تعریف کاجادو

تعریف کاجادو

انس مسرور انصاری

جادو اور جادوگروں کی کہانیاں آپ نے بہت پڑھی اور سنی ہوں گی اور آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ اُن کے جادو خطا بھی کرجاتے ہیں، لیکن ایک جادو ایسا بھی ہے جو کبھی خطا نہیں کرتا۔ ہمیشہ اپنے ہدف پر جاکر بیٹھتا ہے۔ اچھے خاصے لوگ بھی اس کا شکار ہوکر رہتے ہیں۔ یہ تعریف کا جادو ہے۔ آپ کا دوست ہو یا دشمن، یہ جادو سب پر یکساں چلتا ہے بلکہ دوڑتا ہے۔ ہمارے سیاسی لیڈران اس جادو میں بڑی مہارت رکھتے ہیں اور اسی کی بدولت بڑی بڑی کرسیاں حاصل کرلیتے ہیں۔ جس کو یہ جادو نہیں آتا وہ کبھی منتری نہیں بن پاتا۔ اس جادو کی ایک ذات برادری کا نام چاپلوسی بھی ہے۔ یہ جادو بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ ایک سیاسی جلسہ میں جب شہر کے ایک لیڈر تقریر کرنے کے لیے مائک پر آئے تو ان کے کچھ بولنے سے پہلے ہی مائک والے نے اپنا مائک بند کردیا۔ نیتاجی بہت ناراض ہوئے۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا "میں اس نیتا کو اپنے مائک میں نہیں بولنے دوں گا۔ یہ سالا اپنے بڑے لیڈروں کو اتنا مسکا مارتا ہے کہ چکناہٹ سے میرامائک خراب ہوجاتا۔"
تعریف کا جادو سرچڑھ کر بولتا ہے۔ ہر انسان اس کے اثر میں بڑی آسانی سے آجاتا ہے، بلکہ جانور تک اس جادو سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ یہ ایسا ذود اثر ہے کہ ہر کسی کو دل و جان سے عزیز ہے۔ مگر اس جادو کو چلانے میں اعتدال بھی بہت ضروری ہے۔ زیادہ چلانے پر یہ ری ایکشن بھی کرجاتا ہے۔ لوگ برامان جاتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ یہ جادو لمیٹڈ ہوتا ہے۔زیادہ چلانے پر جوتے بھی کھانے پڑسکتے ہیں۔ اس لیے احتیاط بہت ضروری ہے۔ سچ کہتے ہیں کہ وہ کام سب سے اچھا ہوتا ہے جس میں اعتدال ہو۔ اس جادو کے بڑے کرشمے ہیں۔ کچھ کرشمے آپ بھی دیکھیے۔
مشہور مصوّرہ فرنکائیزجیلٹ دنیا کے، عظیم مصور پیلو پکاسو کی بیوی تھی۔ وہ دس سال تک ساتھ رہے۔ ان کے دوبیٹے بھی ہوئے۔ پالوما اور کلاڈ۔ جب کبھی جیلٹ کو فرصت ملتی، وہ اپنا برش سنبھالتی، اسٹوڈیو کے دروازے بند کرتی اور تصویر کشی میں کھوجاتی۔ بچے بڑی تنہائی محسوس کرتے۔ ماں باپ دونوں آرٹسٹ۔دونوں اپنی اپنی دنیا میں کھوئے ہوئے۔ پالوما اور کلاڈ کو بڑی بوریت ہوتی۔ ایک دن جیلٹ اسٹوڈیو کا دروازہ بند کیےایک خوب صورت سی تصویر بنارہی تھی کہ ڈرتے ڈرتےکلاڈ اسٹوڈیو کے دروازہ پر آیا اور ہلکے سے دستک دی۔ جیلٹ نے پوچھا۔ "ہاں، کون ہے۔؟" پھر کام میں مشغول ہوگئی۔ کلاڈ نےکہا۔
"ممی! مجھے تم سے بہت پیار ہے۔" لیکن جیلٹ نے برش ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ بولی "پیارے کلاڈ! میں بھی تم کو دل و جان سے چاہتی ہوں۔" چند منٹ انتظار کے بعد کلاڈ نے کہا: "ممی! مجھے تمھاری تصویریں بہت پسند ہیں۔" جیلٹ نے اندر ہی سے کہا: "پیارے کلاڈ! شکریہ! تم ایک ننھے فرشتے ہو" پھر ایک منٹ بعد کلاڈ نےکہا۔
"ممی! تمھاری تصویروں میں تو جادو ہے۔ سچ پوچھو تو تمھاری تصویریں پاپا کی تصویروں سے بھی اچھی ہیں۔"
کلاڈ کے منہ سے یہ سنتے ہی جیلٹ نے برش رکھ دیا۔ وہ بے تابی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور دروازہ کھول کر کلاڈ کو اندر کھینچ لیا۔ گود میں اُٹھا کر اسے دیر تک پیار کرتی رہی۔
آپ نے دیکھا۔ تعریف کا جادو اس طرح سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ہمارے میر دانش مند جو ہر علم و فن کے احاطہ میں موجود پائے جا تے ہیں، غالبیات میں بھی اپنا ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ فی زمانہ اردو زبان کا ہر شاعر، ادیب، صحافی، ممتاز مقام رکھتا ہے۔ یہ مقام بہت عام ہوگیا ہے۔ ہمارے میر دانش مند کو بھی یہ امتیازی مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ غالب کے بہت سارے واقعات انھیں ازبر ہیں، جنھیں وہ موقع بے موقع، وقت بے وقت سناتے رہتے ہیں۔ ایک دن ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا۔ چچا غالب بڑے زندہ دل، آوارہ گرد اور بڑے ستم ظریف تھے۔ ان کی عادت تھی کہ دوستوں کے ساتھ گپ شپ لڑانے کے بعد دیر رات گئے گھر واپس لوٹتے تھے۔ ان کی بیگم ان سے عاجز تھیں (اکثرشاعروں کی بیگمات ان سے عاجز نظر آتی ہیں) زیادہ تر وہ دوستوں کے ساتھ رات کا کھانا کھا کر لوٹتے تھے۔ اس لیے ان کی بیگم بھی ان کا انتظار کیے بغیرسوجاتی تھیں۔ لیکن ایک رات ایسا ہوا کہ وہ شدت کے ساتھ غالب کے انتظار میں جاگ رہی تھیں۔ کافی رات گئے وہ گھر لوٹے۔ چپکے سے دروازہ کی سٹکنی کھولی اور اس خیال سے کہ کہیں پیروں کی آہٹ سے بیگم جاگ نہ جائیں، اپنے جوتے اُتار کر بغل میں دبالیے اور نہایت خاموشی کے ساتھ مکان میں داخل ہوئے۔ خدشہ تھا کہ بیگم جاگ نہ رہی ہوں۔ پنجوں کے بل کسی آہٹ کے بغیر اپنے کمرہ کی طرف بڑھے کہ اچانک چراغ کی مدّھم روشنی میں بیگم کی آواز کا بم پھٹا۔ رات کے دوپہر گزر چکے، اب تشریف لائی جارہی ہے اور وہ بھی اس حال میں کہ بغل میں جوتیاں دبی ہوئی ہیں۔ گویا اپنے ہی گھر میں چوری کا ارادہ رکھتے ہوں۔"
بیگم کی پہلی ہی آواز پر غالب یوں اُچھلے کہ جوتیاں گر کر زمین بوس ہوگئیں۔ خجالت اور شرمندگی سے بیگم سے آنکھیں نہ ملا سکے۔ چونکہ برجستہ گو تھے اس لیے برمحل جواب دیا۔ "کیا کہیں بیگم! آپ نے نمازیں پڑھ پڑھ کر سارے گھر کو تو مسجد بنا ڈالا ہے۔ اب جوتیاں پہن کر مسجد میں کیسے داخل ہوں۔ اس لیے تعظیماََ ہم نے جوتیاں بغل میں دبالیں۔"
چارپائی پر اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے بیگم نےکہا۔”ایک تو آپ نے میری زندگی کیا کم اجیرن کر رکھی ہے۔ دوسرے آپ کے شاعر و متشاعر دوستوں اور حریفوں نے مجھے الگ ملامت کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ اب تو میرے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوچکا۔ جب سے آپ کے گھر میں آئی ہوں، سکون کا سانس لینا نصیب نہ ہوا۔" (گلوگیر آواز)
‘‘آخر ہوا کیا؟ ایسی کیا افتاد آن پڑی کہ آپ اپنی جان کی دشمن ہوئی جارہی ہیں۔ ہمیں بھی تو کچھ پتا چلے۔" غالب نے بڑی دل جوئی سے پوچھا۔
"آپ کی بلا سے ہمیں کوئی کچھ کہتاپھرے۔" بیگم نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔”اللہ دشمن کو بھی شاعر کی بیوی نہ بنائے۔ اب آرام کیجئے اور صبح نہار منھ ذرا مکان کی باہری دیوار کا دیدار کرلیجیے گا۔ آپ کے ملاحظہ کے لیے کسی نے دیوار پر کوئلہ سے کچھ لکھ چھوڑا ہے۔"
اُدھر بیگم نے منھ پھیر کر دوسری طرف کروٹ بدلی اور ادھر غالب کچھ متفکر اور کچھ شرمندہ شرمندہ سے اپنی خواب گاہ میں چلے گئے۔ دوستوں کی صحبت میں جو چند جام لنڈھائے تھے، ان کانشہ ہرن ہوچکا تھا۔ صبح اُٹھے تو سب سے پہلے مکان کے باہر کی دیوار کا معائنہ کیا۔ ان کی بیگم دراز قد آور سانولے رنگ کی تھیں۔ اسی مناسبت سےکسی منچلے شاعر نے کوئلہ سے دیوار پر ایک مصرع لکھ دیا تھا۔
"طولِ شبِ دیجور سے دوہاتھ بڑی ہے"
غالب سارا ماجرا سمجھ گئے۔ دیوار کے آس پاس دیکھا تو کوئلہ کا ایک ٹکڑا زمین پر پڑا ہوا تھا۔ اُسے اُٹھا کر مصرع کے نیچے ایک برجستہ مصرع لکھ دیا۔
"وہ زلفِ سیہ جو ترے کاندھے پہ پڑی ہے"
پھر وہ اپنی بیگم کا ہاتھ پکڑ کر دروازہ پر لائے اور کہا۔ "دیکھتی ہو بیگم! کسی نے کیا ہی عمدہ شعر لکھا ہے۔ آپ توخواہ مخواہ ناراض ہوئی جارہی ہیں۔" بیگم نے شعر پڑھا۔
طولِ شبِ دیجور سے دوہاتھ بڑی ہے
وہ زلفِ سیہ جو ترے کاندھے پہ پڑی ہے
غالب کی بیگم شرمائیں، لجائیں اور مکان کے اندر چلی گئیں۔ سمجھ گئیں کہ دوسرا مصرع خود غالب نے لکھا ہے۔ آپ نے دیکھا؟ تعریف کا جادو کیسا چلا۔ آپ بھی اس جادو کو سیکھیں اور اپنی بیگم پر چلائیں اور دیکھیں کہ پھر کیا ہوتا ہے۔ ناراض دوست ہوں یا نا راض بیوی، کسی کو بھی منانا ہو تو یہ تیر بہ ہدف نسخہ ضرور آزمائیں۔ کوئی موجود نہ ہو تو خود پر ہی آزمائیں۔جیسا کہ ہمارے شعرا خود پر آزماتے ہیں۔
تعریف سے بڑاکوئی جادو نہیں۔
٭٭
انس مسرور انصاری
قومی اُردو تحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ)
سَکراول، اُردو بازار، ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر۲۲۴۱۹۰
(یو،پی)
رابطہ:9453347784۰
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :چونچؔ گیاوی طنزومزاح کا روشن ستارہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے