ہندوستان میں وحدت الوجود

ہندوستان میں وحدت الوجود

مصنف: پروفیسر ولیم چیٹیک
مترجم: سبزار احمد

چند برس قبل میں نے اپنے ایک مضمون کے اندر اس بات کی توجیہہ پیش کی تھی کہ وحدت الوجود کی اصطلاح کو شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے ساتھ منسوب کرنا کیونکر مغالطہ خیز ہے۔ وحدت الوجود کو ابن عربی سے منسوب کرنے کا طرز فکر (سولہویں صدی عیسوی سے) ان کے تفکرات سے متعلق رقم کیے گئے ثانوی درجے کے مطالعات کے اندر گہرے طور پر مرتسم نظر آتا ہے۔ اگرچہ دورِ حاضر میں بیشتر مفکرین اس صداقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ شیخ نے اپنی تحاریر کے اندر متذکرہ اصطلاح کو کہیں پر بھی نہیں برتا ہے۔ تاہم وحدت الوجود کی اصطلاح کو (خصوصاً دنیاے اسلام کے اندر) ہنوز یہ کہہ کر شیخ کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے کہ اگرچہ انھوں نے متذکرہ اصطلاح نہیں برتی، تاہم شیخ وحدت الوجود کے حامی و معتقد تھے۔ پیش نظر تحریر کے توسط سے میں اس امر کی توجیہات پیش کرنے کی کوشش کروں گا کہ بغیر تحقیقی انتقاد کے، متذکرہ اصطلاح کیونکر شیخ کی علمی وراثت اور روحانی بصیرت کو مسخ کرنے کا موجب ثابت ہوسکتی ہے۔
فی نفسہ وحدت الوجود کی اصطلاح کسی مخصوص ایقان و عقیدہ پر دلالت نہیں کرتی۔ مختلف تاریخی ادوار میں مختلف معروف و غیر معروف شخصیات نے اسے اپنی فہم و فراست اور فکری منہج کے تناظر میں مختلف طرح کے معنی میں برتا۔ البتہ جب یہ اصطلاح متنازعہ بن گئی تو یہ بلا تامل و توقف شیخ اکبر سے منسوب کی جانے لگی۔ فی الواقع ایسا کوئی نظریہ ہے ہی نہیں جسے خود شیخ اکبر یا پھر ان کے اولین تلامذہ میں سے کسی نے وحدت الوجود کا نام دیا ہو۔ اس کے برعکس مذکورہ اصطلاح اس حقیقت کو درشاتی ہے کہ صوفیانہ مخاطبے کے اندر ’وجود‘ کی حقیقت اور معنی کے تعلق سے شیخ کی تحاریر سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان سے قبل مسئلۂ وجود صرف فلسفیوں اور کچھ حد تک متکلمین کا مبحث متصور کیا جاتا تھا۔
بلاشبہ شیخ نے بعض دیگر مفکرین کی طرح اس امر کا اثبات کیا ہے کہ وجود (یعنی حق) فقط ایک ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان ہی کے اثبات کو چھانٹ کر وحدت الوجود کا نام کیوں دیا گیا؟ اگر وجود اور وحدت کے ربط باہمی سے متعلق ہم ان کی ذاتی تحاریر اور ان تحاریر کے اندر اس حوالے سے ان کے متعدد مباحث پر اپنی توجہ مرکوز کریں تو ہم پر یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ ان بیسیوں موضوعات میں سے ایک ہے، جن پر شیخ نے اپنے متون کے اندر مباحث قائم کیے ہیں۔ نیز یہ موضوع کسی بھی اعتبار سے ان کے یہاں مرکزی حیثیت کا حامل نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود وحدت الوجود، باقی مباحث کے بالمقابل مرکزِ توجہ کیوں بن گیا؟
اگر کوئی یہ دعوی کرتا ہے کہ شیخ وحدت الوجود کے معتقد تھے، تو اسے پہلے اپنے دعوی کے حق میں معقول دلیل فراہم کرنی پڑے گی، پھر اپنے دعوی کی تائید میں وحدت الوجود نامی اصطلاح کی ایسی توضیح و توجیہہ پیش کرنی ہوگی جو شیخ کے اصولی موقف سے مطابقت رکھتی ہو۔ البتہ سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے شیخ کا اصولی موقف کیا تھا؟ شیخ کے اصولی موقف کو ثابت کرنے کے لیے، فصوص الحکم کے چند اقتباسات کو کسی بھی طور سے دلیل محکم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے علی الرغم، وحدت اور وجود کی ہم رشتگی کے حوالے سے ان کی کتب (بالخصوص فتوحات مکیہ) کے اندر مرقوم بیسیوں اقتباسات توضیح و تحلیل کے متقاضی ہیں، نیز اس طرح کی کارگزاری فی نفسہ اہمیت کی حامل ہے۔ مزید یہ کہ جن شارحین نے شیخ کی کتب کے اندر پیش کردہ مقدمات کی توضیحات پیش کی ہیں، ان کی تفہیمات و توضیحات بھی نتائج کے اعتبار سے یکساں نہیں ہیں۔ شیخ کے اندازِ فکر کو (ان کے مقدمات فکر کی تفہیم کے تعلق سے) کسی ایک قضیے تک محدود کرنا مایوس کن ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ ہر قضیے کو متنوع تناظرات میں پیش کرتے ہیں۔ نیز جن قضیات کو انھوں نے متنوع تناظرات میں پیش کیا ہے، ان میں وحدت اور وجود کی ہم رشتگی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔
اگر ہم شیخ سے منسوب تصورِ وحدت الوجود کی توضیح پیش کرپائیں تو در ایں صورت ہم پر یہ واضح ہوجائے گا کہ ہماری پیش کردہ توضیح اس مباحثے سے کلی طور مختلف و متغائر ہے، جو قرونِ مابعد میں (وحدت الوجود کے تعلق سے) مسلم دانشوروں، بالخصوص شیخ احمد سرہندی نے وحدت الشہود کی صورت میں قائم کیا۔ اس بات میں دو رائے نہیں ہے کہ ”وحدت الوجود“ کو وسیع پیمانے پر، شیخ اکبر سے منسوب ایک مخصوص طرح کے عقیدہ کو درشانے کے لیے نمائندہ اصطلاح کی حیثیت سے برتا گیا۔ البتہ اس اصطلاح کو شیخ سے منسوب کرنے کے پس پشت شیخ کی تحاریر کے بجائے چند تاریخی اسباب و عوامل، بنیادی محرکات کی حیثیت سے کارفرما رہے۔ یعنی اول، وحدت الوجود کا ایک تکنیکی اصطلاح کی حیثیت سے منصۂ شہود پر آنا، دوم اس کا شیخ سے منسوب کیا جانا، سوم اس کے جواز و معقولیت کے حوالے سے مختلف طرح کے مباحث چھڑ جانا۔
******
مختلف متون کے اندر وحدت الوجود کو کن معنی میں برتا گیا، ان کی فہم و تفہیم کے لیے ہمیں متذکرہ اصطلاح کے متنوع استعمالات کو (ان متون کے اندر) مشخص کرنا پڑے گا، البتہ یہ ایک انتہائی دشوار گزار معاملہ ہے۔ کیونکہ اس طرح کی کاوش ہندوستان میں متنازع صورت اختیار کرسکتی ہے۔ یہ حقیقت اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ شیخِ اکبر کی تحاریر سے وحدت الوجود کی اصطلاح کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔
(دو ایک مثالوں کو چھوڑ کر) ان کے اولین تلامذہ (بالخصوص صدر الدین قونی) کی تحاریر کے اندر اس طرح کی کوئی بھی اصطلاح نہیں ملتی۔ صدر الدین قونی کے شاگرد سعید الدین فرغانی سے قبل ”وحدت الوجود“ کی اصطلاح کو شیخ کے کسی بھی شاگرد نے اپنی تحریروں کے اندر تکنیکی معنی میں کہیں پر بھی نہیں برتا ہے۔ حتیٰ کہ سعید الدین فرغانی نے بھی جن مفاہیم میں اس اصطلاح کو برتا، انھیں بعد کے زمانوں میں (وحدت الوجود کی توضیح و تعبیر کے تعلق سے) کلی طور پر نظر انداز کیا گیا۔ مزید برآں ابن تیمیہ سے قبل کسی نے بھی”وحدت الوجود“ نامی اصطلاح کو شیخ اکبر سے منسوب نہیں کیا۔ ابن تیمیہ نے (بلا دلیل و جواز) متذکرہ اصطلاح سے اتحاد اور حلول جیسے مفاہیم مستنبط کیے۔
واضح رہے کہ ابن تیمیہ کی منفی اور مخاصمانہ قرأت نے ”وحدت الوجود“ کی اصطلاح کو جو مفہوم عطا کیا، وہ نہ ہی تو اس کے لغوی مفاہیم سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی سعید الدین فرغانی نے اسے اس مفہوم میں برتا ہے (جو ابن تیمیہ نے اس سے مستنبط کیا)۔ وجود واحد ہے یا نہیں؟ اس قضیے کا تعلق براہِ راست ہماری تعبیرات سے ہے (یعنی ہم کس طرح کا مفہوم لفظ ”وجود“ سے مستنبط کرتے ہیں)۔ وجودِ حق کی وحدانیت سر تا سر واضح ہے یعنی اللہ کی وحدانیت کے حوالے سے کسی طرح کے شک و شبہ کا اظہار لایعنی ہے۔ سادہ لفظوں میں کہیں تو ”وحدت الوجود“ سے مراد ”واجب الوجود کی وحدانیت“ ہے۔ مزید یہ کہ اگر شیخ نے متذکرہ اصطلاح کو اپنی تحاریر کے اندر کہیں پر برتا بھی ہوتا، تو اس صورت میں بھی راقم الحروف اس سے ”واجب الوجود کی وحدانیت“ کا مفہوم ہی مستنبط کرتا۔ جب ہم وحدت الوجود سے متذکرہ معنی مراد لیتے ہیں تو مذکورہ اصطلاح اثباتِ توحید کی آئینہ داری کرتی ہے جو کسی بھی اعتبار سے قابل گرفت معلوم نہیں ہوتی۔
ابن تیمیہ نے ”وحدت الوجود“ سے بالکل مختلف طرح کا مفہوم مستنبط کرنے کے سبب اسے ہدفِ تنقید بنایا۔ عربی زبان میں ”وجود“ کا لفظ نہ صرف ”ذاتِ حق“ کے لیے برتا جاتا ہے، بلکہ کائنات اور اس کے جملہ موجودات و مظاہر پر بھی مذکورہ لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ البتہ ہمیں دونوں کے درمیان قائم فرق کو اس تعلق سے ملحوظ رکھنا چاہیے۔ ابن سینا اور دیگر فلسفیوں کے علاوہ، شیخ اور ان کے شاگردوں نے بھی اس فرق کو اپنی نگارشات کے اندر ملحوظ رکھا ہے۔ لفظ ’وجود‘ اس کے حقیقی اور اصلی مفہوم کے اعتبار سے صرف اور صرف ”ذاتِ حق“ پر صادق آتا ہے۔ البتہ اگر اسی لفظ کو مجازی، استعاراتی اور غیر حقیقی مفہوم میں برتا جائے تو یہ کائنات اور اس کے جملہ مظاہر و موجودات پر بھی صادق آتا ہے۔ اگرچہ شیخ اور ان کے شاگردوں نے لفظ ”وجود“ کے اطلاقی مفاہیم کے درمیان قائم فرق کو ملحوظ رکھا، تاہم انھوں نے اس تعلق سے شاعرانہ اور علامتی نوعیت کی زبان بھی برتی ہے۔ ان کے مطابق فلسفیوں اور متکلمین کی تعقل آمیز اور منطقی زبان، اشیا کی حقیقت کی آئینہ داری نہیں کرسکتی۔ یعنی زبان کا تعلق عرصہ گہہِ غیر حقیقی سے ہے، لہذا یہ ہستی کی ماہیت کو درشانے کے تعلق سے کلی طور پر معذور ہے۔ زین [کذا] مت کے عرفا کی طرح انھوں (شیخ اکبر اور ان کے تلامذہ) نے بھی اس امر کا اثبات کیا ہے کہ حقیقت الاشیا سے روبرو ہونے کے لیے، سالکین کے لے کائنات کے خارجی تناقضات سے روبرو ہونا لازمی ہے۔ دونوں مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے عرفا کے مطابق تصوراتی ادراک (conceptual thought) سے ماورا ہونے، نیز بجز حق کے ہر شے کی مشروط/عارضی/امکانی اور موقوف حیثیت کے ادراکِ راست کے تعلق سے؛ کائنات کے اندر ساری (سرایت کردہ) تناقضات سالک کے لیے بڑی حد تک ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ شیخ کی نگارشارت کے اندر برتی گئی علامتی اور شاعرانہ زبان کے سبب ہی ابن تیمیہ (شیخ اکبر کے انداز فکر کو لے کر) جز بز ہوگئے۔
شیخ اکبر کے تفکرات کے تئیں ابن تیمیہ اور ان کے ہم نواؤں کے منفی رد عمل کے پس پشت کارفرما اسباب و عوامل سے قطع نظر، امرِ واقعہ یہ ہے کہ وحدت الوجود کی اصطلاح، ابن تیمیہ کے مخاصمانہ ردِعمل کے بعد ہی شیخ اکبر سے منسوب کی جانے لگی۔ اگر شیخ اکبر اور ان کے تلامذہ (ابن صادقین، صدر الدین قونی، عفیف الدین تلسمانی، سعید الدین فرغانی، موئیدالدین بن محمود جندی، عبد الرزاق کاشانی اور داود قیصری) کی نگارشات کی رو سے دیکھیں تو شیخ اکبر یا ان کے مکتب فکر سے ”وحدت الوجود“ کو (بہ طور توضیحی اصطلاح) منسوب کرنا کسی بھی اعتبار سے معقول و موزوں قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ابن تیمیہ کے بعد ”وحدت الوجود“ کی اصطلاح جن مفاہیم میں استعمال ہونے لگی، ان میں کچھ شیخ کے تفکرات سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں اور کچھ کلی طور پر شیخ کے اندازِ فکر سے متناقض ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ”وحدت الوجود“ کو ہندستان کے اندر اس قدر شہرت کیوں ملی؟ میرے خیال میں اس کا سبب مولانا جامی کی نگارشارت ہیں، جن کے سبب اسلام کے مشرقی خطوں میں شیخ کے تفکرات کو نہایت درجہ کی تشہیر ملی۔ مولانا جامی نے ”وحدت الوجود“ کی اصطلاح کو شیخ اکبر کے موقف کے حوالے سے توضیحی اصطلاح کے طور پر برتا۔ مولانا جامی نہ صرف ایک متبحر عالم اور صوفی تھے بلکہ وہ ”فصوص الحکم“ کے اول درجے کے شارحین میں بھی شمار کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی فارسی شاعری اور نثر کے توسط سے شیخ اکبر کی روحانی بصیرت اور فکری منہج کو بھی تشہیر دی۔ ظاہر ہے کہ ہندستان میں صوفیانہ افکار و تعلیمات کی تدوین و تسوید کی کارگزاری فارسی زبان میں ہی سرانجام دی گئی، لہذا مولانا جامی کی نگارشات ان لوگوں کے لیے فوری نکتۂ مرجع کی حیثیت اختیار کرگئیں، جو شیخ اکبر کے فکری منہج کو سمجھنے کے خواہاں تھے۔
********
متعدد نظریاتی اور عملی محرکات کے سبب شیخ احمد سرہندی نے”وحدت الوجود“ نامی اصطلاح کے تئیں منفی اور مخاصمانہ ردعمل ظاہر کیا۔ مذکورہ اصطلاح (مولانا جامی کی پیش کردہ توضیحات کے تتبع میں) ایک طویل تاریخی سفر طے کرتے کرتے، شیخ احمد سرہندی کے زمانے میں، شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے اندازِ فکر اور صوفیہ کے اصولی موقف کا لسانی مظہر قرار دی جانے لگی۔ یہاں پر ایک ایسے نظریاتی محرک کی مختصر سی توضیح برمحل رہے گی، جسے بوجوہ نظر انداز کیا گیا: دراصل لفظ ”وجود“ دو مفاہیم میں برتا جاتا ہے۔ شیخ احمد سرہندی کی فہم و فراست پر ان میں سے ایک ہی مفہوم غالب آچکا تھا۔ اگر انھوں نے لفظ ”وجود“ کو یک رخے انداز میں نہیں سمجھا ہوتا یا اگر انھوں نے اس لفظ کے دونوں مفاہیم پر غور کیا ہوتا، تو جو اعتراضات انھوں نے اس پر وارد کیے ہیں ان سے وہ شاید احتراز برتتے۔
”وحدت الوجود“ کے تعلق سے جو مباحث چھیڑے گئے ہیں یا چھیڑے جارہے ہیں، ان کے پسِ پشت کارفرما بنیادی محرک تصورِ توحید ہے، یعنی توحید کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ شیخ احمد سرہندی نے اس تعلق سے جس طرح کا صیغۂ اظہار برتا ہے اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دراصل ان کا مطمح نظر بھی مسئلۂ توحید ہی تھا۔انھوں نے اپنی نگارشات کے اندر ”توحیدِ وجودی“ کے لیے وحدت الوجود کی اصطلاح برتی ہے، اور ”توحیدِ شہودی“ کے لیے وحدت الشہود کی اصطلاح برتی ہے۔
اسلامی فلسفے کے اندر ’وجود‘ کے تعلق سے جو مباحث چھڑ گئے، ان کے پس پشت کارفرما بنیادی محرک دراصل یونانی فلسفے میں برتی جانے والی، Being اور existence کی اصطلاحات اور ان اصطلاحات کے توسط سے قائم کیے گئے مباحث ہیں۔ مزید یہ کہ انھی اصطلاحات کو مسلم فلسفیوں نے لفظ ’وجود‘ سے ترجمہ کیا۔ البتہ عربی زبان میں لفظ ’وجود‘ کا لغوی مفہوم ’یافت/تحصیل/پانا‘ ہے۔ قرآن مقدس کے اندر کئی مقامات پر، لفظ وجود اور اس کے مشتقات کو ’یافت/تحصیل/پانا‘ کے مفہوم میں ہی برتا گیا ہے:
۱۔”وَمَا وَجَدْنَا لِاَکْثَرِہمْ مِِّنْ عَہْدٍ وَ اِنْ وَّجَدْنَآ اَکْثَرَہُمْ لَفَاسِقِیْنَ
اور ہم نے ان کے اکثر لوگوں میں عہد کا نباہ نہیں پایا، اور ان میں سے اکثر کو نافرمان پایا“۔سورۃ الاعراف /آیت ١٠٢
۲۔”حَتّٰٓی اِذَا جَآءَہُ لَمْ یَجِدْہُ شَیْءًا وَّ وَجَدَ اللّٰہَ
یہاں تک کہ جب اس کے پاس آتا ہے اسے کچھ بھی نہیں پاتا اور اللہ ہی کو اپنے پاس پاتا ہے“۔سورۃ النور/آیت ٣٩
لفظ وجود، اولین متصوفانہ متون کے اندر بھی اسی مفہوم میں برتا گیا ہے۔ مختلف صوفیانہ رسائل کے مصنفین (بالخصوص عبدالکریم قشیری، ابو نصر سراج، علی ہجویری) نے وجود، وجد اور توجد کو ان کے قرآنی مفاہیم کے تناظر میں ہی برتا ہے۔ ان کے مطابق ’وجود‘ روحانی عروج یا ارتقا کا ایک ایسا مرحلہ ہے جہاں رسائی حاصل کرنے کے بعد واجد کو ماسوائے اللہ کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ علاوہ بریں ”الواجد“ اللہ کے اسمائے حسنیٰ میں بھی شمار کیا جاتا ہے، امام غزالی نے اپنی کتاب ”المقاصد الاسنیٰ فی شرح اسماء الحسنیٰ“ میں اسم ”الواجد“ کی مفصل توضیح پیش کی ہے۔
لفظ ”وجود“ رفتہ رفتہ اس کے فلسفیانہ مفاہیم میں، متصوفانہ مخاطب (تحریری) کے اندر راہ پا گیا۔ اس طرح کی کئی مثالیں امام غزالی اور ان کے معاصرین: احمد سامانی، رشید الدین میبدی، عین القضات ہمدانی کی تحریروں میں نظر آتی ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہو پاتا کہ متعلقہ مصنفین نے لفظ ’وجود‘ کو کس مفہوم (ہستی یا یافت) میں برتا ہے، البتہ کئی مصنفین نے اسے بیک وقت دونوں مفاہیم میں برتا ہے۔ شیخ اکبر کی تحریروں میں لفظ ’وجود‘ بیک وقت دونوں مفاہیم کو انگیز کرتا ہے۔ مزید برآں مسلم فلسفیوں نے اگرچہ اس لفظ کو موخرالذکر مفہوم (ہستی/موجودیت) ہی میں برتا ہے، البتہ انھوں نے اس کے اول الذکر مفہوم (یافت/پانا) کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ اس تعلق سے شیخ اکبر کے معاصر صوفی شیخ افضل الدین کاشانی (المتوفی ١٢١٠ء) زندہ مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔جنھوں نے اپنی بیشتر تصانیف فارسی زبان میں رقم کی ہیں۔ کاشانی نے دونوں مفاہیم کے توسط سے لفظ وجود کو، حقیقت کے مختلف مراتب کے تعین کے حوالے سے استعمال کیا۔ ان کے مطابق وجود کے پست یا نچلے درجات، ہستی/موجودیت/ھویت پر دلالت کرتے ہیں اور اس کے اعلیٰ مراتب ’یافت/تحصیل‘ کے مفاہیم کو محتوی ہیں۔ مزید یہ کہ افضل الدین کاشانی لفظ ’یافت‘ کو: آگہی، ادراک اور باخبری کے لیے بہ طور مترادف بھی برتتے ہیں۔
شیخ اکبر کی تحریروں میں لفظ ’وجود‘؛ ”یافت /تحصیل/ پانے“ کے بالمقابل زیادہ تر ”ہستی /ھویت/موجودگی“ کے معنی کو انگیز کرتا ہے۔ البتہ جب وہ اسے ایک صوفیانہ اصطلاح کے بہ طور برتتے ہیں تو وہ اس کے صوفیانہ مفہوم (یافت/پانا/تحصیل) کو ہی اجاگر کرتے ہیں، نیز متذکرہ اصطلاح کے صوفیانہ مفہوم کے تناظر میں شیخ اکبر اس سے ”حالتِ توجد / جذب کے دوران حق کی آگہی یا وجدان الحق فی الوجد“ کا معنی مراد لیتے ہیں۔ متذکرہ مفہوم کے تناظر میں لفظ ’وجود‘ کو صوفیانہ تصورِ ’فنا‘ سے متمیز کرنا قدرے دشوار معلوم ہوتا ہے۔
صوفیانہ مباحث کے اندر، وجود کے تعلق سے جو مباحث قائم کیے گئے ہیں ان میں اس حوالے سے ”شہود (مشاہدہ)“ کی اصطلاح نہایت ہی معنی خیز حیثیت کی حامل ہے۔ حتیٰ کہ (متذکرہ مباحث کی رو سے) شہود اور وجود کے درمیان کوئی واضح فرق قائم کرنا محال نظر آتا ہے۔ عبدالکریم قشیری کا مندرجہ ذیل شعر،’وجود‘ کی شاعرانہ توضیحات پر مبنی ان تمام شعری نمونوں (جو مختلف صوفی شیوخ نے قلم بند کیے ہیں) کی ترجمانی کرتا ہے، جن میں ’وجود‘ اور ’شہود‘ قافیوں کے طور پر برتے گئے ہیں:
”میرا وجود یہ ہے کہ میں اپنے وجود کو اس میں گُم کردیتا ہوں /جو شہود مجھ پر آشکار کرتا ہے“۔
قشیری کی (لفظ ’وجود‘ کی) فراہم کردہ متنوع توضیحات کے تناظر میں دیکھیں تو مذکورہ شعر کے اندر ’وجود‘ یافت/ تحصیل / پانے کے معنی پر دلالت کرتا ہے، یعنی یہ شاعر کی خود آگہی اور مظاہر و موجودات کے تعلق سے اس کے شعور و آگہی کی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں تک ’شہود‘ کا تعلق ہے تو یہ دیدِ حق کی غمازی کرتا ہے۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ حقیقی باخبری: اپنی ذات سے ماورا ہوکر، ذاتِ حق کی آگہی حاصل کرنے کا نام ہے۔ البتہ متذکرہ بالا شعر کو ہم لفظ ’وجود‘ کے فلسفیانہ مفاہیم کے تناظر میں بھی سمجھ سکتے ہیں یعنی تب تک کوئی بھی سالک حقیقی آگہی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ اپنی ذات کو مشاہدۂ حق کے توسط سے تحلیل نہ کرے۔ غرضیکہ حقیقی ’وجود‘ کا حصول صرف ’شہود‘ کے توسط سے ممکن ہے۔ اس واسطے دونوں (وجود اور شہود) اساساً ایک ہیں۔
اولین صوفی مفکرین نے کشف کو شہود کے لیے بہ طور مترادف برتا ہے، البتہ شیخ اکبر نے دونوں (کشف اور شہود) کو ’وجود‘ کی توضیح کے تعلق سے بہ طور مترادفات استعمال کیا ہے۔ ان کی تحریروں میں وجود کو شہود سے، اور شہود کو وجود سے متمیز کرنا محال ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔
الحاصل جب ہم (ابتد سے تا شیخ اکبر) لفظ ’وجود‘ کے صوفیانہ مفاہیم پر غور کرتے ہیں تو ہم پر یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس کا لغوی مفہوم (یافت/پانا/تحصیل) اسے ’شہود‘ کے مترادف کی حیثیت عطا کرتا ہے۔ البتہ اگر ہم اسے اس کے فلسفیانہ مفہوم کی رو سے دیکھیں تو یہ ’شہود‘ سے بالکل مختلف طرح کے معنی کو انگیز کرتا ہے، تاہم اگر افضل الدین کاشانی کی توضیحات کے تناظر میں دیکھیں تو ’وجود‘ اسلامی فلسفے کی رو سے بھی، ہستی /ھویت کے ساتھ ساتھ آگہی اور یافت کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔
*********
جیسا کہ راقم السطور نے پہلے ہی عرض کیا کہ سعید الدین فرغانی کے سوا، شیخ اکبر یا ان کے اولین تلامذہ میں سے کسی نے بھی”وحدت الوجود“ کو ایک تکنیکی اصطلاح کے طور پر نہیں برتا۔ سعید الدین فرغانی نے ابن الفارض مصری کے قصیدۂ تائیہ کی عربی اور فارسی شرح کے اندر متعدد دفعہ ’وحدت الوجود‘ کی اصطلاح کا اعادہ کیا ہے۔ وہ متذکرہ اصطلاح کو ‘’کثرتِ علم“ کے ضمیمہ کے طور پر زیرِ بحث لاتے ہیں۔ دونوں اصطلاحات (کثرتِ علم/وحدت الوجود) کو ایک دوسرے کے بالمقابل بروئے کار لاکر فرغانی کثرت و وحدت کے ربانی مصدر کی تعیین کے علاوہ اس کی فلسفیانہ توضیح و تصریح بھی پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ حقیقت فرغانی سے قبل بھی ہر کس و ناکس پر عیاں تھی کہ وحدت، حق کا وصف ہے البتہ فرغانی نے اپنی شرح کے توسط اس امر کا اثبات کیا کہ جہاں وحدت کا سرچشمہ ذاتِ حق ہے وہیں کثرت کا مصدر بھی ذاتِ حق ہی ہے۔
فرغانی کے مطابق، حق کی وحدانیت کا مصدر اس کا وجود ہے۔”لاالہ الااللہ“ کا معنی یہ ہے کہ صرف اور صرف ذاتِ حق حقیقی، صادق اور اساسی وجود (واجب الوجود) کی حامل ہے۔ بجز ذاتِ حق کے، ہر شے کا وجود مستعار اور غیر حقیقی ہے۔ مزید یہ کہ ہر شے واحد، سرمدی اور واجب الوجود حق کے علم میں ازل سے ہی موجود ہے اور ابد تک موجود رہے گی۔ بہ الفاظ دیگر اللہ کے معروضاتِ علم ازل سے ہی تکثیری ہیں، البتہ علم الہٰی کے اندر واقع ہر شے(عینِ خارجیہ کی صورت) بواسطۂ زماں / دہر عرصہ گہہِ ہستی میں داخل ہوتی ہے۔اس واسطے حق: بہ اعتبار ذات الواحد ہے اور بہ اعتبار علم الکثیر۔اس کی ذات کی وحدانیت اور علم کی کثرت، دو ایسے نوامیس ہیں جو کائنات کے مظاہر و موجودات کو منصۂ شہود پر لاتے ہیں۔ جب شیخ ذاتِ حق کو الواحد/الکثیر کی اصطلاحات کے توسط سے زیرِ بحث لاتے ہیں تو یہ دونوں اصطلاحات فرغانی کے نقطۂ نظر کو انگیز کرتی ہیں۔
الواحد اور الکثیر کی اصطلاحات کے توسط سے ظہورِ کائنات کی توضیح و تصریح پیش کرنے کے بعد فرغانی اس امر کی توضیح پیش کرتے ہیں کہ مذکورہ نوامیس (principles) کس طرح ان عناصر کی تعیین کرتے ہیں جن سے صورتِ حق (جو کہ انسانی ہستی ہے) متشکل ہوتی ہے۔ جب اللہ نے جسدِ آدم کو خلق کیا تو اس نے اپنے تنفس کے توسط اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔نتیجے کے طور پر انسانی ہستی تین عناصر کی آمیزش سے ترکیب پائی: ۱۔جسد،۲۔روح،۳۔نفس۔ نفس: روح اور جسد کے مابین ثالث کی حیثیت سے جاگزیں ہے۔ خاکِ جسد سے قربت کے سبب نفس، تکاثرِ علم کی آئینہ داری کرتا ہے۔ اس کے علی الرغم تنفسِ ربانی سے صادر ہونے کی بنا پر روح، وجود کی وحدت کو درشاتی ہے۔
دونوں نوامیس کو زیرِ بحث لانے کے دوران فرغانی نے اس امر کو پیش نظر رکھا ہے کہ ’وجود‘ کی اصطلاح فقط ہستی یا ھویت پر ہی دلالت نہیں کرتی، بلکہ یہ ملکۂ وجد/ توجد کو بھی درشاتی ہے۔ جس کا معنی (فرغانی کی توضیح کی رو سے): روح کی وحدت کے اندر دائمی طور پر پیوست، فرد کے باطنی رشتے کی دریافت ہے۔
عربی متن سے ہم آہنگ فارسی اقتباس (جس کا خلاصہ راقم نے مذکورہ بالا اقتباس کی صورت میں پیش کیا) کے توسط سے فرغانی ”وحدت الشہود“ کی اولین مثال پیش کرتے ہیں، البتہ انھوں نے اسے ایک تکنیکی اصطلاح کے طور پر نہیں برتا ہے۔ فرغانی کہتے ہیں کہ جب سالک اپنی روح کو دریافت کرتا ہے تو وہ ”وحدت الشہودِ حقیقی“ کی جانب راغب ہوجاتا ہے۔
وحدتِ روح اور تکاثرِ نفس سے متعلق قائم کردہ بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے فرغانی کہتے ہیں؛ کہ جب سالک، سلوک کے اس نقطے تک رسائی حاصل کرتا ہے جہاں اس کا نفس تحلیل (فنا) ہوجاتا ہے تو اس کے عرصۂ آگہی سے کثرتِ علم محو ہوجاتی ہے۔ نتیجے کے طور پر وہ وحدت الوجود کے ’شہود‘ کے اندر بقا حاصل کرتا ہے۔ البتہ یہ بقا راہ سلوک کی آخری منزل نہیں ہے، کیونکہ تحلیلِ نفس کے بعد بھی اس کی روح (جو وحدت الوجود کی غمازی کرتی ہے) باقی رہتی ہے۔ تاہم جوں ہی سالک کی روح (نفس سمیت) فنا/تحلیل ہوجاتی ہے تو تحلیلِ روح کے بعد جو بقا سالک کو حاصل ہوتی ہے، اس کے سبب سالک کثرتِ علم کا مشاہدہ کرتا ہے۔ دونوں عرصوں (وحدتِ وجود اور کثرتِ علم) کے اندر بقا حاصل کرنے کے بعد، سالک ”مقام الجمع“ تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ صوفیانہ متون کے اندر ”جمع“ کی اصطلاح کو، فرق/تفرقہ یا فراق کی نقیض کے طور پر برتا گیا ہے۔
”مقام الجمع“ کے بعد بھی دو روحانی مقامات باقی رہتے ہیں، جن میں اول ”مقامِ جمع الجمع“ ہے: جس کے اندر سابقہ دو مقامات (وحدتِ وجود اور کثرتِ علم) ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں تک صرف انبیا اور اکابر عرفا کو رسائی حاصل ہوتی ہے۔دوم ”مقامِ احدیت الجمع“ ہے. یہ راہِ سلوک کا آخری مقام ہے۔ نیز یہ وہ مقام ہے جہاں تک صرف پیغمبرِ رحمت حضرت محمد رسول ﷺ رسائی کر پائے۔ مزید برآں یہ وہ مقام ہے جہاں وحدت الوجود اور تکاثرِ علم ایک ہوجاتے ہیں۔
********
”وحدت الوجود“ کی تشہیر اور شیخ اکبر سے مذکورہ اصطلاح کے انتساب کے سبب ہی شیخ احمد سرہندی نے اس کے تئیں اپنا مخاصمانہ رد عمل ظاہر کیا۔ شیخ احمد سرہندی کہتے ہیں کہ انھوں نے اس لیے متذکرہ اصطلاح کو ہدفِ تنقید بنایا کیونکہ ان کے کئی معاصرین اسے احکام شریعت سے پہلو تہی کرنے کے لیے، عذر کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔ درحقیقت (دورِ حاضر کی طرح) شیخ احمد سرہندی کے زمانے میں اس اصطلاح کو برتنے والے اکثر لوگ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی تحاریر سے کلیتاً بے بہرہ تھے۔ ان لوگوں کے اذہان پر ”صوفیانہ وحدت“ کا ایک مبہم سا تصور غالب آچکا تھا، لہذا مذکورہ تصور اور احکامِ شریعت سے اپنے تغافل کی تائید و تصویب کے لیے وہ شیخ اکبر سے منسوب و حدت الوجود کی اصطلاح کا سہارا لیتے تھے۔
شیخ احمد سرہندی نے”وحدت الوجود“ کی اصطلاح کی جو توضیحات پیش کی ہیں، ان سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ وہ شیخ اکبر اور ان کے معروف تلامذہ کی تحاریر سے ایک محدود پیمانے پر آشنا تھے۔ شیخ احمد سرہندی کا یہ اصرار؛ کہ حقیقت الاشیا کو درشانے کے لیے ”وحدت الوجود کی اصطلاح ناکافی اور سہوِ فکر ہے، نیز اسے ”وحدت الشہود“ کی اصطلاح سے بدل دیا جانا چاہیے، دراصل اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ شیخ احمد سرہندی کا گمان یہ تھا کہ متذکرہ اصطلاح شیخ اکبر محی الدین عربی نے برتی ہے اور انھوں نے لفظ ”وجود“ کو صرف اس کے فلسفیانہ مفہوم (ہستی / موجودگی/ ھویت/بودیت) میں برتا ہے۔ وہ غالباً اس حقیقت سے نا بلد تھے کہ شیخ اکبر نے اسے دونوں مفاہیم میں برتا ہے یعنی انھوں نے اسے ہستی /ھویت/ موجودگی/ بودیت کے مفہوم میں بھی برتا ہے اور ”یافت/تحصیل/ پانے“ کے مفہوم میں بھی۔ جزوی ناواقفیت کے سبب شیخ احمد سرہندی نے اس عندیے کا اثبات کیا کہ ہر شے کے اندر حق کی جلوہ گری ناظر کی نظر سے مشروط ہے۔ مزید یہ کہ وہ اس امر کا بھی اثبات کرتے ہیں کہ راہِ سلوک میں سالک کو جو توصلِ حق حاصل ہوتا ہے وہ دراصل توصلِ شہود ہے نہ کہ توصلِ وجود۔ البتہ شیخ اکبر محی الدین عربی اور ان کے بیشتر تلامذہ کی رو سے ’شہود‘ اور ’وجود‘ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ تعجب کا مقام یہ ہے کہ شیخ احمد سرہندی، اول تو شیخ اکبر محی الدین ابن عربی سے ایک ایسی اصطلاح (وحدت الوجود) منسوب کرتے ہیں جسے شیخ اکبر نے اپنی تحاریر کے اندر کہیں پر بھی نہیں برتا ہے، دوم وہ لفظ”وجود“ سے جس طرح کا مفہوم مستنبط کرتے ہیں وہ شیخ اکبر کے اندازِ فکر سے کسی بھی اعتبار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ *********
اب میں اپنے آخری مقدمے کی توضیح پش کرنے کی کوشش کروں گا، وہ یہ کہ ہندستانی صوفیانہ روایت کے قرونِ مابعد اور ادوارِ جدید میں، وحدت الوجود پر کیے گئے، شیخ احمد سرہندی کے اعتراضات کے تئیں کس طرح کا ردعمل ظاہر کیا گیا۔ ١٩٨٨ء میں، میں نے کم و بیش آٹھ ماہ ہندستان کے مختلف کتب خانوں میں (شیخ احمد سرہندی کے اعتراضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے) اس مسئلے کی تحقیق و تفتیش میں گزارے کہ ہندستان میں فروغ پانے والی صوفیانہ روایت پر شیخ اکبر کے تفکرات نے کس طرح کے اثرات مرتب کیے۔ دورانِ تحقیق مجھے یہ جان کر تعجب ہوا، کہ شیخ احمد سرہندی کے نقشبندی سلسلۂ تصوف سے وابستہ چند مصنفین کو چھوڑ کر، جن مٹھی بھر صوفی مصنفین نے ان کے اعتراضات پر اپنی توجہ مرکوز کی، انھوں نے بھی شیخ احمد سرہندی کے اعتراضات کو غلو آمیز اور سہوِ فکر و نظر قرار دے کر مسترد کیا۔ حتیٰ کہ بعد کے زمانے میں شیخ احمد سرہندی کے مکتب تصوف (نقشبندی سلسلۂ تصوف کا ذیلی مکتب) سے وابستہ چند شیوخ نے بھی ان کے اعتراضات سے اظہار برأت کیا۔ اس تعلق سے شاہ ولی اللہ دہلوی کے موقف کو نمائندہ مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ جنھوں نے اپنے رسالہ ”فیصلہ وحدت الوجود والشہود“ میں اس امر کا اثبات کیا ہے کہ درحقیقت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی اور شیخ احمد سرہندی کے موقف کے درمیان کوئی اساسی فرق ہے ہی نہیں۔
کہنے کا مقصود ہرگز بھی یہ نہیں ہے، کہ شیخ احمد سرہندی کو کلیتاً نظر انداز کیا گیا، البتہ ان کے تفکرات نے ہندستان میں پروان چڑھنے والی متصوفانہ فکر پر اتنا بھی گہرا اثر مرتب نہیں کیا جتنا (اس تعلق سے رقم کی گئی) ثانوی درجے کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے۔ بیشتر صوفی شیوخ نے (شیخ احمد سرہندی کے اعتراضات کے باوجود) شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی علمی و روحانی مرتبت کے تئیں کسی بھی قسم کے تردد و تذبذب کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جہاں تک ”وحدت الوجود“ کی اصطلاح کا شیخ اکبر کے نظام تفکرات اور روحانی بصیرت سے وابستگی کا تعلق ہے تو مذکورہ شیوخ نے (مولانا جامی کی توضیحات کو ملحوظ رکھتے ہوئے) اس سے وہی مفاہیم مستنبط کیے جو شیخ اور ان کے تلامذہ کے موقف سے ہم آہنگ ہیں۔
ہندستان کے جن علما اور صوفی شیوخ نے ”وحدت الوجود“ پر وارد کیے گئے شیخ احمد سرہندی کے اعتراضات کو مسترد کیا، ان میں سب سے توجہ طلب مثال، شیخ احمد سرہندی کے نقشبندی شیخ، خواجہ باقی باللہ کے فرزند خواجہ عبداللہ خورد ہے۔ جنھوں نے دیگر صوفی شیوخ کی طرح، شیخ اکبر پر وارد کیے گئے شیخ احمد سرہندی کے اعتراضات کو کلیتاً مسترد کیا۔
اطہر عباس رضوی اپنی کتاب ”A History of Sufism in india“میں لکھتے ہیں کہ ہرچند باقی باللہ نے اپنے دونوں بیٹوں: خواجہ عبید اللہ کلاں اور خواجہ عبداللہ خورد کی تربیت کی ذمہ داری شیخ احمد سرہندی کے سپرد کی تھی، تاہم دونوں نے بعد میں شیخ احمد سرہندی سے علاحدگی اختیار کرکے دہلی میں اپنے نقشبندی سلسلے کا مرکز قائم کیا۔ جہاں وہ متواتر طور پر ”وحدت الوجود“ کی تعلیم دیتے رہے۔ مولانا جامی کی ”لوائح“ سے متاثر ہوکر جو رسالہ ”فوائح“ کے عنوان سے خواجہ عبداللہ خورد نے تحریر کیا ہے، اس کے اندر وہ لکھتے ہیں کہ ”وحدت الوجود“ اور ”وحدت الشہود“ اساساً یکساں ہیں لہذا ”وحدت الشہود“ کو ”وحدت الوجود“ کی تصحیحی اصطلاح قرار دینا لایعنی ہے۔ مزید لکھتے ہیں: ایک گروہ یہ دعوی کرتا ہے کہ”وحدت الوجود“ کے بجائے ”وحدت الشہود“ فی الاصل توحید کی غمازی کرتا ہے، لیکن یہ گروہ مقامِ وجود سے بے بہرہ ہے۔دوسرے گروہ نے تحقیقاً یہ ثابت کیا ہے کہ ”وحدت الوجود“ اور ”وحدت الشہود“ فی الاصل ایک ہی ہیں۔مزید برآں ”وجود“ کے بالمقابل ”شہود“ ایک لایعنی اصطلاح ہے۔
وحدت الوجود کے تئیں شیخ احمد سرہندی کے مخاصمانہ موقف کے استرداد کے تعلق سے، ایک اور دل چسپ مثال شیخ عبدالجلیل الہ آبادی کی پیش کی جاسکتی ہے، جو غالباً شیخ احمد سرہندی کے ہم عصر تھے۔ شیخ اکبر سے اپنے ایک رویائی/تخیلاتی مکالمے کے اندر عبد الجلیل الہ آبادی لکھتے ہیں کہ میں نے شیخ اکبر سے پوچھا: ایک صوفی یہ دعوی کرتا ہے کہ وحدت کا مظہر شہود ہے نہ کہ وجود؟“ شیخ اکبر نے جواباً کہا کہ انھوں نے اس طرح کے تمام قضیات کی توضیح فتوحات مکیہ کے اندر پیش کی ہے، مزید برآں انھوں نے(کتابِ مذکور کے اندر) اس تعلق سے تمام لازمی نکتہ ہائے نظر کو پیش کیا ہے۔ البتہ مسئلہ یہ ہے کہ چند ناقدین اپنی ذاتی حدود سے آگے بڑھ کر معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ متذکرہ مکالمہ فی الواقع کسی رویا یا تخیل پر مبنی ہے یا پھر محض ایک لسانی تدبیر، اس سے قطع نظر یہ ان تمام لازمی نکتہ ہائے نظر کی جانب اشارہ کناں ہے جن کو شیخ اکبر نے فتوحات مکیہ کے اندر زیر بحث لایا ہے۔ علاوہ بریں مذکورہ مکالمہ اس امر کا بھی غماز ہے کہ شیخ احمد سرہندی کا موقف ان میں کسی بھی طرح کا اضافہ نہیں کرتا۔
عبدالجلیل الہ آبادی ایک اور رسالے کے اندر اسی طرح کے ایک رویائی مکالمے کو ضبط تحریر میں لاتے ہیں، البتہ اس مکالمے کے کردار روح اور نفس ہیں۔ مذکورہ رسالے کے مقدمات کو راقم الحروف نے اپنے مقالے ”on sufi psychology:A debate between soul &spirit. “میں زیر بحث لایا ہے۔ تاہم متذکرہ مقالے کے اندر جو بحث میں نے قائم کی ہے اس میں، میں نے عبد الجلیل الہ آبادی کے رسالے کی اہمیت کو، شیخ احمد سرہندی کے اثباتِ وحدت الشہود کے تعلق سے اجاگر نہیں کیا ہے۔ روح اور نفس کے مکالمہ کو محتوی رسالے کے اندر، عبدالجلیل الہ آبادی دونوں کے تناظرات کو جس باریک بینی سے پیش کرتے ہیں، اس کے سبب وہ (تناظرات) فرغانی کی قائم کردہ تکاثرِ نفس اور وحدتِ روح کی بحث کے آئینہ دار معلوم ہوتے ہیں۔ عبد الجلیل الہ آبادی کے مرقومہ مکالمے میں، نفس اس امر کا اثبات کرتا ہے کہ تکاثرِ علم کے زائیدہ تفرقات/ تناقضات کی تحلیل /تعدیم کے بعد اس کے اندر مشروع و غیر مشروع کی تمیز ختم ہوچکی ہے۔ اس کے علی الرغم روح کا اثبات یہ ہے کہ وہ ایک ایسے مقام تک رسائی حاصل کرچکی ہے، جہاں تکاثرِ علم کے زائیدہ تمام تفرقات و تناقضات ثابت و سالم نظر آتے ہیں۔
عبدالجلیل الہ آبادی کے مرقومہ مکالمے کے اندر نفس، شیخ اکبر کے موقف کی جو غلط تعبیرات پیش کرتا ہے وہ ان تعبیرات سے متماثل ہیں جن کو شیخ احمد سرہندی نے ”ہمہ اوست“ کا نام دے کر ہدف تنقید بنایا۔اس کے برخلاف روح کو ہر شے، اس کے مناسب و موزوں مقام پر نظر آتی ہے جسے نبوی نکتۂ نظر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ عبدالجلیل الہ آبادی صرف وجود کی وحدت اور تکاثرِ علم کی آگہی پر مبنی بصیرت تک ہی اپنے مباحثے کو محدود نہیں کرتے بلکہ اپنے مباحثے کو، آگے بڑھاتے ہوئے (فرغانی کی طرح) ان مراحل تک لے جاتے ہیں، جہاں روح و نفس کے تناظرات ایک دوسرے کا تکملہ کرتے ہیں۔
ہندستان کے دیگر صوفی شیوخ اس حقیقت سے بہ خوبی آگاہ تھے کہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے تفکرات اس قدر عمیق و دقیق ہیں کہ کوئی بھی ان کی غلط تاویل کرسکتا ہے۔ البتہ ان میں سے ان شیوخ کی تعداد انتہائی قلیل ہے جنھوں نے ان (تفکرات) کو ہدف تنقید بنانا یا پھر شیخ اکبر کی روحانی مرتبت پر سوال قائم کرنا ضروری گردانا۔ ان میں سب سے نمائندہ حیثیت شیخ محب اللہ الہ آبادی کو حاصل ہے، اپنی ضخیم و حجیم تصانیف، شیخ اکبر کی تحاریر کے غائر مطالعہ اور شیخ اکبر کا جو دفاع انھوں نے اپنی تحریروں میں پیش کیا اس کی بنا پر انھیں ”ابن عربی ثانی“ کا لقب دیا گیا۔اپنی فارسی نگارشات کے اندر محب اللہ، شیخ اکبر کو ”ابن عربی از وجد و حال بری“ جیسے الفاظ سے پکارتے ہیں۔ وجد و حال کا حوالہ دے کر محب اللہ دراصل مخصوص صوفیانہ مشاغل و وظائف کی زائیدہ عاطفی کیفیات کو پیش منظر [میں] لانے کے ساتھ ساتھ، تصوف کے اس جذباتی اور تجرباتی پہلو کو انگیز کرتے ہیں جسے کئی صوفی شیوخ اور علماے شریعت نے ہدفِ تنقید بنا یا ہے۔ شیخ اکبر کو وجد و حال کی کیفیات سے ماورا قرار دے کر محب اللہ دراصل راہ سلوک کے مختلف مقامات تک شیخ اکبر کی کامل رسائی کو انگیز کرتے ہیں۔ مقامات- اول تو نفس کے مادۂ حقیقت کو ہمیشہ کے لیے منقلب کرتے ہیں، دوم یہ نفس کی دائمی حصولیابیوں پر بھی دلالت کرتے ہیں۔ لہذا فقط مقامات، جستجو کے سزاوار قرار دیے جاسکتے ہیں۔
شیخ اکبر کو جذب و حال سے ماورا قرار دے کر محب اللہ دراصل انھیں ان لوگوں سے الگ کرنا چاہتے تھے جنھوں نے وحدت الوجود کو ایک سری نوعیت کے جذباتی ردعمل تک محدود کردیا تھا۔ تصوف کی تاریخ سے آشنا ہر فرد یہ جانتا ہے کہ صوفیانہ مشاغل اور وظائف بارہا، باطنی تجربہ کی جستجو برائے باطنی تجربہ تک محدود ہو کے رہ گئے۔ متنوع مذہبی امکانات سے معمور ہندستان میں، ان صوفی سلاسل کی تعداد کچھ زیادہ ہی تھی جنھیں روایت پسندوں نے گمراہ قرار دے کر مسترد کیا۔ آخرش میں اس امر کی توجیہہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا کہ شیخ احمد سرہندی کی ذات اور ان کے پیش کردہ تصورِ وحدت الشہود کو اس قدر شہرت کیوں ملی۔ میرے خیال میں اس کا بنیادی سبب برصغیر کے اندر مسلم قوم پرستی کا بڑھتا ہوا رحجان ہے جسے برطانوی سامراج نے مہمیز بخشی اور بعد میں تقسیم کے المیے نے اسے مزید پختہ کیا۔ اس کے علاوہ جدید معاشرے کے اندرفروغ پانے والی سیکولر حسیت نے اس کی شدت کو فزوں تر کیا۔ اسلامی قومیت کے حامیوں کو اول ہندستان میں، اور دوم پاکستان میں جب ناخداؤں کی ضرورت محسوس ہوئی، تو انھوں نے یہ باور کرلیا کہ شیخ احمد سرہندی ان کے قائم کردہ معائر پر کھرا اترتے ہیں۔ شیخ احمد سرہندی کے دینِ خالص کے اثبات کے اندر انھیں، شہنشاہ اکبر کی آفاق گیر وراثت کے استرداد، اورنگ زیب کی غیر مسلم مخالف حکمت عملی کے سر آغاز، اور دارا شکوہ کے تفکرات کے اندر مضمر اس رجحان کو زیر و زبر کرنے کی قوت نظر آنے لگی جو ہندستان کی مقامی روحانی روایات کے تئیں وسیع القلبی اور وسیع النظری کا غماز ہونے کے سبب داعیانِ قومیتِ اسلامی کے نصب العین کے لیے سم قاتل متصور کیا گیا۔ شیخ احمد سرہندی کی ذات میں انھیں مسلم خودمختاری کی جستجو کا نظریاتی بانی اور سرخیل نظر آنے لگا۔ مزید برآں ”وحدت الوجود“ ان تمام افکار کا نمائندہ نظریہ قرار دیا جانے لگا جو (جو ان کی نظر میں) داخلی اور خارجی ہر دو سطحوں پر اسلامی تشخص کی بیخ کنی پر آمادہ ہیں۔ جو ”وحدت الوجود“ کے کلیے میں یقین رکھتے ہیں وہ ان لوگوں کی نظر میں شریعت کو مسخ کرنے کے علاوہ غیر اسلامی روحانی تعلیمات کو قبول کرنے کے نتیجے میں، اسلامی تہذیب کے تنزل کے مرتکب قرار پاتے ہیں۔
الحاصل ”وحدت الشہود“ اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نظریہ قرار دیا گیا اور ”وحدت الوجود“ کج فہمی کا زائیدہ ایک باطل نظریہ قرار دے کر مسترد کیا گیا۔ اگرچہ مذکورہ کاوشیں چند مخصوص نظریاتی مقاصد کے لیے سود مند ثابت ہوئیں، تاہم یہ کاوشیں ایمان و عمل کے تعلق سے شیخ اکبر کے اصولی موقف کی غلط تعبیرات کے علاوہ تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کا موجب بھی ثابت ہوئیں۔ شیخ اکبر کی علمی وراثت کی جو غلط تعبیرات پیش کی گئیں ان کے سبب شیخ اکبر کے تئیں چند مستشرقین کی عداوت کو بھی تقویت ملی۔ مثلاً جب لوئی ماسینون (وہ ان مغربی عالموں میں شمار کیا جاتا ہے جو اپنے دل میں تصوف کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے) نے ”وحدت الشہود“ کے بارے میں سنا تو اس نے مذکورہ اصطلاح اور اس کے تحت قائم کیے گئے شیخ احمد سرہندی کے مبحث کو، شیخ اکبر کے تفکرات کے تئیں اپنی ذاتی مخاصمت کی تصدیق و توثیق قرار دیا۔ وحدت الشہود سے ماسینون نے یہ تعبیر اور نتیجہ مستخرج کیا کہ وحدت الشہود کا نظریہ اس کے اِس ایقان کی تصدیق کرتا ہے کہ شیخ اکبر تصوف کے اُس تجرباتی پہلو سے بے بہرہ تھے (یعنی وہ کوئی صاحب تجربہ صوفی نہیں تھے)، جسے شہود کی اصطلاح نہایت ہی عمدہ انداز میں درشاتی ہے۔ ماسینونؔ کی رو سے شیخ اکبر نے خالص صوفیانہ روحانیت پر یونانی فلسفے کو مسلط کرکے، حقیقی تصوف کو نری فلسفہ طرازی میں بدلنے کی کوشش کی۔
خلاصۂ بحث:
۱۔ ”وحدت الوجود“ کی اصطلاح شیخ اکبر کی وفات کے ایک طویل عرصہ (ایک صدی) بعد متصوفانہ مخاطبے میں داخل ہوگئی۔
۲۔جن وجوہات کے سبب یہ اصطلاح متنازع بن گئی، شیخ اکبر کے تفکرات سے ان کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔
۳۔لفظ وجود دو معنی کو محتوی ہے، شیخ احمد سرہندی نے اس لیے ”وحدت الوجود“ کو ہدف تنقید بنایا کیونکہ انھوں نے اس کے (وجود کے) ایک ہی معنی پر اپنی توجہ مرکوز کی اور دوسرے معنی کو سرے سے ہی نظر انداز کیا۔
۴۔ہندستان کے کئی صوفی شیوخ اور علما کو شیخ اکبر کی تعلیمات اور تفکرات کا کامل ادراک حاصل تھا۔ لہذا انھوں نے شیخ احمد سرہندی کے اعتراضات کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا۔
۵۔ شیخ احمد سرہندی کو جو شہرت حاصل ہوئی اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ وحدت الشہود کو وحدت الوجود کی ایک تصحیحی اصطلاح کی حیثیت سے اہمیت دی گئی بلکہ اس کے علی الرغم ان کی شہرت کا سبب ہندستان کے اندر اسلامی قومیت کے موجدین کی ضرورت ثابت ہوئی۔ جو مذہبی یگانگت کی طویل روایت سے قطع تعلق کے حوالے سے بہ طور دلیل پیش کیے جاسکتے تھے۔
٭٭٭٭٭٭
مصنف کا تعارف:فلسفی /مترجم اور اسلامی فلسفیانہ نیز متصوفانہ مخاطبے کے معروف شارح پروفیسر ولیم۔سی۔چیٹیک(william c chittick)فی الوقت امریکا کی سٹونی بروک یونی ورسٹی کے ”Department of asian & asian american studies“میں بہ حیثیت استاد ارجمند ((Distinguished professor اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے معاصر شارحین میں پروفیسر چیٹیک کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔
…………
مترجم کا تعارف: جواں سال مترجم اور مصنف سبزار احمد کا تعلق ضلع اننت ناگ کے قاضی گنڈ قصبے سے ہے۔مترجم جموں و کشمیر کے محکمہ اسکولی تعلیم میں بہ حیثیت اردو لکچرر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :مکتوباتِ صوفیہ ، ایک گراں قدر علمی و ادبی سرمایہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے