۔ صنائع ، صنعت کی جمع ہے ۔ علمِ بلاغت کی اصطلاح میں کلام کی وہ خوبیاں جو صوری و معنوی اعتبار سے کلام کے حسن و دل کشی میں اضافہ کریں ” صنائع ” کہلاتی ہیں ۔ در اصل کلام و اشعار میں دو طرح کا حسن پایا جاتا ہے ، جسے اہلِ بلاغت حسنِ ذاتی و حسنِ عارضی کا نام دیتے ہیں ۔ کلام کا عارضی حسن یہ ہے کہ چند اضافی امور کے سبب فصیح و بلیغ کلام کا حسن بڑھ جائے اور اس کی رونق و دل کشی میں اضافہ ہو جائے ۔ کلام کے عارضی حسن کی پھر تین قسمیں ہیں ۔ ( 1 ) لطافت ( 2 ) رعایتِ نسبت ( 3 ) صناعت ۔ لطافت یہ ہے کہ کلام سے معنیٔ مراد کے علاوہ دوسرے معنی لطیفے کے طور پر نکلتے ہوں ۔ رعایتِ نسبت یہ ہے کہ متکلم جس چیز کا بیان شروع کرے ، از اول تا آخر اس کی رعایت ملحوظ رکھے اور مناسبات کا بھی ذکر کرے اور صناعت یہ ہے کہ ماہرینِ شعر و سخن اسے آرائشِ کلام کے لیے اختیار کریں ، جس کا مفصل ذکر علمِ بدیع میں ہوتا ہے ۔ حسنِ کلام اور تزئینِ اشعار کے متعدد ذرائع میں سے ایک تضمین نگاری بھی ہے ، جو حسن و زیبائش کے علاوہ توضیح و تشریح اور بعض اوقات شعری اجمال کی تفصیل کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے ۔


تضمین کی لغوی و اصطلاحی تعریف :


تضمین کا مادہ ” ضمن ” ہے ، جو شرکت ، شمولیت ، دخول اور اندراج کے معنیٰ میں مستعمل ہے ۔ اسی سے بابِ تفعیل کا صیغہ ” تضمین ” ہے ، جس کا معنیٰ ہے : شامل کرنا ، ملانا ، شریک کرنا اور جگہ دینا ۔ اہلِ عروض کی اصطلاح میں اپنے یا دوسرے شاعر کے شعر یا مصرعے پر اس خوبی سے مصرع یا گرہ لگانا کہ تمام مصرعے باہم مل کر ایک وحدت میں ضم ہو جائیں ۔
مشہور عربی لغت ” المنجد ” میں تضمین کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :

التضمین ھو ان یاخذ الشاعر شطراً من شعر غیره بلفظه و معناه .

( المنجد ، ص : 455 ، المطبعۃ الکاثولیکیۃ ، بیروت )

یعنی تضمین یہ ہے کہ شاعر کسی دوسرے شاعر کے کلام سے کوئی حصہ لفظاً یا معنًا اخذ کر لے ۔

غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخؔ
” آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں ”

اس شعر میں غالبؔ نے میر تقی میرؔ کے کلام کی تعریف و تحسین کرتے ہوئے ناسخؔ کے ایک مصرعے پر گرہ لگائی ہے اور یہی تضمین ہے ۔ مصرع پر مصرع یا گرہ لگانے کی روایت مشاعروں سے شروع ہوئی ہے ۔ طرحی مشاعرے میں شعرا حضرات جو کلام لکھتے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ مصرعِ طرح پر جو گرہ لگاتے ہیں ، وہ تضمین کہلاتی ہے ۔ تضمین نگاری کی ابتدا کب سے ہوئی ؟ اردو ادب کی تاریخ میں اس کی وضاحت نہیں ملتی ۔ مولوی حکیم نجم الغنی رام پوری نے ” بحرالفصاحت ” میں تضمین کی ایجاد کا سہرا کمالؔ خجند کے سر باندھا ہے ۔ بعض اہلِ علم نے مرزا محمد علی طرشی متخلص بہ سلیم کو اور بعض نے ہلالی کو پہلا تضمین گو شاعر بتایا ہے ۔

ڈاکٹر شیخ عقیل احمد تضمین کی تعریف اور اس کی اہمیت و صعوبت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :

شاعری کی اصطلاح میں تضمین وہ صنفِ سخن ہے جس میں تضمین نگار اپنے پسندیدہ شعرا کے کسی شعر یا مصرعے پر اپنے چند مصرعوں کا اضافہ اس حسن و خوبی سے کرتا ہے کہ وہ اصل شعر یا مصرعے ضم ہو جائیں اور ایک الگ اکائی بن جائے ۔ تضمین نگاری کے اس تخلیقی عمل میں تضمین نگار تضمین کے شعر یا مصرعے کا رنگ و آہنگ ، اس کی داخلی کیفیت اور اس کے مفہوم کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مصرعوں کو تضمین کے شعر یا مصرعے میں اس طرح پیوست کرتا ہے کہ ان میں کسی بھی اعتبار سے کوئی فرق محسوس نہیں کیا جا سکے اور تضمین کے بعد سارے مصرعے کسی ایک ہی شاعر کے کہے ہوئے معلوم ہوں ۔ تضمین نگار اس عمل میں اصل شعر یا یا مصرعے کے مفہوم کی توسیع کرتا ہے یا اس کی علامتوں کی نئی توجیہ پیش کرتا ہے ، جس سے دونوں شاعروں کے تخلیقی عمل کے امتزاج سے ایک نئی فضا اور ایک نئی کیفیت حاصل ہوتی ہے ۔ تضمین کا فن بڑا نازک اور لطیف ہے ۔ غزل ( یا دیگر صنفِ سخن ) کے شعرا کے لیے شعر کہنا آسان ہے ، لیکن کسی دوسرے شاعر کے شعر پر تضمین کرنا مشکل ہے ۔ کیوں کہ غزل کے ہر شعر میں شاعر کی داخلی کیفیت ، رنگ و آہنگ اور اس کی پوری شخصیت کے ارتعاشات موجود ہوتے ہیں ۔ تضمین نگار کو اپنے مصرعوں کی تخلیق کرتے وقت ان سب باتوں کا خیال رکھتے ہوئے اپنی شخصیت کی سطح کو اس شاعر کی سطح کے برابر لانا پڑتا ہے ، جس کے شعر یا مصرعے کی تضمین کرنی ہوتی ہے ۔ صرف اتنا ہی نہیں ، وہ اصل شعر یا مصرعے کے مفہوم کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس کے کچھ نامکمل پہلوؤں کو تلاش کرتا ہے اور اپنے جذبات و خیالات سے ہم آہنگ کر کے ان کے مفہوم کو ایک نئی جہت عطا کرتا ہے ………………. تضمین کے لیے کسی مخصوص ہیئت کی قید نہیں ہے ۔ مخمس ، مسدس ، مثلث اور ترکیب بند وغیرہ میں تضمین کے فن کی نادر مثالیں مل جاتی ہیں ۔ لیکن مخمس کی شکل میں تضمین کا فن زیادہ مقبول ہوا ۔ مخمس کے فارم میں دو مصرعے کسی دوسرے شاعر کے ہوتے ہیں ، جن میں تضمین نگار تین مصرعے اپنی طرف سے اضافہ کر دیتا ہے ۔ کبھی کبھی تضمین نگار اپنے ہی شعر کی تضمین کرتا ہے ، جس میں شاعر اپنے ہی کہے ہوئے شعر کے دو مصرعوں پر تین مصرعوں کا اضافہ کرتا ہے ، اس طرح پانچ مصرعوں کی ایک الگ اکائی بن جاتی ہے ۔ مخمس کی شکل میں غزل کے اشعار کی تضمین کے نمونے بے شمار ملتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل کے اشعار کی رمزیت اپنے مفہوم کی توضیح و توسیع کے لیے کم سے کم تین مزید مصرعوں کی وسعت چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تضمین کی اس شکل ( مخمس ) کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ مخمس کو ہی تضمین سمجھا جاتا رہا ۔


( فنِ تضمین نگاری : تنقید و تجزیہ ، ص : 22 – 23 ، ناشر : جے . ڈی . پبلیکیشن ، غازی آباد )


تضمین نگاری کافی مشکل اور دقت طلب صنفِ سخن ہے ، جس کو کماحقہ برتنے کے لیے ادبی ریاضت ، فنی مہارت اور شعری ہنرمندی کی اشد ضرورت ہے ۔ مشق و مزاولت کی بنیاد پر کسی بھی صنفِ سخن میں طبع آزمائی کرنا آسان ہے ، لیکن تضمین نگاری کے لیے زیرِ تضمین شعر یا کلام کی گہرائی میں اتر کر شاعر کے خیال و اسلوب کی پیروی اور اس کے تمام مصرعوں کو ایک وحدت میں تبدیل کر دینا کہ شعر کی معنویت میں کوئی فرق نہ آئے ، غایت درجہ دشوار کام ہے ۔ اس عمل کی صعوبتوں اور دشواریوں کا بخوبی اندازہ وہی لگا سکتا ہے ، جس نے اس میدان کی خاک چھانی ہو اور اس زلفِ برہم کی مشاطگی کی ہو ۔

جناب رفعت سروش نے بجا لکھا ہے کہ :

تضمین ایک مشکل فن ہے ۔ تضمین کار کا صاحبِ فکر و فن اور کہنہ مشق ہونا بہت ضروری ہے ۔ اس لیے اردو میں بہت کم شعرا نے اچھی تضمینیں کہی ہیں ۔ یہ فن قدیم اصناف میں سے ہے ۔


( مرجعِ سابق : ص : 24 )


تضمین کی مختلف صورتیں :


خواجہ الطاف حسین حالی کے بعد تضمین نگاری کا با ضابطہ دور شروع ہوا ہے اور اس کے بعد ہر دور کے شعرا نے اپنے من پسند شعرا کے کلام پر تضمین لگائی ہے اور اس صنعتِ شعری کو فروغ دیا ہے ۔ اردو شاعری میں تضمین کی کئی صورتیں مروج و مستعمل ہیں : –

( 1 ) اپنے یا کسی دوسرے شاعر کے مصرعے پر مصرع لگا کر شعر مکمل کرنا ۔ ( 2 ) اپنے یا کسے دوسرے کے شعر پر ایک مصرع لگا کر اسے مثلّث بنانا ۔ ( 3 ) مطلع پر مطلع لگانا ۔ ( 4 ) اپنے یا کسی دوسرے شاعر کے شعر کے شروع میں تین مصرعے لگا کر اسے مخمّس کی شکل دینا ۔ تضمین کی یہ صورت اردو شاعری میں سب سے زیادہ مقبول و مروج رہی ہے ۔ ( 5 ) کسی شعر پر چار مصرعوں کا اضافہ کر کے اسے مسدّس کرنا ۔ ( 6 ) کسی کے شعر پر پوری غزل یا نعت وغیرہ لکھنا ۔ ( 7 ) تضمین کی ایک نادر و کم یاب صورت یہ بھی ہے کہ پوری نظم ( نعت ہو یا غزل ) کے ہر شعر کا پہلا مصرع شاعر کا اپنا ہو اور دوسرا مصرع کسی دوسرے شاعر کا ہو یا پہلا مصرع دوسرے کا ہو اور دوسرا مصرع اپنا ہو ۔ ( 8 ) تشطیر بھی تضمین ہی کی ایک صورت ہے ، جس میں کسی کے شعر کے پہلے مصرعے کے بعد دو مصرعے لگائے جاتے ہیں اور پھر زیرِ تشطیر شعر کے دوسرے مصرعے رکھے جاتے ہیں ۔ اس میں متعلقہ شعر کی ردیف اور قافیے کی رعایت ضروری ہوتی ہے ۔


اردو شاعری میں تضمین نگاری کی روایت :


جس طرح غزل فارسی سے اردو زبان میں منتقل ہوئی ، اسی طرح تضمین نگاری کی روایت بھی فارسی سے اردو شاعری کی زینت بنی ۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں میر ، سودا ، درد ، مصحفی ، انشا اور نظیر اکبر آبادی کے علاوہ متعدد شعرا کے کلام کی بے شمار تضمینیں ملتی ہیں ۔ انیسویں صدی میں سب سے زیادہ تضمینیں لکھی گئی ہیں ۔ عربی و فارسی کے نعتیہ قصیدے اور ہندی دوہوں کی متعدد شعرا نے تضمینیں کی ہیں ۔ قدسی کی نعت پر سب سے زیادہ تضمینیں لکھی گئی ہیں ، جس کا مجموعہ ” حدیثِ قدسی ” کے نام سے شائع ہو چکا ہے ۔ غرض کہ اردو شاعری میں تضمین نگاری کی روایت قدیم ہے ۔ مختلف اصنافِ سخن اور دیگر صنائعِ لفظی و معنوی کی طرح یہ صنف و صنعت بھی اردو شاعری کی تاریخ میں ارتقا کے مراحل طے کرتی رہی ۔ تضمین نگاری باقاعدہ ایک صنف کی حیثیت سے عہدِ حالی کے بعد وجود میں آئی ۔ مرزا غالب کے تلامذہ میں سے میر مہدی مجروح اور بیان میرٹھی نے اپنے استاد کی غزلوں کی تضمین کی ہے ۔ حیرت و استعجاب کی بات تو یہ ہے کہ مرزا عزیز بیگ سہارن پوری اور امیر احمد صبا اکبر آبادی نے مکمل دیوانِ غالب کی تضمین لکھی ہے اور اس فن کو عروج و استحکام اور مقامِ اعزاز و افتخار بخشا ہے ۔ اِکّا دُکّا شعر پر غالب اور مومن کے تضمینی نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اس کے بعد امیر مینائی ، داغ دہلوی اور ڈاکٹر اقبال نے اس روایت کو آگے بڑھایا ۔ یہاں تک کہ تضمین نگاری اردو شاعری کی ایک مقبول اور ہر دل عزیز صنف کی حیثیت سے متعارف ہوئی ۔ اردو کے چند مشہور شعرا کی تضمینیں یہاں نقل کی جاتی ہیں ، تاکہ دعویٰ بلا دلیل نہ رہ جائے ۔

نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کے شعر کی تضمین ( بشکلِ مخمس ) کرتے ہوئے حکیم مومن خان مومن کہتے ہیں :

مومن کو دیکھ ، چشم میں آیا لہو اتر
یہ حال تھا کہ مضطر و حیراں تھے چارہ گر
کہتا تھا اک رفیق کو ہر بار دیکھ کر
” ایسی ہی بے قراری رہی متصل اگر
اے شیفتہ ! ہم آج نہیں بچتے شب تلک "


داغ دہلوی اور منشی امیر مینائی نے نواب یوسف علی خاں ناظم والیِ رام پور کی غزل پر خمسے لکھ کر تضمین نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ دونوں کے نمونۂ تضمین ملاحظہ کریں :

کیا کیجیے وہ کہتے ہیں ہر بات پر غلط
اظہارِ غم کیا تو کہا سر بسر غلط
یہ دردِ دل دروغ ، یہ زخمِ جگر غلط
” میں نے کہا کہ دعوئے الفت مگر غلط
کہنے لگے کہ ہاں غلط اور کس قدر غلط ”

( منشی امیر مینائی )


کہتے تھے وہ ، بشر کو جو دل دے بشر غلط
دیوانہ ہو کسی کا کوئی سر بسر غلط
شامت جو آئی ، ان کا بیاں جان کر غلط
” میں نے کہا کہ دعوئے الفت مگر غلط
کہنے لگے کہ ہاں غلط اور کس قدر غلط "

( داغ دہلوی )


مرزا غالب کے شعر پر صبا اکبر آبادی کی یہ تضمین دیکھیں کہ لطفِ تخیل اور جدتِ اسلوب کے ساتھ تضمین نگاری کا حق ادا کر دیا گیا :

مداوائے دلِ رنجور کا سامان کیا معنی
زمانے کو نہیں ہے فکر عشقِ نالہ فرسا کی
ہوائے حسن بہرِ راحتِ الفت نہیں چلتی
” نسیمِ مصر کو کیا پیرِ کنعاں کی ہوا خواہی ”
” اسے یوسف کی بوئے پیرہن کی آزمائش ہے ”

مرزا بیدل عظیم آبادی کا فارسی شعر ہے :

باہر کمال اندکے آشفتگی خوش است
ہر چند عقلِ کل شدۂ بے جنوں مباش

ڈاکٹر اقبال نے مذکورہ بالا شعر کو سامنے رکھتے ہوئے پوری ایک نظم ( مذہب کے عنوان سے ) بطورِ تضمین لکھی ہے ، جس کے چار اشعار نذرِ قارئین ہیں :

تعلیم پیرِ فلسفۂ مغربی ہے یہ
ناداں ہیں جن کو ہستیِ غالب کی ہے تلاش

پیکر اگر نظر سے نہ ہو آشنا تو کیا
ہے شیخ بھی مثالِ برہمن صنم تراش

محسوس پر بِنا ہے علومِ جدید کی
اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش

کہتا مگر ہے فلسفۂ زندگی کچھ اور
مجھ پر کیا یہ مرشدِ کامل نے راز فاش


اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے شعر ( نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا ) پر شاہ نصیر الدین نصیر کی تضمین ملاحظہ کریں :

یہ وہ سچ ہے کہ جسے ایک جہاں مان گیا
در پہ آیا جو گدا بن کے وہ سلطان گیا
اس کے اندازِ نوازش پہ میں قربان گیا
” نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا ”
” ساتھ ہی منشیِ رحمت کا قلمدان گیا "


پروفیسر حامد حسن قادری اپنے مضمون ” دیوانِ غالب کی تضمین ” میں تضمین نگاری کے آغاز و ارتقا اور اس کی موجودہ حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :

مرزا غالب کی گوناگوں قدر دانیوں میں ایک عجیب و دل چسپ قدر دانی یہ بھی ہوئی ہے کہ شعرا نے ان کی غزلوں پر کثرت سے خمسے ( تضمین کی سب سے مشہور و مقبول قسم خمسہ یا مخمس ہے ) لکھے ہیں اور اس فضیلت کے تو وہ تنہا مالک ہیں کہ ایک سے زیادہ شعرا نے ان کے پورے دیوان کو تضمین کر دیا ہے ۔ اسی طرح کی ایک اور ” پہلوانیِ سخن ” اس سے پہلے سننے میں آئی تھی ۔ مجھے زیارت کا موقع نہیں ملا ، لیکن معتبر ذریعہ سے سنا ہے کہ حکیم قطب الدین صاحب باطن اکبر آبادی نے میر حسن کی تمام مثنوی ” سحر البیان ” کا خمسہ کیا تھا اور ” اعجاز رقم ” اس کا نام رکھا تھا ۔ وہ مسودے کی صورت میں اب بھی موجود ہے . …………………. تضمین کرنے کا رواج قدیم ہے ۔ لیکن کثرت و عمومیت کو کچھ بہت دن نہیں ہوئے ۔ غالب کے زمانے تک اپنی یا کسی دوسرے کی غزل پر خمسہ ( تضمین ) لکھنے کی عادت شاذ و نادر پائی جاتی ہے ، لیکن مثالیں مل جاتی ہیں ۔ مثلاً : میر سوز نے مرزا سودا کی مشہور طویل غزل ( تو ہی کچھ اپنے سر پہ نہ یاں خاک کر گئی ) پر تضمین لکھی ہے ۔ شعرائے قدیم غزل و قصیدہ وغیرہ مشہور اصنافِ سخن کے علاوہ کچھ لکھتے تھے تو ترجیع بند ، ترکیب بند ، مستزاد ، واسوخت کبھی کبھی لکھ لیتے تھے ۔ ناسخ و آتش تک خمسے ( تضمین ) بہت کم ملتے ہیں ۔ رند وغیرہ نے بھی بعض غزلوں کی تضمین کی ہے ۔ مومن ، ذوق ، غالب نے کوئی خمسہ نہیں لکھا ، ان کے تلامذہ کے زمانے سے تضمین نگاری کا یہ سلسلہ چلا ۔ جب سے اب تک غالب کے دیوان کو چھوڑ کر ہزارہا غزلوں پر تضمین لکھی گئی ہے ۔ عصرِ حاضر کے شعرا میں یہ رجحان کم ہو گیا ہے ۔


( نقد و نظر ، ص : 56 / 57 ؛ ناشر : اردو اکیڈمی ، سندھ ، کراچی )

Email : tufailmisbahi@gmail.com

طفیل احمد مصباحی کی کا یہ مقالہ بھی ملاحظہ فرمائیں : مکتوباتِ صوفیہ ، ایک گراں قدر علمی و ادبی سرمایہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے