بات "متن کے آس پاس" اور "ہِیر اور ہِیر آفٹر" کی

بات "متن کے آس پاس" اور "ہِیر اور ہِیر آفٹر" کی

رویندر جوگلیکر

کتاب کے اثر میں ایک نوٹ:
ایک اقتباس ” متن کے آس پاس" سے
"بہت سے مقامات پر سیاسی بیانیہ میں صحافتی اسلوب کی آمیزش سے اور اس سطح پر صحافتی اظہار اور تخلیقی بیان میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ اس ناول (اماوس میں خواب از حسین الحق) میں بہت سے مقامات پر ناول کا صحافتی بیانیہ اس ناول کو کسی نہ کسی طرح زک پہنچاتا ہے۔"
ادب پاروں کی تنقید کو لے کر اور ادیب کی تخلیقیت کے حوالے سے، تنقیدی رویوں کے مختلف ڈھانچوں میں انفرادیت کا پہلو موجود تو رہتا ہے پر اس کا صاف اور ٹھوس پلیٹ فارم پر نظر آنے والا بیان بہت کم تحریروں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہاں ان دونوں کتابوں کے مضمون اور موضوع کے درمیان کوئی موازنہ یا ان کو لے کر تقابلی جائزہ کرنا مقصد نہیں۔ عرض کرنے والی بات یہ ہے کہ دونوں کتابوں کا مطالعہ کرتے وقت اس بات کا بار بار احساس ہوتا رہا کہ ان دو مختلف کتابوں کے لکھنے والوں کا ایک ساجھا طریقہ نقطہ نظر ہے۔ میرا یہ خیال ایک نظر میں دور کی کوڑی یا پھر مبالغہ آمیز خیال بھی لگ سکتا ہے، اگر دونوں کتابوں میں اختیار کی گی کئی آزاد روش کو آپ نہ سمجھ پا رہے ہوں۔
"متن کے آس پاس" کے مختلف مضامین (خاص کر فکشن سے نسبت) کی تعبیر میں ادیب کے فن اور تخلیقیت پر بحث کی بنیاد، فن پارے سے اخذ تنقیدی نکات پر رکھی گئی ہے. وہیں پر Here and Here after میں ادیب (ظاہر یہاں نرمل ورما) کی تخلیقیت کی نشو و نما کی تلاش اور ذہن کی تشکیل میں نہاں سطح کے نیچے متحرک، حیات کے مختلف ادوار میں اختیار کی ہوئی فکری جستجو اور قبول کیے گئے Influences کا کیا اور کس طرح کا رول رہا ہے اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ایک سوال یہ بھی اٹھ سکتا ہے کہ ہمارے ہم عصر تنقیدی منظر نامے میں کیا ایسی کاوشوں کے لیے کوئی جگہ ہے۔ اس سوال کا ایک سرا نرمل ورما کی فکر سے بھی جا ملتا ہے۔ ان کا زور اس بات پر ہے کہ کردار کے اندرون میں ناول نگار ایک صفر مکمل کرے جس میں ایک غیر تاریخی، اساطیر سے منسوب اندھیری یادیں باہر نکلے۔
ناول کے فارم کو لے کر نرمل ورما اپنی فکر کے سر چشمہ، جسے وہ "ثقافتی تجربے کی اس روایت” کا نام دیتے ہیں، جس میں "ہمارے رسومات، روایات، وراثت، زماں، حیات اور موت وغیرہ سے تعلق رکھنے والا شعور شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ہم صنف اور فارم کو لے کر بھرم کا شکار ہو جاتے ہیں، ایک جامد ہے تو دوسری اس کو توڑ کر اپنی سمت تلاش کرنے کی کوشش`۔ اگر ہم یہ سمجھتے تو یورپ کے ناول کے’فارم` کو اپنانا ضروری نہیں سمجھتے۔"
نرمل کی فکر اس بات سے بحث کرتی ہے کہ ناول بہ حیثیت مغربی یا یورپ کی صنف ہونے کی وجہ سے بیشتر ہندستانی ناولوں میں اُوپر عرض کیے گئے ان مختلف نقطوں کے ساتھ تجربہ کرتے وقت یورپی نظریات کا اثر بہت گہرا دکھائی دیتا ہے، اس وجہ سے ان ناولوں میں ہندستانی طرز فکر (Mindset) کا زاویہ ابھر کر نہیں دکھائی دیتا۔
نامور سنگھ نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے جو کہا ہے اس کا سیدھا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہندستانی ناول کی پہچان ایک حد تک یوں ہو سکتی ہے کہ ناول میں ہندستانی فرد کی زندگی سے نسبت اذیت کا بیان کس درجہ تک ہوا ہے اور اس میں اس اذیت سے نجات کی کوشش اور اس کے امکانات بیان میں کس طرح برتے گئے ہیں۔
گلوبلائزیشن، ما بعد جدیدیت کے دور میں یہ سبھی نقطے اور یہ سوال کتنا اہم اور مدد گار ثابت ہوں گے یہ بھی الگ سوال ہے۔ بحر حال یہ باتیں تو اپنی جگہ ایک الگ گفتگو کی مانگ کرتی ہیں لیکن دونوں کتابوں میں جو خاص بات ساجھی ہے وہ یہ کہ ادیب کی تخلیقیت اور فن پارے کے تشکیلی عمل کے بیچ میں جو خلا رہ جاتا ہے اس کی نشان دہی اس طرح سے کی گئی ہے کہ براہ راست بیان نہ کرتے ہوئے تنقیدی متن کے اندر ہی اس کا شدت سے احساس دلایا گیا ہے۔ ان کتابوں کے مصنف کو معلوم ہے کہ انھیں اس حقیقت کو پھر سے اصل معنی میں حاصل کرنا ہے جو ادیب کے فن اور اس سے پیدا ہوئے فن پارے کے باہمی تعلقات کی بنیاد میں ہے۔
آخر میں ایک اور اقتباس "متن کے آس پاس" سے
"عام انسانوں سے بر عکس اگر کسی فن کار کی زندگی محرومیوں سے عبارت ہو جائے تو ان کے اثرات اس کے فن پر جا بہ جا نظر آتے ہیں۔ فن پارہ اس کی داخلیت کا پرتو بننے لگتا ہے۔ اسی کے آئینہ میں اس کی زندگی کے نشیب و فراز کا اندازا لگایا جا سکتا ہے."
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :کتاب: متن کے آس پاس

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے