سیمانچل میں اردو زبان و ادب

سیمانچل میں اردو زبان و ادب

احسان قاسمی 

قدیم پورنیہ ضلع جواَب سیمانچل کے نام سے موسوم ہے، کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مہا بھارت کال میں پانڈؤں نے اپنے اگیات واس کا ایک طویل عرصہ یہیں گزاراتھا۔ ٹھاکر گنج کے قریب راجا بیراٹھ کی راج دھانی تھی۔ پانڈؤں نے اپنی شناخت مخفی رکھ کر راجا بیراٹھ کے دربار میں ملازمت کی تھی۔ بھیم تکیہ، ساگ ڈھالا، بھات ڈھالا، کیچک ودھ وغیرہ ان واقعات سے متعلق مشہور تاریخی حیثیت کے حامل مقامات ہیں۔
آرین جب ہندستان میں داخل ہوئے تو ان کی دوشاخیں اس خطۂ ارض پر آباد ہوئیں۔ ایک ’انگا‘ اور دوسری ’پنڈاری‘۔ انگا قوم کا سب سے مشہور اور طاقت ور راجا ’کرن‘ تھا۔ جس کا ذکر مہابھارت میں موجود ہے۔ اتر دیناج پور (قدیم ضلع پورنیہ) کے کرن دیگھی (بہ معنی تالاب) نامی قصبہ میں راجا کرن کے نام سے موسوم تالاب موجود ہے۔ اس سے کچھ فاصلے پر قدیم محلات کے کھنڈرات ٹیلوں کی شکل میں موجود ہیں، جو غالباً اس دور کی باقیات ہیں۔
نرسنگھ اوتار کا واقعہ بھی یہیں پیش آیا تھا۔ اس واقعے کے باقیات بن منکھی کے قریب دھرہرا میں اب تک موجود ہیں، جہاں ہر سال ہولیکا دہن کا پرب منایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بڑی جان، ہینو گڑھ، ننھا گڑھ وغیرہ جیسے تاریخی مقامات اب تک شکستہ حالت میں موجود ہیں۔
14فروری 1770ء کو انگریزوں نے آخری نواب محمد علی خان کو معزول کر پورنیہ کو باضابطہ ضلع کا درجہ عطا کیا۔ قدیم زمانے میں بنگال کی راج دھانی گوڑ یا لکھنوتی بھی پورنیہ کے حدود اربعہ میں واقع تھی۔1813ء میں جب مالدہ ضلع کا قیام عمل میں آیا تب راج شاہی، دیناج پور اور پورنیہ ضلعوں کے کچھ حصوں کو یکجا کر مالدہ ضلع کی تشکیل کی گئی۔ اس سے قبل پورنیہ پر فوج داروں کی حکومت ہواکرتی تھی جو بنگال کے نوابوں کے ماتحت ہوا کرتے تھے۔ صولت جنگ اور شوکت جنگ پورنیہ کے مشہور و معروف فوج دار ہوئے ہیں۔
شوکت جنگ نواب سراج الدولہ کی منجھلی خالہ منیرہ بیگم کا بیٹا تھا۔ شوکت جنگ کی بڑی خالہ مہرالنساء عرف گھسیٹی بیگم، شوکت جنگ کو مرشد آباد کے تخت پر دیکھنا چاہتی تھی۔ علی وردی خان کے انتقال کے بعد تخت بنگالہ کے لیے سراج الدولہ اور شوکت جنگ کے درمیان منی ہاری میں گنگا ندی کے کنارے 16 اکتوبر 1756ء کو جنگ ہوئی جس میں شوکت جنگ جاں بہ حق ہوگئے اور سراج الدولہ بنگال کے نواب بنے۔
پورنیہ کو ضلع بنے 252 سال کا عرصہ ہوا۔ لیکن اس کے حدود اربعہ میں کتربیونت کا سلسلہ لگاتار جاری رہا۔1956ء میں اسلام پور سب ڈویژن کا تقریباً 750 مربع میل رقبہ صوبہ بنگال میں ملا دیا گیا۔ 1973ء میں کٹیہار ضلع اور 1995ء میں کشن گنج اور ارریہ ضلع وجود میں آئے۔
سیمانچل کوئی سیاسی یا انتظامی اکائی نہیں بلکہ ایک مخصوص خطے کا نام ہے جس کا جغرافیائی، سماجی، ادبی اور ثقافتی و تہذیبی انسلاک قدیم تاریخ و تمدن سے ہے۔ فی الحال اس میں آپ پورنیہ کمشنری کے چار ضلعوں اور مغربی بنگال کے اسلام پور سب ڈویژن کو شامل کرسکتے ہیں۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ مقامی سورجا پوری بولی بولنے والی آبادی پورے اتر دیناج پور اور دکھن دیناج پور اور مالدہ ضلعوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ یاد رکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ دارجلنگ ضلع کبھی پورنیہ ضلع کا ایک حصہ ہوا کرتا تھا۔ 1810ء میں بوکانن نے پورنیہ کا رقبہ 6340 مربع میل درج کیا ہے۔
پورنیہ کے پہلے ضلع سپروائزر/کلکٹر جارج گسٹاوس ڈوکاریل(George Gustous Ducarrel) تھے۔ موجودہ جناب راہل کمار (IAS) اس کے 122ویں کلکٹر ہیں۔
سیمانچل کی مختصر تاریخ اور جغرافیائی حدود سے ہماری نئی نسل نا واقف ہے۔ سیمانچل میں کئی نابغۂ روزگار ہستیاں پیدا ہوئیں جنھوں نے تمام شعبہ ہائے حیات کو متاثر کیا ہے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا اہم رول ادا کیا ہے۔ سیمانچل نے سید عبدالصمد جیسا کھلاڑی پیدا کیا جنھیں ’فٹ بال کا جادوگر‘ کہا جاتا ہے۔ ان جیسا فٹ بال کا کوئی کھلاڑی آج تک پیدا نہیں ہوا۔ فٹ بال میں ہی سیمانچل نے عبدالطیف جیسا کھلاڑی دیا جنھوں نے ہیل سنکی، میلبورن اور روم میں 1952ء و 1956ء اور 1960ء میں منعقد ہونے والے اولمپک گیمس میں ہندستانی نیشنل ٹیم کی نمائندگی کی۔ موہن بگان رتن ایوارڈ یافتہ شری اوما پتی کمار کشن گنج کے باشندہ تھے۔ سیمانچل نے بنگلہ ادب کو پدم شری بولائی چاند مکھوپادھیائے عرف ’بن پھول‘ دیا۔اولین رابندرناتھ پرسکار یافتہ ستی ناتھ بھادری پورنیہ شہر میں وکالت کیا کرتے تھے۔ ہندی ساہتیہ کو سیمانچل نے پدم شری پھنیشور ناتھ رینو دیا جن کے ناول ’میلا آنچل‘ کو منشی پریم چند کے گئودان کے بعد سب سے کامیاب اور اہم ترین ناول قرار دیا گیا ہے۔ یہ میلا آنچل کیا ہے؟….یہی سیمانچل ہے۔ اگر سیمانچل کو جاننا چاہتے ہیں تو میلا آنچل کو شروع سے آخرتک پڑھ جائیں۔ سیمانچل نے پدم شری سید حسن جیسا ماہر تعلیم دیا جنھوں نے انسان اسکول قائم کرکے پورے خطے کو علم کی روشنی سے منور کردیا۔
سنت مت ست سنگ کے بانی مہرشی مینہی پرم ہنس داس جی مہاراج، سکلی گڑھ دھرہرابن منکھی ان کا آبائی گاؤں ہے اور وہ ضلع اسکول پورنیہ کے طالب علم رہے۔ ان کے ماننے والے افراد لاکھوں کی تعداد میں پورے ملک میں موجود ہیں۔
سامعین کرام! اگر میں مثالیں پیش کرنے لگوں تو اس کے لیے دفتر درکار ہے لہٰذا میں اپنے اصل موضوع کی جانب مراجعت کرتا ہوں۔ فارسی اور اردو کا دور اس خطے میں بزرگان دین کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہو چکا تھا۔ پنڈوا شریف، مہسوں تبلیغ دین کے مراکز تھے۔ یہ وقت تھا جب تخت شاہی پر التمش کی فرماں روائی تھی اور بنگال پر راجا لکشمن سین کی حکومت تھی۔ حضرت تقی الدین سہروردی، شیخ سلیمان سہروردی، مخدوم حسین غریب دھکڑپوش اور حضرت جلال الدین تبریزی وغیرہم نے رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری کیا۔ ان میں سے کئی صاحب تصنیف بھی تھے۔
اس خطے میں فوج داروں کے عہد حکومت میں فارسی اور اردو زبان کا تیزی سے فروغ ہوا۔ سیف خاں، صولت جنگ اور شوکت جنگ وغیرہ ایسے فوج داران تھے جن کے دربار میں علما، ادبا اور شعرا کا جمگھٹ لگا رہتا تھا۔ سیف خان کے دورِ حکومت میں ہی شاہ کفایت اللہ نے ’بدیا دھر‘ کی تصنیف کی۔ صولت جنگ کے دربار سے سات سال تک سید غلام حسین طباطبائی منسلک رہے جنھوں نے ’سیر المتاخرین‘ کی تصنیف کی جو ایک مستند تاریخی کتاب گردانی جاتی ہے۔ صولت جنگ کے دربار میں ہی صاحب دیوان شاعر میر عبد الہادی روش بھی تھے اور میر باقی حزیں بھی۔ ان کے علاوہ اس دور کے مشہور شعرا میں خواجہ احمدی خان، پیر مستقیم جرأت، سلامت علی سلامت، میر محمد رضا جرأت، مرزا ندیم ندیم، شیخ غلام علی عزت اور سرمت خان افغان سرمت وغیرہ کا تذکرہ مختلف تذکروں میں موجود ہے۔اپنی کتاب ’شاہ نامۂ سیمانچل‘ میں جناب شمس جلیلی پوری رقم طراز ہیں: ”ریجنل ریکارڈ سروے رپورٹ پٹنہ۔ 66۔1965، صفحہ 85۔82 کے مطابق فوج داران پورنیہ کے عہد میں اردو کا فروغ اس قدر ہوچکا تھا کہ یہاں کے اہل قلم نے مثنوی مولانا روم کا مکمل منظوم ترجمہ سلیس اردو میں کردیا تھا۔ اس منظوم ترجمہ کا نام ’باغ ارم‘ ہے۔ یہ ترجمہ 1828ء سے 1850ء تک میں مکمل ہوا۔ اس ترجمہ کو مشہور مورخ پروفیسر محمد حسن عسکری نے بھی دیکھا ہے۔“ (ص:42)
سیمانچل کی سب سے قدیم تصنیف ’بدیادھر‘ ہے جو ایک صوفی شاعر شاہ کفایت اللہ کے ذریعہ 1728ء میں مکمل کی گئی۔ اس کی زبان مثل برج بھاشا کے ہے جس میں مقامی بولی کی بھی آمیزش ہے۔ اس کا رسم الخط مثل کیتھی ہے۔ یہ زبان اب متروک ہے۔ شاہ کفایت اللہ دَمکا (نزد گلاب باغ پورنیہ) کے رہنے والے تھے۔ یہ مثنوی ملک محمد جائسی کے پدماوت کے طرز پر تحریر کی گئی ہے۔
اردو زبان میں اولین مطبوعہ کتاب ’کلیات عزیزی‘ ہے، جو 1896ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئی۔ مولوی عبدالعزیز پلاسمنی بہادر گنج کے رہنے والے تھے۔ کم عمری میں ان کا انتقال ہوگیا۔ پلاسمنی گاؤں کے ہی مولوی محمد سلیمان نے جب کہ وہ محض چوتھی جماعت کے طالب علم تھے. ایک کتابچہ ’گلبنِ فصاحت معروف بہ انتخاب الاطفال‘ کے نام سے 1915ء میں بنارس سے چھپوا کر شائع کیا تھا جس میں پلاسمنی کے شعرا کی فارسی و اردو غزلیات تھیں۔
اس کے بعد تو یہ سلسلہ چل پڑا۔ کھگڑا میلے میں ’میلہ مشاعرہ‘ کی روایت قائم کی گئی۔ مشاعروں کی روداد اور غزلیں کتابی صورت میں شائع کی گئیں۔ 1934ء میں ’ارمغان اتفاق‘ اور 1940ء میں ’تحفۂ احسان‘ یعنی شعراے کشن گنج کی مختصر تاریخ، کے نام سے یہ مجموعے منظر عام پر آئے۔ اس زمانے کے شعرا میں مولانا حفیظ الدین لطیفی، مولانا حکیم رکن الدین دانا ندوی سہسرامی، مولوی محمد سلیمان، مولانا محمد اسماعیل ناصح، ایڈیٹر ’آئینہ‘ حکیم سید مظہر علی بلگرامی، مولوی عبدالعزیز، منشی مہتر علی صبا، مظہر القیوم مظہر، مولوی سید ابوالقاسم اختر بلگرامی، حکیم سید آغا علی احقر بلگرامی، احمد حسین شمس، قاضی نجم ہری پوری، محبوب الرحمان کامل پناسی، تہذیب احمد غافل، مولوی محبوب الرحمان محبوب مالک، جہانگیر پریس، تمنا دلشاد پوری، مشتاق دلشاد پوری، مولوی ثاقب نعمانی، مولوی عیسیٰ فرتاب، راجا پرتھوی چند صبا، ظہورالحسن اور راجا پدمانند سنگھ افسر وغیرہم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
بعد کے دور میں وفا ملک پوری، طارق جمیلی، مولوی الیاس صدیقی، حکیم بشیر احمد بشیر، مولوی اسماعیل ندیم، حافظ مظفر حسین مظفر، قیصر پورنوی، مشتاق احمد نوری، حکیم مظفر حسین بلگرامی، غلام محمد یحییٰ، قطب شاہین، صبا اکرام، شمس جمال، شمس جلیلی، قاضی جلال ہری پوری، رمن پرشاد سنہا رمن، علیم اللہ حالی، زبیر الحسن غافل، احمد حسن دانش، شاذ رحمانی، اصغر راز فاطمی وغیرہ کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
اس سے آگے کے دور میں انور ایرج، دین رضا اختر، رضی احمد تنہا، ایس ایچ معصوم، ہارون رشید غافل، نیلوفر پروین، فرمان علی فرمان، ارشد انور الف، پرویز عالم، خضر نندنوی، مسیح الدین شازی، حشمت صدیقی، بیگانہ سارنوی، احمد ندیم مورسنڈوی، افتخار عالم مورسنڈوی، احسان قاسمی، ظہیر انور، اسحاق عادل بیگناوی، مظہر امام، حازم حسان، قمر ادریسی اور ممتاز نیر وغیرہ سیمانچل کے شعری پس منظر میں رنگ بھرتے نظر آتے ہیں۔
تازہ دم نسل میں مستحسن عزم، جہانگیر نایاب، نثار دیناج پوری، محسن نواز محسن دیناج پوری، زاہد الحق، قسیم اختر، مبین اختر امنگ، خالد مبشر، عذیق الرحمان صارم، نورالدین ثانی، سلیم شوق پورنوی، شاداب پورنوی، جاوید سلطان، رضوان ندوی، خورشید انجم، افقر پورنوی، صدام حسین نازاں، احمد صادق سعیدی، سبطین پروانہ، سجاد ابراہیم تیمی، نجم السحر ثاقب، ظفر شیرشاہ آبادی، حسان کشن گنجوی، عنایت وصی، حسن راہی وغیرہ ایسے نام ہیں جن سے سیمانچل کی بہت ساری توقعات وابستہ ہیں۔
سیمانچل کے پہلے افسانہ نگار مولوی محمد سلیمان کا افسانہ 1936ء میں پورنیہ سے شائع ہونے والے رسالے ’طلبا‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد شمس بمن گرامی کے دوافسانے اسی رسالے میں شائع ہوئے۔ 1938ء کے رسالہ ’نہار‘ کشن گنج میں رسالے کے مدیر عبد المنان ابن امین جھمکاوی اور نائب مدیر معین الدین احمد بیگناوی کے افسانے شائع ہوئے۔ شمس جمال نے سیمانچل میں فن افسانہ نگاری کو استحکام بخشا۔ ان کا پہلا افسانہ ’کشش‘ 1953ء میں بیسویں صدی میں شائع ہوا۔ ان کے افسانے تواتر سے ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ طارق جمیلی، احمد حسن دانش، اصغر راز فاطمی، مشتاق احمد نوری، احسان قاسمی، رفیع حیدر انجم، نیلوفر پروین، ڈاکٹر پرمود بھارتیہ، احمد ندیم مورسنڈوی، نزہت طارق ظہیری، شمیم ربانی، ممتاز نیر، احسن عالم، پرویز عالم، مستحسن عزم، گوہر رفیع شاذ وغیرہ ایسے افسانہ نگار ہیں جن کے افسانوی مجموعے یا تو شائع ہوچکے ہیں یا وہ اب بھی فعال ہیں۔افسوس اور فکر کی بات ہے کہ اس میدان میں نئے لوگوں کی انٹری نہیں ہورہی ہے۔
شمس بمن گرامی سیمانچل کے پہلے ناول نگار ہیں جن کا ناول’نذرانہ‘ 1951ء میں شائع ہوا۔ ان کا دوسرا ناول ’اور سالگرہ آتی رہی‘ بھی کچھ عرصہ بعد شائع ہوا۔ ایک اور ناول ’حاتم بھائی‘ ایک رسالے میں قسط وار شائع ہوا۔ تہذیب احمد غافل کا ناولٹ ’انتالیس ہزار‘ 1960 میں، احمد ندیم مورسنڈوی کا ناولٹ ’درد کا رشتہ‘ 2016 میں منظر عام پر آیا۔ طارق جمیلی کا ایک ناولٹ ’وادی کی واپسی‘ قسط وار ماہ نامہ ’قافلہ‘ بارا عید گاہ میں شائع ہوا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ سیمانچل میں اردو زبان میں اب تک کوئی قابل ذکر ناول لکھا نہیں گیا ہے۔مسرت کی بات یہ ہے کہ آج چودھری قیصر امام صاحب کے ناول ’مٹھی بھر زمین‘ کی اس محفل میں رونمائی ہورہی ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔
تحقیق کے میدان میں سیمانچل نے قابل ذکر کارنامہ انجام دیا ہے۔ پروفیسر احمد حسن دانش صاحب کی نگرانی میں گیارہ تحقیقی مقالے پیش کیے جاچکے ہیں۔ان میں ڈاکٹر عنصری بدر کی کتاب ’اردو شاعری میں قدیم پورنیہ کی خدمات‘ ڈاکٹر کلیم اللہ کی ’مولوی محمد سلیمان: حیات و خدمات‘ ڈاکٹر شاہینہ پروین کی ’ڈاکٹر سلام سندیلوی کی نثری خدمات‘ زیور طباعت سے آراستہ ہوچکے ہیں۔ مولانا عیسیٰ فرتاب، حکیم رکن الدین دانا، طارق جمیلی، اکمل یزدانی پر کتابیں شائع ہونی ہیں۔
تحقیق و تنقید اور ترجمہ کے میدان میں حقانی القاسمی عالمی شہرت یافتہ نام ہے۔ ترجمہ کے لیے انھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ حاصل ہوچکا ہے۔ فلسطین کے چار ممتاز شعرا، شکیل الرحمان کا جمالیاتی وجدان، بدن کی جمالیات، تنقیدی اسمبلاژ، ادب کولاژ اور انداز بیان کے ’پولیس کا تخلیقی چہرہ‘ اور ’ڈاکٹروں کی ادبی خدمات‘جیسے شمارے، وغیرہ ان کے اہم کارنامے ہیں۔سیمانچل کے حوالے سے ان کی کتاب ’رینو کے شہر میں‘ کو کافی مقبولیت حاصل ہوچکی ہے۔
ڈاکٹر احمد حسن دانش کا خاص میدان بہار میں مثنوی نگاری کے حوالے سے رہا ہے اور اس سلسلے میں ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کی صاحب زادی ڈاکٹر کہکشاں نے ڈاکٹر اختر اورینوی کی فکشن نگاری پر کام کیا ہے۔ عرش گیاوی: حیات و خدمات۔ پروفیسر طارق جمیلی۔ مقدماتی ادب: ڈاکٹر خالد مبشر۔ ابتدائی دور کی ناول نگارخواتین: ڈاکٹر راشدہ رحمان۔ طلسم ہوش رُباکے کردار: ڈاکٹر عرشی خاتون، مخمور سعیدی کے شعری آفاق: ڈاکٹر قسیم اختر۔ فراق شخص و عکس: ڈاکٹر محمد اظہار حسین۔ سفر نامہ کا فن اور شمالی ہند کے سفرنامے: ڈاکٹر محمد اشتیاق۔ اٹھارویں صدی میں اردو غزل کا فکری نظام اور انعام اللہ خاں یقین: عہد اور شاعری: ڈاکٹر زاہد الحق۔ ندا فاضلی کی تخلیقی صدا: ڈاکٹر نعمان قیصر۔ ہندستانی ریاستوں کا یوم تاسیس تاریخ کے آئینے میں اور اردو زبان و ادب کے فروغ میں ریڈیو نشریات کا حصہ: افتخار الزماں، کتاب کائنات (حقانی القاسمی کے تبصروں اور تقاریظ دوجلدوں میں) رضوان احمد، وغیرہ ایسی کتابیں ہیں جو حالیہ برسوں میں منظر عام پر آئی ہیں۔ اصغر راز فاطمی کی کتاب غیاث احمد گدی کی شخصیت اور فن کے حوالے سے منظر عام پر آچکی ہے۔ رضوان ندوی قاضی جلال ہری پوری اور قاضی نجم ہری پوری کی شخصیت اور فارسی و اردو شاعری کے حوالے سے اب تک نو کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر احمد حسن دانش کی سیمانچل میں اردو شاعری، احسان قاسمی کی سیمانچل کے افسانہ نگار اور شاہنواز بابل کی کتاب تذکرہ شعرائے کشن گنج، تحقیق کے نئے در وا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری کتابیں ہیں۔ طوالت کے خوف سے میں نے چند کتابوں کا ہی تذکرہ کیا ہے۔
شخصیات کے حوالے سے بھی سیمانچل میں اہم کام کیے گئے ہیں۔
اردو کا پہلا چھاپہ خانہ محبوب الرحمان محبوب نے 1934ء میں ’محبوب پریس‘ کے نام سے پورنیہ میں قائم کیا تھا۔ اسی پریس سے پورنیہ کا پہلا ادبی رسالہ ’طلبا‘چھپ کر جاری ہوا جس کے مدیر بارا عید گاہ کے مولوی ابراہیم صدیقی تھے۔ 1934ء میں ہی ہفتہ وار آفتاب کی اشاعت بھی شروع ہوئی۔ انگریزوں کے خلاف مضمون شائع کرنے کی وجہ سے محبوب پریس کو حکومت نے بند کروا دیا۔ بعد میں یہ پریس کشن گنج میں جہانگیر پریس کے نام سے شروع کیا گیا۔ محبوب الرحمان محبوب اور ان کے پریس کی بڑی اہم خدمات رہی ہیں۔ اس کے لیے الگ سے مضمون قلم بند کرنے کی ضرورت ہے۔ جہانگیر پریس کشن گنج میں قائم ہونے کے بعد کشن گنج سے کئی اخبارات و رسائل کی اشاعت ہوئی جن میں ہفتہ وار آئینہ، ماہنامہ نہار، ماہنامہ جام، سہ ماہی الاحسان، ماہنامہ ساحل، سہ روزہ عمل، ماہنامہ طوفان (باراعید گاہ) اور ہفتہ وار انسان قابل ذکر ہیں۔جنوری 1955ء میں انسان کا فرار ’پورنیہ نمبر‘ اکمل یزدانی کی ادارت میں شائع ہوا۔ سیمانچل کی تاریخ اور تحقیق کے حوالے سے یہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ شمیم ربانی نے کشن گنج سے 1962 میں ماہنامہ پیام سحر جاری کیا۔ پھر 1963ء میں آزاد مرزا پوری کے اشتراک سے کٹیہار سے ماہنامہ فانوس کا اجرا کیا جس کے کئی شمارے شائع ہوئے۔ کشن گنج سے ہی فانوس ادب اور ہفت روزہ ہمارا پرچم جاری کیا جو تاحیات جاری رہا۔
کبیرالدین فوزان نے بارا عیدگاہ سے ادبی رسالہ ’قافلہ‘  اور محمدیہ سے ’افکار‘ کی اشاعت کی۔ جمشید عادل نے ارریہ سے ہفت رنگ اور مسائل نو نامی اخبارات شائع کیے۔ کٹیہار سے ضیا رحمانی اور شاذ رحمانی کی مشترکہ کوشش سے ادبی رسالہ ’غالب‘ کی اشاعت ہوئی۔احسان قاسمی نے ارریہ سے ’عکس‘ نامی رسالے کی اشاعت کی۔ رضی احمد تنہا نے’ابجد‘ کی بنیاد ڈالی اور اس کے متعدد شمارے شائع کیے۔ پورنیہ سے ڈاکٹر مقصود عالم ہفتہ وار ’کارواں‘ شائع کیا کرتے تھے جو طویل عرصہ تک تسلسل کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ پورنیہ سے ہی مجتہد اعظم نیم دینی و ادبی رسالہ ’نشان منزل‘ شائع کر رہے ہیں۔ سیمانچل کے مختلف مدارس سے بھی لگاتار رسائل کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ ارریہ سے ’چشمۂ رحمت‘ رسالہ گزشتہ دنوں سے جاری ہوا ہے۔ بہادر گنج سے شاہ نواز بابل اور اخترالایمان نے ادبی رسالہ ’بصارت‘ جاری کیا۔ اتر دیناج پور سے محسن نواز محسن دیناج پوری نے ’نوائے بنگال‘ اور نثار دیناج پوری نے ’وجدان‘ کا اجرا کیا جس کے کئی شمارے منظر عام پر آئے۔ ادبی رسائل کی دنیا میں ایک بڑا نام ’صبح نو‘ کا ہے جسے وفا ملک پوری نے 1952ء میں پورنیہ سے جاری کیا اور بعد میں پٹنہ سے طویل عرصہ تک مسلسل اس کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا۔ کلام حیدری اور پروفیسر علیم اللہ حالی اس سے منسلک رہے۔
سیمانچل میں اردو ز بان و ادب کے فروغ میں مختلف تنظیموں کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ پروفیسر طارق جمیلی نے 1960ء میں پورنیہ اردو سوسائٹی، پورنیہ کی داغ بیل ڈالی اور اس کے ذریعہ بیت بازی، مشاعروں، سیمیناروں اور ڈراموں کا انعقاد کیا۔ شہر ارریہ میں ’ہم سب‘، ’بزم جدید ارریہ‘، ’رابطہ‘ وغیرہ تنظیموں کے ذریعہ مختلف ادبی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں ’چھاؤں فاؤنڈیشن‘ کے زیر اہتمام چھاؤں پبلک لائبریری کا افتتاح کیا گیا ہے جو ایک بہتر اور مثبت قدم ہے۔ فاربس گنج میں ’گلشن ادب‘ کے زیر اہتمام اکثر مشاعروں کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے۔ کٹیہار میں ’سخن‘ کے بینر تلے اردو زبان و ادب کے فروغ کی سمت اچھی پیش قدمی کی گئی ہے۔ بہادر گنج اور بائسی میں بھی ادبی تنظیمیں اپنا کام کررہی ہیں۔ کشن گنج میں ’بزم ادب‘ سب سے قدیم تنظیم تھی جس کی لائبریری میں کافی کتابیں موجود تھیں۔ افسوس کہ بزم ادب کی عمارت اب کھنڈر میں تبدیل ہوتی جارہی ہے اور لائبریری سے تمام کتابیں بھی غائب ہوچکی ہیں۔ بزم ادب کے نام پر اب صرف سیاست زندہ ہے۔ آج کشن گنج شہر میں اردو زبان کا کوئی نام لیوا تک نہیں ہے۔
بدلتے وقت کے ساتھ چند لوگوں نے الیکٹرانک میڈیا کی جانب رخ کیا ہے اور فیس بک، وہاٹس ایپ گروپس اور ویب سائٹس کے ذریعہ اردو زبان و ادب کے فروغ کی جانب توجہ دی ہے۔ اس سلسلے میں احسان قاسمی کے سلسلہ ”سیمانچل ادب کا گہوارہ“ کو کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ طیب فرقانی نے کانکی جیسے معمولی اور غیر معروف قصبے سے اشتراک ڈاٹ کام کا آغاز کرکے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اشتراک ڈاٹ کام پر شاعری، افسانے، انشائیے، ڈرامے، سماجی، معاشی، مذہبی، تبصراتی، تعلیمی، اصلاحی اور اسپورٹس سے متعلق مضامین کی گزشتہ ایک سال سے زائد عرصہ سے مسلسل اشاعت جاری ہے جس میں ملک اور بیرون ممالک کے شعرا و ادبا کی شراکت داری اس ویب سائٹ کو وقار بخشتی ہے۔
الغرض سیمانچل نے زمانۂ قدیم سے تاحال اردو زبان و ادب کے فروغ اور ترویج کے لیے لگاتار سعی کی ہے۔ یہاں کے شعرا، افسانہ نگار، محقق اور تنقید نگار ہندوپاک کے مقتدر رسائل وجرائد میں لگاتار شائع ہوتے رہے ہیں اور اردو دنیا میں عالمی سطح پر اپنی شناخت رکھتے ہیں۔
آج سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اردو زبان کی تعلیم دیں، مختلف تنظیموں کو قوت عطا کریں، خفتہ تنظیموں کو بیدار کریں، کتب خانے قائم کریں اور نئی نسل میں اردو کے تئیں محبت کا جذبہ پیدا کریں۔ مشاعروں کے ذریعہ عوام کو اردو سے جوڑیں اور مخصوص نشستوں کے ذریعہ شعرا و ادبا کو ایک سنجیدہ پلیٹ فارم مہیا کریں۔
(یہ مضمون مورخہ 20 فروری 2022 کو ’اشتراک ڈاٹ کام‘ کی پہلی سال گرہ کے موقعے پر منورہ ہائی اسکول اتر دیناج پور میں پیش کیاگیا)
***
احسان قاسمی کی گذشتہ نگارش :سیمانچل کی تاریخ (قسط چہارم)

شیئر کیجیے

One thought on “سیمانچل میں اردو زبان و ادب

  1. بہت ہی بہتر، دل باغ باغ ہو گیا، بھئی اشتراک ڈاٹ کام نے آن لائن کی دنیا میں احسان قاسمی کے سیمانچل کی تاریخ کو شائع کر صرف احسان قاسمی پر احسان نہیں کیا بلکہ سیمانچل کے تمام ادبی ذوق رکھنے والوں جو دار فانی سے رخصت ہو گئے انکی روح کو تسکین پہنچائی-میں اپنی جانب سے آپ کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آنے والوں دنوں میں آپ کی کارکردگی اور بہتر ہو-
    خیر اندیش
    جمشید عالم
    پورنیہ
    بتاریخ :- ۲۵ شعبان المعظم ۱۴۴۴ھ بمطابق اٹھارہ مارچ ۲۰۲۳ء
    18/03/2023سنہ
    25/08/1444ھ

Jamshed Alam کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے