حلوہ کا جلوہ

حلوہ کا جلوہ

احسان قاسمی 


احبابِ گرامی ! شبِ برات کا تیوہار نزدیک ہے ۔ ہر سال کی طرح امسال بھی شبِ برات آتے ہی یہ بحث چھڑےگی اور خوب خوب چلےگی کہ شبِ برات کے موقعے سے حلوہ کا کیا رول ہے ؟ ہمارے یہاں بہت سارے فرقے اور schools of thought ہیں ۔ لہٰٰذا کوئی تو حلوہ بنانے اور کھانے کو عین کارِثواب بتائے گا اور کوئی اسے خلاف ِمذہب ، بدعت اور گناہِ کبیرہ ثابت کرنے میں اپنی پوری توانائی لگا دے گا ۔ ایسی بحثیں ہر سال چھڑتی ہیں جن کا آخر تک کوئی نتیجہ نہیں نکلتا سوائے اس کے کہ ایک دوسرے کو بدعتی اور کافر وغیرہ کے لقب سے نوازنے کے بعد پھر سے اگلی شبِ برات کا انتظار کیا جائے تاکہ اگلی شبِ برات پر پھر ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہونے کا نادر موقع ہاتھ لگ سکے ۔
اس ضمن میں کئ برس پرانا واقعہ یاد آگیا ۔ شبِ برات کے دن ایک کرم فرما ہمارے غریب خانے پر تشریف لائے ۔ بیگم ہماری چنے کا حلوہ خالص دیسی گھی ڈال کر بھون رہی تھیں جس کی سوندھی اور اشتہا انگیز خوشبو باورچی خانے سے اڑ تی ہوئی باہر برآمدے تک آرہی تھی ۔ ہمارے وہ دوست سخت برہم ہوئے ۔ شاید اب تک وہ مجھے اپنے خیمے کا آدمی سمجھتے رہے تھے ۔ مگر آج چنے کے حلوے کی خوشبو نے ان کے اعتماد کو سخت ٹھیس پہنچائی بلکہ بالکل مجروح کر دیا ۔ فرمانے لگے ” آپ سخت گناہ کا کام کر رہے ہیں ۔شبِ برات کے موقعے سے حلوہ بنانا ، کھانا اور کھلانا سخت گناہ کا کام اورصریح بدعت ہے کیوں کہ قرآن اور حدیث میں اس کا کوئی ذکر اور حکم نہیں ۔ "

میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ ۔۔۔” جنابِ عالی ! اور عید کے دن ؟ "
ڈپٹ کر بولے ” عید کے دن بہترین کھانا کھانے کا حکم ہے ۔”
میں نے پھر ان سے معافی چاہتے ہوئے دریافت کیا کہ عید کے دن تمام مسلمانوں کے گھر پلاؤ ، گوشت اور بریانی ہی بنا کرتی ہے تو کیا قرآن اور حدیث میں بہترین کھانے کی لسٹ میں صرف پلاؤ ، گوشت اور بریانی کا ہی نام درج ہے ؟ بھائی میں تو بنگالی آدمی ہوں ، بھات ( سادہ چاول) اور اِلِیش ماچھ ( ہِلسا مچھلی ) کو دنیا کا سب سے بہترین کھانا گردانتا ہوں ۔ البتہ عید کے دن گھر میں پلاؤ گوشت، بریانی ہی بنوانی پڑتی ہے کیوں کہ فی زمانہ یہی دستور اور رواج ہے ۔ عید کے دن اگر دوست احباب کے سامنے مچھلی بھات پیش کردوں تو ظاہر سی بات ہے کہ پھر وہ مجھے کیا سمجھیں گے یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں ۔
میری اس بات پر وہ مزید چراغ پا ہوگئے اور یہ کہہ کر رخصت ہوئے کہ ” آپ کسی قیمت پر سدھرنے والے نہیں ۔”
مسلمانوں کے یہاں کھانے پینے کی چند مخصوص اشیاء مثلا” حلوہ ، سوئیاں ، پلاؤ اور بریانی وغیرہ ہیں ۔ ان کا لوہا سب مانتے ہیں ۔ ہمارے غیر مسلم دوست بھی خاص طور پر شبِ برات میں حلوہ اور عید میں سوئیاں اور بریانی کھانے کے لئے قبل از تیوہار اکثر یاد دہانی کراتے رہتے ہیں کہ دیکھئے اس دفعہ تیوہار میں مجھے مت بھول جایئے گا ۔ اسی طرح ہم بھی غیر مسلم دوستوں پر دعویٰ ٹھونکتے رہتے ہیں کہ اب کے ہولی پر تمہارے یہاں گرما گرم پوا اور دہی بڑا سے پورا پورا انصاف کرنا ہے ۔ گویا ہر قوم کا کلچر جداگانہ ہے اور کلچر کا کوئی نہ کوئی سرا کہیں نہ کہیں مذہب یا دھرم سے جا ملا ہے ۔ کلچر کو دھرم سے ملانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ شاید مخصوص کلچر کو بچائے رکھنے کے لئے اسے ضروری خیال کیا گیا ۔ تو آئیے ان باتوں پر مذہب ، فرقہ یا کسی مخصوص نظریہ سے تھوڑا الگ ہٹ کر غور و خوض کرتے ہیں ۔
ہمارے سامنے دو الفاظ ہیں ۔ پہلا تہذیب یا تمدن ، جسے ہندی میں سبھیتا اور انگریزی زبان میں civilization کہتے ہیں ۔ دوسرا لفظ ہے ثقافت جسے ہندی میں سنسکِرتی اور انگریزی میں culture کہتے ہیں ۔ عام طور پر ہم دونوں الفاظ کو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے ہیں مگر حقیقتا” ان کی تعریفیں الگ الگ ہیں ۔

تہذیب کا مطلب ہے زندگی بسر کرنے کے لئے مطلوبہ آلہ جات ( Tools ) مثلا” مکان ، زراعت اور دیگر پیشوں میں کام آنے والے آلہ جات جیسے ہل، اوزار، ظروف وغیرہ. 
ثقافت عبارت ہے انسانوں کے عادات و اطوار سے یعنی رہن سہن، بول چال، لباس ، کھان پان ، آرٹ ، ادب اور موسیقی وغیرہ ۔
انسانی تہذیب و ثقافت ہمیشہ خطہء خاص کے جغرافیائی عوامل ( Geographical factors ) سے متاثر ہوتی رہی ہے ۔ ریگستانی علاقوں ، میدانی علاقوں ، پہاڑی علاقوں یا برفانی علاقوں کے مکانات کی بناوٹ میں واضح فرق پایا جاتا ہے جو اس علاقے کے جغرافیائی عوامل کے عین مطابق ہوا کرتا ہے ۔ مثلا” سائبیریا میں برف کے مکانات ‘ اگلو ‘ ( Igloo ) بنائے جاتے ہیں جن کی شکل الٹے ہوئے پیالے جیسی ہوا کرتی ہے ۔ پہاڑی علاقوں میں جہاں جنگل کثرت سے پائے جاتے ہیں لکڑی کے مکانات تعمیر کئے جاتے ہیں ۔
آپ نے عربین لوگوں کا لباس دیکھا ہوگا ۔ کیا مذہبِ اسلام کی آمد یا قرآن شریف نازل ہونے کے بعد مسلمانوں نے اس لباس کو اپنایا ؟ یہ لباس تو ہزاروں سالوں سے وہاں کے لوگ پہنتے آرہے ہیں ۔ یہ ان کی مجبوری ہے ۔ ان کا لمبا چوغہ نما لباس اور سر ، چہرہ اور کانوں کو اچھی طرح ڈھنکنے کے لئے استعمال میں لایا جانے والا کپڑا انہیں صحرائی سورج کی تیز تیکھی شعاعوں اور ریت کی آندھی اور ریت کے ذرات سے تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔ ہم مسلمان اس لباس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیوں کہ یہ لباس ہمارے نبئ کریم صلی الله عليه وسلم اور صحابہؓ کرام نے بھی زیب تن فرمایا ۔
اب آپ دو ہزار، تین ہزار یا اس سے بھی قبل کے سرزمینِ عرب کا تصور کیجئے ۔ بے آب و گیاہ صحرا کا لامتناہی سلسلہ ، جھلسا دینے والی سورج کی تیز شعاعیں ، زبردست تمازت ، بادِ سموم کے جان لیوا جھونکے اور اڑتی ریت ۔ سواری کے لئے اونٹ ۔ تجارتی سفر کے لئے قافلہ سازی ۔ دن بھر کسی نخلستان میں قیام اور رات بھر سفر ۔ رات میں سمت کے صحیح تعین کے لئے چاند اور ستاروں کا سہارا ۔ چاند تاروں سے یہ دوستی ہی قمری کلینڈر کی اصل وجہ بنی ۔ اسلام نے قمری کلینڈر کو اپنایا ۔ بطور مسلمان ہم آج تک قمری کلینڈر کی پیروی کر رہے ہیں ۔
ریگستان کی تپتی جلتی ریت پر جھلستے ایک شخص کی سب سے بڑی خواہش کیا ہو سکتی ہے ؟ ظاہر سی بات ہے کہ کسی گوشہء عافیت کا حصول یعنی کسی نخلستان تک رسائی ۔ نخلستان جہاں ٹھنڈے پانی کا ایک چشمہ ہو ، کھجور کا باغ ہو اور اطراف میں بکھری ہریالی ہو ۔ ریگزار کی صعوبت بھری زندگی میں ہریالی کی کیا قدر و قیمت اور اہمیت ہے اس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب پرچم کا رنگ منتخب کرنے کی بات آئی تو اسی سبز رنگ کا انتخاب کیا گیا جو ہریالی کا نمائندہ ہے ۔ مسجدوں اور مزاروں کے گنبد بھی سبز رنگ سے رنگے جانے لگے ۔ رنگ تمام اللہ تبارک تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں ۔ ایسا نہیں کہ سبز رنگ مسلمانوں اور زعفرانی رنگ خاص طور پر ہندؤں کے لئے پیدا کئے گئے ہوں ۔ پھر بھی بہت سارے رنگوں کے درمیان اسلامی پرچم کے لئے سبز رنگ کا انتخاب اس نفسیات کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ۔ جس شئے کا حصول جتنا کم یاب اور مشکل ہوتا ہے اس کی قدر و قیمت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے ۔ لیکن اس کمی کے پیچھے بھی تو انہی جغرافیائی عوامل کا ہی ہاتھ ہے ۔
آیئے اب ذرا خورد و نوش کی اشیاء کی جانب بھی نظر دوڑائیں ۔ عرب کی سرزمين ایسی دھرتی کہ جہاں ایک بھی ندی نہیں ۔ پینے لائق پانی کی سخت قلت رہی ۔ کہیں کہیں نخلستانوں میں پانی کی دستیابی ۔ اس تپتے صحرا میں ایک ایک ماہ کا طویل مدتی سفر اونٹوں پر قافلے کی شکل میں آخر لوگ کس طرح کرتے ہوں گے ؟ مشکیزوں میں جتنا پانی ہوسکا بھر لیا ۔ سبزیاں ساتھ لےکر چلنے کا سوال نہیں ۔ لے دے کر صرف کھجوروں کا سہارا ۔ لیکن لگاتار صرف کھجور تو کھائے جاسکتے نہیں ۔ کچھ اناج مثلا” چاول کا استعمال بھی ضروری ہے ۔ ہمارے یہاں چاول ابال کر کھانے کا دستور ہے ۔ چاول گل جانے کے بعد فاضل پانی جسے مانڑ ( starch ) کہتے ہیں اسے پھینک دیا جاتا ہے ۔ مگر ایک ایسے خطے میں جہاں پانی کم یاب بلکہ نایاب شئے ہو، جس کے لالے پڑ رہے ہوں وہاں پانی ضائع کئے جانے کا تصور بھی تو نہیں کیا جا سکتا ۔ لہٰذا پلاؤ/ بریانی کی ایجاد ہوئی جس میں پانی اس طرح ماپ کر ڈالا جاتا ہے کہ چاول اچھی طرح پک جائیں اور پانی بھی خشک ہوجائے ۔ گوشت کا تو خیر سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ، اونٹ قافلے میں شامل ہیں ۔ اب ہم مسلمانوں کی سرشت میں اگر گوشت ، پلاؤ اور بریانی شامل ہیں تو اس کا مذہب سے کیا تعلق ؟ یہ چیزیں تو ہماری ثقافت کا حصہ ہیں ۔


یہ بات ہوئی ڈنر کی ۔ اب ذرا ناشتے کی بھی سوچتے ہیں ۔ آپ کا بچہ اسکول سے آتے ہی آواز لگاتا ہے ” ممی ! بہت زوروں کی بھوک لگی ہے ۔ ذرا جلدی سے میگی بنا دو ۔ "
کتنی آسانی ہے نا ؟ لیکن آج سے دو ہزار سال پہلے کیا ہوتا ہوگا ؟ کیا آپ یقین کریں گے کہ آج سے دوہزار سال پہلے بھی میگی موجود تھا ؟؟ اگر یقین نہیں آتا تو اونٹ کی پیٹھ سے لٹکتا تھیلا کھول کر دیکھئے ۔ سوئیاں بھری ہیں اس میں ۔ اس زمانے میں سوئیاں بنانے کی مشینیں تو تھیں نہیں ، گھر کی خواتین ہتھیلیوں کے درمیان رگڑ رگڑ کر آٹے کی سوئیاں بنا یا کر تی تھیں ۔ سفر میں جب بھوک لگے اونٹنی کا دودھ نکالو، سوئیاں ابالو اور کھاؤ ۔ لیکن یہ ہر وقت ممکن نہیں ۔ خاص طور پر جب قافلہ سفر میں ہو دودھ دوہنا اور ابالنا ممکن نہیں ۔ اس لئے دورانِ سفر چلتے پھرتے بھوک مٹانے کے لئے ایک تھیلے میں حلوہ بھی موجود ہے ۔ ڈھنگ سے بنایا گیا حلوہ کافی دنوں تک خراب نہیں ہوتا اور پھر سرزمینِ عرب جہاں موسم اکثر خشک ہی رہا کرتا ہے ، وہاں اس کے جلد خراب ہونے کی گنجائش بھی نہیں ۔ حلوہ فوری توانائی فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے کیوں کہ اس میں شکر ڈالی جاتی ہے ۔ عرب لوگ حلوہ کے اتنے شوقین رہے کہ جب مسلمان عرب سے باہر نکل کر یونان پہنچے اور وہاں علمِ طب حاصل کیا تو زیادہ تر دوائیں حلوے کی شکل میں ہی تیار کی گئیں ۔ آج بھی یونانی ادویات میں معجون کا کافی چلن ہے جو حلوہ کی ہی ایک شکل ہے ۔
کہتے ہیں ‘ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ‘
تو پلاؤ ، بریانی ، سوئیں اور حلوہ سارے جغرافیائی عوامل کے تحت ایجاد ہو ئے اور عربوں / مسلمانوں کے کلچر کا حصہ بن گئے ۔ صرف کلچر کا حصہ ہی نہیں بنے، بلکہ شبِ برات اور عید جیسے تیوہاروں سے بھی جڑ گئے ۔
کس نے حکم دیا کہ عید میں صرف پلاؤ گوشت اور بریانی ہی کھائی جائے؟ مگر ہم سب عید کے دن پلاؤ / بریانی ہی کھاتے ہیں ۔ پھر شبِ برات کے موقع سے اگر کسی نے حلوہ بنا لیا تو واویلا کیوں ؟
لہٰذا سمجھنے والی بات یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں ہماری ثقافت سے جڑی ہیں نہ کہ مذہب سے ۔ کھانے پینے کی چیزیں حرام اور حلال کی لسٹ جاری کی ہوئی ہے ۔ ہاں ! اس میں بھی چند شرائط ہیں جن سے واقفیت ہر مسلمان کے لئے لازمی ہے ۔ مثلا” ماہِ رمضان میں بلا عذر شرعی دن میں کھانا پینا ۔ اس کے برعکس عید کے دن جان بوجھ کر روزہ رکھنا بھی جائز نہیں ۔ لیکن عید کے دن کسی شخص کے روٹی سبزی کھالینے سے جس طرح وہ اسلام سے خارج نہیں ہوجاتا ٹھیک اسی طر ح شبِ برات کا حلوہ کھانا بھی کوئی گناہِ صغیرہ یا کبیرہ نہیں ۔ یہ تمام چیزیں سینکڑوں سالوں سے ہماری ثقافت کا حصہ رہی ہیں ۔ ان کی حفاظت ہم نہیں تو پھر کون کرےگا ؟

دوستو ! مذہبِ اسلام میں کوئی بھی تیوہار celebrate کرنے کے لئے نہیں ہے ۔ ہمارے جو بھی تیوہار ہیں وہ سنجیدگی ، متانت اور وقار میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ ہمارے یہاں تیوہار کا مطلب ہے عبادت ۔ اور عبادت کا مطلب ہے نماز ، خشوع و خضوع ، تلاوتِ قرآن کریم ، اپنی کوتاہیوں ، غلطیوں اور گناہوں کی معافی اور تمام لوگوں کے لئے دعائے مغفرت آہ و زاری کے ساتھ طلب کرنا ۔ ہمارا کوئی بھی تیوہار جشن منانے اور روڈ شو کرنے کے لئے نہیں ہے ۔
لہٰذا حلوہ بھی بنائیں ، سوئیاں اور بریانی بھی ۔ مگر آپ اس چکر میں تھکاوٹ کا اس قدر شکار نہ ہو جائیں کہ جب عبادت کا وقت آئے تو آپ عبادت نہ کر پائیں ۔ اور ہاں ! پڑوسیوں ، غربا اور مساکین کا خیال ضرور رکھیں ۔ حلوہ اور سوئیں بنا کر سارا خود ہی کھا لیا تو تیوہار کیسا ؟؟
ایک بات اور ۔۔۔۔۔۔ آج ہم تمام مسلمانوں کے لئے بہت کٹھن وقت آ ن پڑا ہے اور حالات کے خراب سے خراب تر ہوتے جانے کا اندیشہ ہے ۔ ایسے برے وقت میں اگر ہم حلوہ اور ایسی ہی دیگر چیزوں اور معمولی باتوں کو لے کر آپس میں تکرار اور جھنجھٹ کرتے رہیں گے تو آگے چل کر ہمیں کوئی پرسان حال بھی نہ ملے گا ۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب اسپین پر مسلمانوں نے فتح حاصل کی اس وقت عیسائیوں کے دو فرقوں کے درمیان اس بات کو لے کر گرما گرم مناظرہ چل رہا تھا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا پیشاب پاک تھا یا ناپاک ؟ کیا آج ہم نے وہی راہ اختیار نہیں کر لی ہے ؟؟؟

احسان قاسمی کی یہ نگارش بھی پڑھیں : مستحسن عزم : تعارف، غزلیں اور ماہئیے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے