آوازیں

آوازیں

ارم رحمٰن
لاہور، پاکستان

نوابوں اور رئیسوں کے گھر شادی بھی کسی میلے ٹھیلے سے کم نہیں ہوتی. ایسی بھانت بھانت کی رسمیں اور مزے مزے کے پکوان اور حویلی ایسے سجائی جاتی ہے جیسے روشنیوں کا شہر اور زنان خانہ میں تیاریاں کسی محل کی ملکہ اور شہزادیوں کا راج ہو، کمخواب، جامہ وار مخمل اور نہ جانے کون کون سے قیمتی دیدہ زیب لباس، جگنو کی طرح چمکتی ہوئی لڑکیاں اور متمدن مہذب خواتین، باوقار مرد۔۔
گہما گہمی بھی اور ہنسی کی قلقاریاں، کہیں میٹھے پان کی گلوریا، کہیں چاندی کے اوراق میں لپٹی گل قند، سارا گھر گلاب اور موتیوں کے پھولوں بھرا سجا، خوشبوؤں میں لپٹا ہوا، چہل پہل، حلوے مانڈے اور رنگ برنگے شربتوں سے مہمانوں کی سواگت کی تیاری کی جاتی ہے اور ایسی ہی تیاری نواب شکیل احمد کے گھر میں چل رہی تھی جو جدی پشتی رئیس تھے اور کمال خوبی سے اپنے پرکھوں کے کاروبار اور ساکھ کو سنبھال رکھا تھا. آج ان کے بڑے بیٹے کے نکاح اور بارات کی تقریب تھی، پانچ سال پہلے بڑی بیٹی بیاہی تھی، اب اکلوتے بیٹے سجیل احمد کی باری تھی. اس کے بعد ایک چھوٹی نوعمر بیٹی رخسار تھی، بارہویں کے امتحان دے کر فارغ ہوگئی اور اب اپنے اکلوتے بھیا کی شادی کی تیاریوں میں خوشی خوشی مگن تھی.
سچ تو یہ ہے کہ اس کے امتحانات کے ختم ہونے کے بعد ہی یہ شادی کی تاریخ رکھی گئی تھی، تقریب کی ساری تیاریاں مکمل تھیں، مہمان آنا شروع ہوگئے، جن کے لیے حویلی کے بڑے دالان میں انتظام کیا گیا تھا. نوکر چاکر بھاگ بھاگ کر حکم بجا لا رہے تھے اور شادی کے موقعے پر سب کو ہی کئی نئے اور قیمتی جوڑے بنوا کر دیے تھے، اب وہ ان تحفوں کو حق حلال کرنے کے لیے زیادہ ہی مستعدی سے خدمت میں لگے تھے.
ویسے بھی خاندانی ملازم تھے، مالک کے ابرو کی جنبش سمجھتے تھے اور ایک اشارے پہ جان دینے کو تیار، یہ تو پھر اکلوتے بیٹے کی شادی کی تقریب تھی، ہنس مکھ سجیل احمد سب کا لاڈلا، راج دلارا، بوڑھی مامائیں آتے جاتے بلائیں لے رہی تھیں اور جس کو دیکھو اماں بی، خالائیں، پھوپھیاں صدقے واری جارہی تھیں، ماشاءاللہ سے تھے بھی بہت پیارے. اللہ نظر بد سے بچائے. اماں نے تیاری کے بعد دیکھا، ماتھا چوما، امام ضامن بازو پہ باندھا اور نہ جانے کتنے نوٹ سر پہ وار کر اماں خورشید کو دیے جو سب سے بڑی ملازمہ تھیں، جنھوں نے بچپن سے دولہے کو پالا تھا، ان کی آنکھیں بھی بھر آئیں اور انھوں نے بھی شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرنا چاہا تو سجیل احمد نے بھی ان کے سامنے سر جھکا لیا اور کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اظہار محبت کر ڈالا
چھوٹی بہن رخسار بھی ساتھ ساتھ تھی، چمکتی دمکتی پیارے سے پیازی رنگ کے کپڑوں میں نازک سی گڑیا، سب دالان میں جمع ہو چکے تھے، مہمانوں کی آؤ بھگت ہوگئی. چائے، شربت، ناشتہ، مٹھائی، گلوری سب ہوگیا. پھر دولہا پہنچا اور رسم سہرا بندی ہوئی، سلامیاں دی گئیں اور لیجیے بالکل وقت پر ہر کام مکمل ہوگیا. اب بارات کی روانگی کا وقت آگیا، نواب شکیل احمد جیسا زیرک ہی وقت کی قدر جانتا تھا. ایک بھی لمحے انتظار کرنے اور کروانے کے قائل نہ تھے، بارات دھوم دھام سے نکلی، سجا سجایا سفید اجلا گھوڑا، اس کی چمکتی کالی آنکھیں اور گردن پہ لہراتے لمبے بال، اس پر خوبرو دولہے میاں سوار۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں خیر سے دلہن کے گھر جا پہنچے.
شکیل احمد کے بچپن کے دوست اور کاروباری شریک میاں نور محمد کی اکلوتی صاحبزادی حاجرہ کو شادی کا عندیہ دیا اور پلک جھپکتے میں دوستی رشتے داری میں تبدیل ہوگئی، بارات کا استقبال شان شایان طریقے سے ہوا، تواضع خاطر داری انتہائی معیاری، ان گنت پکوان کہ چکھتے چکھتے ہی پیٹ بھر جائے، انتظام و انصرام اتنا بڑھیا کہ ہزار بندہ اس جگہ بیٹھا کم لگ رہا تھا اور کھانے کی میزیں اشتہا انگیز پکوانوں سے بھری، خاص وردی والے ویٹر بلائے تھے کہ اشارہ ہو اور چیز مہمان کے ہاتھ میں.
مولوی صاحب کو احترام سے لایا گیا، رسم نکاح ہوئی، تازہ چھوارے کی کشتیاں مہمانوں کے سامنے پیش کردی گئیں. اور بھی کئی خشک میوے کاجو پستہ بادام بھی ساتھ رکھے تھے. اگر سب مہمان مٹھیاں بھر بھر کے کھاتے تب بھی کم نہ پڑتے.
ایسی شادیاں شاذو نادر ہی دیکھنے میں آتی ہیں، سارے مرحلوں کے بعد دلہن کو لایا گیا، کس قدر خوب صورت جوڑا زیب تن کیے قیمتی زیورات سے لدی پھندی اور بہت نفیس قیمتی کامدار دوپٹے کا گھونگھٹ نکالے، دولہے کے ساتھ بٹھایا گیا اور پھر ان کے صدقے اتارے گئے. سالی تو تھی کوئی نہیں، تو خالہ پھپھی ماموں چچا زاد بہنوں نے دودھ پلائی کی رسم نبھائی اور دولہے میاں نے بھی فراخدلی سے جیب خالی کر ڈالی.
رخصتی کی تیاری ہوئی، دلہن کے بوجھ سے زیادہ بھاری تو کپڑے اور زیور تھے جن کے بوجھ تلے دلہن خراماں خراماں چل رہی تھی. انداز بھی اور بھاری سامان بھی، ماں باپ ہلکا سا لپٹ کے روئے، قرآن پاک کے سائے میں بارات دلہن کو رخصت کروا کے خیر خیریت سے گھر پہنچ گئی. دولہا دلہن کی نظر اتاری گئی. سب نے تحائف پیش کیے. دونوں کا منہ میٹھا کروایا گیا، کئی طرح کی رسمیں ہوئیں، پھر دلہن کو حجلۂ عروسی میں پہنچایا گیا.
تازہ پھولوں سے سجی سجائی موتیے کی خوشبو سے معطر فضا میں دلہن کا لہنگا پھیلا کر جہازی بیڈ پر بٹھا دیا گیا. بستر کی صاف شفاف سلک کی سفید چادر میں سرخ گلاب کی طرح دلہن اپنی ساری حشر سامانیوں کے ساتھ براجمان ہوگئی. بہت پیارا منظر تھا، ان ساری رسموں میں رخسار ہر پل بھائی کے ساتھ تھی. وہ ہر رسم میں بہت دل چسپی لے رہی تھی اور اس کا نام رخسار تھا. لیکن اب وہ خوشی سے گلنار لگ رہی تھی، اور اس آخری رسم میں وہ بہت خوش تھی، رخسار اور بڑی بہن رابعہ نے دلہن تک پہنچنے کے لیے بھائی کو کمرے کی چوکھٹ پہ ہی روک لیا اور لگی مانگنے نیگ کے نام پر موٹی رقم، اور یہاں بھی دولہے میاں سرخرو ہوئے، جب انھوں نے منہ بولی سالیوں کو اتنی رقم دی یہ تو پھر سگی بہنیں تھیں. انھوں نے کہا ایک منٹ رکیے اور مجھے کمرے میں الماری تک جانے دیں. الماری دروازے کے ساتھ ہی تھی. الماری کھولی اور ہاتھ ڈال کر دو ڈبے نکالے۔ "ہائے بھیا" رخسار تو اپنا ڈبہ ہاتھ میں پکڑ کر بھائی سے لپٹ گئ، "ارے پگلی کھول کے تو دیکھو" بھائی نے لاڈ سے کہا. دونوں ڈبوں میں بہنوں کے لیے سونے کا جڑاؤ کنگن جگمگا رہے تھے. بہنیں خوشی سے نہال ہوگئیں، اماں بی کو تو پہلے ہی سونے کا سیٹ بنا کر دیا تھا، اللہ کا کرم سب کام خوشی خوشی سے نپٹ گئے.
سب اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے چلے گئے، لیکن رخسار بھابھی کے پاس ہی بیٹھی رہی. ایک ایک زیور گہنا دیکھتی اور سراہتی رہی، بھابھی صاحبہ بھی شرما شرما کر دوہری ہوئے جارہی تھیں، چاند کی چودھویں رات اور چاند دو ہوں تو کیا ہی بات، ایک آسمان پہ دوسرا پہلو میں، سجیل میاں نے آخر رخسار کو شب بخیر کہا اور مسکرا کر باہر نکل گئی اور دروازہ بند ہوگیا.
رخسار کو بہت تجسس تھا کہ شادی کے بعد دولہا دلہن ایک کمرے میں رہتے ہیں، آپی کی شادی کے وقت وہ صرف 14 سال کی تھی بس رخصتی کے وقت یاد تھا، اسے بعد کے معاملات کا بالکل علم نہیں ہوا ۔۔۔ اب چونکہ دلہن گھر آئی تھی اس لیے اسے عجیب سا احساس تھا.
رخسار بڑی بہن کی شادی کے وقت کم عمر تھی اس لیے اماں بی نے کبھی بھی اسے بڑوں میں بیٹھنے نہیں دیا. بڑی بہن یا کوئی خالہ پھپھو کی بیٹیاں آتیں تو سختی سے منع تھا کہ چھوٹی بہن کے سامنے کوئی ایسی ویسی بات نہ کی جائے. بچیاں معصوم ہی اچھی لگتی ہیں، چھوٹی عمر کی پکی لڑکیاں انھیں پسند نہیں تھیں کہ جب وقت آئے گا تب خود ہی سب معلوم ہوجائے گا، احتیاط اور دیکھ بھال میں اماں بی بہت کڑی تھیں، مجال نہیں کہ کوئی بیٹی بیٹا پلٹ کے جواب دے، خاص طور پر بیٹیاں. ان کو زیادہ بولنے والی اور کھی کھی کر کے ہنسنے والی لڑکیاں بالکل پسند نہیں تھیں، بہت اچھی تربیت کی تھی. سلیقہ شعار اور تمیزدار. اور اپنے بہن بھائیوں کے بچوں کے بھی رشتے کروائے. وہاں بھی سب نے بے چون و چرا ہاں کردی. اور اماں بی خاندان اور جاننے والوں میں عمدہ اور بہترین تربیت کے حوالے سے جانی گئیں اور بیٹے کا رشتہ بھی ان کا ہی انتخاب تھا جس پر سب نے ہی انھیں خوب داد دی.
اب رخسار کو سختی سے کہہ دیا کہ بھائی کے کمرے میں بالکل نہیں جانا، جب تک وہ خود نہ بلائیں، رخسار اس وقت تو کپڑے تبدیل کرکے اماں بی کے کمرے میں لیٹ گئی مگر دل میں کھد بد لگی تھی کہ ۔۔مگر کیا۔۔۔ اس کے معصوم ذہن میں کوئی خاکہ نہیں تھا، نہ کچھ دیکھا نہ سنا، صاف سلیٹ کی طرح اس کا دل اور دماغ تھا. اس کے ذہن میں ایک ہی بات آرہی تھی کہ شادی کے بعد کیا دولہا اور دلہن ایک ہی کمرے میں اکیلے رہ سکتے ہیں، اس سے آگے اس کی سمجھ بوجھ جواب دے جاتی، عجیب و غریب خیالوں میں گم سونے کے لیے لیٹی، مگر…. مگر مرغن غذا کھانے کی وجہ سے اس کو زیادہ ہی پیاس لگ رہی تھی. پیاس کی شدت نے اسے اٹھنے پر مجبور کر ہی دیا تو سوچا جا کر پانی پی آئے، پھر جب اماں بی کے ہلکے ہلکے خراٹے سنائی دینے لگے تو وہ چپکے سے اٹھی اور باہر نکل گئی. بھائی کے کمرے کے باہر ابھی پہنچی ہی تھی کہ بھابھی کی جھرنوں جیسی ہنسی سنائی. وہ ٹھٹکی. اس کے قدم وہیں رک گئے، بھائی کی آواز دھیمی سی سرگوشی کی طرح آرہی تھی. پھر بھابھی کی ہنسی. پھر بھابھی نے جواب میں کیا کہا، سمجھ نہیں آیا، لیکن بھائی کے زوردار قہقہے سے اندازہ ہوا کہ کچھ خاص مذاق ہوا، وہ کچھ دیر وہیں کھڑی سنتی رہی، کچھ عجیب سی آوازیں آنے لگیں، کبھی چوڑیاں چھنکتیں اور کبھی بھابھی کی ہنسی کھنکتی، بھائی کی آواز اور پھر ہنسی، دس پندرہ منٹ وہ دروازے کے پاس کھڑی رہی. اگرچہ کان نہیں لگائے لیکن پھر بھی کچھ قریب ہی تھی.
آوازیں بہت دل فریب تھیں اور سننے میں دل چسپ، رخسار محو تھی، کچھ سمجھی، کچھ نہیں سمجھی، لیکن جو کچھ بھی سمجھی وہ خوشگوار ہی تھا. وہ پھر پانی لینے بڑھی، پانی پیا اور واپس اماں بی کے پاس جا لیٹی، کب آنکھ لگی، کب سوئی، صبح اٹھی تو فوراً رات کی باتیں یاد آئیں. وہ بھابھی سے ملنے بھاگی، اماں نے بھانپ لیا. زور سے بولیں "رخسار، خبردار بھائی کے کمرے میں نہیں جانا. چلو جاؤ باورچی خانے میں بہنوں کے ساتھ ناشتے کی تیاری کرو."
"کیوں کل تو آپ نے کہا تھا صبح جلدی اٹھنا ناشتہ بھابھی کے گھر سے آئے گا." رخسار نے منہ پھلائے ہوئے کہا. "ارے آئے گا، مگر ہم بھی تو کچھ پیش کریں گے نا،" "چل بٹیا جا کے کام دیکھ"
پیار پچکار کے رخسار کو ٹال دیا. بھائی کے کمرے میں جانے سے روک لیا.
سمجھ تو وہ بھی گئی، پھر بہن اور کزن کے بچوں کے ساتھ مگن ہوگئی، اور پھر تیار ہوکر سب ناشتے کے دسترخوان پہ بیٹھے، تب ہی دولہا دلہن کو دیکھا، دلہن سمٹی سمٹائی، ایک بیش قیمت جوڑا پہنے بالکل تروتازہ کلی لگ رہی تھی اور اس کے چہرے کی چمک اس کی خوب صورت رات کی چغلی کھارہی تھی، ماشاءاللہ، اماں بی نے دولہا دلہن کی بلائیں لیں، صدقہ اتارا اور پھر اپنے ہاتھوں سے کھیر کھلائی، دلہن کے والدین اور کچھ رشتے دار تھے، ادھر شکیل احمد کا پورا خاندان، دلہن والے خوب ناشتہ لائے اور دولہے کی طرف سے بھی خوب پکوان پیش ہوئے.
ناشتہ ہوا اور ساتھ بہت سی باتیں چلیں، دلہن کے گھر والے اپنے گھر روانہ ہوئے تودولہا دلہن پھر کمرے میں بند ہوگئے، رخسار مسلسل بھائی بھابھی کی حرکات و سکنات، اشاروں کنایوں پہ نظر رکھے ہوئے تھی.
وہ اپنی عمر کے اس دور میں پہنچ گئ تھی جب ہر لڑکی کے دل میں کسی پیارے سے ہم سفر کو پانے کی تڑپ پیدا ہونے لگتی ہے، حسین جذبات، بننے سنورنے، کسی کو چاہنے اور چاہے جانے کے خوب صورت امتزاج سے بھرے دل گداز خیالات، ان خیالات میں گم رہنا فطرت کا تقاضا ہے، ولیمہ اگلے دن تھا اس لیے کسی کو کوئی جلدی نہیں تھی. دوپہر کو تین بجے پھر دوپہر کا کھانا ہوا تو دلہن ایک اور نئے جوڑے میں سجی ہوئی دولہا کے ساتھ آن بیٹھی، دولہا نے ہلکا سا کچھ کہا تو دلہن کی ہنسی چھوٹ گئی، ہنسی روکنے کو منہ پر تیز لال مہندی سے رچا بسا ہاتھ رکھا تو چوڑیاں کھنکییں۔ اس وقت صرف رخسار نے اس بات کو محسوس کیا، لیکن باقی لوگ سمجھے کہ دلہن واقعی خوش مزاج تھی، سب مہمان تو کل رات چلے گئے تھے، اپنے ہی گھر کے افراد تھے، اتنی بڑی حویلی میں بیس پچیس بندے بھی ایک ساتھ ہوں تو پتہ نہیں چلتا تھا.
موسم بہت خوشگوار تھا. رخسار رات کا کھانا کھا کر دالان میں ٹہلنے کے لیے چلی آئی، اس کے خیالوں میں بس بھابھی کی ہنسی، چوڑیوں کی کھنک اور بھائی کا کانوں میں سرگوشی کرنا ۔۔۔گھوم رہا تھا. وہ اپنے خیالوں میں گم تھی کہ اچانک ماں بی نے آواز دی ” آجاؤ کل ٹہل لینا". ولیمہ کل دوپہر کا تھا اس لیے صبح سویرے ہی اٹھنا تھا، رات کو جب سب سوگئے تو رخسار کا دل مچلنے لگا کہ پھر سے وہ دل چسپ اور دل فریب آوازیں آنے [لگیں]، وہ دبے پاؤں اٹھی اور بھائی کے کمرے کے باہر جا کھڑی ہوئی اور پھر وہی عجیب سی آوازیں. کبھی چہکنے کی، کبھی کھلکھلانے کی اور خاص طور پر دلہن کے منہ سے عجیب سی آوازیں اور پھر بھائی کی ہنسی، کل رات کی طرح خوش گوار اور زیادہ بلند کیونکہ اب کی بار رخسار نے کان دروازے سے لگا رکھے تھے، ایسی آوازیں آنے لگیں جنھیں سن کر اس کے سارے وجود میں گدگدی سی ہونے لگی. نامانوس سی آوازیں جو اس نے پہلے کبھی نہیں سنی تھیں اور جو احساس ان کو سن کر اسے ہورہا تھا وہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، کچھ دیر تک دنیا مافیا سے بے خبر وہ دروازے سے کان لگائے جامد کھڑی رہی. 
ایک دم اماں بی کی آواز بجلی کڑکنے کی سی آئی، وہ سٹپٹا گئی. اس سے پہلے اماں اس کے سر پر پہنچتی وہ باورچی خانے میں جا گھسی "ارے تو یہاں اس وقت"” اماں بی پانی پینے آئی تھی"رخسار ہکلا کر بولی، جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو. ” تو کب سے اس وقت پانی پینے لگی، چل جلدی چل سو جا". اور اماں بی کا ہاتھ تھامے وہ کمرے میں چلی گئی، بھائی کے کمرے سے اب بھی ہنسی کی آوازیں آرہی تھیں، وہ سو تو گئی مگر ذہن شادی میں الجھا رہا. 
پھر دوپہر کا ولیمہ ہوا اور شادی آئی گئی ہوگئی، دلہن نے گھرداری میں قدم رکھا اور دولہا نے کاروبار سنبھالا. 
چھ ماہ کے اندر اندر رخسار کا رشتہ آگیا. رخسار جو پڑھنے کی شوقین تھی "ابھی تو اٹھارہ کی ہوئی ہے بی اے تو کرلے"، بڑی بہن راشدہ نے ٹہوکا دیا، "نہیں رشتہ بہت اچھا ہے، اونچے گھر کا، بہت اونچا خاندان ہے، لوگ ترستے ہیں ان سے رشتے داری کے لیے" اماں بی جیسے پر تولے بیٹھی تھیں، نواب شکیل احمد سے تو لڑکے کے باپ نے نیاز مندی سے کہا کہ میرے بیٹے کو فرزندی میں لے لیجیے تو نواب صاحب تو اسی وقت مان گئے. ہم پلہ تھے اور ساکھ بھی اچھی، پھر گھر کی عورتوں تک بات پہنچی تو بس رخسار کی بڑی بہن راشدہ نے اعتراض کیا کیونکہ اسے بھی پڑھنے کا شوق تھا مگر اس کی شادی بھی ایف اے کے بعد ہوگئی تھی، رخسار تو پڑھائی میں اچھی تھی اور مذید پڑھنے کی خواہاں بھی. 
"اچھا اماں ایک بار تو رخسار سے پوچھ لیں، اس کی کون سی عمر نکلی جارہی ہے" راشدہ آخری وقت تک زور لگاتی رہی لیکن اماں کے پوچھنے سے پہلے ہی رخسار نے کہا آپی رہنے دیجیے اماں ابا کچھ سوچ کر ہی رشتہ کر رہے ہیں. اماں تو چونک گئیں. کیونکہ انھیں اس سے یہ امید نہیں تھی، یہاں بھی سارے معاملات ہنسی خوشی طے ہوگئے. خوب لین دین، تحفے تحائف، نوکروں تک کے منہ موتیوں سے بھر دیے. کیا کمی چھوڑی، ایک سے بڑھ ایک قیمتی جوڑا اور جوڑے کے ساتھ ہم رنگ جڑاؤ گہنا، شادی کی تیاریاں جیسے راجا مہاراجا. دولہا بھی بارات دو گھوڑا بگھی پہ لے آیا، دھوم مچ گئی سارے شہر میں کہ اب بھی ایسی روایتی سج دھج سے بارات جاتی ہے اور پھر دولہے کی شیروانی پہ سونے کے تار کی کڑھائی اور سونے کے بٹنوں سے مزین تھی، 
دلہن بھی سونے موتی سے لدی ہوئی بھاری بھرکم انتہائی خوب صورت لہنگا جس پر خالص موتی اور زمرد جڑے تھے. نازک سی رخسار، دھیمی سی رفتار اور ایسا روپ سروپ کہ جو دیکھے دیکھتا رہ جائے، کوئی پری، حور، اپسرا. زبردست اہتمام، چاؤ چونچلے، وہی رسمیں وہی نیگ، راستہ رکائی، دودھ پلائی. وہی منظر، بڑے سے کمرے میں بہترین سیج، چاروں طرف پھولوں میں رچا بسا ماحول، نازک سی دلہنیا کے نازک سے ارمان، دل کی دھڑکن بے قابو ہورہی تھی. بھائی اور بھابھی کی شادی کی رات کمرے سے آنے والی آوازیں، اب اسے سوچ کے لگ رہا تھا جیسے وہ آوازیں نہیں مدھر راگنیاں تھیں. ایسا ساز جو ابھی کچھ دیر میں اس کمرے میں گونجنے والا ہے. من ہی من میں مسکائی، جیسے ہی دروازہ بند ہوا توکسی حد تک وہ شرمائی اور گھبرائی، نظریں تو پہلے ہی جھکی تھیں، اب بھاری کامدار دوپٹے سے جھکی گردن مذید جھک گئی، ہتھیلی پر پسینہ آگیا اور لگا دل سینہ توڑ کر باہر نکل پڑے گا. موسم تو بہت خنک تھا مگر اسے بہت گرمی لگنے لگی. اس کا دل چاہا کہ ٹھنڈا یخ پانی پی لے، جب دولہا اس کے پہلو میں بیٹھا تو کچھ دیر وہ دولہے کے بولنے کی منتظر رہی، اسے محسوس ہورہا تھا کہ دولہا اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھے جارہا ہے، لیکن یہ بولتا کیوں نہیں. وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ "دولہا خاموش کیوں ہے، وہ سب باتیں کیوں نہیں کر رہا جسے سننے کے لیے بےتاب تھی، جیسے بھائی بھابھی کے کمرے سے آتی تھیں"
کچھ دیر کی بوجھل خاموشی کے بعد دولہا نے کچھ رسمی جملے بولے،۔۔۔ پھر جو کچھ بھی ہوا اس نے سوچا نہیں تھا، نہ ہی بھائی بھابھی کے کمرے سے کان لگا کر سنا تھا، اس کا بدن ہی نہیں روح تک مسلی جا چکی تھی، وہ تکلیف اور دکھ سے کراہ رہی تھی، اس کی آنکھوں کے کنارے گرم آنسوؤں سے گیلے ہورہے تھے، اس کے منہ سے نکلنے والی آوازیں کوئی سن نہ لے اس نے تیز سرخ مہندی سے رچا ہاتھ اپنے منہ پہ زور سے رکھ لیا.
***
ارم رحمن کا یہ افسانہ بھی پڑھیں:قل کا زردہ

شیئر کیجیے

One thought on “آوازیں

شیخ ریحان کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے