ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کی عصری معنویت

ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کی عصری معنویت


 سید آصف عباس میرزا

قلعہ نظامت،مرشدآباد
اردو ادب کے شجر سایہ دار میں جو مختلف النوع قسم کے برگ و ثمر موجود ہیں ان میں ناول کو اہم ترین مقام حاصل ہے۔دیگر کئی فنون کی طرح فن ناول نگاری بھی ہم نے مغرب سے مستعار لی ہے۔ اصلا ًناول کالفظ انگریزی زبان سے ماخوذ ہے مگر انگریزی میں بھی یہ اطالوی لفظ "Novella” سے در آیاہے۔یوں تو ماہرین ادب نے اس صنف کی سینکڑوں تعریفیں بیان کی ہیں لیکن در حقیقت یہ کہانی بیان کرنے کا ایک فن ہی ہے جسے مختلف پیمانے اور تکنیک کو بروئے کار لاتے ہوئے ” ناول” کی شکل و ہیئت دی جاتی ہے۔
جب ہم تاریخ اردو ادب پر نظر ڈالتے ہیں تو یہاں بھی ہمیں ابتدائی عہد سے ہی قصہ کہانیوں کی روایت شعری و نثری داستانوں کی شکل میں ملتی ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد سے قبل جو نثری نمونے موجود تھے وہ زیادہ تر داستانوں ہی کی شکل میں تھے، جہاں اکثر ہیرو اپنی کائنات سود و زیاں سے نکل کر عجائبات دنیا کی سیر کرتا ہوا نظر آتا اور اس سیر کے درمیان دیووں، جنات و دیگر محیر العقول طاقتوں کا مقابلہ کرتا اور ان پر فتح پاکر منزل مقصود کو جا پہنچتا۔ اور اس طرح قصہ کا اختتام مسرت و شادمانی کے عالم میں ہوتا ہوا نظر آتا۔مثال کے طور پر ہم "قصہ الف لیلی” اور "طلسم ہوشربا”وغیرہ کا نام لے سکتے ہیں۔
نذیر احمد جن کا زمانہ حیات 1836- 1910 ہے، ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جن کے زور قلم کے نتیجے میں اردو میں ناول نگاری کی ابتدا ہوتی ہے۔حال آں کہ تکنیکی طور پر نذیر احمد کے جامع ناول نگار ہونے پر کئی سوالات بھی اٹھائے گئے بلکہ ان کے ناولوں کو "پند و موعظت کا دفتر”تک کہا گیا لیکن ان اعتراضات کے باوجود زیادہ تر ناقدین ادب انہیں اردو کا اولین ناول نگار تسلیم کرتے ہیں۔ مثلا پروفیسر احتشام حسین اور پروفیسر قمر رئیس وغیرہ نے واضح لفظوں میں نذیر احمد کے اولین ناول نگار ہونے کی وکالت کی ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد نے کل سات ناول لکھے۔یہ سلسلہ سن 1869 سے شروع ہوا جب ” مراةالعروس”کے عنوان سے آپ کا پہلا ناول منظر عام پر آیا۔بعد ازاں یہی باقاعدہ طور پر اردو کا پہلا ناول کہلایا۔تب سے لے کر آج تک اردو ناول نے بیش بہا ترقی کے منازل طے کئے ہیں،نئی تکنیکوں کا ایجاد ہوا، کئی تجربے کئے گئے لیکن جس مقصد کے تحت نذیر احمد نے اپنے ناول تحریر کئے اس کی شاید عصر حاضر میں ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ نذیر احمد کے تمام ناول سماجی و معاثرتی مسائل کے اردگرد گردش کرتے ہیں۔ہر ایک ناول کے اندر کوئی نہ کوئی اصلاحی مقصد موجود ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کی عصری معنویت درحقیقت ان کے تحقیقی و تنقیدی مطالعے میں ہی پوشیدہ ہے۔ ضروری ہے کہ نذیر احمد کے ناولوں کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ نذیر احمد نے اپنا پہلا ناول ” مراةالعروس” کے عنوان سے 1869 میں قلم بند کیا۔دراصل اس تحریر کے پس پردہ ان کامقصد اپنی بچیوں کے لئے ایک ایسی کتاب تحریر کرنا تھی جسے پڑھ کر ان کے اخلاق و اعمال میں درستگی و شائستگی پیداہو۔اسی مقصد کے تحت انہوں نے قلم برداشتہ لکھنا شروع کیا اور جب یہ تحریر مکمل ہوئی تو اردو میں ناول نگاری کی ابتدا ہوچکی تھی۔
ناول ‘مراةالعروس’ کا بنیادی موضوع امور خانہ داری سے مربوط ہے۔اس ناول میں نذیر احمد نے متوسط مسلم معاشرے  کی مستورات کے سماجی اور اخلاقی حالات کا نقشہ کھینچا ہے۔بڑی بہن اکبری خانم اور چھوٹی بہن اصغری خانم اس ناول کے مرکزی کردار ہیں۔اکبری کی پرورش بڑے ناز و نعم میں ہوئی۔نانی اور ماں کے لاڈ و پیار نے اسے امور خانہ داری سے ہمیشہ بے نیاز ہی رکھا۔اس کا سارا دن پڑوس کی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے کودنے میں گزر جاتا۔لہذٰا اکبری خانم جب سن شعور کو پہنچی تو وہ ایک پھوہڑ لڑکی ثابت ہوئی جس کے مزاج میں ضد و غصہ ہے تو اخلاق میں نامعقولیت۔اس کے حرکات و سکنات میں سلیقہ نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں تھی۔جب وہ نکاح کے بعد سسرال جاتی ہے تو وہاں بھی شوہر محمد عاقل اور سسرال والوں سے نباہ کرپانا اس کے لئے دشوار ہوجاتاہےاور آخرکار وہ لڑ جھگڑ کر اپنے مائیکے واپس چلی آتی ہے۔گوکہ اس کا شوہر اکبری کی ضد کے آگے مجبور ہوکر اپنے والدین سے علا حدہ ہوجاتا ہے اور ایک الگ مکان میں اکبری کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کرتاہےلیکن اکبری خانم اس قدر نالائق ثابت ہوتی ہے کہ وہ اپنے مکان کا انتظام بھی سنبھالنے سے قاصر رہتی ہے. نتیجتاً اس کی ذاتی و ازدواجی زندگی ہمیشہ مختلف پریشانیوں اور مصیبتوں سے گھری رہتی ہے۔
اکبری  خانم کے برعکس اس کی چھوٹی بہن اصغری خانم بچپن ہی سے سلیقہ مند ثابت ہوتی ہے۔گرچہ اصغری کی تربیت و پرورش بھی اسی گھر میں ہوئی تھی لیکن اکبری کی طرح اصغری کا لاڈ پیار نہیں ہواتھا۔اصغری بڑی ہی سلیقہ شعار و عقل مند تھی۔اس کے کردار میں ہر وہ عادت و صفت موجود تھی جو ایک باسعادت انسان میں ہونی چاہئے. مثلاصبح سویرے اٹھنا،نماز پڑھنا،گھر کی صفائی کرنا ،لکھناپڑھنا،سلائی کڑھائی،کھاناپکانا وغیرہ اس کے کردار کا حصہ تھے. اسی لئے جب وہ نکاح کے بعد اپنے شوہر محمد کامل کے گھر جاتی ہے تو اپنی حکمت و دانائی سے اپنے سسرال میں بہت سے بگڑے کاموں کو درست کرتی ہے نیز دھیرے دھیرے وہ ان تمام تدابیر کو بروئے کار لاتی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف اس کے سسرال میں بلکہ اس کے معاثرے میں بھی خوش حالی اور مثبت تبدیلی آنے لگتی ہے اور اس کی اچھی صفات و خصائل کی بنا پر لوگ اسے ‘تمیز دار بہو’ کہہ کر پکارنے لگتے ہیں. جب کہ اکبری خانم اپنے برے افعال اور بدمزاجی کی وجہ سے ‘مزاج دار بہو’ کالقب پاتی ہے۔ ناول کے اختتام پر نذیر احمد نے اصغری خانم کو ایک مثالی کردار کے طور پر پیش کیا ہے اور یہ تاثر  دینے کی کوشش کی ہے کہ مسلم گھرانے کی  لڑکیاں بھی اصغری خانم کو اپنا رول ماڈل اور نمونہ حیات بنائیں۔یہ ناول نہ صرف مشہور و مقبول ہوا بلکہ حکومت کی جانب سے نذیر احمد انعام کے حق دار بھی قرار پائے۔
اس کے بعد 1873 میں نذیر احمد کا دوسرا ناول "بنات النعش” شائع ہوا۔یہ دراصل ‘مراةالعروس’ کا دوسرا حصہ ہے۔ مراةالعروس کا مرکزی کردار اصغری خانم نے بچیوں کی تعلیم و تربیت کاذمہ اٹھاتے ہوئے اپنے گھر پر ہی انہیں مختلف علوم اور امور خانہ داری سے متعلق تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا۔اس ناول میں نذیر احمد نے تعلیم نسواں کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔اس میں ناول نگار نے مختلف سائنسی مضامین مثلاً رنگوں کی خصوصیات، زمین کا حجم ، علم التاریخ، علم الجغرافیہ، اجرام فلکی وغیرہ سے متعلق معلومات کو کہانی کی شکل میں پیش کیا ہے۔ مراةالعروس سے نذیر احمد نے جس تحریک کی ابتدا کی تھی”بنات النعش’ اس مشن میں محض ایک اضافہ کہی جاسکتی ہے۔
"توبتہ النصوح” نذیر احمد کا تیسرا ناول ہے جو 1877 میں شائع ہوا۔بلاشبہ یہ نذیر احمد کا شاہ کار ناول ہے، جس میں "تربیت اولاد’کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ نصوح اپنے گھر کا سربراہ ہے جو ناول کی شروعات میں وبائی مرض ہیضہ کا شکار ہو جاتا ہے۔گرچہ اس موذی مرض نے بہتوں کی جانیں لے ڈالی تھیں لیکن نصوح مبتلائے مرض ہوکر بھی شفایاب ہو جاتا ہے، لیکن عالم بیماری میں وہ ایک ایسا خواب دیکھتا ہے، جو اس کی فکر و فراست کو یکسر تبدیل کر دیتا ہے۔ نصوح اپنی پچھلی زندگی کے گناہوں سے صدق دل سے توبہ کرکے شرعی احکامات پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ جب نصوح اپنی زوجہ فہمیدہ سے اس خواب اور اپنے نیک ارادے کا اظہار کرتا ہے تو وہ بھی اس معاملے میں اپنے شوہر کا ساتھ نبھانےکا مصمم ارادہ کرتی ہے۔اس طرح نصوح اپنی اولادوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش شروع کرتا ہے۔اول اول وہ اپنے چھوٹے اور منجھلے بیٹے یعنی سلیم وعلیم اور منجھلی بیٹی حمیدہ کو بہ آسانی اپنا ہمنوا اورہم خیال بنا لیتا ہے مگر اس کی بڑی دختر نعیمہ اور بڑا پسر کلیم اپنے باپ کی مخالفت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ دراصل نعیمہ اور کلیم ہی اس ناول کی جان ہیں، جن کی بحث و تکرار کی مدد سے ہی کہانی آگے بڑھتی ہے۔ ہر چند کہ فہمیدہ ’حمیدہ کو خوب سمجھاتی ہےاور اسے شرعی امور کا پاس و لحاظ رکھنے کی تلقین کرتی ہے لیکن حمیدہ کسی طرح اس کی قائل نہ ہوئی۔ آخرکار وہ گھر والوں سے روٹھ کر اپنی خالہ زاد بہن صالحہ کے ہم راہ اپنی خالہ کے یہاں چلی جاتی ہے۔ ادھر کلیم اپنے والد کے ارادے سے واقف ہونے کے بعد گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور اپنے عیش پرست دوست مرزا ظاہر دار بیگ کے یہاں پناہ لیتا ہے. لیکن جب اسے ظاہردار بیگ کی منافقت اور جھوٹی ظاہرداری کا علم ہوتا ہے تو وہ چاندنی چوک میں چند روز عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے بعد دولت آباد کی راہ لیتا ہے۔ جوان کلیم طبیعت سے شاعر تھا اور والئ دولت آباد کے مصاحبین میں شامل ہونے کی نیت سے وہاں گیا تھا لیکن یہاں پہنچ کر اس کے سارے خواب ٹوٹ گئے اور مجبوراً اسے فوج میں شمولیت اختیار کرنی پڑی۔ آخرکار کارزارِ جنگ میں زخمی ہوتا ہے اور وقت نزع اپنے والدین کے یہاں پہنچا یا جاتا ہے، جہاں کچھ وقت تک دردناک تکلیف میں مبتلا رہنے کے بعد اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ البتہ مرنے سے پہلے وہ نصوح سے معافی کا طلب گار ہوتا ہےاور ادھر حمیدہ بھی  اپنی نیک صفت خالہ کی صحبت میں رہ کر راہ راست پر آجاتی ہے۔یعنی نصوح بڑی مشقت اور بڑے رنج اٹھانے کے بعد اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
1885 میں نذیر احمد کا چوتھا ناول بعنوان ” فسانہ مبتلا” شائع ہوا۔یہ بھی ایک نصیحت آموز ناول ہے، جس میں ناول نگار نے کثرت ازواج کے مضر اثرات کو بڑے سلیقے اور منطقی انداز میں پیش کیا ہے۔یہاں پر قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ نذیر احمد بذات خود عربی کے اسکالر اور مترجم قرآن تھے لیکن ایک ماہر نباض کی طرح انہوں نے ایک ایسے موضوع پر ہاتھ رکھا جو داخل دین تھا۔انہوں نے نہ صرف تعدد ازواج کی خامیوں اور اس کے منفی اثرات کا تجزیہ کیا بلکہ یہ ثابت بھی کیا کہ ہندوستانی سماج میں عقد ثانی کسی عذاب سے کم نہیں۔ مبتلا اور عارف اس ناول کے کلیدی کردار ہیں جن کے درمیان بحث و مباحثہ کے ذریعہ نذیر احمد نے اس شرعی مسئلے کی عصری معنویت پر چوٹ کی ہے۔مبتلا عقد ثانی کے حق میں تمام تر شرعی مسائل پر روشنی ڈالتا ہے جب کہ عارف اس سے اختلاف کرتا ہےاور اپنے دلائل پیش کرتا ہے۔ ناول کچھ اس انداز سے آگے بڑھتا ہے کہ مبتلا کا عقد ثانی ہوجاتا ہے اور مروجہ سماجی پس منظر میں اس کے برے نتائج سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ناول اختتامی مرحلے میں پہنچتا ہے تو قاری پر یہ تاثر ہوتا ہے کہ کثرت ازدواج میں شرعاً کوئی عذر نہ صحیح مگر سماجی و معاشی نقطہ نگاہ سے اس سے درگزر کرنے میں ہی عافیت ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد کا پانچواں ناول "ابن الوقت” سن 1888 میں منظر عام پر آیا۔اس ناول میں نذیر احمد نے ابن الوقت کی کہانی بیان کی ہے جو انگریزی تہذیب و تمدن کا دل دادہ ہے۔ وہ مغربی کلچر کی تقلید کو باعث شرف سمجھتا ہے۔ ابن الوقت کے وضع قطع،نشست و برخاست، گفتار و کردار غرض اس کی شخصیت کے ہر پہلو سے مغرب زدگی جھلکتی ہے۔دراصل یہ ناول 1857 کی تحریک آزادی کے پس منظر میں لکھا گئا تھا۔اس بغاوت کے زیر اثر جہاں ایک طرف ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانوں پر حکومت وقت کی جانب سے عتاب نازل ہوتا ہے تو وہیں سینکڑوں صاحب اقتدار بھی اس کی چپیٹ میں آجاتے ہیں۔ایسے ہی ایک افسر مسٹر نوبل ہیں جو انتہائی زخمی حالت میں ابن الوقت سے روبرو ہوتے ہیں اور وہ کسی طرح نہ صرف مسٹر نوبل کی جان ہی بچاتا ہے بلکہ ان کی تیمارداری میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھتا ہے۔اس خدمت کے بدلے میں ابن الوقت کو جاگیر و ملازمت و منصب عطا کی جاتی ہے ۔ابن الوقت خود کو سفید فام قوم کی تقلید پر پوری طرح آمادہ کرتا جاتا ہے. لیکن نوبل صاحب کے ولایت چلے جانے کے بعد مختلف وجوہات کی بنا پر وہ حکومتی افسران کی نظروں میں معتوب ہوجاتا ہے۔دوسری جانب انگریزی طرز زندگی اختیار کرنے کی وجہ سے اس کے اخراجات میں بھی بے حد اضافہ ہوجاتا ہے یاں تک کہ وہ مقروض ہوتا ہے اور جائداد کو فروخت کرنے کی نوبت آن پہنچتی ہے۔ علاوہ ازایں مغربی کلچر کی اندھی پیروی کے نتیجے میں وہ مشرقی تہذیب و اقدار سے نہ صرف خائف رہنے لگتا ہے بلکہ دین و شرعی مسئلوں میں انگشت نمائی کرنے سے بھی باز نہ آیا۔ ناول "ابن الوقت” مکمل طور پر ایک معاثرتی ناول ہے، جس کے ذریعہ نذیر احمد نے مغرب کے دل دادہ اور احمق مقلدین کو آئینہ دکھایا ہے اور اس عمل کے برے نتائج سے آگاہ کیا ہے۔
"ایامی”نذیراحمدکاچھٹا ناول ہےجو1891 میں شائع ہوا۔اس ناول میں انہوں نے عقد بیوگان کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی ہے۔مسلم معاثرہ ہمیشہ ہی  سے مختلف النوع قسم کی رسم و رواج کی پابندیوں کے زد میں رہا ہے۔  ان بیجا سماجی رکاوٹوں کے باعث اکثر و بیشتر بیوہ عورتیں عقد ثانی سے محروم رہتیں اور مرمر کر ان ایام بیوگی کو کاٹنے پر مجبور ہوتیں۔ آزادی بیگم اس ناول کی مرکزی کردار ہیں جو ایک روشن خیال شخص خواجہ صاحب کی بیٹی ہیں۔اس کی ماں ہادی بیگم ایک بے حد قدامت پسند عورت ہے جسے اپنی بیٹی کی بنیادی اور فطری ضرورتوں سے زیادہ سماج کے نام نہاد رسوم کی فکر ہے۔اس ناول میں آزادی بیگم متوسط طبقے کی مظلوم خواتین کی نمائندہ بن جاتی ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے اس ناول میں بھی ایک اہم سماجی مسئلے کی طرف نہ صرف اشارہ کیا ہے بلکہ اس سے نجات کی راہ بھی بتلائی ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد کا ساتواں اور آخری ناول "رویائے صادقہ” ہے جسے انہوں نے 1894میں شائع کیا۔ اس ناول کی مرکزی کردار صادقہ ہے جو سچے خواب دیکھتی ہے۔اس ناول میں نذیر احمد نے مذہب کو موضوع بناکر اسلام اور اس کی صداقت کو تمام تر عقلی دلائل سے ثابت کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ ناول کی ہیروئن یعنی صادقہ چوں کہ ہمیشہ سچے خواب دیکھتی ہے لہٰذا معاشرے میں یہ بات مشہور ہوجاتی ہے کہ اس پر جنات کا اثر ہے اور اسی وجہ سے بائیس برس کی عمر تک وہ بن بیاہی رہتی ہے۔ آخرکار علی گڑھ کالج کے ایک طالب علم سید صادق سے وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجاتی ہے۔سید صادق بھی اس ناول کا اہم ترین کردار ہے جو ہر مسئلہ کو عقلی دلائل کی بنیاد پر حل کرنے میں یقین رکھتا ہے۔کہانی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ سید صادق مذہبیات کے سلسلے میں الجھنوں کا شکار ہوجاتا ہے. اس وقت صادقہ ایک ایسا خواب دیکھتی ہے جہاں ایک بزرگ سید صادق کے تمام سوالات کا تشقی بخش جواب دیتے ہیں اور وہ اس ذہنی ابتلا سے نجات پاتا ہے۔ ناول ‘رویائے صادقہ’میں مسلم معاثرے کے چند عقائد میں اصلاح کی کوشش کی گئی ہے۔کیوں کہ اس زمانے میں ہر چہار سمت سے اسلامی عقائد پر حملے کئے جارہے تھے. نیز مغربی تعلیم کے زیر اثر پڑھا لکھا  طبقہ بھی کسی قدر شکوک وشبہات کا شکار ہوتا جارہا تھا۔ لہٰذا نذیر احمد نے بڑی اچھی کوشش کی کہ نوجوان تعلیم یافتہ معاشرے کو عقلی دلائل کے ساتھ مذہب سے قریب کرنے کا فریضہ ادا کیا۔
ڈپٹی نذیر احمد کے ان تمام ناولوں کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ  آپ کے تمام ناول اصلاحی اور مقصدی ہیں۔چوں کہ نذیر احمد اردو ادب میں فن ناول نگاری کے موجد ہیں لہٰذا انہیں یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ اس فن کو اپنی فہم و فکر کے مطابق ایک مخصوص سمت عطا کریں اور انہوں نے جس زاویے کو اپنایا وہ وقت کی سب سے اہم ضرورت تھی۔ آج اکیسویں صدی میں جب ہمارا معاشرہ تیزی سے اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہوتا جارہا ہے، تعلیم کے معنی و مفاہیم میں تبدیلی آتی جارہی ہے، مذہب سے دوری بڑھتی چلی جارہی ہے، اولادوں کی تربیت کے فرض سے غفلت برتی جارہی ہے، مغرب کی اندھی تقلید کے چکر میں نئی نسل اپنی مشرقی پہچان کو پس پشت ڈالتی جارہی ہے تو ایسے میں نذیر احمد کے ناولوں کی عصری معنویت اور بھی زیادہ بڑھ چکی ہے۔
نذیر احمد کے ناول کی دنیا میں "مراةالعروس” کی اکبری خانم، "توبتہ النصوح” کاکلیم اور ” فسانہ مبتلا” کا مبتلا ایسے کردار ہیں جن سے آج کی نئی نسل عبرت حاصل کر سکتی ہے اور ان کرداروں کے افعال و انجام سے سبق حاصل کرکے اپنے اخلاق و کردار کو درست کر سکتی ہے. ساتھ ہی” توبتہ النصوح” میں عصر حاضر کے والدین کے لئے بھی بڑا پیغام پوشیدہ ہے کہ اگر وہ فرائض پدری سے روگردانی کریں گے تو سوائے پشیمانی اور افسوس کے انہیں کچھ بھی حاصل نہ ہوپائے گا۔
لہٰذا ہم بلاشبہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ عصر حاضر میں ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کی عصری معنویت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔

مضمون نگار کا تعارف:

نام: سید آصف عباس میرزا
والد: سید افسر عباس میرزا
تعلیم: آنرس،ایم-اے(انگریزی)ایم-اے(اردو)بی-ایڈ۔
ملازمت: اسسٹنٹ ٹیچر، راشاکھوا ہایٔ اسکول، اتردیناج پور, مغربی بنگال
مکمل پتہ: قلعہ نظامت،رونق افزا، لالباغ،مرشدآباد
برقی پتہ: meerzaasif@gmail.com
موبائل:8348854657

شیئر کیجیے

One thought on “ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کی عصری معنویت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے