رسالہ : ثالث (شوکت حیات نمبر)

رسالہ : ثالث (شوکت حیات نمبر)

مظفر نازنین
کولکاتا، مغربی بنگال
رابطہ : 
گذشتہ سال یعنی 2021میں میں نے’’ثالث‘‘ کا ایک شمارہ فیس بک پر دیکھا تھا۔ جو یو جی سی کیئر لسٹیڈ ہے۔ پھر اچانک یہ خمار اُٹھنے لگا کہ اس معیاری اور موقر رسالے کے لیے کوئی بہت اہم مضمون ارسال کروں کہ اچانک ایک دن اس رسالے کے مدیر اعزازی اقبال حسن آزاد صاحب نے ’’ثالث‘‘ کا شوکت حیات نمبر بذریعہ ڈاک ارسال کیا. جس کے لیے میں آں جناب کی شکر گذار ہوں ۔یہ ضخیم نمبر جب ہاتھ میں آیا تو کئی باتیں اچانک ذہن کے پردے پر اُبھرنے لگیں۔ میرا تعلق کولکاتا (مغربی بنگال) سے ہے جہاں اردو اخبارات کے قاری کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے. اس شہر سے صرف نصف درجن اخبارات شایع ہوتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اردو اخبارات کا سرکولیشن بہت کم ہے۔ یہاں معاملہ صرف اردو اخبارات کا نہیں ہے بلکہ آج کے ڈیجیٹل ورلڈ میں دیگر زبانوں کے اخبارات کا بھی یہی حال ہے۔ Book Cultureدھیرے دھیرے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ آج کل Bank Transaction سے لے کر Grocery Items تک سب کچھ آن لائن دستیاب ہے۔
ایسے پُر آشوب دور میں جب کہ اردو رسائل کے خریدار عنقا [ہوتے جا رہے] ہیں اردو کے کسی رسالے کا مسلسل شایع ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔اس رسالے کو دیکھ کر اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ بہار اردو زبان و ادب کا گہوارہ ہے. ہندستان کی دوسری ریاستوں کی بہ نسبت یہاں اردو زبان و ادب اور صحافت کو فروغ حاصل ہوا ہے۔
گذشتہ نو برسوں سے تسلسل کے ساتھ شایع ہونے والا رسالہ ’’ثالث‘‘ زندہ اور متحرک ادب کا ترجمان ہے. یہ کافی اہم اور معیاری رسالہ ہے۔ ’’ثالث‘‘ کا شوکت حیات نمبر معروف افسانہ نگار شوکت حیات کی خدمات کا اعتراف ہے۔ بلا شبہ اس رسالے کو دستاویزی حیثیت حاصل ہے. یہ رسالہ آن لائن بھی دستیاب ہے۔
نعیم یاد (خوشاب، پاکستان) کا بنایا ہوا سرورق انتہائی خوب صورت اور دیدہ زیب ہے. سرورق پر شوکت حیات کی تصویر ہے جب کہ اندرونی صفحے پر شوکت حیات کی کی چند یادگار تصویریں ہیں جن میں شوکت حیات کے ساتھ ان کی اہلیہ ارشاد پروین، بیٹے اتم حیات، بیٹی انعم کے علاوہ معروف فکشن نگار سلام بن رزاق، مرزا حامد بیگ، عبد الصمد، شموئل احمد، مشتاق احمد نوری اور اقبال حسن آزاد کی تصویریں بھی شامل ہیں۔
رسالے کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔مدیر اعززی اقبال حسن آزاد کے پُر مغز اداریے کے بعد آفتاب عالم اطہرؔ گیاوی کی ایمان افروز حمد اور عشق رسول میں ڈوبی ہوئی غلام مجتبیٰ مہرؔ کی نعت دل و نگاہ کو روشن کر رہی ہیں۔ اس کے بعد شوکت حیات کوائف پیش کیے گئے ہیں۔ بعد ازاں معروف نقادوں کے اُنیس مضامین ’’شوکت حیات کی افسانہ نگاری‘‘ (پروفیسر وہاب اشرفی)، ’’شوکت حیات کی افسانہ نگاری‘‘ (وارث علوی)، ’’شوکت حیات کا فن‘‘ (فاروق ارگلی)، ’’شوکت حیات کے افسانے‘‘ (ڈاکٹر ابرار رحمانی)، ’’شوکت حیات کا ناول؍ ناولٹ ’سرپٹ گھوڑا‘ ایک تنقیدی جائزہ‘‘ (پروفیسر صفدر امام قادری)، ’’شوکت حیات اور ان کے افسانے‘‘ (ڈاکٹر سید احمد قادری)، ’’شوکت حیات کے افسانوی اختصاص‘‘ (ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی)، ’’گنبد کے کبوتر‘تہذیب کی مسماری کا استعارہ‘‘ (ڈاکٹر صغیر افراہیم)، ’’شوکت حیات اور ’’گنبد کے کبوتر‘‘ (ڈاکٹر سید اشہد کریم)، ’’شوکت حیات کا فن‘‘ (ڈاکٹر حامد علی خاں)، ’’شوکت حیات…اردو افسانے کی منفرد آواز‘‘ (ڈاکٹر منصور خوشتر)، ’’حیات اردو افسانہ…، شوکت حیات کا فکری و فنی مطالعہ‘‘ (ڈاکٹر صالحہ صدیقی)، ’’شوکت حیات…صداقتوں کا کہانی کار‘‘ (عرفان رشید)، ’’شوکت حیات کے افسانوں کا اختصاصی پہلو‘‘ (ڈاکٹر قسیم اختر)، ’’سن ستری افسانے کا قضیہ اور شوکت حیات کے نظریات‘‘ (ایم۔خالد فیاض)، ’’شوکت حیات کے امتیازات‘‘ (ڈاکٹر زر نگار یاسمین)، ’’شوکت حیات… اردو افسانے کا سنگ میل‘‘ (ڈاکٹر وصیہ عرفانہ)، ’’شوکت حیات کے افسانوں میں سانس لیتی سچائیاں‘‘ (ڈاکٹر گلاب سنگھ) اور ’’شوکت حیات کے افسانے‘‘ (ڈاکٹر نزہت پروین) قاری کے علم میں اضافہ کر رہے ہیں۔
پروفیسر وہاب اشرفی اپنے گراں قدر مضمون میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ’’اردو افسانے کی مجموعی تاریخ میں ان کی جگہ معتبر بھی ہے اور محفوظ بھی۔‘‘ وارث علوی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’شوکت حیات کو زبان اور بیان پر غیر معمولی عبور حاصل ہے۔‘‘جب کہ فاروق ارگلی اپنے مضمون کا خاتمہ ان الفاظ میں کرتے ہیں ’’شوکت حیات سائنس کے طالب علم ہیں انسانی نفسیات ان کا پسندیدہ موضوع ہے. انھوں نے انسانی زندگی اور موضوعات کا سائنٹفک تجزیہ کیا ہے۔‘‘
اس شمارے میں شامل دیگر مضامین بھی کافی اہمیت کے حامل ہیں. یہ مضامین فکشن رائٹرز اور ریسرچ اسکالرز کے لیے بہت معاون ثابت ہوں گے اور ان سے اردو افسانے کے تئیں شوکت حیات کی بیش بہا خدمات کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔
معروف افسانہ نگار مشتاق احمد نوری کا تحریر کردہ خاکہ ’’افسانے کا سکندر…شوکت حیات" پڑھنے کے بعد وہ وقت ذہن کے پردے پر رقص کناں ہونے لگا جسے کورونا کال کا نام دیا گیا تھا۔ اس پُر آشوب دور میں دنیا بھر میں بہ شمول وطن عزیز ہندستان میں جو تباہی ہوئی تھی اسے یاد کر کے کلیجہ منھ کو آ جاتا ہے۔ کتنے ہی عزیز و اقارب، دوست رشتہ دار، ادیب و شاعر ہم سے جدا ہو گئے۔الہیٰ! پھر وہ دن کسی کو دیکھنا نصیب نہ ہو۔ اس خاکے کی آخری چند سطریں پڑھ کر آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ مشتاق احمد نوری لکھتے ہیں: ’’نہ بیٹا، نہ بہو، نہ بیٹی، نہ داماد۔ نہ ہی کوئی ادیب، شاعر دوست، دشمن کوئی نہیں۔ اتنی خاموشی اور تنہائی میں آخری سفر طے ہوگا یہ شوکت نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔‘‘ نوری صاحب کے اس خاکے کو پڑھ کر موصوف کی شوکت حیات سے قربت اور رفاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عبد الصمد صاحب اپنے خاکے میں لکھتے ہیں: ’’ہر ہفتہ فون کرنا ان کا معمول بن گیا تھا۔‘‘ اقبال حسن آزاد لکھتے ہیں: ’’جب میں نے ’ثالث‘ کے گوشۂ شموئل احمد کا اعلان کیا تو ان کی بیگم کا فون آیا۔ کہنے لگیں کہ اقبال بھائی! شموئل احمد پر گوشہ مت نکالیے، شوکت حیات پر گوشہ نکالیے۔ میں نے کہا کہ شوکت حیات وعدہ تو کرتے ہیں مگر وفا نہیں کرتے. ان پر گوشہ نکالنا بہت مشکل ہے۔ پھر بھی میں نے وعدہ کیا اور کہا کہ ان شا ء اللہ ’’ثالث‘‘میں شوکت حیات پر گوشہ ضرور نکلے گا۔ لیجئے گوشہ کی جگہ پورا نمبر ہی نکل رہا ہے۔‘‘
ان خاکوں کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ شوکت حیات کے شیدائیوں سے ان کو کتنی محبت تھی۔ ’’ثالث‘‘ کا شوکت حیات نمبر اسی محبت اور احترام کا نتیجہ ہے۔
خاکوں کے بعد شوکت حیات کے چار اہم افسانوں’’ذائقہ‘‘، ’’بانگ‘‘، ’’میّت‘‘ اور کوبڑ کے تجزیے شامل ہیں، جنھیں بالترتیب مشتاق احمد نوری، غضنفر، پروفیسر اسلم جمشید پوری اور ڈاکٹر توصیف احمد ڈار نے تحریر کیا ہے۔
ان نگارشات کے علاوہ شوکت حیات کے دو انٹرویو بھی اس نمبر میں شامل ہیں۔ پہلا انٹرویو نثار احمد صدیقی نے لیا ہے اور دوسرا ڈاکٹر محمد غالب نشتر نے۔ دونوں انٹرویو اپنی جگہ اہم ہیں اور ان سے شوکت حیات کے خیالات و نظریات کی وضاحت ہوتی ہے۔
اس شمارے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں شوکت حیات کے چند اہم خطوط بھی شامل ہیں جو انھوں نے قرۃ العین حیدر، ڈاکٹر ابرار رحمانی، عین تابش، ڈاکٹر سید احمد قادری،رفیع حیدر انجم، پروفیسر اسلم جمشید پوری، اقبال حسن آزاد اور ڈاکٹر ارشد رضا کے نام لکھے تھے۔ یہ خطوط شوکت حیات کی شخصیت کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ عین تابش کے نام خط میں لکھتے ہیں:
’’یہ بھی جانتے ہو میرا بچپن سہسرام میں گزرا ہے۔ میرے والد وہیں پوسٹیڈ تھے۔ اس کے بعد یتیمی کا جو پہاڑ میرے اوپر گرا تو اب تک اس کے نیچے دبا ہوا کراہ رہا ہوں۔‘‘ یہ جملے یقینا بہت جذباتی ہیں اور ان سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک انسان کی زندگی میں باپ کی کتنی اہمیت ہے۔ یہ وہی سمجھ سکتا ہے جو نو جوانی میں یتیم ہو گیا ہو۔ اس خط میں انھوں نے حسین الحق کا بھی ذکر کیا ہے اور ان کے ساتھ جو کشیدگی پیدا ہوئی اسے ان لفظوں میں بیان کیا ہے: ’’ویسے یار اب اس ادھیڑ عمر میں کیا لڑائی اور جھگڑا! سچ مچ میں حسین کو مانتا ہوں لیکن ادھیڑ عمر کے میرے کچھ دوست ہم لوگوں کے درمیان دوری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ انھیں میری اہمیت کا احساس دلاؤ۔‘‘ اردو ادب میں آپسی چپقلش شاید روز اول سے ہی موجود ہے۔
ڈاکٹر سید احمدقادری کے نام خط میں لکھتے ہیں: ’’میرے مرنے کے بعد تو آپ لوگ کلمۂ خیر سے مجھے نوازیں گے ہی، جب تک زندہ ہوں اس وقت تک بھی میری ادبی زندگی کی گواہی دیجئے۔‘‘ یقینا ایک ادیب کی اہمیت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب وہ اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے کسی شاعر نے کہا ہے کہ:
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
اقبال حسن آزاد کے نام خط میں رقم طراز ہیں: ’’آپ کی پسندیدگی کا خط  کر چونک پڑا۔ آپ دیگر بہاریوں سے یکسر مختلف ہیں۔ اس کرم فرمائی کے لیے ممنون ہوں۔ آپ کہانی کی روح تک پہنچ گئے۔‘‘
شوکت حیات افسانہ نگار کے ساتھ ساتھ تنقید نگار بھی تھے۔ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’بانگ ‘‘ بھی منظر عام پر آ چکا ہے۔ ’’ثالث‘‘ شوکت حیات نمبر میں افسانے سے متعلق ان کے تین مضامین بھی شامل ہیں جن سے شوکت حیات کی تنقیدی بصیرت کا پتا چلتا ہے۔
رسالے کے آخر میں شوکت حیات کے سات اہم افسانے (۱) گنبد کے کبوتر (۲)رانی باغ (۳)مرشد (۴)ذائقہ (۵)بانگ (۶) میّت (۷)کوبڑ شامل اشاعت ہیں جو رسالے کے معیار و وقار میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ان افسانوں کے علاوہ شوکت حیات کا واحد ناول؍ناولٹ ’’سرپٹ گھوڑا‘‘ بھی شریک اشاعت ہے۔
496 صفحات کے اس شمارے میں 445 صفحات شوکت حیات کے لیے مختص ہیں جب کہ 51 صفحات میں تبصرے اور مکتوبات ہیں۔ غضنفر کے سوانحی ناول ’’دیکھ لی دنیا ہم نے‘‘ پر اقبال حسن آزاد نے ایک پُر مغز تبصرہ تحریر کیا ہے جب کہ ثالث کے پچھلے شمارے پر عشرت ظہیر، سلیم انصاری، عظیم اللہ ہاشمی، اصغر شمیم، ڈاکٹر منصور خوشتر، ریحان کوثر اور رویندرا جوگلیکر نے تبصرے کیے ہیں.
آخر میں فاروق ارگلی، مرغوب اثر فاطمی، عین تابش، غزال ضیغم، فخر الدین عارفی، غلام نبی کمار، ڈاکٹر اختر آزاد، وسیم فرحت، وسیم احمد فدا، جرنلسٹ اقبال، مختار بلال، ڈاکٹر صالحہ صدیقی، احسان تابش اور ڈاکٹر آفتاب عالم اطہر گیاوی کے خطوط شامل ہیں.
حقیقت یہ ہے کہ اقبال حسن آزاد نے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ اس نمبر کی اشاعت کے لیے اقبال حسن آزاد کے ساتھ مدیرثالث، ثالث آفاق صالح اور نائب مدیرہ نشاط پروین بھی مبارکباد کے مستحق ہیں. بلا شبہ شوکت حیات جس مقام کے مستحق تھے وہ انھیں ان کی زندگی میں حاصل نہیں ہو سکا۔ اس خصوصی شمارے نے شوکت حیات کو حیات نو بخش دیا ہے۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ اس شمارے کی اشاعت کے بعد شوکت کے فن اور شخصیت پر سنجیدگی کے ساتھ کام ہوگا۔
٭٭٭
تبصرہ نگار کی گذشتہ نگارش:آہ شکیب!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے