مکتوباتِ صوفیہ ، ایک گراں قدر علمی و ادبی سرمایہ

مکتوباتِ صوفیہ ، ایک گراں قدر علمی و ادبی سرمایہ



طفیل احمد مصباحی

خط اور مکتوب ، ابلاغ و ترسیل اور اپنے خیالات کے اظہار کا ایک اہم ذریعہ ہے۔”مکتوب نگاری” کی اہمیت مسلّم ہے اور یہ زمانہء قدیم سے رائج ہے۔بڑے بڑے علماء و مشائخ، حکماء و فلاسفہ ،ادباء و شعراء اور امراء و سلاطین نے خطوط و مکاتیب لکھے ہیں اور ان میں اپنے گراں قدر خیالات کا بر ملا اظہار اور اپنے دلی جذبات کی بھرپور عکّاسی کی ہے۔تذکرہ و سوانح نگاری میں خطوط بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔کسی بھی عظیم شخصیت کے احوال و کوائف دریافت کرنے میں یہ مکاتیب اساسی کردار ادا کرتے ہیں۔عظیم شخصیات کی ذاتی زندگی کے بہت سارے مخفی گوشوں کو یہی خطوط اجاگر کرتے ہیں۔ادب کے نثری اقسام و اصناف کے زمرے میں خطوط و مکاتیب بھی آتے ہیں۔
ہم ایک شخص سے کوئی بات کہنا چاہیں اور وہ ہمارے سامنے موجود نہ ہو تو اپنی بات اور گفتگو اُسے لکھ کر بھیجنا "مکتوب نگاری” کہلاتا ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خیال کے مطابق :
” خط دلی خیالات و جذبات کا روزنامچہ اور اسرارِ حیات کا صحیفہ ہے۔“
مکتوب نگاری، ادب کی قدیم صنف ہے مگر یہ ادبی شان اور مقام و مرتبہ کی حامل کب ہوتی ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں :
”خطوط نگاری خود ادب نہیں ، مگر جب اس کو خاص ماحول، خاص مزاج، خاص استعداد، ایک خاص گھڑی اور ایک خاص ساعت میسّر آجائے تو یہ "ادب” بن سکتی ہے۔“

ڈاکٹر جمیل جالبی کے بقول:

خط، اظہار کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس میں ایک فرد دوسرے فرد سے براہِ راست مخاطِب ہوتا ہے۔جس وقت خط لکھّا جاتا ہے، اس وقت لکھنے والے کے ذہن میں یہ خیال تک نہیں ہوتا کہ اس کا یہ خط کبھی شائع بھی ہوگا ۔یہی وجہ ہے کہ خط میں انسان نہایت سچّائی کے ساتھ اپنے دل کی بات دوسرے کو لکھ دیتا ہے ۔اسی لیے خطوط نہ صرف لکھنے والے کے بارے میں ذاتی معلومات کا خزینہ ہوتے ہیں، بلکہ ان کے مطالعے سے مکتوب نگار کی پسند و ناپسند، اس کی ذہنی سطح، اس کی خواہشات اور آرزوئیں اور اس کے فکر و ذہن کے سفر کی داستان بھی سامنے آجاتی ہے۔خط کی اہمیت یہ ہے کہ وہ ایسی نجی تحریر ہوتی ہے، جس میں کوئی تیسرا شریک نہیں ہوتا ۔خط، وقتی ضرورت کے لیے لکھّا جاتا ہے اور جب لکھنے والا اسے لکھ لیتا ہے اور جسے لکھّا گیا ہے وہ پڑھ لیتا ہے،خط کی زندگی ختم ہوجاتی ہے۔دنیا کی بڑی آبادی اسی ذریعے سے اپنے خیالات، اپنے دل کی باتیں، اپنے دکھ درد، اپنے دِل بندوں، عزیزوں، محبوبوں، اور دوستوں کو پہنچاتی ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو خط، اظہار کا سب سے اہم اور سب سے بڑا ذریعہ ہے۔باقی ذرائع اس کے بعد آتے ہیں۔
(ادب، کلچر اور مسائل، مرتّبہ: خاور جمیل، ص: 125؛ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی)

ڈاکٹر خورشید الاسلام ” خطوط نگاری ” کی اہمیت و معنویت، اس کے آغاز و ارتقاء اور خطوط کے انواع و اقسام پر گفتگو کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

خطوں میں ہمارے لیے وہی کشش ہوتی ہے، جو ہمارے لیے ہمارے دوستوں میں ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ریاضی کے مسئلے، ایمان کی نفاستیں، افسانوں کی پرچھائیاں، یہ سب پردے ہیں ۔اس لیے اگر آپ اپنے ہم سایہ کی سرگوشیاں سننا چاہتے ہیں، اسے بالکل عیاں دیکھ کر قہقہہ لگانے کا جذبہ آپ کے دل میں ہو تو ادبی کارناموں کے بجائے اس کے خطوں کا روحانی سفر کیجیے۔یہ نسخہ بہت سہل ہے۔خطوں میں آپ حکومتوں کا زوال دیکھیں گے۔ان میں بیمار بعض اوقات تندرست معلوم ہوں گے اور غم پسند، خوش نظر آئیں گے۔جنھیں آپ مغرور سمجھتے ہیں، انھیں انسان دوست پائیں گے۔جنھوں نے میدان سر کیے ہیں، ان میں گہری نسائیت ملے گی ۔خاک کے تودوں میں جذبہ پائیے گا۔مردُم بیزاری میں نرمی، نزاکت اور خلوص کی آنچ ہوگی ۔… 

وہ خط،ایک ادبی کارنامہ ہے جس کی بدولت مکتوب نگار ان چند لمحوں کی طرح لازوال ہوجائے، جنھیں جنبشِ قلم نے محفوظ کر لیا ہے۔… 
مکتوب نگاری کی ابتدا سلطنتِ روما کے زیرِ سایہ ہوئی ۔ممکن ہے قدیم تہذیب کے دوسرے مرکزوں میں بھی اس نے کچھ فروغ پایا ہو، لیکن یہ ثابت نہیں ۔… 
یہ عجیب بات ہے کہ یونان میں یہ شغل نہ عوام میں محبوب ہوا اور نہ خواص میں ۔شاید اس لیے کہ ان کی شہری ریاستیں، سیاسی اور جغرافیائی حالات کی بنا پر سیّاروں میں تبدیل ہوگئی تھیں۔…. 
روم کی عملی زندگی کی جھلکیاں اور اس کی معاشرتی پرچھائیاں دیکھنی ہوں تو "سسرو” کے مکاتیب میں دیکھیے۔آپ ان میں سادگی تلاش کریں گے تو خالی ہاتھ واپس آئیں گے۔رومیوں کے مکاتیب، خطابات اور روزمرّہ کی بول چال کے بین بین ہے۔اس دور میں فنِّ کتابت کے اصول اور بلاغت کے قواعد، خواص کی ذہنی تربیت کی پہلی منزل تھے۔ زندگی ،اخلاقیات کے بندھے ٹِکے قوانین کی پابند تھی ،اس لیے مکتوب نگاری کے فن کو بھی اسی نہج پر مرتّب کیا گیا تھا۔… 
خطوط کی مختلف قسمیں ہیں : مثلاََ، مبارک بادی کے خطوط، تنبیہی خطوط، تعزیتی خطوط، ناصحانہ خطوط، وہ خطوط جن میں کسی پر ملامت کی جائے اور وہ خطوط جن میں دوسروں کو تشفّی دی جائے۔ان کے علاوہ فرمان اور رقعات تھے اور ان سب کے آداب و القاب، مضامین اور اسالیب مقرّر تھے… 
انگریزی زبان میں پندرھویں صدی عیسوی میں مکاتیب لکھنے کا آغاز ہوا ۔یا یوں کہیے کہ انگلستان میں اس صدی سے قبل جو مکاتیب لکھے گئے، وہ لکھنے والوں کے ساتھ ہی دفنا دیے گئے۔پندرھویں اور سولھویں صدی عیسوی کے مکاتیب بیشتر واقعات کی صورت میں ہیں، جن میں الفاظ کا ہجوم قیامت سے کم نہیں ۔

(اردو نثر کا فنّی ارتقاء، ص: 399/401،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی)


خطوط کے مندرجہ بالا اقسام میں صوفیائے کرام کے خطوط و مکاتیب ” ناصحانہ خطوط ” کے زمرے میں آتے ہیں، جن میں ان نفوس قدسیہ نے اپنے مریدین کو بالخصوص اور بندگانِ خدا کو بالعموم بڑے ناصحانہ انداز میں دین و مذہب کی طرف بلایا ہے اور انھیں تزکیہء نفس و تطہیرِ باطن کی تعلیم دی ہے۔
صوفیائے کرام کے زبانِ فیض ترجمان اور قلمِ حقیقت رقم سے صادر ہونے والے ایک ایک جملے اور فقرے بڑی بڑی کتابوں پر بھاری ہیں ۔ ان ملفوظات و مکاتیب نے لوگوں کے دلوں کی کایا پلٹ کر رکھی دی ہے اور ایک انقلابِ عظیم برپا کیا ہے۔غرض کہ صوفیائے کرام کے مکتوبات و ملفوظات اور ان کے عارفانہ کلام، روح کی تسکین اور باطنی امراض سے شفا پانے کا مؤثّر ترین ذریعہ ہیں ،جن کا مطالعہ قارئین کے دلوں کو دنیا کی آلائشوں سے نکال کر آخرت سے قریب کرنے والا ہوتا ہے۔
صوفیائے کرام کے مکتوبات ناصحانہ و عارفانہ ہونے کے باوجود علمی و ادبی حیثیت کے حامل ہیں۔ان گراں قدر مکاتیب میں جہاں شریعت کے مسائل و آداب بیان کیے گئے ہیں،وہیں طریقت و معرفت کے رازہائے سربستہ سے نقاب بھی ہٹائے گئے ہیں۔ان خطوط میں قارئین کو جہاں مختلف علوم و فنون کی سیر کرائی گئی ہے، وہیں ادب کے گوہرِ آبدار سے صفحہء قرطاس کو مزیّن بھی کیا گیا ہے۔علم تفسیر، علم حدیث، علم کلام، علم فقہ و اصول ِ فقہ، علم تصوف و معرفت، علمِ تجوید و قراءت ،غرض کہ ہر ایک فن پہ کسی نہ کسی جہت سے ضرور روشنی ڈالی گئی ہے۔صوفیائے کرام نے ،دعوت و تبلیغ اور علوم و فنون کی ترویج و اشاعت کے علاوہ اردو و فارسی زبان و ادب کے فروغ میں بھی مثالی کارنامے انجام دیے ہیں ۔
آج اس زمینی حقیقت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ اردو زبان جو آج ایک پودے سے تناور درخت کی شکل اختیار کر چکی ہے، اس کی ابتدائی نشو و نما اور گلشنِ اردو کی آبیاری و شادابی میں صوفیائے کرام کے خونِ جگر شامل ہیں ۔تاریخِ اردو ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی اس حقیقت سے خوب اچھی طرح آگاہ ہے کہ اردو کی تشکیلی عہد میں صوفیائے کرام نے گراں قدر ادبی و لسانی خدمات انجام دی ہیں ۔
اس ضمن میں جن صوفیائے کرام و مشائخِ عظام کو سب سے زیادہ شہرت و اعتبار حاصل ہے، ان میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، شیخ برہان الدین قطب عالم، شیخ سراج الدین ابوالبرکات شاہ عالم ، مخدومِ جہاں شیخ شرف الدین یحییٰ منیری، شیخ مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی کچھوچھوی ، شاہ صدر الدین ، شاہ میراں جی شمس العشاق ، شیخ بہاؤ الدین باجن ، سید محمد جونپوری ، قاضی محمود دریائی ، شیخ عبدالقدوس گنگوہی ، شاہ جیو گام دھنی ، شیخ برہان الدین جانم ، شیخ مظفر بلخی، شیخ خوب محمد چشتی ،حضرت امیر خسرو، شیخ محمد حسین ، عبدالرحیم خان خاناں ، سلطان باہو ، شیخ بلھے شاہ اور حاجی وارث علی شاہ وغیرہ کے نام اور ادبی کام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ان تمام اکابر صوفیائے کرام نے جو لسانی خدمات انجام دی ہیں، انھوں نے اردو کو ہندوستان میں بحیثیت زبان اس ملک کے کونے کونے تک پھیلا دیا اور عوام کو اس زبان سے اتنا قریب کر دیا کہ یہ ایک بولی سے زبان کی صورت اختیار کرتی چلی گئی…….
بقول انور سدید:
درویشانِ ہند نے اپنے باطن کی روشنی کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے اردو الفاظ کا سہارا لیا اور قربت و اپنائیت کا وہ جذبہ پیدا کیا جو مسلمان بادشاہانِ ہند اپنی دولت و ثروت کے باوجود پیدا نہ کر سکے۔
یہ لوگ حب دنیا، حب جاہ اور حب دولت سے آزاد تھے۔ دنیا پرستوں کو حق صداقت کی راہ دکھانا ان کا مقصد حیات تھا۔ ہم زبانی کے اس عمل نے اردو زبان کی ابتدائی نشو نما کو گراں قدر فائدہ پہنچایا۔ صوفیائے کرام کا یہ لسانی عمل، اردو کے لیے فالِ نیک اور مفید و کار آمد ثابت ہوا۔

صوفیائے کرام کے ملفوظاتِ عالیہ کی طرح ان کے مبارک خطوط اور "مکتوبات” بھی ہمارے علمی وادبی ذخائر کا ایک بیش قیمت حصّہ ہیں۔یہ مکتوبات ،اسلامی احکام و تعلیمات ، مسائلِ شریعت، رموزِ طریقت، اسرارِ معرفت، حقائقِ تصوّف اور گراں قدر علمی مباحث پر مشتمل ہیں۔علوم و فنون کی جلوہ سامانیوں کے علاوہ ان مکتوبات میں ادب کی بے پناہ چاشنی بھی موجود ہے۔
مخدومِ جہاں شیخ شرف الدین یحییٰ منیری، مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی اور آپ کے صاحب زادے شیخ محمد سعید سرہندی کے مکتوبات کا مطالعہ کرنے والے مُنصف قارئین ہمارے دعویٰ سے ضرور اتفاق کریں گے۔
وہ صوفیائے کرام اور مشائخِ عظام ،جن کے مکتوبات ہماری علمی اور ادبی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔
جناب سید عبد الحی رائے بریلوی نے اپنی کتاب ” الثقافۃ الاسلامیہ فی الھند ” میں مندرجہ ذیل صوفیائے کرام کے ” مکتوبات ” کا ذکر کیا ہے:

(1) مکتوباتِ شیخ صوفی حمید الدین ناگوری
(2) مکتوباتِ شیخ ابو علی شرف الدین قلندر پانی پتی
(3) مکتوباتِ شیخ شرف الدین یحییٰ منیری بہاری ، مکمّل تین جلدوں میں
(4) مکتوباتِ شیخ حکیم صدر الدین دہلوی
(5) مکتوباتِ شیخ حسین بن مُعز بہاری
(6) مکتوباتِ شیخ نور الدین بن علاء الحق پنڈوی
(7) مکتوباتِ حضرت سیّد مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی کچھوچھوی
(8) مکتوباتِ شیخ حُسام الدین مانک پوری
(9) مکتوباتِ شیخ فتح اللہ بن نظام الدین اودھی
(10) مکتوباتِ شیخ محمد بن حسن جون پوری
(11) مکتوباتِ شیخ عبد القدّوس گنگوہی
(12) مکتوباتِ شیخ عبد الرّزاق جھنجھانوی
(13) مکتوباتِ شیخ جلال الدین محمود چشتی تھانیسری
(14) مکتوباتِ شیخ عبد الحق محدّث دہلوی
(15) مکتوباتِ شیخ احمد سرہندی معروف بہ ” مجدّد الف ثانی” (تین ضخیم جلدوں میں)
(16) مکتوباتِ شیخ مجتبیٰ بن مصطفیٰ قلندر لاہر پوری
مکتوباتِ شیخ خواجہ معصوم سرہندی بن مجدّد الف ثانی
(17) مکتوباتِ شیخ کلیم اللہ جہان آبادی
(18) مکتوباتِ شیخ یحییٰ بن امین عباسی الٰہ آبادی ( تین جلدوں میں)
(19) مکتوبات المعارف، یہ حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی کے مکاتیب کا مجموعہ ہے، جسے سید ابو القاسم بن عبد العزیز حسینی واسطی فتح پوری نے جمع کیا ہے۔
(20) کلماتِ طیِّبات ۔۔۔۔۔۔
شیخ محمد احمد بچھرایونی نے اس مجموعے میں مرزا مظہر علی جانِ جاناں، قاضی ثناء اللہ پانی پتی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے مکتوبات جمع کیے ہیں۔
(21) شمس المعارف، یہ حضرت شاہ سلیمان بن داؤد پھلواروی کے مکاتیب کا مجموعہ ہے اور دو جلدوں پر مشتمل ہے۔

( اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں، ص: 303/304 ،دار المصنّفین،اعظم گڑھ، یوپی )

مکتوباتِ صوفیہ کی علمی و ادبی حیثیت:

صوفیائے کرام کے مکتوبات میں مخدومِ بِہار حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری اور مجدّدِ الف ثانی شیخ احمد سرہندی علیھما الرحمہ کو بے پناہ مقبولیت و شہرت حاصل ہوئی ۔
اور حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت مخدوم بہاری علیہ الرحمہ نے ” مکتوبات” کو خبر خیریت دریافت کرنے کے بجائے ایک مستقل فن کی حیثیت دے دی اور اسے علمی اظہارِ خیال کا ایک اہم ذریعہ بنا دیا ۔
شاہ محمد نعیم فردوسی، استاذ اردو، جامعہ سندھ ،مخدومِ بِہارشیخ شرف الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ کے مکتوبات کی علمی وادبی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں:

حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کے علمی تبحّر کا اعتراف علمائے کرام اور صوفیائے عظام دونوں کو ہے۔دونوں طبقوں کو اس امر کا اعتراف ہے کہ آپ کا قلم سرِ مو بھی حدودِ شریعت سے باہر قدم نہیں رکھتا۔مکتوبات میں مسائل کو سمجھانے کا جو طریقہ آپ نے اختیار کیا ہے، وہ ایسا ہے کہ نہ صرف سمجھ میں آجاتا ہے، بلکہ دل میں اتر جاتا ہے……
مخدومِ جہاں سے پہلے بھی ملفوظات اور مکتوبات کا دستور موجود تھا، مگر بہت ہی محدود تھا۔ملفوظات و مکتوبات، اکثر روایتوں اور حکایتوں پر موقوف تھے۔یعنی ان میں علمی مضامین کا فقدان تھا۔اس لیے اہلِ علم حضرات ان کو قبول کرنے سے ہِچکچاتے تھے۔۔۔۔۔
آپ سے پہلے ملفوظات و مکتوبات میں جن مسائل پر بحث ہوتی، ان میں منقولی دلائل سے کام لیا جاتا ۔معقولی دلائل کا گذر نہیں ہوتا۔حضرت مخدوم جہاں نے ملفوظات و مکتوبات میں مسائل کے بیان کا وہ انداز اختیار کیا، جس نے ان دونوں کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی۔آپ نے اپنے گراں قدر مکتوبات میں محقّقانہ اور فلسفیانہ انداز میں مسائل کو اس طرح سمجھایا ہے کہ ہر مکتبِ خیال کے لوگوں کو پوری پوری تشفی ہوگئی ہے۔
مخدوم جہاں کے عہد میں ” مکتوبات” کو اہم موضوعات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بنایا گیا تھا، وہ صرف خیریت اور حالات و حاجات کے بیان تک محدود تھے، مخدوم جہاں نے مکتوبات یعنی مکتوب نگاری کو ایک مستقل فن بنا دیا۔جو مضامین مستقل طور پر ایک ایک کتاب میں سموئے جا سکتے تھے، انھیں چھوٹے چھوٹے خطوط میں لکھ کر عام کر دیا۔

(مقدّمہ مکتوباتِ صدی مکمّل، ص: 33/ 34 ،جسیم بک ڈپو، دہلی )

حضرت مخدوم بِہار کے مکتوبات کی ادبی حیثیت کو اجاگر کرتے ہوئے شاہ محمد نعیم فردوسی مزید لکھتے ہیں :
( ادبی لحاظ سے ) مکتوباتِ مخدوم جہاں کو ” اعلیٰ انشا پردازی ” کا نمونہ کہا جاسکتا ہے۔اس لیے کہ اعلیٰ انشا پردازی کی تمام خصوصیات ان میں بدرجہء اتم موجود ہیں ۔ مثلاََ: زبان کی بے تکلّفی، محاورات کا برمحل استعمال، روز مرّہ، تمثیلات، اشارات اور استعارات وغیرہ سے بھی نہایت ادبی حسن کے ساتھ کام لیا گیا ہے۔آپ کے مکتوبات میں چھوٹے چھوٹے جملے فصاحت و بلاغت کے بہترین نمونے ہیں۔گویا یہ ادبی جواہر پارے ہیں جو صفحہء قرطاس پر بڑے سلیقے سے سجائے گئے ہیں۔مزید بر آں جابجا فارسی اشعار کے برمحل استعمال سے مکتوب کے صفحات کو لالہ زار بنا دیا گیا ہے۔یہ خطوط، قلم سنبھال کر نہیں لکھے گئے، بلکہ بلا تکلّف خلوص کے ساتھ لکھے گئے ہیں، جس کا مقصد صرف ایک تھا کہ بندے کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے جوڑ دیا جائے ۔مکتوبات کی زبان نہایت صاف ستھری اور نکھری ہوئی ہے۔تکلّف اور تصنّع کا کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔خالق و مخلوق کا باہمی رشتہ اور اخلاقِ انسانی کے متعلق مضامین ان مکتوبات میں افراط(کثرت) سے پائے جاتے ہیں۔مسئلہ توحید کو جس خوبی کے ساتھ سمجھایا ہے، وہ انھیں کا حق ہے۔مخدوم جہاں کی تعلیم، ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور ان کا مخصوص اندازِ بیان، یہ وہ عوامل تھے جنھوں نے آپ کے مکتوبات کو تکمیل کے درجے تک پہنچا دیے ہیں۔یہ مکتوبات، حضرت مخدوم جہاں کی تعلیمات کا خلاصہ ہیں ۔اس لیے یہاں ان کی تعلیمات کا ذکر کرنا تحصیلِ حاصل ہے۔غرض کہ آپ کے مکتوبات کی علمی وادبی حیثیت مسلّم و مکمّل ہے۔

(ایضاََ، ص: 35 ،جسیم بک ڈپو، دہلی)

حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کے علاوہ شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی) اور ان کے صاحب زادے محمد سعید سرہندی کے مکتوبات علم و فن کا گراں قدر سرمایہ ہونے کے ساتھ، ادبی نقطہء نظر سے اعلیٰ نثر نگاری اور عمدہ انشاء پردازی کا نمونہ ہیں، جن میں زبان و بیان کی چاشنی اور اسلوبِ بیان کی شیفتگی بدرجہء اتم موجود ہیں ۔ادبی لحاظ سے ان مکتوبات کی زبان، فصیح و بلیغ، شُستہ و شائستہ، عام فہم،سادہ و سلیس اور ہر قسم کے اغلاق اور فنی پیچیدگوں سے پاک ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ صوفیائے کرام کے ملفوظات و مکتوبات کو نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ منظر عام پر لایا جائے ۔عربی و فارسی مکتوبات کے تراجم کیے جائیں اور زیادہ سے زیادہ انھیں فروغ دیا جائے۔ہمارا یہ علمی کام دینی و ملیّ خدمت کے علاوہ زبان و ادب کی بھی ایک بیش بہا خدمت کہلائے گا۔


Email : tufailmisbahi@gmail.com

طفیل احمد مصباحی کا یہ مقالہ بھی ملاحظہ فرمائیں : حضرت سید شاہ اکبر دانا پوری کی نعتیہ شاعری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے