ماہِ شعبان اور شبِ براءت کی فضیلت

ماہِ شعبان اور شبِ براءت کی فضیلت


 مفتی مرغوب الرحمن قاسمی

ناظم دارالعلوم محمودیہ موضع سنگھین، مالیر کوٹلہ پنجاب

ماہِ شعبان ایک بابرکت مہینہ ہے، ”شعبان“ عربی زبان کے لفظ ”شَعّْبْ“ سے بنا ہے، جس کے معنی پھیلنے کے آتے ہیں اور چوں کہ اس مہینے میں رمضان المبارک کے لیے خوب بھلائی پھیلتی ہے اسی وجہ سے اس مہینے کا نام ”شعبان“ رکھا گیا۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کا قول کہ شب برات کی فضیلت بے بنیاد نہیں، مفتی صاحب فرماتے ہیں:
شب برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں
حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی ہے. ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بے شک کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماء نے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے. 
لیکن حضرات محدثین و فقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تائید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اس کی کمزوری دور ہوجاتی ہے. جیساکہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں، لہذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد و بے اصل کہنا بالکل غلط ہے. امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دور تابعین تبع تابعین کا دور اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے. لوگ اس رات میں خصوصی عبادت کا اہتمام کرتے رہے ہیں. لہذا اس کو بدعت کہنا یا بے بنیاد  و بے اصل کہنا درست نہیں. 
صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے. اس رات میں جاگنا و عبادات کرنا باعث اجر و ثواب ہے. 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے کے اکثر حصے میں روزے رکھتے تھے؛ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: مَا رَأَیْتُ رسولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَہْرٍ قَطُّ الَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَیْتُہ فِيْ شَہْرٍ اَکْثَرَ مِنْہُ صِیَامًا فِيْ شَعْبَانَ (صحیح بخاری ۱/۲۶۴، صحیح مسلم ۱/۳۶۵) یعنی میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پورے اہتمام کے ساتھ) رمضان المبارک کے علاوہ کسی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں۔ ایک اور حدیث میں فرماتی ہیں: کَانَ اَحَبُّ الشُّہُورِ اِلٰی رسولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن یَّصومَہ شَعْبَان ثُمَّ یَصِلُہ بِرَمَضَانَ (کنزالعمال حدیث ۲۴۵۸۴) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مہینوں سے زیادہ یہ بات پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے ملادیں۔

شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شب برأت کو شب برأت اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات میں دو قسم کی براء ت ہوتی ہے: (۱) ایک براء ت تو بدبختوں کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ (۲) دوسری براء ت خدا کے دوستوں کو ذلت و خواری سے ہوتی ہے۔ (غنیة الطالبین، ص۴۵۶)

نیز فرمایا کہ جس طرح مسلمانوں کے لیے اس روئے زمین پر عید کے دو دن (عیدالفطر وعیدالاضحی) ہیں، اسی طرح فرشتوں کے لیے آسمان پر دو راتیں (شبِ براء ت وشبِ قدر) عید کی راتیں ہیں۔ مسلمانوں کی عید دن میں رکھی گئی؛ کیوں کہ وہ رات میں سوتے ہیں اور فرشتوں کی عید رات میں رکھی گئی؛ کیوں کہ وہ سوتے نہیں۔ (غنیة الطالبین، ص۴۵۷)

احادیث شریفہ میں شبِ براء ت کی بہت زیادہ فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے، جن میں سے تین حدیثیں پیش کی جاتی ہیں:

(۱) بے شمار لوگوں کی مغفرت:

عَنْ عَائِشَةَ قالت فَقَدتُّ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لَیْلَةً فَخَرَجْتُ فَاِذَا ہُوَ بِالبَقِیْعِ فَقَالَ أَکُنْتِ تَخَافِیْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْکِ؟ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ظَنَنْتُ اَنَّکَ اَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وتَعَالٰی یَنْزِلُ لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ․ (ترمذی شریف ۱/۱۵۶، ابن ماجہ ،ص۹۹)

ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے، فرماتی ہیں: میں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی، تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع (مدینہ طیبہ کا قبرستان) میں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے دیکھ کر) ارشاد فرمایا: کیا تو یہ اندیشہ رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ بے انصافی کرے گا؟ (یعنی تیری باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس چلا جائے گا؟) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہٴ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔ (بنوکلب عرب کا ایک قبیلہ تھا، عرب کے تمام قبائل سے زیادہ اس کے پاس بکریاں ہوتی تھیں۔ (مرقاة شرح مشکوٰة ۳/۳۳۹)

(۲) صبح تک اللہ تعالیٰ کی ندا:

عَنْ عَلِیِّ بنِ اَبِیْ طالبٍ قال قال رسولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِذَا کانَتْ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوا لَیْلَہَا وصُوْمُوْا نَہَارَہَا فَاِنَّ اللّٰہَ یَنْزِلُ فِیْہَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فیَقُولُ اَلاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِیْ فَاَغْفِرَ لَہ اَلاَ مِنْ مُسْتَرْزِقٍ فَاَرْزُقَہ اَلاَ مُبْتَلاً فَاُعَافِیْہِ کَذَا اَلاَ کَذَا حتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ․ (ابن ماجہ ص۹۹، شعب الایمان ۳/۳۷۸، حدیث ۳۸۲۲)

ترجمہ: حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جب نصف شعبان کی رات آجائے تو تم اس رات میں قیام کیا کرو اور اس کے دن (پندرہویں تاریخ) کا روزہ رکھا کرو؛ اس لیے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے سے طلوعِ فجر تک قریب کے آسمان پر نزول فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ کیا ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا جس کی میں مغفرت کروں؟، کیا ہے کوئی مجھ سے رزق کا طالب کہ میں اس کو رزق عطا کروں؟ کیا ہے کوئی کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا کہ میں اس کو عافیت عطا کروں؟ کیا ہے کوئی ایسا؟ کیا ہے کوئی ایسا؟ اللہ تعالیٰ برابر یہ آواز دیتے رہتے ہیں؛ یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔

(۳) کن لوگوں کی مغفرت نہیں ہوتی:

عَنْ اَبِیْ مُوسیٰ الاشْعَرِیِّ عَنْ رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اِنَّ اللّٰہَ لَیَطَّلِعُ فی لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہ اِلاَّ لِمُشْرِکٍ او مُشَاحِنٍ․ (سنن ابن ماجہ ص۹۹، شعب الایمان للبیہقی ۳/۳۸۲)

ترجمہ: حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ جھانکتے ہیں یعنی متوجہ ہوتے ہیں نصف شعبان کی رات میں، پس اپنی تمام مخلوق کی مغفرت فرمادیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے۔

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں ”زانیہ“ بھی آیا ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی ایک روایت میں ”رشتہ داری توڑنے والا، ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے والا، ماں باپ کا نافرمان اور شراب کا عادی“ بھی آیا ہے اور بعض روایات میں عشّار، ساحر، کاہن، عرّاف اور طبلہ بجانے والا بھی آیا ہے۔ گویا احادیث شریفہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عام مغفرت کی اس مبارک رات میں چودہ (۱۴) قسم کے آدمیوں کی مغفرت نہیں ہوتی؛ لہٰذا ان لوگوں کو اپنے احوال کی اصلاح کرنی چاہیے: (۱) مشرک، کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہو (۲) بغیر کسی شرعی وجہ کے کسی سے کینہ اور دشمنی رکھنے والا (۳) اہل حق کی جماعت سے الگ رہنے والا (۴) زانی وزانیہ (۵) رشتے داری توڑنے والا (۶) ٹخنوں سے نیچے اپنا کپڑا لٹکانے والا (۷) ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا (۸) شراب یا کسی دوسری چیز کے ذریعے نشہ کرنے والا (۹) اپنا یا کسی دوسرے کا قاتل (۱۰) جبراً ٹیکس وصول کرنے والا (۱۱) جادوگر (۱۲) ہاتھوں کے نشانات وغیرہ دیکھ کر غیب کی خبریں بتانے والا (۱۳) ستاروں کو دیکھ کر یا فال کے ذریعے خبر دینے والا (۱۴) طبلہ اور باجا بجانے والا۔ وغیرہ


شبِ براء ت میں کیا کیا جائے؟

(۱) شب براء ت میں عبادت کریں مگر؟

اس سلسلے میں چند باتیں پیش نظر رہنی ضروری ہیں: (الف): نفلی عبادت تنہائی میں اور اپنے گھر میں ادا کرنا افضل ہے؛ لہٰذا شب براء ت کی عبادت بھی گھر میں کریں، مسجد میں نہیں، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اِجْعَلُوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ مِنْ صَلَاتِکُمْ وَلَا تَتَّخِذُوْہَا قُبُوْرًا“ (بخاری شریف ۱/۱۵۸) اپنی نماز کا کچھ حصہ اپنے گھروں میں بناؤ یعنی نوافل گھر میں ادا کرو اور ان کو قبرستان نہ بناؤ کہ قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جاتی (تحفة القاری ۳/۵۰۷)

(ب) اس رات میں (اسی طرح شب قدر میں بھی) عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں؛ ذکر وتلاوت، نفل نماز، صلاة التسبیح وغیرہ کوئی بھی عبادت کی جاسکتی ہے۔

(ج) اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق عبادت کرنی چاہیے، اتنا بیدار رہنا صحیح نہیں ہے کہ آدمی بیمار ہوجائے۔ و فجر کی  نماز قضاء ہوجائے. 

(د) پورے سال فرض نماز کا اہتمام کیا جائے، صرف شب براءت میں نفلی عبادت کرکے اپنے کو جنت کا مستحق سمجھنا باطل خیال ہے، یوں اللہ تعالیٰ مختار کل اور قادر مطلق ہے جس کو چاہے معاف کرسکتا ہے۔

(ھ) بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس رات میں ایک مخصوص طریقے سے دو رکعت نماز پڑھ لی جائے تو جو نمازیں قضا ہوگئیں وہ سب معاف ہوجائیں گی۔ یہ بات بالکل بے اصل ہے۔اس طرح کی من گھڑت باتوں کا کوئی ثبوت نہیں قرآن و حدیث میں. 

(و) شب براء ت میں فضول گپ شپ میں شب بیداری کرنا، گلیوں، چوراہوں اور ہوٹلوں میں وقت گذارنا بالکل بے سود؛ بلکہ ”نیکی برباد گناہ لازم“ کا مصداق ہے۔

اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ پندرہویں شعبان کے روزے کو نہ تو سنت قرار دینا مناسب ہے اور نہ بدعت؛ البتہ مستحب کہا جائے گا؛ کیوں کہ ایک ضعیف حدیث میں اس کی فضیلت مذکور ہے اور فضائل میں ضعیف حدیث قابل قبول ہوتی ہے۔

لہٰذا بہتر تو یہ ہے کہ ماہِ شعبان کے اکثر حصے کے روزے رکھے جائیں، یہ نہ ہوسکے تو ماہ شعبان کے نصف اوّل کے روزے رکھے جائیں، یہ بھی نہ ہوسکے تو ایام بیض (۱۳، ۱۴،۱۵ شعبان) کے روزے رکھے جائیں اور اتنا بھی نہ ہوسکے تو کم ازکم پندرہ شعبان کا روزہ تو رکھ ہی لے، یہ روزہ بھی ان شاء اللہ موجب اجر ہوگا۔

شب براء ت کی خرافات

مندرجہ بالا تین اعمال شب براءت سے متعلق ہیں، ان کے علاوہ دیگر تمام اعمال خلافِ سنت، بدعات و خرافات اور بے اصل ہیں، جن کی شریعت اسلامیہ میں قطعاً گنجائش نہیں، مثلاً:

(۱) آتش بازی

ان بدعات وخرافات میں سب سے بدترین عمل ”آتش بازی“ ہے، جو آتش پرستوں اور کفار ومشرکین کی نقل ہے، اس شیطانی رسم میں ہرسال مسلمانوں کی کروڑوں کی رقم آگ میں جل جاتی ہے، بڑی دھوم دھام سے آگ کا یہ کھیل کھیلا جاتا ہے، گویا ہم خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی نیازمندی اور عبادت واستغفار کا تحفہ پیش کرنے کے بجائے اپنے پٹاخے اور آگ پیش کرتے ہیں۔

(۲) چراغاں کرنا روشنی وغیرہ. 

شبِ براء ت کے موقع پر بعض لوگ گھروں، مسجدوں اور قبرستانوں میں چراغاں کرتے ہیں، یہ بھی اسلامی طریقے کے خلاف ہے اور غیر مسلموں کے تہوار دیوالی کی نقل اور مشابہت ہے۔ علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ: چراغاں کی رسم کا آغاز یحییٰ بن خالد برمکی سے ہوا ہے، جو اصلاً آتش پرست تھا، جب وہ اسلام لایا تو اپنے ساتھ یہ آگ اور چراغ کی روشنی بھی لایا، جو بعد میں مسلم سوسائٹی میں داخل ہوگیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس کو مذہبی رنگ دے دیاگیا۔ (عمدة القاری ۱۱/۱۱۷) اسی طرح غیرمسلموں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے یہ رسم ہم نے اسلام میں داخل کرلی اور غیروں کی نقالی کرنے لگے، جب کہ غیروں کی نقل ومشابہت پر سخت وعید آئی ہے جس کو اوپر بیان کردیاگیا۔

(۳) حلوہ پکانا یا کھیر وغیرہ پکانا؟

شبِ براء ت میں بعض لوگ حلوہ بھی پکاتے ہیں؛ حالاں کہ اس رات کا حلوے سے کوئی تعلق نہیں۔ آیات کریمہ، احادیث شریفہ، صحابہٴ کرام کے آثار، تابعین و تبع تابعین کے اقوال اور بزرگانِ دین کے عمل میں کہیں اس کا تذکرہ اور ثبوت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ شیطان نے یہ سوچا کہ اس رات میں عبادت واستغفار کے ذریعے اللہ تعالیٰ لا تعداد لوگوں کی مغفرت فرمائے گا اور ان کی نیکیوں میں اضافہ ہوگا تو مجھ سے یہ بات کیسے برداشت ہوگی؛ اس لیے اس نے مسلمانوں کو ان خرافات میں پھنسا کر سنّت طریقے سے دور کردیا۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک جب شہید ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلوہ نوش فرمایاتھا، یہ بات بالکل من گھڑت اور بے اصل ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک غزوۂ احد میں شہید ہوئے تھے، اور غزوۂ احد ماہِ شوال میں پیش آیا تھا، جب کہ حلوہ شعبان میں پکایا جاتا ہے. دانت ٹوٹنے کی تکلیف ماہِ شوال میں اور حلوہ کھایا گیا دس مہینے بعد شعبان میں، کس قدر بے ہودہ اور باطل خیال ہے!

غرض ہمیں ہر طرح کے خرافات سے بچنا چاہئے اور جو چیزیں شریعت سے ثابت ہیں اسی کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے،
اللہ تعالیٰ پوری امت کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور بدعات وخرافات سے حفاظت فرما کر اتباعِ سنت کے جذبے سے مالامال فرمائے! آمین ثم آمین

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے