آہ شکیب!

آہ شکیب!

ڈاکٹر مظفر نازنین، کولکاتہ

میں نے کئی مرتبہ قلم اٹھایا اور بھائی خورشید اکرم سوزؔ کے لخت جگر عزیزی محمد شکیب اکرم کے سانحہ ارتحال پر اپنے تاثرات کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش کی لیکن فرط جذبات سے رقت طاری ہو جاتی دل شکستہ ہوجاتا۔ روئی آنکھیں اشک بار ہو جاتیں ۔۔۔۔لیکن آج اپنے جذبات کو قلم بند کرنے کا حوصلہ کر رہی ہوں۔
خورشید اکرم سوزؔ میرے ادبی بھائی ہیں۔ ان سے میرا ادبی تعلق تقریباً دو سال پرانا ہے اور انھوں نے مجھے سگی بہن کا درجہ دے رکھا ہے۔ ان کی اہلیہ سیدہ نزہت جہاں قیصر بھی خلوص و محبت کا پیکر ہیں۔ ان کا اکلوتا فرزند شادی کے سات سالوں بعد پیدا ہوا تھا۔ اس بچے سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن خورشید بھائی اور نز ہت بھابھی سے اس کے متعلق اکثر باتیں ہوتی تھیں۔ وہ اس کے ہر Achievement کو مجھ سے شیئر کرتے رہے۔ دسمبر ۲۰۲۰ میں انھوں نے بتایا کہ بابو شکیب نے کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ میں فرسٹ کلاس ڈسٹنکشن کے ساتھ B.tech مکمل کرلیا ہے۔ بابو کا ملٹی نیشنل کمپنی Accenture میں Placement تو 2019 میں ہی ہو گیا تھا اب مارچ 2021 میں اس کی بحالی Associate Software Engenear کی حیثیت سے کنفرم ہو جائے گی۔ ٹریننگ شروع ہو چکی ہے۔ پھر اچانک مارچ کے پہلے ہفتہ میں خورشید بھائی نے یہ دکھ بھری خبر دی کہ 19فروری کو بابو چینئی میں ایک سڑک حادثے کا شکار ہو گیا ہے اور Apollo Speciality Hospital میں ایڈمیٹ ہے، حالت سیریس ہے، دعا کریں. اس حادثے کی خبر سن کر میں سکتے میں آگئی اور بچے کی شفا یابی کے لیے دعا کرنے لگی. پھر 27 مارچ کو دیر رات گئے خورشید بھائی نے خبر دی کہ بابو کو اللہ قادر مطلق نے اپنے پاس بلالیا. بابو کو ٹرین ایمبولنس کے ذریعہ 27 مارچ کو ہی کلکتہ کے Institute Of Neuroscience-INK لایا گیا تھا لیکن وہاں پہنچنے کے چند منٹوں بعد ہی بابو کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ اناللہ واناالیہ راجعون! میری آنکھوں سے نیند غائب ہوچکی تھی میں زار و قطار رو رہی تھی۔
28؍مارچ کو عین شب برات کے روز بابو کی تجہیز و تدفین بعد نماز مغرب کلکتہ کے باگماری قبرستان میں ہوئی۔ اپنے لخت جگر کی نماز جنازہ خود خورشید بھائی نے پڑھائی اور اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا۔ یہ دل خراش منظر جب نظروں کے سامنے ہوتا ہے تو جذبات پہ قابو رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس درد کو خورشید بھائی اور نزہت بھابھی کس طرح برداشت کررہے ہیں، ان پر کیا گزر رہی ہے، وہی جانتے ہیں، لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے انھیں واقعی صبر جمیل سے نواز دیا ہے۔ زندگی کی اس سخت ترین آزمائش کو رضائے الٰہی پر محمول کرتے ہوئے انھوں نے صبر کا لحاف اوڑھ لیا ہے۔ اللہ پاک انھیں تاحیات صبر و استقامت عطا کرتا رہے۔ آمین!
شکیب ایک نہایت ہونہار باصلاحیت اور سعادت مند نوجوان تھا، وہ صوم و صلوٰۃ کا پابند تھا، تہجد گزار تھا اور دعوتی مزاج بھی رکھتا تھا۔ خدمت خلق کا جذبہ بھی اس کے اندر بہ درجہ اتم موجود تھا۔ ضرورت مندوں کی بغیر تفریق مذہب و ملت مدد کرنا اس کا شیوہ تھا۔ عموماً وہ پوشیدہ طور پر لوگوں کی مددکیا کرتا تھا۔ اس نے اپنی والدہ کو بتایا کہ ایک دفعہ وہ کچھ ضرورت مندوں کے درمیان کچھ رقم تقسیم کر رہا تھا یہاں تک کہ جیب کی ساری رقم ختم ہوگئی، تبھی کوئی اور ضرورت مند اس کے پاس آگیا لیکن شکیب کی جیب خالی ہو چکی تھی اور اس نے اس ضرورت مند کے سامنے خود کو بہت شرمندہ محسوس کیا اور اس سے معذرت کی۔ اس لیے وہ پوشیدہ طور پر ہی ضرورت مندوں کی مدد کرنا بہتر سمجھتا ہے۔
شکیب اعلا ترین اخلاقی اور مذہبی اقدار کا حامل تھا۔ وہ ہر دل عزیز شخصیت کا مالک تھا۔ دوستوں کا پیارا، اساتذہ کا چہیتا۔ اس کے اسکول کے سنسکرت ٹیچر شری سنجے کمار اپادھیا کا کہنا ہے کہ وہ اس میں بھارت رتن اے۔ پی۔ جے۔ عبدالکالم کا عکس دیکھ رہے تھے۔ ایک مقناطیسی شخصیت تھی اس کی، جو اس سے ایک بار بھی ملا اس کا گرویدہ ہو گیا۔ جس نے اس کی خوشبوں کا ذکر سنا اس نے اس کو دل میں بسالیا.
شکیب کا سانحۂ ارتحال ایک صدمہ جانکاہ ہے۔ اس ہونہار اور سعادت مند بچے کے اس کم عمری میں گزر جانے سے یہ گلشن ویران نظر آتا ہے۔ اس بچے سے والدین کو ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کو بے انتہا امیدیں وابستہ تھیں ؂
پھول تو دو دن بہار جاں فزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پر ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
بابو شکیب کو خراج الفت پیش کرتے ہوئے میں بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوکر بہ چشم پرنم دعاگو ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ بابو شکیب اکرم کی مغفرت کرے، اسے اپنی رحمتوں کے سائے میں جگہ دے اور جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا کرے ؂
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
آمین یا ربّالعالمین
***
مظفر نازنین کی گذشتہ نگارش:خواتین کا عالمی دن

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے