گالی

گالی


ایس معشوق احمد _

جن چیزوں پر اس دنیا میں رکاوٹیں، بندشیں اور قدغنیں لگائی جاتی ہیں، لوگ ان کی طرف زیادہ ہی کھینچے چلے جاتے ہیں۔گالی دینا معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن دی بڑے شوق سے جاتی ہے۔نون مرچ کے بغیر کھانا اور گالی کے بغیر گفتگو مزہ نہیں دیتی۔گالی وہ فن ہے جو عمل ،اشارے ،زبان اور تحریری صورت میں بیک وقت دی جا سکتی ہے،بشرطیکہ جس کو دی جائے وہ اندھا ، گونگا ،بہرہ اور ان پڑھ نہ ہو۔ہر فن کا ماہر پہلے کوئی فن سیکھنے کے لیے چند برس ریاضیت کرتا ہے، بعد میں اس فن کے نکات اور اسرار و رموز سیکھ لیتا ہے تب جاکے کہیں وہ پھر ماہر فن کہلاتا ہے لیکن گالی بنا سیکھے خودبخود زبان سے ادا ہوتی ہے۔مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، خواندہ ہو یا ناخواندہ ،چھوٹا ہو یا بڑا، غرض کسی بھی عمر کا ہو گالی ضرور دیتا ہے۔ بچے پہلے پہل انجانے جذبے کے تحت سکھینے کی خاطر گالیاں دیتے ہیں،جوان غصے کو رفع کرنے کے لیے اور بوڑھے اپنی تسکین کے لیے گالیاں دیتے ہیں۔سب سے زیادہ گالیوں کا ورد دوستوں کی بے تکلف محفلوں میں ہوتا ہے،مذاق مذاق میں ہنس ہنس کر دی بھی جاتی ہے اور کھائی بھی۔یوں تو دنیا کی ہر زبان میں گالیاں موجود ہوں گی لیکن جو چاشنی، مزہ اور لطف مادری زبان میں ننگی ننگی گالیاں دینے میں ہے کسی اور زبان میں کہاں۔گالی پہ یقینا تحقیق ہوئی ہوگی کہ اس کی ابتداء کب اور کہاں ہوئی۔ کوئی ایسی ٹھوس دلیل ابھی تک سامنے نہیں آئی جس کو بنیاد بنا کر یقین سے کہا جائے کہ ہاں گالی کی بنیاد یہاں سے پڑی۔شاید گالی کے ابتداء کی ہلکے سے نقوش حضرت آدم کو جنت سے نکالنے کے واقعہ سے جڑے ہوئے ہوں یا اللہ نے جب عزازیل کو حکم دیا کہ حضرت آدم کو سجدہ کرو اس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ہو سکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے جب لعنت کا طوق ابلیس کے گلے میں ڈال کر جنت سے نکالا ہو تو کراہت سے کچھ لفظ بھی کہے ہوں گے ۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب ہابیل اور قابیل کے درمیان اختلافات ہوئے تو ممکن ہے کہ دونوں کے درمیان کشیدگی نے اتنی شدت اختیار کی ہو کہ آپس میں طیش سے بھرے نوک و نشتر لیے الفاظ کا تبادلہ ہوا ہو گا۔ممکن ہے کہ اسی روز طیش سے بھرے اور نفرت و کراہت لے الفاظ بعد میں گالیاں بن گئی ہوں۔ عین ممکن ہے کہ وہاں سے گالی کا جنم ہونے کے بعد یہ فن ترقی کی منازل طے کر کے ہم تک پہنچا ہو۔ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے اس فن کو زندہ رکھنے اور عروج بخشنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔

انسان کے جذبات میں شدت اور اس دریا میں کب سکون واقع ہو ، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔جذبات اپنے عروج پہ ہوں اور طیش کا دریا چڑھا ہوا ہو تو بے ساختہ منہ سے کوئی ایسا جملہ نکلتا ہے جو گالی کی ابتدائی صورت بن جاتی ہے۔ بعد میں اس کو تراش خراش کر اور چمکا کر عمدہ سی گالی بنا دیا جاتا ہے۔ انسان کب طیش میں آئے اور کس کو گالی دے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔پرانے زمانے میں شاید گالی پہ جنگ ہوئی ہو لیکن موجودہ دور میں سب سے زیادہ لڑائیاں اسی کے سبب ہوتی ہیں۔گالی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ اس کا کوئی لباس ہے۔جب دی جاتی ہے تو پیرہن پھاڑ کر اور حیا کے پردے کو چاک کر کےدی جاتی ہے۔سب سے بد تمیز ،بے حیا اور نامعقول شخص گالیاں دیتا ہے اورسب سے شریف اور عقل مند بھی اپنے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے گالیوں کا ورد کرتے ہیں۔ گالی کا نہ کوئی خاندان ہے نہ کوئی ذات۔

ہر فن کا اپنا سلیقہ اور طریقہ ہوتا ہے، گالی کا بھی ہے۔گالی کے فن کے ہنر کا عملی مظاہرہ اس وقت ہوتا ہے جب ہمسائے کے ساتھ مڈبھیڑ ہوجائے یا دشمن کے خلاف صف آرا ہوکر مورچے سنبھالے جاتے ہیں۔ طیش میں آکر سرخ چہرے اور گرج دار آواز میں جب گالیاں دی جاتی ہیں تو خون ہی چکر نہیں کرتا بلکہ سر بھی چکراتا ہے۔مخالف کے ساتھ ساتھ تماشہ بین بھی اس گھیرے میں آتے ہیں اور بعض دفعہ ان کو بھی ماں بہن کی گالیاں سننی پڑتی ہیں۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دو ہمسایوں کے درمیان آپس میں کسی بات پہ ان بن ہوگئی۔آپس میں گالیوں کی شعلہ بیانی جاری تھی۔ ایک مہمان شخص کا گزر وہاں سے ہوا۔ وہ مہمان نا آشنا بھی رکا تو ایک نے مخالف کو یہ گالی دی کہ دیکھ تیرا داماد آ گیا۔دوسرے نے اس مہمان کو مخالف کا بہنوئی ، پھر داماد اور آخر پہ باپ بنایا۔یہ سن کر پہلے دھڑے کو غصہ آیا اور انہوں نے مہمان کو بھی لتاڑنا شروع کیا۔نہ صرف اس کو گالیوں کے ہار سے نوازا بلکہ اس کے خاندان، گاؤں ، گاؤں کے بزرگوں اور گاؤں کے مکھیا کو بھی عمدہ عمدہ اور واہیات قسم کی ننگی گالیوں سے نوازتے رہے۔مہمان اپنا منہ چھپتے چھپاتے وہاں سے نو دو گیارہ ہوگیا اور تاریخ گواہ ہے کہ اس نے اس گاؤں کا رخ پھر کبھی نہ کیا۔

گالی ہر جگہ اور ہر موقع پہ دی جاتی ہے۔مذہبی مقامات پہ کم اور عام نششت اور گپ شپ والی جگہوں پہ زیادہ۔قصور اپنا ہو یا دوسروں کا گالی کا استعمال ضرور کیا جاتا ہے۔بعض موقعوں پر ہلکی گالیاں دی جاتی ہیں اور بعض پر بھاری بھرکم۔ مذاق کرتے وقت ہلکی، چاشنی سے بھری اور شیریں گالیاں دی جاتی ہیں اور لڑائی کے وقت بھاری بھرکم ،موٹی اور ننگی۔بعض دفعہ تو عمر کا لحاظ رکھتے ہوئے بھی گالیاں دی جاتی ہیں۔بزرگ کو بیٹی کی ، بچے کو ماں کی ،جوان کو بہن اور بیوی کی گالی دی جاتی ہے۔واقعہ ہے کہ مرزا غالب کو گمنام خط آیا۔ اس نے حالی سے پڑھنے کو کہا۔حالی نے پڑھا تو دشنام طرازی دیکھ کر مناسب جانا کہ استاد کے سامنے خاموش رہا جائے۔غالب نے پوچھا تو حالی نے تامل کیا ۔ غالب نے حالی کے ہاتھ سے خط چھین کر خود پڑھنا شروع کیا۔خط میں ایک جگہ ماں کی گالی لکھی تھی۔غالب کی بذلہ سنج طبیعت جوش میں آئی اور اس نے مسکرا کر انسانی نفسیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس الو کو گالی دینی بھی نہیں آتی۔ بڈھے یا ادھیڑ آدمی کو بیٹی کی گالی دیتے ہیں تاکہ اس کو غیرت آئے، جوان کو جورو کی گالی دیتے ہیں کیوں کہ اس کو جورو سے زیادہ تعلق ہوتا ہے، بچے کو ماں کی گالی دیتے ہیں کہ وہ ماں کے برابر کسی سے مانوس نہیں ہوتا۔ یہ قرم ساق جو بہتر برس کے بڈھے کو ماں کی گالی دیتا ہے اس سے زیادہ کون بے وقوف ہوگا ؟

گالی بڑے بڑے فتنے فساد برپا کرتی ہے،لڑائیاں اور جنگیں لڑواتی ہے،قتل وغارت گری کراتی ہے، جیل پہنچاتی ہے،عدالت کی سیڑھیاں گنواتی ہے ،خون بہاتی ہے،زخم لگواتی ہے اور ہڈیاں توڑواتی ہے۔یہاں ہی بس نہیں ہوتا یہ دو قبیلوں ، بھائیوں، ہمسایوں کو آپس میں لڑانے کی محرک اور بہانہ بنتی ہے۔جب دو گروہوں کو صلح نہ کرنی ہو اور لڑنے مرنے کا ارادہ کرکے گھر سے نکلے ہوں تو گالی کے بہانے کا سہارا لیا جاتا ہے۔ "اس نے گالی کیوں دی "سے جھگڑا شروع ہوتا ہے اور ختم بڑے نقصان یا جان کے زیاں پہ ہوتا ہے۔ گالی دل کا غبار نکالنے اور دبے لاوے کو باہر نکالنے میں مدد کرتی ہے۔ایک گاؤں میں دو جوانوں کی ایک مشترکہ محبوبا تھی۔رقیبوں میں روز آمنا سامنا ہوتا تھا لیکن لڑنے کا بہانہ نہیں ملتا تھا۔کبھی کبھار اگر لڑنے کا من بنا بھی لیتے تو کامیابی نہیں ملتی۔برسوں بیت گئے لیکن امید بر نہ آئی۔ آخر کار وہ وقت بھی آیا کہ ایک نے تنگ چشمی کا مظاہرہ کرکے دوسرے کو گالی دے کر مخاطب کیا۔پہلا برسر پرخاش تھا،گالی سنتے ہی جوش میں آگیا۔مجبوبا کو بھول کر گالی کو بہانہ بنایا اور دل کی بھڑاس نکالی۔
ارود ادب میں گالیوں کا رواج تب سے ہے جب سے شعراء حضرات نے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائیاں شروع کیں۔معاصر کو چھوٹا اور خود کو بڑا شاعر ثابت کرنے کے لیے ہجو گوئی کا سہارا لیا جاتا تھا، جس میں بعض دفعہ بات طنز سے نکل کر گالی گلوچ تک آن پہچتی تھی۔شعرا حضرات کو ہی کیوں ذمہ دار ٹھہرایا جائے نثر نگاروں میں بھی اس طرح کے معرکے ہوا کرتے تھے۔ادیبوں اور شعراء کی گالی عام لوگوں سے مختلف اور "باادب” گالی ہوا کرتی تھی۔جو تہذیب کے دائرے میں رہ کر دی جاتی تھی۔ ایک دفعہ ایک شاعر کی تکرار اپنے معاصر سے ہوئی۔بحث نے طول پکڑا تو گالیوں کا تبادلہ طرفین میں ہوا۔ایک نے بڑی وضع سے گالی دی کہ تمہاری بہن کو اپنے نکاح میں لوں۔دوسرے شاعر عمر کے لحاظ سے معمر تھے۔ انہوں نے بھی حد ادب میں رہ کر ایک عدد گالی دے ہی دی کہ تمہاری بیٹی کو اپنی بہو بناؤں۔خیر گالی کیسی بھی ہو گالی ہے، چاہے مذاق میں دی جائے یا غصے میں۔

کشمیر میں اپنے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ گالی دی جائے۔حکومت ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتی تو گالی دے کر اپنے غصے اور دل کی بھڑاس نکالی جاتی ہے۔ بچہ اسکول نہ جائے تو چند گالیاں بچے کو، چند اسکول کو،چند حالات اور چند خود کو دی جاتی ہیں۔ وقت پہ گاڑی نہ ملے تو ڈرائیور حضرات کی گالیوں سے خوشآمد کی جاتی ہے۔ کھانا جلدی تیار نہ ہوا تو بیوی کو اور ان کے میکے والوں کو گالیوں سے بھرے پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔ لائٹ وقت پہ نہ آئے تو لائن مین ،منتظمیں اور پاور ڈپارٹمنٹ کی خاطر تواضع گالیوں سے کی جاتی ہے۔ کسی مقام پہ شور ہو تو شور کرنے والوں کو اور سکوت ہو تو خاموش رہنے والوں کی خیر خبر گالیوں سے لی جاتی ہے۔خراب حالات اور ہڑتال میں تنگ آکر حکومت ، عوام اور پولیس کو گالیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ غرض یہاں خود کو ،ہمسائے کو ، آفیسر کو ، ماتحت کو ، اگر کچھ دیا جاتا ہے تو وہ تحفہ خاص گالی ہے۔اگر کوئی نہایت شریف النفس ہے وہ پولیس اور آرمی کو ضرور دو چار گالیاں دے کر خود کو شانت رکھتا ہے۔جہاں جذبات کو دبایا جاتا ہو، زبان بندی اور طرح طرح کی بندشییں ہوں، اظہار ذات اور حق کی بات کہنے پہ پابندی ہو، گھٹن اور اندر کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا واحد اظہار گالی کی صورت میں ہوتا ہے۔حالات کا مقابلہ کرنا ناممکن ہوجائے تو کار آمد ہتھیار گالی بن جاتی ہے ۔خراب صورت حال کو گالیاں دے دے کر ٹھیک کرنے کا ہنر صرف کشمیریوں کے پاس ہے ۔ اس ہنر کی پاس داری اوراسے پروان چڑھانے کا عمل جاری و ساری ہے اور آنے والی نسلوں پہ یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اس فن کو مزید تقویت دیں۔گالی کو ترقی اور بلندی پہ لے جانے اور عام کرنے میں نوجوان نسل اہم کردار نبھا رہی ہے ۔گالی کو رواج بنانے اور کو بہ کو پھیلانے میں وہ بہت آگے نکل آئے ہیں۔گالی کو اتنی ترقی بھی نہیں دینی ہے کہ ہر طرف اسی کا شور سنائی دے اور شریف اور رذیل میں فرق کرنا مشکل ہو جائے۔

ایس معشوق احمد وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگار ، انشائیہ نگار ،خاکہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ ان کے مضامین کشمیر کے اخبارات و رسائل اور مختلف سوشل سائٹس پر شائع ہوتے رہتے ہیں۔2016 ء میں کشمیر یورنیورسٹی سے ایم اے اردو کیا۔اسی سال پہلی بار نیٹ اور سیٹ کے امتحانات پاس کئے۔کشمیر کے ضلع کولگام سے تعلق ہے۔
نام :-ایس معشوق احمد۔
پتہ:- کولگام کشمیر
192231

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے